کشمیر کی حکومت سازی،


دلی کی بادشاہ ساز ی!
اہل ِکرم کی بازیوںکا دور چلے گا

 کشمیر عظمیٰ کے اسی کالم میں ریاست میں بی جے پی، پی ڈی پی کولیشن کے درمیان حکومت سازی کے معاملے میں پیدا شدہ مصنوعی تعطل کے حوالے سے راقم الحروف نے پہلے ہی یہ پیش بینی کی تھی کہ پی ڈی پی کی ڈھائی مہینے کی ”خاموشی“ اور دلی کے سامنے” شرائط “عائد کرنا محض دکھاوا ہے۔ یہ سب ڈرامہ بازی ہے اور اس کھیل کا ڈراپ سین ہندی فلموں کی طرح بالآخر دونوں جماعتوں کے ملن کی صورت میں ہوگا۔وقت نے پیش بینی صحیح ثابت کردی۔قبل از وقت لکھنا کہ سیاسی بازار کا کیا مول بھاو ¿ ہونے والے ہے، اس کا یہ مطلب نہیں کہ لکھنے والا کوئی نجومی ہے یا اُسے کوئی علم غیب حاصل ہے بلکہ یہاں کی ہند نواز سیاسی جماعتوں کا مزاج، اُن کا دائرہ کار، اُن کے سوچنے اور سمجھنے کے حدود اور اُن میں اقتدار کی ہوس اور دلی کی بازیگری کو دیکھتے ہوئے کوئی بھی کہہ سکتا ہے کہ اقتدار کو گلے لگانے کے لیے یہ لوگ کس حد تک جاسکتے ہیں۔ ایک مرتبہ پھر ریاست کے مسند اقتدار پر زعفرانی رنگ مسلط ہونے جارہا ہے۔ کشمیر کی تاریخ میں ایک اور افسوس ناک باب کا اضافہ ہورہا ہے۔ افسوس اس اعتبار سے کہ ہر بار یہاں کے ”عوامی “ نمائندوں نے اقتدار کی ہوس میں قومی و ملّی مفادات کو کوڑیوں کے دام دلّی کے سیاسی بازار ِ حصص میں نیلام کردیا ۔ پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی ریاست کی پہلی خاتون وزیر اعلیٰ بننے جارہی ہیں۔ اپنے والد مفتی محمد سعید کی رحلت کے بعد موصوفہ نے وقتی طور خاموشی اختیار کرکے جیسے سیاسی سنیاس لیا تھا،اُن کے لیڈران نے اخبارات میں عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے یہ پروپیگنڈا کرنا شروع کردیا تھا کہ ”میڈم“ کو وزارت اعلیٰ کی کرسی پر براجمان ہونے کی کوئی جلدی نہیں ہے بلکہ پہلے وہ وزیر اعظم ہند نریندر مودی کو اس بات کا قائل کرلےںگی کہ وہ ایک تو ریاست کو مطلوبہ مالی پیکیج د یں، این ایچ پی سی کے پاور پروجیکٹ کے مالکانہ حقوق ریاست کو سونپ دیں اور ہند پاک مذاکرات اور اعتماد سازی کے حوالے سے اقدامات کریں،تب جا کر پی ڈی پی باجپا کو گلے لگا لے گی۔ دو ماہ سے پی ڈی پی لیڈران، اُن کے ورکر، پی ڈی پی کے حمایتی قلم کار یہی پروپیگنڈا کرتے آرہے تھے کہ جب تک نہ حکومت ہند پی ڈی پی کے شرائط کو تسلیم نہ کرے گی ، محبوبہ مفتی حکومت سازی کے لئے راضی نہیں ہوں گی بلکہ وہ ریاستی مفادات کی خاطر کرسی کو لات بھی مار سکتی ہیں۔حالانکہ دنیا جانتی ہے کہ آر ایس ایس ایک نظریاتی جماعت ہے، اس کاسیاسی بازو بی جے پی ہے۔ یہ جماعت پی ڈی پی اور نیشنل کانفرنس کی طرح خالص کرسی اور اقتدار کے خاطر قومی مفادات اور اپنے ضمیر پر نشتر چلاکر سمجھوتے نہیں کرتی ہے بلکہ اس جماعت کا حکومت پر قابض ہونے کا مقصد بھی یہی ہوتا ہے کہ وہ اپنی فکر اور نظریے کی آبیاری کرسکے۔بی جے پی کے ساتھ حکومتی اتحاد کرنے کے لیے پی ڈی پی نے دو ماہ کا وقت نہیں لیا تھا جیسا کہ کہا جارہا تھا، بلکہ دو ماہ تک بی جے پی نے آر ایس ایس کے تھنک ٹینک سے صلاح مشورہ کرکے اس اتحاد کے تمام زاو ¿یوں کو اچھی طرح دیکھ لینے کے بعد ہی اس کولیشن کے لیے آمادگی ظاہر کردی۔ آج کی تاریخ میں پی ڈی پی لیڈران سے یہ سوال پوچھا جاسکتا ہے کہ اعتماد سازی کے وہ کون سے اقدامات ہیں جن کے عوض آپ کی جماعت بی جے پی کے ساتھ از سر نو کولیشن سرکارتشکیل دینے پر راضی ہوگئی ہے؟دلّی سے محبوبہ جی کو ایسا کیا ملاہے کہ جس کی شاباشی میں پی ڈی پی ممبران اسمبلی نے محبوبہ مفتی کو اسمبلی کے لیے اپنا لیڈر چن لیا اور حکومت سازی کے لیے اُنہیں ہری جھنڈی دکھا دی؟ اس پارٹی کے ایک ایم پی طارق حمید قرہ این سی کے مصطفی ٰ کمال کی تقلید میں بروزن شعر بی جے پی کے ساتھ اتحاد کو فطرت کے خلاف قرار دے رہے تھے ، اچانک اُن پرکس جادوئی چھڑی نے ایسا سحر کردیا کہ وہ پارٹی صدر کے بغل میں بیٹھ کر بزبان حال اعلان کرگئے اُنہیں اب زعفرانی طاقتوں کے ساتھ کوئی گلہ شکواہ نہیں ہے۔پی ڈی پی اعتماد سازی کے لیے مزید اقدامات کی مانگ کا ڈھنڈورا پیٹ رہی تھی، اب خبریں یہ آرہی ہیں کہ مطالبہ تو بی جے پی کی ہی جانب سے ہورہا ہے۔ بی جے پی جن کے مفتی محمد سعید حکومت میں سات منسٹرس تھے جب کہ پی ڈی پی کے پاس گیارہ وزارتیں تھیں، البتہ اس وقت بی جے پی مطالبہ کررہی ہے کہ نئی سرکارمیں برابر برابر کی شرح ہونی چاہیے۔ 
ریاست جموں وکشمیرکا ہمیشہ سے یہ المیہ رہا ہے کہ ہمارے قضا و قدر کے فیصلے ہمیشہ دلّی دربار میں ہوتے رہے ہیں۔ یہاں کی حکومتیں حقیقی معنوں میں کٹھ پتلیاں ثابت ہوتی رہی ہیں۔ یہاں کی اسمبلی کا کوئی وزن نہیں ہے اور نہ ہی یہاں کی اسمبلی ایسی کوئی قانون سازی کرنے کی پوزیشن میں کبھی رہی ہے جس کی زد بلواسطہ بھی ہندوستانی مفادات پر پڑتے ہوں۔ اقتدار پر کون براجمان رہے گا؟ کرسیاں کس کو ملیں گی؟ کس کی حکومت کو عوام میں مقبولیت دلائی جائے گی ؟ اور کس کی حکومت کو فلاپ کرنا ہے ؟یہ سب دلّی میں بیٹھ کر کشمیر اُمور کے انچارج سیاست دان، مختلف ایجنسیوں کے اہل کار، ہوم منسٹری سے منسلک بیروکریٹ طے کرتے ہیں۔ ہماری تاریخ گواہ ہے کہ یہاں کے نامی گرامی سیاست دانوں کو سجدہ ریز کرنے کے لیے غلاموں کی طرح دلّی بلایا جاتارہا ہے ، پھر وہاں اُنہیں اُن کی اوقات یاد دلائی جاتی ہیں اور اُن سے غلامی کے پہاڑ کا اعادہ کر وایا جاتا ہے۔ جب مہاراجہ ہری سنگھ نے حکومت ہند کے مرتب کردہ دستاویز الحاق پر دستخط کرکے اُنہیں اُس وقت کے ریاستی وزیر اعظم مہر چند کے ہاتھ دلی بھیجا ، تو اُس وقت ریاست میں شیخ محمد عبداللہ سب سے بڑے عوامی لیڈر گردانے جاتے تھے۔ اُن کی حمایت کے بغیر مہاراجہ کے الحاق کی کوئی وقعت نہیں تھی۔ اُنہیں راضی کرنے کے لیے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ دلّی نرمی کا لہجہ اختیار کرلیتی اور سرینگر آکر منت سماجت کراکے اُنہیں راضی کرالیتی لیکن ایسا نہیں کیا گیا بلکہ پنڈت نہرو نے دوارکا ناتھ کاچرو کو شیخ محمد عبداللہ کے پاس بہ حیثیت ایلچی بھیجا اور اُنہیں دلّی آنے کا حکم صادر کردیا۔ شیخ صاحب مرزا افضل بیگ کے ساتھ دوڑے دوڑے دلی پہنچ گئے اور ان لو گوں کی آشیر باد سے مہاراجہ ہری سنگھ کی ماتحتی میں انہیں ناظم ا علیٰ کا منصب دیا گیا ، یوں کشمیر کے سب سے بڑے لیڈر نے نہایت ہی اونے پونے داموں میں دستاویز الحاق کی تائید کردی ۔پھر تاریخ نے یہ بھی دیکھ لیا کہ ہندوستان کو پلیٹ میں کشمیر پیش کردینے والے شیخ محمد عبداللہ پر کس طرح غداری کا مقدمہ درج کرنے سے قبل۹اگست۱۹۵۳ءکو اٹھارہ سال کے صدر ریاست نے ایک معمولی سپاہی سے گرفتار کر واکے جیل میں ڈال دیا گیا۔ کس طرح اُن کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کرنے والے لوگوں پر فائرنگ کرکے سینکڑوں مظاہرین کو ابدی نیند سلا دیا گیا۔شیخ محمد عبداللہ کو وزارت اعظمی کی کرسی سے برطرف کردیا گیا اور اُن کی جگہ بخشی غلام محمد کو کٹھ پتلی بناکر اُن کی تاج پوشی کی گئی۔پھر بخشی غلام محمد اور خواجہ غلام محمد صادق کا انجام بھی دنیا نے دیکھ لیا کہ کس طرح حکومت ِ ہند نے اُن کا استعمال کیا ۔ دلی کوجب لگا کہ اب یہ عضو ئے معطل کی طرح بے کار ہوگئے ہیں تو اُنہیں کاٹ کر پھینک دیا گیا۔نیشنل کانفرنس کے فاروق عبداللہ نے جس پیمانے پر ریاست جموں وکشمیر میں ہندوستانی مفادات کی حفاظت وآبیاری کی، شاید ہی کسی اور سیاست دان نے کی ہوگی۔ انہوںنے کشمیری قوم کے جذبات و احساسات کو یکسر نظرانداز کرکے ہر ہر مرحلے پر دلی والوں کے احکامات کی پیروی کی۔ اپنے دور حکومت میں انہوں نے ریاستی وسائل کو دلّی کے ہاتھ کوڑیوں کے دام بھیج دیا ۔ ایک معمولی غلطی اُن سے سرزد ہوئی کہ انہوں نے دلی سے کچھ مانگنے کی بھول کی ۔ انہوں نے اپنا سیاسی وزن بڑھانے اور ووٹ بٹورنے کے لئے ریاستی اسمبلی میں خاطر اٹانومی بل پاس کیا۔ حالانکہ وہ کسی بھی صورت میں اس حوالے سے سنجیدہ نہیں تھے مگردلّی کو یہ بات سخت ناگوار گزری اور اُنہیں ریاستی سیاست سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے علاحدہ کردیا گیا۔ اُن کی جگہ مفتی محمد سعید کو سامنے لایا گیا۔فاروق عبداللہ نے راجیوفاروق ایکارڈ کرکے ریاست میںمسلم متحدہ محاذ کے بڑھتے قدم روک تھے۔ ۱۹۸۷ءکے الیکشن میں ریکارڈ توڑ پیمانے پر دھاندلیاں دلی کے کہنے پر کی گئیں۔ ہندوستانی پالیسی ساز کسی بھی صورت میں مسلم متحدہ محاذ کو اقتدار پر قابض ہونا نہیں دینا چاہتے تھے۔ انہوں نے فاروق عبداللہ اور این سی کارکنوں کا بھر پور استعمال کیا۔ پھر اُسی فاروق عبداللہ اور اُن کی جماعت نیشنل کانفرنس کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا گیا، وہ سب اہل کشمیر پر عیاں ہے۔مفتی محمد سعید جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ذہنی ، فکری اور دلی طور پر ہندوستانی تھے، کے ساتھ اُن کے آخری دور میں کس طرح کا سوتیلا سلوک روا رکھا گیا ، یہ بھی زمانے کی آنکھ نے خوب دیکھ لیا ہے۔ اب گزشتہ روایات کی طرح محبوبہ مفتی کو بھی دلّی طلب کرلیا گیا اور اُنہیں وہاں ریاستی سیاسی جماعتوں کی وقعت اور حقیقت کی یاد دہانی کرائی گئی۔ دنیا کو دکھانے کے لیے اُن کے سر پر وزارت اعظمیٰ کا تاج رکھا گیا، باقی ریاست جموں وکشمیر میں زعفرانی ایجنڈے کے خاکوں میںکس طرح رنگ بھرنا ہے یہ دلّی والے بخوبی جانتے ہیں۔
مفتی محمد سعید کے دور اقتدار میں ہی پی ڈی پی نے زعفرانی طرز عمل اختیار کرلیا تھا۔آرایس ایس ایجنڈے کی آبیاری کی جارہی تھی۔پی ڈی پی نے فکری طور کس حد تک کمپرومائز کرلیا ہے ،اس کا اندازہ آر ایس ایس تربیت یافتہ بی جے پی جنرل سیکریٹری رام مادھو کے اُس بیان سے لگایا جاسکتا ہے جو انہوں نے گزشتہ برس ۶ جولائی کو دیا تھا ۔ انہوں نے کہا کہ”بہت سارے موقعوں پر یہ شک و شبہ پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ آیا بی جے پی ، پی ڈی پی اتحاد شاما پرشاد مکھرجی کی فکرکے مطابق کام کررہی ہے یا نہیں۔شاما پرشاد مکھرجی آزاد ہندوستان کے پہلے ”شہید“ ہیں جنہوں نے جموں وکشمیر کی بھارت کے ساتھ الحاق کی خاطر اپنی زندگی”قربان“ کردی ہے۔میں اُن تمام لوگوں کو یقین دلاتا ہوں جنہیں شک ہے کہ ہم(بی جے پی ، پی ڈی پی) اُ ن کے اصولوں کے مطابق چل رہے ہیں اور کسی بھی صورت میں کمپرومائز نہیں کریں گے۔“رام مادھو کے اس بیان کی پی ڈی پی نے کسی بھی مرحلے پر تردید نہیں کی ۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اقتدار کی نیلم پری کے لیے اب وہی فکر اپنائی گئی جو ”ہندوتوا“ کی علمبردار طاقتوں کی ہے۔ شاماپرشادجو ہندو توا جماعتوں کے لیے فکری لیڈر کی حیثیت رکھتے ہیں ،اب پی ڈی پی کا بھی فکری رہنما بن چکا ہے۔
ایک بات کا اُن تمام طاقتوں کو ادراک حاصل ہونا چاہیے جو ہندوستانی جمہوریت کا دم بھرتے ہیں اور جو الیکشن پروسس کے ذریعے مسائل حل کرنے کی وکالت کرتے ہیں۔ ریاست جموں وکشمیر میں جمہوری طرز عمل ہر دور میں ایک بھونڈا مذاق ثابت ہوا ہے۔ یہاں دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی خاطر ہر دور میں الیکشن پروسس ہوتی رہتی ہے لیکن مسند اقتدار پر وہی لوگ براجمان ہوتے ہیں جنہیں دلی کا آشرواد حاصل ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے لوگوں کی منشاءکے خلاف بی جے پی جیسی فرقہ پرست جماعت کے ساتھ اتحاد کیا جاتا ہے،یہاں کی سیاسی جماعتوں کو اس حقیقت کا ادراک ہوچکا ہے، وہ جانتے ہیں کہ یہاں الیکشن کے نتائج وہی ہوں گے جو کشمیر اُمور سے جڑے دلی کے پالیسی ساز ادارے ، افراد اور ایجنسیاں چاہیں گے۔ اس کی تائید ”را “کے سابق چیف ایس کے دُلت بھی اپنی تہلکہ آمیزسیاسی سوانح عمری میں کر چکے ہیں ۔ اب یہ ظاہر سی بات ہے کہ پی ڈی پی ہو یا نیشنل کانفرنس یا پھر تحریک حق خود ارادیت سے دُم دبا کر بھاگ آنے والے ،ہر کوئی وہی کرے گا جو اُن سے اُن کے دہلوی آقا ان سے کر نے کو کہیں گے۔ 
 دانشوران قوم کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ خود بھی ہوشیاری کا مظاہرہ کریں اور عام لوگوں کو بھی وقت وقت پر اُن سازشوں ، چالوں اور فریب کاریوں سے واقف کرائیں جن میں اب شدت لائی جائے گی۔ہندوتوا کے علمبردار طاقتیں اپنے دور اقتدار میں ریاستی لوگوں کی آواز کو دبانے کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتی ہیں۔ اب اُن کے ہاتھ میں اقتدار ہے۔ ایک ایسی اتحادی جماعت ہے جو کرسی بچانے کے لیے ہر ہمیشہ آنکھیں بند کرکے بیٹھ جائے گی، اُن کے ہاتھ میں اب یہاں کی ساری ایجنسیوں کی طاقت ہے۔ اس لیے ہر وہ ہتھکنڈا استعمال میں لایا جائے گا جس سے کشمیر یوں کی زبان بند کی جاسکے۔ ایک اورحقیقت کا ادراک تمام سیاسی طاقتوں کو بخوبی کرلینا چاہیے کہ ریاست جموں و کشمیر مسلم اکثریتی علاقہ ہے۔ ہم لوگ بے شک خدا فراموش بن چکے ہیں لیکن مظلومیت کی ایک صفت بھی ہمارے ساتھ جڑی ہوئی ہے اور انفس وآفاق پر محیط سب سے بڑی طاقت یعنی اللہ اور مظلومین کے درمیان کوئی پردہ حائل نہیں ہوتا ۔ زمانے کی آنکھیں ضرور دیکھ لیں گی کہ اللہ کی قدرت کا کوڑا برسے گا، انسانیت پر ظالم بن کر حاوی ہونے والے تمام ذلت و رسوائی کا شکار ہوجائیں گے۔ پی ڈی پی کی سیاست اب کیا رنگ اختیار کر تی ہے ،ا س سے قطع نظر پارٹی کو یہ ناقابل تردید حقیقت کبھی بھی فراموش نہیں کر نی چاہیے کہ کشمیر کو اپنے مفاد کے لئے بیچ کھانے والے، اہل ِکشمیر پر تیغ ستم آزمانے والے اور ان کی عزت و آبرو کا نیلام کر نے والے دیر سویر تاریخ کے عبرت انگیز باب بن گئے ۔ 
رابطہ: essahmadpirzada@gmail.com 

Comments

Popular posts from this blog

لندن کی کشمیر کانفرنس۔۔۔ ایس احمد پیرزادہ

پبلک سیفٹی ایکٹ اور نیشنل کانفرنس....ایس احمد پیرزادہ