یعقو ب میمن
انصاف انگشت بدنداں!۔۔۔۔بے نوائی کی سزا پاتے ہیںکلمہ خواں

30 ؍جولائی2015 ء کو علی الصباح ناگپور کی ایک جیل میں ممبئی حملوں کے لئے مبینہ طور پر سازش رچانے والے یعقوب میمن کو تختہ ٔدار پر لٹکادیا گیا اور محمد افضل گورو کی طرح ایک مرتبہ پھر ہندوستانی سماج کے’’ اجتماعی ضمیر‘‘ کو مطمئن کرنے کے لئے انصاف کے تقاضوں کوہی نرالا لباس پہنایا گیا۔محمد افضل گورو کی طرح یعقوب میمن کی پھانسی کے حوالے سے بھی ہندوستانی سماج میں تضاد پایا جاتا ہے۔ بیشترسیاسی جماعتوں کے لیڈر اور سماجی کارکن اسے انصاف کا قتل قرار دیتے ہیں لیکن فرقہ پرستانہ سوچ جس سماج کے قلب و ذہن پر حاوی کی گئی ہو، وہاں کا اکثریتی طبقہ اس لئے اطمینان قلب محسوس کررہا ہے کیونکہ تختہ ٔدار پر چڑھنے والا مسلمان تھا۔ گناہ ہو یا نہ ہو، جرم کا ارتکاب کیا ہو یا نہ کیا ہو، تختۂ دار پر لٹکانے کے لئے اور قید خانوں میں سڑانے کے لئے یہ چیز کافی ہوتی ہے کہ بندہ مسلمان ہے۔اس کے برعکس سادھوی پریگیا،کرنل پروہت،سوامی اسیم آنند، دارا سنگھ،بابو بجرنگی،مایا کوڈنانی اور گجرات کے تین ہزار مسلمانوں کے قاتلوں پر ہزار مرتبہ بھی جرم ثابت ہوجائے ،اُن کی ’’باعزت‘‘ رہائی کے لئے یہی کافی ہے کہ ان کا تعلق اکثریتی طبقے کے’’ شدت پسندوں‘‘ کے حلقۂ احباب سے ہے۔یعقوب میمن کو پھانسی کے پھندے پر لٹکانے میں جلد بازی کرکے بھارت کا حکمران طبقہ مطمئن نظر آرہا ہے لیکن 176 ؍ملین مسلمان جمہوریت کے سب سے بڑے دعویٰ داروں سے سوال کرسکتے ہیں کہ بابری مسجد کو شہید کرنے والے کو کیوں سزا نہیں دی جارہی ہے؟ مسلم کش فسادات کی آگ بھڑکانے والے کیوں دندناتے پھرتے ہیں؟ مکہ مسجد، اجمیر، سمجھوتہ ایکسپرس میں بم نصب کرکے سینکڑوں جانیں لینے والوں کو کیوں ضمانت پر رہائی دلوائی گئی؟ کشمیر میں ہزاروں گمنام قبروں کو آباد کرنے والوں، ماؤں او ربہنوں کی عصمتوں کو لوٹنے والوں، ظلم و ستم ڈھانے والوں کے سروں پرکیوں ’’ افسپا‘‘ کی صورت میں’’ مقدس کتاب‘‘کا سایہ رکھا گیا ،کیوں؟ فرقہ پرست ذہنیت کو کیوںکھلے عام ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانے کا نشانہ مقرر کئے جانے کی اجازت دی جاتی ہے؟اس ملک کی کل آبادی کا 14 ؍فیصد ہونے کے باوجود آج ہندوستانی مسلمانوں کی اکثریت اپنے آپ کو غیر محفوظ تصور کررہے ہیں، کیوں ؟ آج اُنہیں سات دہائیاں قبل دوقومی نظریے کی روشنی میں وہ فیصلہ کیوں اندر ہی اندر صحیح وصائب محسوس ہورہا ہوگا جس کے تحت پاکستان کا قیام عمل میں لایا گیا؟
1943 ء میں مشہوربرطانوی وقائع نگار بیورلے نکلس نے ہندوستان کا ایک طویل دورہ کیا۔ اس دورے کے دوران اس نے قائد اعظم محمد علی جناح اور گاندھی سمیت کئی سرکردہ ہندو اور مسلم لیڈروں سے تفصیلی ملاقاتیں کیں۔ ہندو، مسلم تعلقات کو دیکھ کر بیورنے دورے کے اختتام پر ’’ ورڈکٹ آن انڈیا ‘‘ نامی اپنی کتاب میں لکھا کہ’’پاکستان کی اس مجوزہ مملکت کے پس منظر میں جو جذبات کام کررہے ہیں ا،ن کا مطالعہ ضروری ہے۔ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان اختلافات کی جو خلیج حائل ہے اس کا علاج پاکستان کے قیام کے سوا کچھ بھی نہیں‘‘۔لوگ سمجھتے ہیں کہ دو قومی نظریہ قائد اعظم کا پیش کردہ ہے حالانکہ دو قومی نظریے کی بنیاد غیر منقسم ہندوستان میں سب سے پہلے البیرونی نے اپنی کتاب ’’کتاب الہند‘‘میں پیش کیا۔ انہوں نے واضح طور پر لکھا کہ مسلمان اور ہندو دو الگ الگ قومیں ہیں بلکہ مایہ ناز مورخ وسیاح نے تو یہاں تک بتایا کہ ہندو ،مسلمانوں کو نیچ قوم قرار دیتے ہیں اور ان سے رشتۂ کراہت رکھتے ہیں۔1193 ء میں شہاب الدین غوری نے اْس وقت کے راجہ پرتھوی راج چوہان کے سامنے دو قومی نظریہ پیش کیا اور پرتھوی راج چوہان کو جنگ سے بچنے کے لیے مشورہ دیا کہ دریائے سندھ کا اس طرف والا حصہ (جو اب پاکستان میں شامل ہے) غوری کو دے دیا جائے جب کہ دریائے سندھ کا دوسری طرف والا حصہ (جس میں آج کا بھارت شامل ہے) وہ رکھ لے مگر چوہان نے اس کی بات نہ مانی اور شرمناک شکست سے دوچار ہوااور بقول قائد اعظم محمد علی جناح کے کہ برصغیر میں دو قومی نظریہ اسی دن پیدا ہوگیا تھا جب یہاں کے پہلے ہندو نے اسلام قبول کیا اور وہ اپنی برادری سے کٹ کر مسلم قوم کا حصہ بنا۔تاریخ بھی یہی ہے ایک اللہ کو ماننے والوں کو غیر اللہ کی اطاعت کرنے والا سماج کبھی اپنا جزولاینفک تسلیم نہیں کرتا اور اُن کے لئے زمین تنگ کردی جاتی ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح کا یہ قول دو قومی نظریۂ کو بنیاد فراہم کرتا ہے کہ جب برصغیر کے پہلے ہندو نے اسلام قبول کرلیا ، دو قومی نظریہ ٔ نے اُسی دن جنم لے لیا۔ تقسیم ہند سے قبل بھی ہندوستان کا اکثریتی طبقہ مسلمانوں کو قبول کرنے سے نہ صرف انکار کررہا تھا بلکہ اُن کے خلاف تشدد ، قتل و غارت گری کا جب بھی موقع ہاتھ آجاتا تھا اکثریتی طبقہ لاشوں کے ڈھیر بکھیر دیتا تھا۔ہندو سماج کا رویہ مسلم اقلیت کے ساتھ تقسیم ہند سے پہلے کیسا تھا ،اس کا اندازہ ڈاکٹر امبید کرکی کتاب’’ تھاٹ آن پاکستان‘‘ کے ان حوالے جات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ موصوف اپنی اس کتاب میں رقمطراز ہیں کہ ’’ ویسے تو پورے ہندوستان میں ہندو اور مسلمان ایک دوسرے کے خون سے ہولی کھیلتے رہتے ہیں لیکن بمبئی جو ہندوستان کا سب سے مہذب اور پُر امن شہر گردانا جاتا ہے اس کی صورت حال سامنے رکھیں تو فروری1929 ء سے اپریل1938 ء تک اس پُر سکون شہر کا ریکارڈ یہ ہے کہ 1929 ء میں یہاں دو بار مسلم کش فسادات ہوئے، پہلا فساد 36 روز جاری رہا جس میں149 افراد ہلاک اور739 زخمی ہوئے۔ دوسرا فساد22 روز جاری رہا جس میں 35 افراد ہلاک اور109 افراد زخمی ہوئے۔1930-32 ء کے درمیان چار فسادات ہوئے۔ 1932 ء کے فسادات جو49 روز جاری رہے اس میں دونوں طرف کے270 افراد ہلاک اور2713 زخمی ہوئے۔(مسلمان اقلیت میں تھے ،ظاہر ہے سب سے زیادہ جانی و مالی نقصان اُن کا ہی ہوا ہوگا)۔1936 ء کا فساد سب سے زیادہ خون ریز تھا جو مسلسل 65 روز تک جاری رہا۔‘‘یہ وہ حالات تھے جنہوں نے قائد اعظم محمد علی جناح کو مظلوم مسلمانوں کے لیے علحیدہ وطن کی مانگ کرنے پر مجبور کردیا۔ حالانکہ عرصۂ دراز تک قائد اعظم ’’ ہندو مسلم اتحاد کے سفیر‘‘ کے لقب سے پکارے جاتے تھے اور علامہ اقبال ؒ جنہیں مملکتِ خدادا د کا فکری تخلیق کار تصور کیا جاتا ہے ،نے’’ ترانہ ٔہندی‘‘ اور’’ نیا شوالہ‘‘ جیسی نظمیں لکھیں اور دونوں اصحاب نے اکثریتی طبقہ کے دلوں کو جیتنے کی ہر ممکن کوششیں کی۔جب مسلمانوں کے خلاف اکثریتی طبقے اور اُن کے سیاست دانوں کے تعصب اور تشدد پر مبنی تحریکیں زور پکڑتی گئیں تو واضح ہوگیا کہ ہندو صرف ہندو راج قائم کرنا چاہتے ہیں اور وہ مسلمانوں کے حقوق کو پاؤں تلے روند کر اُن کی مذہبی و تہذیبی شناخت مٹانے کے درپے ہیں تو علامہ اقبالؒ اور قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے نئے خطوط پر سوچنا شروع کیا۔اُن کی جدوجہد رنگ لائی اور یوں دونوں کے قیام پاکستان کا خواب پورا ہوگیا۔
برصغیر ہند و پاک میں ایسی آوازیں آج بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے جو دو قومی نظریۂ کو غلط قرار دیتے تھے اور اب بھی بعید از حقیقت بتاتے ہیں بلکہ تقسیم ہند کو المیہ سے تعبیر کررہے ہیں لیکن عملی حالات و واقعات نے ہر دور میں قائد اعظم محمد علی جناح کے سوچ اور اپروچ کو صحیح ثابت کردیا۔آپ شیخ محمد عبداللہ کی سوانح عمری ’’ آٹش چنار‘‘ کے صفحات تین سو نو تا تین سو بارہ کابہ نظر اعماق مطالعہ کیجئے ( جن کا حوالہ یہاں دینا باعث طوالت ہوگا ) تو یہ حقیقت اظہرمن الشمس ہوگی کہ جس شیخ صاحب نے دوقومی نظریے کو کبھی ’’قرون وسطیٰ کی تیرگی‘‘ سے تعبیر کیا تھا ،وہ جناح صاحب کی زبانی ( جو قائد اعظم نے سری نگر میں خود کو شیخ کا ’’باپ‘‘ کہہ کر انہیں ناصحانہ انداز میںبتایا)ایک سرکردہ کانگریسی نیتا پنڈت مدن موہن مالویہ کا واقعہ سنا گئے کہ شیخ جی سے جب کوئی جواب نہ بن پایا تویہ کہہ کر ٹال گئے کہ آپ( یعنی مسٹر جناح ) ایک بلند پایہ وکیل ہیں لیکن آپ کا کیس ہے کمزور ۔ ۔۔ بہرحال ایک سروے رپورٹ کے مطابق2010 ء میں پاکستان کی کل آبادی167 ملین ہے جب کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی کل آبادی176 ملین ہے۔گزشتہ برس دنیا کی آبادی پر نظر رکھنے والے عالمی ادارےPew Research Center  نے ایک رپورٹ میں کہا کہ2050 تک ہندوستان میں مسلمانوں کی تعداد دنیا کے کسی دوسرے ملک سے زیادہ ہوجائے گی۔ آبادی کے لحاظ سے انڈونیشیاسب سے بڑا مسلمان ملک ہے جس کی آبادی209 ملین ہے ۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ 2050 تک ہندوستان میں مسلمانوں کی تعداد انڈونیشیا سے بھی زیادہ ہوجائے گی۔ہندوستان میں پاکستان کے مقابلے میں زیادہ مسلمان رہتے ہیں لیکن مسلم اقلیت کی حالت سمندر ی پانی کے اوپری جھاگ سے زیادہ نہیں اوران کا سماجی ، معیشی ا ورسیاسی تانہ بانہ ہوا کا ایک معمولی جھونکا بکھیر کررکھ دیتا ہے۔ ہندوستان جس ترقی کا دعویٰ کررہا ہے اُس میں 176 ؍ملین مسلمانوں کا کلیدی رول ہے لیکن اس کے باوجود مسلمان کو دوسرے درجے کا شہری تصور کیا جاتا ہے۔گھٹ گھٹ کرزندگیاں جینے پر اُنہیں مجبور کیا جاتا ہے۔ فرقہ پرست عناصر اس حد تک جری اور نڈر ہوگئے ہیں کہ اب شبانہ اعظمی جیسی الٹرا سیکولر اداکارہ اور ان جیسے دوسرے کئی مسلمانوں تک کو پوش کالونیوں میں مکان خریدنے نہیں دیا جاتا ۔ سماجی، معاشی ، معاشرتی ، حکومتی حتیٰ کہ انصاف کے ایوانوں میں بھی مسلمانوں کے لئے امتیاز برتا جارہا ہے۔ یعقوب میمن کی پھانسی اسی سلسلے کی ایک واضح کڑی ہے۔
حکومت ہند ، انصاف کے ادارے، میڈیا اور شدت پسند سماج کا ’’اجتماعی ضمیر‘‘ یعقوب میمن کو ’’دہشت گرد‘‘ قرا ردے کر اُن کی پھانسی کو اپنی بڑی کامیابی سے تشبیہ دے رہے ہیں لیکن معمولی سوجھ بوجھ رکھنے والا انسان بھی اگر غور کرے تو ایک ہی ملک میں جہاں ایک شخص ’’دہشت گرد‘‘ قرار پاتا ہے، وہیں سماج کے ایک بہت بڑے طبقے کے لیے اُس کی حیثیت کسی ’’ہیرو‘‘ سے کم نہیں ہوتی۔ یعقوب میمن کا کشمیر سے کنیاکماری تک غائبانہ نماز جنازہ پڑھاجانا، سوشل میڈیا پر اُنہیں عظیم المرتبت مظلوم قرار دیا جانا، اُن کے جنازے میں ہزاروں لوگوں کی شرکت، کیا یہ سب اس بات کی علامت نہیں کہ ہندوستانی سماج دو حصوں میں منقسم ہے؟ کیا یہ ملک مذہب اور ذات پات کی بنیاد پر منقسم نہیں؟ چند گھنٹوں کے فرق سے ایک ہی وقت میں یعقوب میمن اورہندوستان کے سابق صدر اور سائنس دان اے پی جے عبدالکلام کا جنازہ اُٹھایا گیا۔ ایک کو اس ملک کا اکثریتی طبقہ ’’ہیرو‘‘ قرار دیتا تھا جب کہ دوسرے کو’’ دہشت گرد‘‘ کی گالی دی جارہی تھی۔ دونوں کے جنازے جب اُٹھے تو ملک کے سابق صدر کے پیچھے چنیدہ مٹھی بھرلوگ جن میں اکثریت سرکاری اہلکارو ں اور وردی پوشوں کی تھی، ان کو قبر میں اُتار رہے تھے جب کہ ’’ دہشت گردی‘‘ کی سز اپانے والے یعقوب میمن کے جنازے میں ہزاروں لوگوں کی شرکت سے یہ ثابت ہوتی تھی کہ تمام سرکاری دباؤ کے باوجود ہندوستانی مسلمان بخوبی جانتے ہیں کہ اُن کے ساتھ ہر حکومت سے لے کر عدل کے ایوان تک میں ناانصافیاں ہورہی ہیں اور اکثریتی مائنڈ سیٹ ایسا بنا ہوا ہے کہ کلمہ خوانوں کو خواہ مخواہ ملک دشمن یا دیش دروہی شمار کیا جاتا ہے، بھلے ہی وہ عبدالکلام جیسے مزاج کے لوگ ہوں ۔ملک کے ’’اجتماعی ضمیر ‘‘ کو مطمئن کرنے والوں نے یہ دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا کہ 1993 ء میں ممبئی کیوں دھماکوں سے دہل اُٹھی۔ دراصل ہندو جنونیوں نے بابری مسجد شہید کرکے مسلمانوں کے جذبات کو بُری طرح سے مجروح کردیا تھا۔ مسجد کو شہید کرنے پر ہی بس نہیں کیا گیا بلکہ پھر ملک بھر میں مسلم کش فسادات برپا کروائے گئے۔ ممبئی میں مسلمانوں کا قتل عام کروایا گیا۔ جنوری 1993ء میں ہی بابری مسجد کو شہید کروانے کے لیے بھارتیہ جنتا پارٹی نے رتھ یاترا کی ایک خطرناک مہم شروع کردی تھی جس کے نتیجے میں ممبئی میں مسلمانوں کا سفایا کروانے کے لیے مسلم کش فسادات برپا کروائے گئے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ان فسادات میں 500 ؍مسلمانوں کو ابدی نیند سلا دیا گیا۔ زخمیوں کی تعداد ہزاروں میں تھی اور اربوں اور کھربوں کی امداد نذر آتش کردی گئی۔ پھر اِسی برس12 ؍ مارچ1993 ء کو ممبئی میں بم دھماکے ہوئے جن میں داود ابراہیم اورٹائیگر میمن اوریعقوب میمن کو ملوث قرار دئے گئے۔ اگر سزا دینا ہی تھی تو آغاز پانچ سو مسلمانوں کے قاتلوں سے کیا جانا چاہیے تھا جنہوں نے مسلمانوں کی نسل کشی کی ۔ عدل وانصاف کا تقاضا تھا کہ اُن کو پہلے تختۂ دار پر چڑھا لیاجائے ، اُنہیں چھوڑ کر یعقوب میمن کو موت کی گھاٹ اُتار دینے کا مطلب ہی یہ ہے کہ اس ملک میں قانون، سزائیں اور فیصلے مسلم اقلیت کے لئے ہی مخصوص ہیں۔ اس خیال کی تصدیق حال ہی میں ٹائمز آف انڈیا میں ’’نیشنل لا یونیورسٹی‘‘ کی جانب سے شائع کردہ اُن اعداد و شمار سے بھی ہوتی ہے جن میں بتایا گیا کہ ہندوستان میں عدالتوں کے ذریعے جتنے بھی کیسیوں میں سزائے موت سنائی گئی اُن میں 94 ؍فیصد سزا پانے والے مسلمان ہیں یا پھر دلت۔یعقوب میمن کو تختہ دار پر چڑھانے کے لیے اس حد تک جلد بازی کی گئی کہ پہلی مرتبہ ہندوستانی سپریم کورٹ کو رات کی تاریکی میں کھول دیا گیا اور صرف دو گھنٹوں کے وقفے میں اس ہائی پروفائل کیس میں دو اہم فیصلے سنا کر ایک نرالی تاریخ رقم کی گئی۔ مسلم اقلیت کا المیہ یہ بھی ہے کہ اُس کے اپنے مفاد پرست سیاسی لیڈر اور دانشور اُن کی اجتماعی طاقت کو توڑنے کے لیے اُنہیں پست ہمت بنا رہے ہیں،ا نہیں اپنی زمینوں ، مساجد ، وقف پراپرٹی ، نجی امالک سے دستبردار ہونے کے لیے ذہنی طور پر تیار کیا جارہا ہے۔ ایک منصوبہ بندطریقے سے مسلمانوںکو احساس کمتری کا شکار بنایا جارہا ہے، اُنہیں صبراور برداشت کی وعظ خوانیاں دسنائی جاتی ہے جب کہ دوسری جانب فرقہ پرست طاقتیں اکثریتی طبقے کے منصف مزاج  لوگوں تک میں غلط فہمیاں پھیلاکر بھائی چارے کی جگہ نفرت اور شکوک وشبہات کی آگ بھڑکا رہے ہیں ۔ ہندوستان جس تعمیرو ترقی اور جن اچھے دنوںکے خواب دیکھ رہا ہے، اگر ہندوستانی مسلمان اُس خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے میں اپنا حصہ ڈالنے سے انکار کریں گے تو یہ ملک افلاس اور غربت اور احسا س ِمحرومی کی آگ میں جھلس جائے گا۔ بہرحال ہندی مسلمانوں کے لئے مایوسی اور نااُمیدی والی کوئی بات نہیں ، وقت ثابت کردے گا کہ اگر قانون اور انصاف کا معیار اسی طرح دوہرا رہا تو اکثریتی طبقے کی یہ منفی سوچ اس ملک کو سابق سودیت یونین کے حشر میں جھونک سکتی ہے۔ اب وقت کا تقاضا یہ ہے کہ میمن کہانی کو انہی کی ذاتپرختم کر نے کے لئے مسلم اقلیت اپنی صفوں میں اتحاد اور اتفاق کا مظاہرہ کریں۔ یاد رہے جس دن ہندوستان کے 176 ؍ملین مسلمانوںمیں اتحاد و اتفاق قائم ہوجائے گا ، انصاف کے ایوانوں سے اُن کے ساتھ بے انصافی ہونا بند ہوجائے گی اورپھر دیش کے’’اجتماعی ضمیر‘‘ کو مطمئن کرنے کے لئے مسلمانوں کو بلّی چڑھانے کی کسی کو ہمت نہیں ہوجائے گی۔ 
رابطہ:9797761908 

Comments

Popular posts from this blog

لندن کی کشمیر کانفرنس۔۔۔ ایس احمد پیرزادہ

پبلک سیفٹی ایکٹ اور نیشنل کانفرنس....ایس احمد پیرزادہ