آرٹی ۔۔۔’ رگڑو مہم‘ چہ مطلب دارد؟ 
پتھر وںکو جو بناتے لعل وگوہر و ہ سنیں 

حال میں ریاستی محکمہ تعلیم نے عدالت عالیہ کی ہدایت کے تحت ایک حکم نامہ جاری کیا ہے جس میں کہا گیا کہ اُن رہبر تعلیم اور جنرل لائن اساتذہ کا اسکرینگ ٹیسٹ لیا جائے گا جنہوں نے ریاست سے باہر کی یونیورسٹیوں اور کالجوں یا پھر اسٹیڈی سنٹروں سے ڈگریاں لی ہیں۔ حکم نامہ کے مطابق اُن اساتذہ کو بھی ٹیسٹ کے زمرے میں لایا جائے گا جنہوں نے فاصلاتی طریقے سے اپنی ڈگریاں حاصل کی ہوں گی۔ اس حکم نامے کی زد میں قریباً چالیس ہزار اساتذہ آجاتے ہیں جنہیں اپنی اہلیت اور قابلیت ثابت کرنے کے لیے ’’امتحانی مرحلے‘‘ سے گزرنا پڑے گا۔ محکمہ تعلیم کے اس فیصلے کے خلاف رہبر تعلیم اساتذہ کی فورم کے علاوہ ٹیچرس فورم نے بھی سخت لب ولہجہ استعمال کرکے حکومت وقت کے ساتھ دو دو ہاتھ کرنے کے لیے میدان میں کود نے کی دھمکی دے دی ہے۔ رہبر تعلیم اساتذہ نے دو روزہ تالہ بندہڑتال کے علاوہ سرینگر میں جم کر احتجاجی مظاہرہ کرتے ہوئے اس حکم نامے کو سرکار کی من مانی سے تعبیرکیا اور اِسے اساتذہ کے خلاف ناروا سلوک قرار دیا۔ عادت سے مجبورپولیس نے اساتذہ کے احتجاجی جلوس پر اس انداز سے طاقت کا استعمال کیا کہ جیسے اسٹیٹ کے ان ’’خطرناک باغیوں‘‘کواگر ہر ہمیشہ کے لیے فوری طور کچل نہ دیا گیا ہوتا تو ریاست کی سا لمیت اور وحدت خطرے میں پڑنے کا احتمال تھا۔پولیس کی اس غیر ضروری کارروائی میں ترال کے ایک مظلوم ٹیچر کی آنکھ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بے کار ہوگئی اور اُنہیں نازک حالت میںدلی منتقل کرنا پڑا۔ محکمہ تعلیم کی ہٹ دھرمی اور اساتذہ صاحبان کا اس ہٹ دھرمی کے خلاف کمر کس لینا صاف ظاہر کررہا ہے کہ ملازمین اور حکومت کے درمیان اس مسئلے کو لے کر ٹھن گئی ہے اور ریاست جموں وکشمیر جو پہلے ہی مسائل کے بھنور میں گردش کررہی ہے، پر مسائل و مشکلات کا ایک اور دور شروع ہونے والا ہے۔ سرکاری اساتذہ کرام اور محکمہ تعلیم کے درمیان اس تنازعہ نے چند اہم سوالات کو جنم دیا ہے جن کا جواب نہ صرف ریاستی حکومت کے ذمہ داران ، بیوروکریسی اور پالیسی ترتیب دینے والے لوگوں کو دینا ہوگا بلکہ اساتذہ صاحبان اور دانشورانِ ملت کو سنجیدگی کے ساتھ اصولی اور حقیقی باتوں پر غور کرنا پڑے گا۔ حقائق سے زیادہ دیر تک بھاگا نہیں جاسکتا ہے، دانشمندی یہی ہے کہ ہم بحیثیت مجموعی تلخ حقائق کا سامنا کرکے خامیوں اور کمیوں کا ازالہ کریں اور اپنے مستقبل کو سنوارنے اور بنانے کی راہیں ہموار کریں۔محکمہ تعلیم نے جو حکم نامہ جاری کیا ہے اُس پر حکومتی ایوانوں سے لے کر محکمہ تعلیم میں جو بڑے بڑے نام اپنے آپ کو تعلیمی ماہرین میں شمار کرتے ہیں ،اُن سے پوچھا جاسکتا ہے کہ جس وقت رہبر تعلیم اسکیم لاگو کرکے اس کے تحت شہر و دیہات اساتذہ کی بھرتیاں عمل میں لائی گئیں، اُس وقت یہ کیوں نہ سوچا گیا کہ امیدواروں کی اہلیت جانچ پر کھ کی جائے۔محض تعلیمی اداروں سے جاری شدہ اسناد کی بنیاد پر اور علاقائی حدود و قیود کی قدغن لگا کر اس عظیم پیشہ کے ساتھ کھلواڑ کیوںکیا گیا؟ استاد قوم کے معمار ہوتے ہیں، ان کے رحم و کرم پر قوم کا مستقبل ہوتا ہے ، مگر حکومتی ایوانوں میں بیٹھے بیوروکریٹوں نے اپنے مفادکی آبیاری کی صورت میں اور اپنے آپ کو تعلیمی ماہرین کہلانے والوں نے تمام اصول، قواعد و ضوابط خود پیروں تلے روند ڈالے اور محکمہ تعلیم کے ساتھ ایک ایسی کھیپ کو بھی وابستہ کردیا جو کسی بھی صورت میں اس شعبے کے لیے موزوں نہیں ۔ آج جب حکومت کہتی ہے کہ اِن اساتذہ کی ٹیسٹ لیا جائے گا تو چوٹ اُس بھرتی پالیسی پر پڑتی ہے جو یہاں اپنائی جارہی ہے،تو یہ بھی ثابت ہوجاتا ہے کہ سرکاری نوکریوں بالخصوص اساتذہ کی اسامیاں کے لیے اپنایا جانے والا طریقہ کار سرے سے ہی غلط ہے۔ وزیر تعلیم نعیم اختر بیوروکریٹ رہ چکے ہیں ۔ وہ اس بات سے بخوبی واقف ہوں گے کہ پالیسیاں بیروکریٹ ہی مرتب کرتے ہیںاور بیروکریٹ ہر دور میں اپنے آپ کو سماج کا ذہین ترین طبقہ تصور کررہے ہیں۔ کیا یہی وہ اعلیٰ دماغ ہیں جنہوں نے محکمہ تعلیم کے لیے اس انداز کی گھٹیا بھرتی پالیسی ترتیب دی ہے جو ایک دہائی گزر جانے کے بعد نہ صرف فلاپ ثابت ہورہی ہے بلکہ ہمارے یہاں کے نظام تعلیم کو ہی پوری طرح سے داؤ پر لگا دیاہے؟ بیوروکریٹ دراصل خود غرض ہوتے ہیںاور وہ سیاست دانوں کو وہ تمام راستے دکھاتے ہیں جن کے ذریعے سے اُن کا کام بھی بننے اور سیاست دان بھی لوگوں کو بیوقوف بنانے میں کامیاب ہوجائیں ۔ آج کی مہذب دنیا میں پانچ سال تک ۱۵؍سو کی قلیل تنخواہ پر حکومت نے بندھوا مزدوروں کا انتظام کیا ہے، یہ غلامی کا جدید ایڈیشن ہے۔ جس وقت رہبر تعلیم اسکیم شروع کی گئی، ایک تیز سے کئی شکار کیے گئے۔ایک تو نوجوانوں کو نوکری کا جھانسہ دیا گیا ، اوپر سے قلیل تنخواہ پر پڑھے لکھے نوجوانوں سے مزدوروں کروائی گئی۔اُنہیں غلام بناکر رکھا گیا،جن صلاحیتوں کو وہ پروان چڑھا سکتے تھے اُنہیں مفلوج بناکر رکھ دیا گیا۔ ممبراسمبلی سے لے کر ایک بیروکریٹ تک دیکھ لیجئے کہ ان کے کتنے اخراجات ہوتے ہیں۔ سرکاری خزانوں کو دو دو ہاتھوں سے لوٹا جارہا ہے اور پھر لوٹ مار کی اس دوڑ میں ریاست کی معاشی تنگدستی سے نبرد آزما ہونے کے لیے عام لوگوں باالخصوص نوجوانوں کو بڑی ہی شاطرانہ انداز سے پھنسایا جاتا ہے۔رہبر تعلیم اسکیم کا خمیازہ اس قوم کو آگے بھی بھگتنا پڑے گا۔ اس اسکیم سے نہ صرف نااہل لوگوں پر مشتمل ایک اچھا خاصا طبقہ محکمہ تعلیم سے وابستہ ہوگیا بلکہ قوم و ملت کی بھاگ دوڑ سنبھالنے والی ایک نسل کو آگے بڑھنے سے جبراً روک بھی دیا گیا۔ یہاں سرکاری نوکری کو زرق کا واحد ذریعہ بنا دیا گیا۔ لوگ نوکری کے پیچھے دیوانوں کی طرح دوڑتے چلے جاتے ہیں۔ کلاس فورتھ کی نوکری کے لیے لاکھوں کی رشوت دی جاتی ہے۔ گریجوٹ،پوسٹ گریجوٹ حتیٰ کہ ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں لینے والے نوجوان چوتھے درجے کی نوکری کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ جب رہبر تعلیم اسکیم شروع کی گئی تو شہر و گام نوجوانوں نے موقع غنیمت جان کر اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ کر نوکری اختیار کرلی۔ اس سے سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ جو لوگ اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے مختلف شعبوں میں ملت کے لیے اثاثہ ثابت ہوسکتے تھے ،انہوں نے تعلیم ادھوری چھوڑ کر پندرہ سوکی نوکری اختیار کرنے میں ہی عافیت محسوس کی۔ اس طرح سے ایک ذہین طبقہ جو اپنی صلاحتیں بڑے پیمانے پر استعمال میں لاسکتا تھا ایک محدود دائرے میں سکڑکر رہ گیا۔اگر یہ کہا جائے کہ اُس وقت کی حکومت نے قوم کشمیر کے مستقبل کو داؤ پر لگانے کے لیے ایک شاطرانہ چال چلی تھی تو بے جانہ ہوگا۔جن نوجوانوں نے اپنی تعلیم کو خیر باد کہہ دیا، جنہوں نے مزدوروں کی طرح کام کیا، جنہوں نے ۱۵؍ سو کی تنخواہ پر کام کرکے اپنے عزت نفس کو مجروح کردیا ، آج اُن کے معیار کو جانچنے کی باتیں کرکے اُن کی مزید توہین کی جارہی ہے۔حکومت کا یہ تازہ فیصلہ کیا منطقی تک رکھتی ہے ،ا س سے قطع نظر نہ اس حکم نامے کو اجراء کرنے سے قبل سوچ بچار میں زیادہ مغز ماری نہ کی گئی ۔ جس طرح رہبر تعلیم اسکیم شروع کرنے کے موقع پر سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا گیا تھا ،اُسی طرح محکمہ تعلیم نے یہ حکم نامہ جاری کرنے کے موقع پر بھی بھر پور انداز سے غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اپنی بات حکام کے سامنے رکھنے اور احتجاج کا حق ملازمین کو یہاں کا قانون فراہم کرتا ہے مگر المیہ یہ ہے کہ یہاں کی حکومتیں اپنی نااہلی کو چھپانے کے لیے طاقت کا استعمال کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتی ہیں۔اگر میاں بیوی کے درمیان نوک جھوک بھی ہورہی ہوگی، یہاں کے وردی پوش ٹیئرگیس اور گولیاں داغ دیتے ہیں۔یہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہے کیونکہ عادت سے مجبور یہ لوگ اب عادی ہوچکے ہیں، لوگوں پر ظلم کرنا اور اپنی طاقت کا بے جا استعمال کرنا وردی پوشوں کا نشہ بن چکا ہے۔ سماج کا پڑھا لکھا طبقہ احتجاج کررہا تھا، سرکار ملازمین سرکار سے اپنے حقوق کی باز یابی کے لیے مانگ کررہے تھے، یہ ملازمین ہی تو ہیں جو سرکار کے وجود کو زمینی سطح پر قائم رکھے ہوتے ہیں اور ان ہی کو اگر بھیڑ بکریوں کی طرح ڈنڈوں سے ہانکا جائے ، سرراہ اُن کی تذلیل کی جائے، اُن پر جان لیوا حملے کیے جائیں ،تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ برسراقتدار ٹولہ اپنے پیروں پر خود ہی کلہاڑی مارنے کا کارِ بد انجام دے رہے ہیں۔طاقت اور ڈنڈوں سے نافذ کیے جانے والے احکامات پائیدار نہیں ہوتے ہیںاور وردی پوش بھی بار بار شاہ کی وفاداری میں اپنے ہی لوگوں پر ظلم وجبر کے پہاڑ توڑ کراپنی تاریخ سیاہ بنا رہے ہیں۔ اساتذہ صاحبان کو بھی سوچ لینا چاہیے ۔ گزشتہ دو دہائیوںمیں گو کہ یہاں کا ہر شعبہ بری طرح سے متاثر ہوا ہے مگر سب سے زیادہ متاثر ہونے والا شعبہ محکمہ تعلیم ہی ہے۔ ہمارے یہاں تعلیم بالخصوص سرکاری اسکولوں کی حالت بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے۔ اتنا بڑا محکمہ ہے، اتنی افرادی قوت ہے، بڑی بڑی ڈگریوں کے حامل اساتذہ صاحبان ہیں مگر اس کے باوجود پرائیوٹ اسکولوں کا مقابلہ نہیں کرپاتے ہیں۔اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ محکمہ تعلیم کی صفوں ایک مٹھی بھر مردان ِ کار کو چھوڑ کر محکمہ میں نااہل اور کام چور لوگوں کی ایک اچھی خاصی تعداد داخل ہوچکی ہے۔ حالانکہ ذہین، قابل اور محنتی اساتذہ صاحبان کی کمی نہیں ہے مگر المیہ یہ ہے کہ کام چور ، فرض ناشناس، غبی لوگ کثیر محنتی اور قابل لوگوں پر حاوی ہوکر اُن کی بدنامی کا سبب بن رہے ہیں۔اسکرینگ ٹیسٹ کا سامنا کرنا قابل، پُر اعتماد اور ذہین اساتذہ کے لیے کوئی زیادہ بڑا مسئلہ نہیں ہونا چاہیے تھا ۔ ہمارے سامنے ڈاکٹروں کی مثال موجود ہے،ان بے چاروں کو اپنے پورے کیرئیر میں کئی مشکل امتحان پاس کرنے پڑتے ہیں۔ حالانکہ یہ طبقہ سماج کیcreamy leyer کہلائی جاتی ہے۔ بارہویں جماعت میں ہی اپنی قابلیت منواکر یہ ایم بی بی ایس کے لیے سیٹ نکال لیتے ہیں۔ ایم بی بی ایس مکمل کرنے کے بعد ان بچاروں کو پھر سے مشکل ترین مسابقتی امتحان میں بیٹھ کر پی جی کے لیے اپنی نشست نکالنی پڑتی ہے۔ پی جی مکمل کرنے کے بعد ملکی سطح کے امتحان میں بیٹھ کر ڈی ایم کے لیے کوالیفائی کرنا پڑتا ہے۔ اتنے سارے امتحان میں اپنی قابلیت کا لوہا منوانے کے بعد بھی اس طبقے کو نوکری کے لیے پبلک سروس کمیشن کے اسکرینگ ٹیسٹ سے گزرنا پڑتا ہے، اس طبقے نے کبھی یہ نہیں کہا ہے کہ ایک مسابقتی امتحان میں اپنی ذہانت اور قابلیت ثابت کرنے کے بعد دوسرے امتحان میں بٹھانے سے ہماری توہین ہوجاتی ہے بلکہ ہر مرحلے پر اپنی خدا داد صلاحیتوں کو ثابت کرتے چلے جاتے ہیں۔ بے شک سرکار کے اقدامات ظلم وجبر اور زیادتی پر مبنی ہیں لیکن اگر ذہانت اور قابلیت موجود ہو تو ڈرنے کی کوئی بات نہیں۔ محکمہ تعلیم سے اس ملت کا مستقبل وابستہ ہے، موجودہ دور میں تعلیم کے میدان میں ایسے ہونہار اور باصلاحیت لوگ ہونے چاہیے جو عالمی سطح کی تعلیمی طریقوں سے واقفیت رکھتے ہوں،ایم بی بی ایس سے زیادہ کڑا امتحان ایک استاد کے لیے ہونا چاہیے کیونکہ ایک ڈاکٹر اگر ناقابل ہو تو زیادہ سے زیادہ چند مریضوں کی جان چلی جاسکتی ہے لیکن ایک استاد کی نااہلی نسلوں کی نسلیں تباہ کرکے ملّت کے مستقبل کو ہی داؤ پر لگا سکتا ہے۔خلوص کی بنیادپر اور نہایت ہی ایمانداری کے ساتھ اس مسئلے پر غور و غوض ہونا چاہیے۔ حکومت اور اساتذہ انجمنوں کو مل بیٹھ کر حل نکالنا ہوگا۔ قابلیت جانچی بھی جاسکتی ہے، ایک ایسا طریقہ تشکیل دیا جانا چاہیے جس کے ذریعے سے قابل او رہونہار لوگوں کو محکمہ تعلیم کے ساتھ وابستہ کیا جاسکے اور جتنے بھی لوگ محکمہ تعلیم کے معیار پر پورا نہیں اُترتے اُنہیں نوکری سے نکال دینے کے بجائے دوسرے محکموں میں تمام مراعات کے ساتھ بھیج دیا جانا چاہیے۔دوسرے محکموں میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو قابل اور ذہین ہیں اور جنہیں پڑھنے پڑھانے سے دلچسپی ہے اُنہیں محکمہ تعلیم میں لایا جاسکتا ہے۔ ایک محکمے سے دوسرا محکمے میں تبادلے کیے جانے سے یہ مسئلہ احسن طریقے سے حل ہوسکتا ہے، مگر اس کے لیے دونوں جانب سے دور اندیشی اور اخلاص کی ضرورت ہے۔ اساتذہ کو اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہیے کہ ملک کشمیر میں گزشتہ برس کے بھیانک سیلاب نے پہلے ہی طلبہ کا بہت سارا وقت ضائع کردیا ہے، اب اگر ہڑتالیں، احتجاج اور تالہ بند کا سلسلہ پھر سے شروع ہوا تو حکومت اور ملازمین کی اس رسہ کشی میں ہمارے نونہالوں کا تعلیمی کیرئیر بری طرح سے متاثر ہوجائے گا اور اگر ہوا تو اس کے لیے حکومت اور ملازمین دونوں برابر کے ذمہ دار ٹھہرائیے جائیں گے۔ رابطہ:9797761908

Comments

Popular posts from this blog

لندن کی کشمیر کانفرنس۔۔۔ ایس احمد پیرزادہ

پبلک سیفٹی ایکٹ اور نیشنل کانفرنس....ایس احمد پیرزادہ