این آئی ٹی میڈیا کی حکومت سرکار کی اطاعت


این آئی ٹی.... میڈیا کی حکومت سرکارکی اطاعت

میری ضعیفی نے لاج رکھ لی تیرے ستم کی


بھارت میںفرقہ پرستی اور جنونیت کی آگ اب سیاسی اکھاڑوں سے نکل کر تعلیمی اداروں میں داخل ہوچکی ہے۔ تہذیبی جارحیت کوسکہ رائج الوقت کرنے کے لیے کیا کیا نہ کیا جارہا ہے۔ نام نہادجمہوریت کا ڈھنڈورا پیٹنے والے مفروضوں پر مبنی کہانیاں تخلیق کر کرکے اپنا اُلو سیدھا کررہے ہیں۔ جے این یو کا واقعہ ابھی ٹھنڈا بھی نہیں ہوا تھا کہ سرینگر کے معروف انجینئرنگ کالج این آئی ٹی پر نشانہ سادھا گیا۔ کہا جاتاہے کہ ۳۱مارچ کو کرکٹ میچ کے دوران اقلیت میں موجود مقامی طلبہ اور اکثریت والے غیر ریاستی طلباءکے درمیان بھارت کی ہار پر بحث و تکرار ہوئی۔ غیر ریاستی طلباءنے ادارے میں اپنی کثرت کا ناجائز فائدہ اُٹھاتے ہوئے مقامی طلبہ کی جانب سے میچ کے دوران بھارتی ٹیم کی ہار پر خوشی منانے کو بہانہ بنایا اور نہ صرف کالج احاطے میں افراتفری کا ماحول برپا کیابلکہ کالج پراپرٹی کو بھی شدید نقصان پہنچایا ۔غیر ریاستی طلبہ نے اشتعال انگیز نعرہ بازی کرنے کے علاوہ پوسٹل سروس سے وابستہ ایک کشمیری لڑکے کو پکڑ کر اُسے زبردستی”بھارت ماتا کی جے“ کا نعرہ بلند کرنے کے لیے کہا ، انکار کرنے پر اُس کی شدید پٹائی کی گئی۔اس کے نتیجے میں اُنہیں ہسپتال میں بھرتی کرنا پڑا۔ اتنا ہی نہیں غیر ریاستی طلباءنے کالج میں موجود مقامی ایڈمنسٹریشن سے وابستہ لوگوں پر بھی بے ہودہ الزام ترشیاں کیں۔ حالات مزید ابتر نہ ہوجائیں ، اس نیت سے این آئی ٹی ایڈمنسٹریشن نے ادارے کو بندکردینے کا اعلان کردیا ، لیکن غیر ریاستی طلباءنے ہر طرح کے اخلاقی حدود پار کرتے ہوئے کالج میں اشتعال انگیزنعرہ بازیاں جاری رکھیں ، جس کے نتیجے میں پولیس کو امن وقانون کی صورت حال پر قابو پانے کے لئے آ نا پڑا۔ اس پر دلی کی اکثر نیوز چینلوں نے آسمان سر پر اُٹھا لیااور ایک معمولی واقعے کو رائی کا پہاڑ بنادیا۔ ”دیش بھگتی“ کو ”خطرے“ میں پاکر وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے ریاستی حکومت کو نظر انداز کرتے ہوئے براہ راست ریاستی پولیس چیف سے رابطہ قائم کیا۔ ایچ آر ڈی منسٹری نے بھی عجلت میں ایک سہ نفری ٹیم ”ناراض “طلباءکو سننے کے لیے سرینگر روانہ کردی ۔ ٹیم نے ادارے میں ہی پنجایت قائم کرکے طلباءسے بالمشافہ بات چیت کی اور اُن کے مطالبات سن لیے ۔ غیر ریاستی طلباءو طالبات نے دلی ٹیم کے سامنے مطالبات کی ایک لمبی فہرست رکھ دی، جس میں ایک ناقابل فہم مطالبہ یہ بھی تھا کہ این آئی ٹی کو سرینگر سے منتقل کیا جائے۔ یوں ایک ڈرامہ رچایا گیا ، جس پر دلّی سے سرینگر تک خوب سیاست ہو تی رہی ۔ اس کے پیچھے مقاصد کیا ہیں، وہ آہستہ آہستہ آشکارا ہوجائیں گے بلکہ کئی ایک پرتیں ظاہر بھی ہوئیں ۔ اخباری اطلاعات کے مطابق غیر ریاستی طلباءمیں سے ایک اچھی خاصی تعداد ایسے طلب علموں کی ہے جو پڑھائی نہیں کرتے ، اُن سے مختلف پرچے پاس نہیں ہوپاتے ، ہر کلاس میں کوئی نہ کوئی سبجکٹ اُن کا فیل ہے۔ امتحانات کے نتائج کلیر کرنے کے لیے یہی کند ذہن لڑکے دیش بھکتی کے لبادے میںہلڑبازی کرکے ماحول کو پُر تناو ¿ بنارہے ہیں تاکہ اُن کے پاس ہونے کی کوئی راہ نکل آئے۔ این آئی ٹی کو باہر منتقل کرنے یا پھر اُنہیں دیگر ریاستوں کے اداروںمیں منتقل کرنے کی مانگ کے پیچھے یہی راز پوشیدہ ہے۔ اس پورے واقعے نے چند اہم سوالات کو جنم دیا ہے جن پر ہر ذی حس انسان کو لازمی سوچنا چاہئے اور این آئی ٹی واقعے سے جڑے جتنے بھی مقامی لوگ، ادارے اورافراد وابستہ رہے ہیں ،اُن کے لیے اپنے ضمیر کو جھنجھوڑنے کا یہ بہترین موقع ہے۔ ۹۶۰اءمیں ریجنل انجینئرنگ کالج(آر ای سی) کے نام سے یہ ادارہ قائم کیا گیا تھا۔یہ ہندوستان بھر میں قائم ہونے والے پہلے آٹھ انجینئرنگ کالجز میں شامل تھا۔آر ای سی پہلے کشمیر یونیورسٹی سے منسلک تھا۔ آر ای سی میں بھی غیر ریاستی طلباءکے ساتھ ساتھ بیرون ممالک جیسے فلسطین، افغانستان، لیبیا اور عراقی طالب علم انجینئرنگ کی پڑھائی کرنے کے لیے آتے تھے لیکن کالج میں تناسب مقامی طلباءکا زیادہ رہتا تھا۔ ۲۰۰۳ءمیں آر ای سی کوNIT میں تبدیل کردیا گیا اور ایک منصوبہ بند طریقے سے اس ادارے میں مقامی طلبہ کا تناسب کم کرنے کے لیے یہ طریقہ کار اختیار کرلیا گیا کہ اب اس میں ہر سال پچاس فیصد طلباءغیر ریاستی داخلہ پاتے ہیں۔ باقی پچاس فیصد کوٹا شاطرانہ طریقے سے کشمیر اور جموں میں تقسیم کردیا گیا۔ گویا وادی ¿ کشمیر کو صرف پچیس فیصد سیٹیں حاصل ہوجاتی ہیں۔ اُن میں سے بھی مختلف وجوہات کے بنا پر صرف دس سے پندرہ فیصد مقامی طلب علم داخلہ لیتے ہیں۔ اس طرح کشمیر کی سرزمین پر قائمNIT میں غیر ریاستی طلباءکی تعداد اِسی فیصد تک پہنچ چکی ہے جب کہ مقامی طلبہ کی تعداد دس سے پندرہ فیصد سے زیادہ نہیں ہے۔ایک سوچے سمجھے اور منصوبہ بند طریقے سے این آئی ٹی سرینگر کو کشمیر کے لیے سود مند نہیں رہنے دیا گیا۔ یہ ادارہ ہماری زمین پر قائم ہے، ہماری افرادی قوت اس میں استعمال ہورہی ہے، اس کے اخراجات پر ہمارے وسائل کا ایک اچھا خاصا حصہ صرف ہورہا ہے، بدلے میں ہمیں جو کچھ بھی ملتا ہے وہ اونٹ کے منہ میں زیرہ ڈالنے کے مترادف ہے۔ این آئی ٹی معاملے پر اس بار نشانے پر سنگ باز نہیں ہیں ، نہ ہی کسی عسکریت پسند کے نماز جنازہ میں شامل لوگوں کی بھیڑ ہے، کشمیرکاز کے لیے اپنے بے محابہ جذبات کا اظہار کرنے والے وہ نوجوان بھی نہیں ہیں جو مختلف مواقع پر سبز ہلالی پرچم لہراکر وردی پوشوں اور دلی میں قائم میڈیا اداروں کا منہ چڑاتے ہیں، نشانے پر مزاحمتی خیمے کے وہ لیڈران بھی نہیں ہیں جن کا ملک سے”غداری“ کرنے پر روز میڈیا ٹرائل ہوتا ہے بلکہ اس بار نشانے پر کشمیر پولیس ہے جو دن رات اغیار کو دوام بخشنے کے لیے یہاں کام کرتی ہے، جس کی گولیوں سے ۲۰۰۸ءاور ۲۰۱۰ءمیں سینکڑوں کم سن نوجوان اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ، جنہیں ”دیش بھگتی“ کا ایسا چسکا لگ چکا ہے کہ پیلٹ گن کے ذریعے سے تاحال سینکڑوں نوجوانوں کو زندگی بھر کے لیے اپاہچ بناگئے، جو سنگ بازی کے الزام میں نہ جانے کتنے پی ایس اے لگا چکے ہیں، جن کے ڈنڈوں نے نہ معصوم نوجوانوں کو بخشا ہے اور نہ ہی بزرگوں اور عورتوں کو، جنہوں نے کشمیری ملازمین ، اساتذہ اور سڑک ، پانی اور بجلی کے لیے احتجاج کرنے والوںپر بھی طاقت کا وہی اوچھاحربہ آزما لیا ہے جو وہ حق خود ارادیت کے لیے پُر امن احتجاجیوں پر آزماتے ہیں۔ کشمیر کی سڑکیں اور گلی کوچے سال ہا سال سے خاکی وردی کا قہر دیکھتے آئے ہیںلیکن اس بار وردی پوشوں کا نشانہ غلط لگا۔ بھلے ہی بیرون ریاست کے یہ طالب علم مجرم تھے، انہوں نے ایک عظیم دانش گاہ کا پورا نظام درہم برہم کررکھا تھا مگر اُن پر طاقت کے استعمال سے قابو کرنے کا مطلب گویایہ تھا کہ ایک معمولی چپراسی اپنے باس کے بیٹے پر ہاتھ اُٹھا لے۔ بھلے ہی میڈیا ان کی کیا بھی تصویر پیش کرے مگرجموں وکشمیر پولیس نے این آئی ٹی میں اپنے ڈنڈوں پر اہنسا کی مالش کردی تھی اس لئے مٹی کے مادھو بنی رہی کیونکہ اُن کا اصل ہدف کشمیری پیروجوان اور بچے وخواتین ہیں۔ جموں و کشمیر پولیس کو شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار بننے کا یہ صلہ ملا کہ دلی میڈیا اور فرقہ پرست طاقتوں نے اُنہیں بھی اُسی صف میں لاکھڑا کردیا ہے جس صف میں عام کشمیری پہلے ہی سے ہیں۔کشمیر پولیس کو ”جہادی پولیس“ تک کا خطاب دیا گیا۔جموں وکشمیر پولیس این آئی ٹی سے درجنوں گنا زیادہ طاقت کا استعمال وادی کے مختلف مقامات پر عام کشمیریوں کے خلاف کرتی ہے، اُس وقت کسی کو رونا کیوں نہیں آتا ؟ کوئی اس وحشت پر لب کشائی کرنے کے لیے تیار کیوں نہیں ہوتا ؟دلی کے نیوز چینلزخصوصی مباحثوں کا اہتمام کیوں نہیں کرتیں؟جموں وکشمیر پولیس اہل کار حقیقی معنوں میں ہمارے سماج کا حصہ ہیں، ہم میں سے ہیں لیکن حکومت کی عَلم بلند رکھنے کے وقت وہ یہ تک بھول جاتے ہیں کہ اُن کے بندوقوں کا دہانہ اُن کے اپنوں پر کھلتا ہے۔ اُن کی لاٹھیوں کی زد میں اُن کے اپنے لوگ ہیں۔ وہ اُن لوگوں کو دہشت زدہ کرتے ہیں جن کا کوئی قصور نہیں ہوتا بلکہ اپنے جائز مطالبات منوانے کے لیے سڑکوں پر آنے کے لیے مجبور کیے گئے ہیں۔ جموں وکشمیر پولیس نے کہا کہ اسے کسی سے سند لینے کی ضرورت نہیں مگر اس کے لیے پھر بھی یہ ایک لمحہ ¿ فکریہ ہے کہ جس طرح وقت کے انسپکٹر جنرل علی محمد وقت وٹالی کو اپنی اوقات یاد دلائی گئی اسی طرح آج بھی انہیں ٹیٹ کیا جاتاہے ۔ کوئی اُن سے اُن کے فرائض سے دستبردار ہونے کو نہیں کہتا ، وہ اپنی ڈیوٹی کریں لیکن ظلم و جبر اور اخلاق وقانون حدود کے اندر۔ این آئی ٹی کے معاملے میں ایک مرتبہ پھر ہندوستانی میڈیا نے جھوٹا پروپیگنڈا کرکے ثابت کردیا کہ وہ کشمیر کے حوالے سے بھارتی عوام کو گمراہ کرنے کے اپنے جھوٹ پھیلاو ¿ مشن پر قائم و دائم ہیں۔ ہندوستانی حکومت کی کشمیرپالیسیاں میڈیا کی رہین منت ہیں۔ کب پاکستان کے ساتھ مذاکرات ختم کرنے ہیں، یہ میڈیا طے کرتا ہے،نیوز چینلزمعمول کے واقعے کو بھی سنسنی خیز بنا کر ہندوستان بھر میں یہ تاثر پیدا کررہی ہے کہ جیسے کشمیر میں اُن کے شہریوں کی جان سنگین خطرات میں گری ہوئی ہے۔ ہمارے یہاں وادی کے کونے کونے میں لاکھوں غیر ریاستی محنت مزدوری کرتے ہیں۔ سال بھر ہر گاو ¿ ں میں بہار، اُترپردیش، پنجاب ، ہریانہ اور دیگر ریاستوں کے لوگ یہاں اپنی روزی روٹی کمانے کے لیے قیام پذیر رہتے ہیں۔ آج تک ایک بھی ایسا واقعہ رونما نہیں ہوا جس میں کسی غیر ریاستی شہری کو معمولی گزند پہنچی ہو۔ ابتر حالات میں بھی یہاں کے عوام نے گولیاں اپنے سینوں پر کھائی ہے، غیر ریاستی یاتریوں کے لیے پُر امن یاترا کو ممکن بنایا ، خود خالی پیٹ رہے لیکن سیلاب اور ہڑتال میں پھنسے سیاحوں، یاتریوں اور مزدوں کے لیے لنگر سجائے گئے، بلکہ سیلاب میںفوج اور نیم فوجی اہل کاروں تک کی انسانیت کے ناطے رکھشا کی ۔اس کے برعکس آج تک درجنوں کشمیریوں کی لاشیں دیگر ریاستوں سے موصول ہوئی ہیں جنہیں کشمیری ہونے کے جرم میں نامعلوم افراد نے ابدی نیند سلا دیا گیا۔ کل پرسوں ہی ایک جوان سال کشمیری شال باف کا پنجاب میں قتل ہو ا جس کا کسی مند ر میں کام تما م کرنے کا شبہ ظاہر کیا جااہاہے ۔ یہی این آئی ٹی کے طلباءو طالبات جب ۲۰۱۴ءکے بھیانک سیلاب میں یہاں پھنس چکے تھے تو لوگوں نے اُن کے لیے اپنے گھروں کے دروازے کھولے تھے، طالبات کو اپنی بیٹیوں کی طرح گھروں میں پناہ دی۔ یہاں بھارت کے خلاف بے شک نفرت پائی جاتی ہے لیکن کسی بھارتی طالب علم کی جاں ، مال اور عزت پر کبھی کسی نے ہاتھ نہیں ڈالا ہے۔ اس کے برعکس ہندوستان کی کون سی ریاست ایسی ہے جہاں کشمیری طلباءکو ہراساں نہیں کیا جارہا ہے۔ راجستھان، پنجاب، یوپی، دلی، مدھیہ پردیش سے گزشتہ کئی برسوں سے مسلسل یہ خبریں آرہی ہیں کہ کشمیری طلباءکو وہاں ہراساں کیا جاتا ہے۔ بے شک اغیار کی زنجیروں نے اس قوم میں بہت ساری برائیوں کو جنم دیا ہے لیکن اخلاقی حدود میں رہتے ہوئے دوسروں کی جان ، مال ، عزت اور آبرو جس قدر وادی ¿ کشمیر میں محفوظ ہے ۔ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں، ہندوستان کیا دنیا کے کسی اور خطے میں ایسا دیکھنے کو نہیں مل سکتا ہے۔کشمیریوں کے بارے میں میڈیا کا پروپیگنڈا آسمان پر تھوکنے کے برابر ہے۔ میڈیا کے اس طرز عمل سے بھلے ہی وقتی طور کشمیری قوم مشکلات سے دوچار ہوجائے لیکن مجموعی طور پر ہمارا کچھ بگڑنے والا نہیں ہے، البتہ اس طرح میڈیا ہندوستانی سماج کے اندر ایک ایسی آگ دہکا رہی ہے جو کبھی نہ کبھی بھڑک کر اپنے ہی ملک کو بھسم کرسکتی ہے۔ حالات کا جائزہ لینے کے لیے جو ٹیم ایچ آر ڈی منسٹری سے وادی وارد ہوئی ، اُن کے سامنے جوطلباءو طالبات نے اپنے ” مسائل “رکھے ہیں۔ بتایاجاتا ہے اُن میں طالبات کی جانب سے ایک مسئلہ یہ بھی پیش کیا گیا ہے کہ ہوسٹل میں مقامی ایڈمنسٹریشن کی جانب سے اُن کے آنے جانے پر قدغن ہے ۔ وہ رات دیر گئے ہوسٹل سے باہر نہیں رہ سکتی ہیں، وہ کھل کر اپنے دوستوں کے ساتھ میل جول نہیں بڑھا سکتی ہیں۔ ادارے کے حدود میں وہ ”آزادی سے موج مستی کر نہیںسکتی ہیں، جس طرح بیرون ریاست لڑکوں اور لڑکیوں کو میل جول بڑھانے کی آزادی رہتی ہے ۔ ظاہر سی بات ہے کشمیر میں ایسا ممکن نہیں کیونکہ یہ ایک مسلم ریاست ہے، یہاں اخلاقی بے راہ روی کا چلن ایسا نہیں ہے جس طرح دیگر ریاستوں میں دیکھنے کو مل رہی ہے۔ کیا اس سے یہ باور نہیں ہوتا کہ طلبہ وطالبات ایسے اباحیت پسند کلچر کوفروغ دینے کی مانگ نہیں کررہے ہیں جو خود ان کے بربادی کاپیغام ہے ۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ دباو ¿ میں آکر این آئی ٹی ایڈمنسٹریشن نے ہوسٹل میں آنے جانے پر عائد تمام پابندیاں ہٹانے کا آرڈر جاری کردیا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ غیر ریاستی طلبہ کو ہوسٹل میں اپنے” انداز “سے تہوار منانے کے لیے کسی سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ غیرریاستی طلبہ کی اکثر مانگیں تسلیم کرلی گئی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ این آئی ٹی کے حدود میں اب ڈسپلن قائم رکھنا ایڈمنسٹریشن کے حد اختیار میں نہیں ۔ بظاہر یہ مطالبات طلباءکو سہولیات فراہم کرنے کے نام پر تسلیم کرلیے جاتے ہیں لیکن اصل میں یہ ایک قسم کی تہذیبی جارحیت ہے۔دلی سے شائع ہونے والے ایک اخبار نے اپنی ایک رپورٹ میں اس بات کا بھی انکشاف کیا ہے کہ ایچ آر ڈی منسٹری پچاس کے قریب غیرریاستی عملے کو این آئی ٹی میں تعینات کردے گی۔ساتھ ہی ساتھ پوری ادارے میں سی آر پی ایف تعینات کردی جائے گی۔ گویا ریاست جموں وکشمیر کے ادارہ کو این ایچ پی سی کی طرح دلی کو سونپ دیا گیا ہے اور اس کا فائدہ بھی این ایچ پی سی کی طرح دیگر ریاستوں کو ہی حاصل ہوتا رہے گا۔ اس ساری ناگفتہ بہ صورت حال میں ریاست حکومت کا کردار کٹھ پتلی جیسا رہا ۔دلی سے آئے وفد کے علاوہ بی جے پی کے نرمل سنگھ نے کیمپس جاکے غیرریاستی طلباءکی سینہ زوی کے باوجود اُن کی بات سنی اور اُنہیں” مظلوم “قرار دیا ۔ آر ایس ایس حامی لوگ وادی وارد ہورہے ہیں۔ یاترائیں نکل رہی ہیں اور ہر طرح سے این آئی ٹی میں موجود غیر ریاستی طلباءکی ناجائز حرکت پر اُن کا شانہ تھپتھپایا جارہا ہے ۔اس کے برعکس کسی ریاستی وزیرنے اقلیت میں موجود کشمیری طلباءکی خبرگیری کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔یہ المیہ ہے اور پی ڈی پی کے لیے اس سے بڑھ کر شرمندگی کی اور کوئی بات نہیں ہوگی۔ آج تک یہ جماعت ہر مرحلے پر کشمیریوں کے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے میں بُری طرح ناکام ہوئی ہے۔ رابطہ:9797761908

Comments

Popular posts from this blog

لندن کی کشمیر کانفرنس۔۔۔ ایس احمد پیرزادہ

پبلک سیفٹی ایکٹ اور نیشنل کانفرنس....ایس احمد پیرزادہ