کشمیر۔۔۔آبادیاتی ساخت داو پر!(ایس احمد پیرزادہ)


کشمیر۔۔۔آبادیاتی ساخت داو پر!
پرَ برُیدہ ایک پنچھی کے شکاری ہیں ہزار

بھارتی ہوم منسٹر راج ناتھ سنگھ نے حال ہی میں لوگ سبھا کے اجلاس میںایک سوال کے جواب میں کہا کہ گورنمنٹ آف انڈیا نے جموں وکشمیر حکومت سے وادی میں پنڈتوں کے لیے مخصوص کالونیاں تعمیر کرنے کے خاطر زمین کی نشاندہی کرنے کوکہہ دیا ہے۔ایک اور تحریری سوال کے جواب میں وزیر مملکت برائے داخلہ امور نے کہاکہ:” ریاستی حکومت کی جانب سے اراضی کی نشاندہی کے بعداس تعمیراتی منصوبے کو پائیہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے مزید کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔“بھارتی حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق حکومت2000 6 ہزار کشمیری پنڈت خاندان اس وقت تارک الوطن ہیں اور اُن تمام کے لیے وادی میں الگ بستیاں اور قصبے قائم کیے جائیں گے۔ابتدائی مرحلے میں6000 گھر تعمیر کرنے کا منصوبہ ہے۔ دلی سرکار اس منصوبے کے لیے پہلے ہی گزشتہ برس2000 کروڑروپے منظور کرچکی ہے اور عام بھرتیوں کے علاوہ کشمیری پنڈتوں کے لیے سرکاری نوکریوں میں3000 نوکریوں کا اعلان کرچکی ہے۔اسی طرز کا ایک اور منصوبہ اُس وقت تشت از بام ہوا جب دلی سے شائع ”انڈین ایکسپرس“نے اپنی ایک رپورٹ میں اس بات کو منظر عام پر لایا کہ وادی باالخصوص سرینگر کے آس پاس دلی سرکارسابق فوجیوں کو بسانے کا نہ صرف منصوبہ رکھتی ہے بلکہ اس حوالے سے ابتدائی کاغذی کام بھی پایہ ¿ تکمیل کو پہنچ چکا ہے۔یہ خبر سابق وزیر اعلیٰ مفتی محمد سعید کے دور میں بھی گزشتہ برس منظر عام پر آئی تھی ، ایک مقامی اخبار نے اُس وقت اپنی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ ہمہامہ کے قریب فوجی کالونی کے لیے زمین کی نشاندہی کی جاچکی ہے۔ عوامی سطح پر شدید دباو ¿ کے بعد اُس وقت کی حکومت نے ایسے کسی بھی منصوبہ سے لاتعلقی کا اظہار کرکے اس طرح کی خبروں کو بے بنیاد قرار دیا تھا، حالانکہ ۸مئی ۲۰۱۵ءکو بی جے پی ایم پی ترون وجے نے راجیہ سبھا اجلاس کے دوران حکومت سے مطالبہ کیا تھاکہ وادی ¿ کشمیر میںفوجیوں کے لیے کالونیاں تعمیرکی جانی چاہیے۔اس مطالبے کے دو ماہ بعد ہندوستانی وزیر دفاع منوہر پاریکر نے کہا کہ یہ معاملہ ریاستی سرکار کو بھیج دیا گیا۔اب تازہ رپورٹ میں”انڈین ایکسپرس“نے ۶مئی ۲۰۱۶ءکو اپنے آن لائن ایڈیشن میں اُس سرکاری حکم نامے کی کاپی کو بھی منسلک کردیا ہے جس میں سرکاری آفسران سے مجوزہ فوجی کالونی کے لیے زمین کی نشاندہی کرنے کا حکم صادر فرمایاگیا ہے۔ یہ آرڈر گورنر راج کے دوران اپریل ۰۱۵ ۲ ء”راجیہ سینک بورڈ“ جس کی صدار ت گورنر این این ووہرا کررہے ہیں ،کی میٹنگ میں پاس کیا گیا۔ حکم نامہ زیر نمبر1332-Colony/Sgr/ DSW/2015/5308-10 بتاریخ ۱۰اپریل ۲۰۱۶ءمیں ضلع بڈگام میں ایک فوجی کالونی بسانے کے منصوبے کو منظوری دی گئی اور متعلقہ سرکاری ذمہ داروں کو اس منصوبے کے لیے جلد از جلد اراضی کی نشاندہی کرنے کےلئے کہا گیا۔حکم نامہ کے ساتھ منسلک ایک نوٹ میں ہوم ڈیپارٹمنٹ سے ”راجیہ سینک بورڈ“(RSB) نے کہا ہے کہ کالونی کے لیے پہلے ہی173 کنال زمین کی نشاندہی کی گئی ہے اور جس کے لیے سابق وزیر اعلیٰ مفتی محمد سعید نے باضابطہ طور پر منظوری بھی دی ہوئی ہے اور اب سرینگر اور بڈگام ضلع کے ڈپٹی کمشنروں سے کہا گیا کہ وہ مجوزہ منصوبے کے لیے پہلے سے منظور شدہ زمین کی از سرنو نشاندہی کریں۔اخبار کے مطابق اب محبوبہ مفتی حکومت نے متعلقہ ضلعی کمشنروں سے اس سلسلے میں جلد از جلد جواب پیش کرنے کا حکم صادر فرمادیا ہے۔”۱نڈین ایکسپرس“ کی اس نیوز رپورٹ کے مطابقRSB نے اپنے ایک اور خط میں ۳اگست۲۰۱۵ءکو ریاستی ہوم ڈیپارٹمنٹ کو لکھا کہ اُنہیں 173 کنال کے بجائے350 کنال اراضی کی ضرورت ہے کیونکہ مجوزہ کالونی میں رہائش اختیار کرنے والے درخواست دہندہ فوجیوں کی تعداد بڑھتی ہی جارہی ہے۔کالونی میں رہائش اختیار کرنے والے درخواست دہندگان میں26 اعلیٰ فوجی آفیسر،125 جے سی اوزاور 900 دیگر فوجی اہل کار شامل ہیں، جو اپنے اہل و عیال کے ساتھ یہاں رہائش اختیار کرنے کے خواہش مند ہیں۔ 
ہندوستان بھر میں جاری ایک اور اسکیم کے تحت اُن لوگوں کو گھر فراہم کیے جانے کا منصوبہ ہے جو بس اسٹینڈوں ، ریلوے اسٹیشنوں ، سڑکوں اور پلوں کے اردگرد جگی جھونپڑیوں میںیا کھلے آسمان تلے رہتے ہیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ دنیا کی ترقی کے ساتھ کندھے سے کندھا ملانے کا دعویٰ کرنے والے ملک بھارت کی حالت یہ ہے کہ یہاںلاکھوں لوگوں کے سر پر چھت میسر نہیں ہے اور وہ کسمپرسی کی حالت میں موسمی سرد و گرم کے بے رحم تھپڑوں کے سایوں جینے پر مجبور ہیں۔ دفاعی بجٹ تو ترقی یافتہ ممالک سے کئی گنا زیادہ ہوتا ہے لیکن اپنے ہی عوام کو بنیادی سہولیات میسر کرنے میں آج کے دورمیں بھی ہندوستان دہائیاں پیچھے ہے۔ یہ اسکیم ہندوستان کی ساری ریاستوں میں لاگو کی جاسکتی ہے البتہ متنازعہ ریاست جموں وکشمیر کے لیے یہ اسکیم نہیں ہونی چاہیے۔ ایک تو یہ خطہ متنازعہ ہے اور دوسری اس اسکیم کو یہاں لاگوکرنا اس اعتبار سے فضول ہے کیونکہ ریاست جموں وکشمیر میں ایک بھی مثال ایسی نہیں ہے کہ یہاں کسی خاندان کے سر پر چھت میسر نہ ہو۔ جگی جھوپیڑیوں میں یہاں غیرریاستی لوگ رہتے ہیں۔ سیاسی و عوامی حلقوں میں یہاں یہ بات زور پکڑ رہی ہے کہ ریاست جموں وکشمیر میں اس اسکیم کو لاگو کرنے کے پیچھے سیاسی مقاصد کارفرما ہیں۔ بے گھر افراد کو گھر فراہم کرنے کے نام پر یہاں غیر ریاستی باشندوں کو بسانے کی سازشیں ہورہی ہیں۔ واضح رہے یہاں اس اسکیم کے تحت ضلع جموں اور ضلع کپواڑہ میں رہائشی ڈھانچے تعمیر کیے جائیں گے۔ 
جموں وکشمیر کا خطہ ہر دور میں اندرونی و بیرونی سازشی عناصر کے نشانے پر رہا ہے۔ سیاسی و جنگی مقاصد کے لیے یہاں کی سرزمین پر قابض ہونے کا معاملہ ہو یا پھر قدرتی وسائل سے مالا مال اس خطہ کو دو دو ہاتھوں سے لوٹ لینے کی بات ہو، سیر سپاٹے کے لیے اس خطہ کی خوبصورتی کے پیش نظر یہاں اپنے لیے ٹھکانے قائم کرنی کی بات ہو یا پھر یہاں کے کوہساروں، آبشاروں اور سبزہ زاروں سے پھوٹنے والی ٹھنڈی ٹھنڈی ہواو ¿ں کو اپنی جاگیر بنانے کا مسئلہ ہو، بیرونی طاقتوں نے ہر ہمیشہ یہاں کے اصل باشندوں کے مالکانہ حقوق غصب کرنے کے علاوہ اُن کی آواز کو جبراً دبا کررکھا ہے۔ ریاستی عوام بالخصوص اکثریتی طبقے کے مجموعی مفادات پر شب خون مارنے کا سلسلہ اگرچہ دہائیوں سے چلا آرہا ہے لیکن اس حوالے سے گزشتہ پچیس برسوں سے خصوصی توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ریاستی عوام نے اپنے حقوق کی بازیابی کے لیے عملی جدوجہد کی راہ اختیار کرلی ہے۔ ریاستی عوام کی اس جدوجہد کو سبوتاژ کرنے کے لیے گزشتہ پونے تین دہائیوں سے طرح طرح کے ہتھکنڈے اختیار کرلیے گئے۔ قبرستانوں کے قبرستان آباد کیے گئے، جیل اور تعذیب خانوں کے دروازے وا کیے گئے اور ہزاروں کی تعداد میں ہر عمر کے لوگوں کو شدید جسمانی تشدد کا شکار بنایا گیا اور برسوں جیلوں کے اندر بند رکھا گیا۔ اتنا ہی نہیں دس ہزار سے زائد افراد کو گرفتار کرکے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے لاپتہ کردیا گیا، یہاں اب دور دراز علاقوں میں گمنام قبریں بھی دُہائیاں دینے لگی کہ اُن کے اندرموجود لاشیں کسی غیر کی نہیں بلکہ اُن لوگوں کی ہے جو اپنے گھروں سے اُٹھالیے گئے اور پھر واپس لوٹ کر نہیں آئے۔ یتیموں اور بیواو ¿ں کی اَن گنت تعداد ہمارے سماج کے سنگین مسائل کا اہم جز ہے۔شہر و دیہات جسمانی طور ناکارہ بن جانے والے اُن لوگوں کی تعداد بھی کم نہیں ہے جنہیں ویرسیناو ¿ںنے اپنا شکار بنالیا ہے۔املاک کا کتنا نقصان ہوا اس کا کوئی صحیح اندازہ نہیں لگا سکتا ہے۔ جان بوجھ کر یہاں اعلیٰ ذہانت کے افراد کو چن چن کا نشانہ بناکر اس قوم کو سوچنے والے دماغوں سے محروم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس سب سے بھی جب مطلوبہ نتائج برآمد نہیں ہوئے تو یہاں کی اکثریتی آبادی کا توازن بگاڑنے کے لیے حکمت عملیاں ترتیب دی گئیں۔پندرہ دن جاری رہنے والی امرناتھ یاترہ کا وقفہ دو مہینوں تک بڑھا لیا گیا ، چند سو یاتریوں کی تعداد لاکھوں تک پہنچائی گئی ، دس لاکھ فوج او ر نیم فوجی اہل کاروں کی موجودگی سے یہاں پہلے ہی نفسیاتی ،سماجی اور اخلاقی بیماریوں نے جنم لیا ہے۔ این ایچ پی سی ، ایسٹ انڈیا کمپنی کے طرز پر یہاں اپنے پنجے گاڑ چکا ہے،غیر ریاستی مزدور لاکھوں کی تعداد میں سال بھر ریاست کے کونے کونے میں موجود رہتے ہیں۔یہ سب یہاں کی آبادی کا توازن بگاڑنے کا سبب بنتا رہا ہے اور یہاں کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی جانب دلی کے بڑھتے ہوئے قدم روکے نہیں جا رہے۔جس طرح اسرائیل نے فلسطین پر قابض ہونے کے لیے مسلمانوں کے علاقوں میں دنیا بھر سے یہودیوں کو لا لاکر آباد کیا ہے اور فلسطینی مسلمانوں کی آبادی کے توازن کو بگاڑ کر اُن کی طاقت کو کم کردیا ہے وہی طرز عمل دلّی کے حکمران کشمیر میں اختیار کیے جارہے ہیں۔اسرائیل سے بھارت کو فوجی تعاون مضبوط سے مضبوط تر ہوتا جارہا ہے اور اُن کے آزمودہ حربوں سے بھارتی پالیسی ساز بھر پور فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔ فوجی کالونیوں یہاں پہلے سے ہی موجود ہیں۔ جگہ جگہ بڑے بڑے فوجی کیمپوں کے ساتھ رہائشی کالونیاں قائم ہیں جہاں فوجی اہل کاروں کے افراد خانہ رہائش پذیر ہیں۔ اب کیمپوں سے باہر سول آبادیوں میں بھی یہ کالونیاں قائم کی جارہی ہیں۔ پنڈتوں کے لیے الگ کالونیوں میں کون لوگ آباد ہوں گے اس حوالے سے آثار و قرائن سے واضح اشارے مل رہے ہیں۔ دو دہائیاں قبل ریاست چھوڑ جانے والی پنڈت برادری نے یہاں اپنی تمام جائیداد یں فروخت کردیں، بیرون ریاست اس طبقے کو بے تحاشا سرکاری مراعات حاصل ہیں۔ اُن کی نئی نسلیں وہاں کی ہوکر رہ گئی ہیں۔ اگر وہ پھر اپنے وطن میں از سرنو سکونت اختیار کرنا چاہیے تو دل روشن چشم ماشاد مگر حق یہ ہے کہ زیادہ تر پنڈت یہاں دوبارہ آباد ہوناپسند نہیں کرتے تو پھر پنڈتوں کے نام پر یہاں کون لوگ بسائے جائیں گے ؟۔ ڈیموگرافی تبدیل کرنے کے لیے فرقہ پرست ذہنیت کے حامل لوگ اور سابق فوجیوں کو آباد کیے جانے کی تیاریاں اپنے عروج پر ہیں۔المیہ یہ ہے کہ ہمیشہ کشمیریت کی بات کرنے والی ہند نواز جماعت پی ڈی پی ، دلی کے خاکوں میں رنگ بھرنے میں این سی کی طرح معاون و مددگار بن رہی ہے۔کرسی کی ہوس اور اقتدار کے لالچ نے ہند نواز سیاست دانوں کو اس قدر اندھا بنادیا ہے کہ وہ اکثریت کو اقلیت بنانے کے منصوبوں کی عمل آوری میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے او رجس دن کشمیری سماج کے بیچوں بیچ مخصوص کالونیوں کی دیواریں کھڑی کردی جائیں گی اُس دن ہماری حیثیت پنجرے میں بند اُن بے بس پرندوں کے جیسے ہوگی جو چاہتے ہوئے بھی آسمان کی وسعتوں میں پرواز نہیں کرسکتے ۔
ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ ایک جانب حکومت ہند ہمارے یہاں ڈیموگرافی تبدیل کرنے کے اپنے منصوبوںکو آخری شکل دے رہی ہے اور دوسری جانب کشمیری عوام اور یہاں کے مزاحمتی قیادت دوسرے غیر ضروری مباحثوں میں الجھی ہوئی ہے۔ ہندوستان پاکستان کے ساتھ مذاکرات کرے یا نہ کرے، کون کس کا جانشین ہوگا ،ان غیر ضروری مباحث پر بیان بازیوں سے زیادہ ضروری یہ تھا کہ کشمیر میں اسرائیلی طرز کے منصوبوں کے خلاف عوام میں بیداری لائی جاتی۔حریت لیڈران کو یہ معاملہ نہایت ہی سنجیدگی سے لینا چاہیے مگر المیہ یہ ہے کہ قائدین حضرات ردعملی بیانات سے آگے ایک قدم اُٹھانے کے موڑ میں نہیں۔ان زہرناک منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے والے ضمیر فروش لوگوں کی حوصلہ شکنی کرلینی چاہیے کیونکہ ووٹ بٹورنے والے یہ لوگ ہیں جو کشمیرکی اکثریتی آبادی کے خلاف ہورہی تمام سازشوں میں برابر کے ساجھے دار ہیں چاہیے زبانی کلامی یہ اپنی خیرخواہی کا جھوٹا تاثردیتے رہیں۔ بہر کیف کشمیری پنڈت ہمارے سماج کا حصہ ہیں ، کشمیری مسلمانوں نے ہر دور میں اُن کے ساتھ وفاراریاں نبھائی ہیں لیکن انہوں نے بدلے میں کیا دیا وہ پنڈوار بکس نہ کھولنا ہی بہتر ہے۔ اُن کے نام پر بی جے پی کشمیر میں اپنا سیاسی محل تعمیر کرنا چاہتی ہے اور اُنہیں کشمیری اکثریتی طبقے کے سامنے لاکھڑا کرکے مسلمانوں کومزید مسلا کچلا جارہا ہے۔بہر صورت مسلمانا نِ کشمیر کو ان تمام گھناو ¿نی سازشوں کے تئیں ہوشیارو بیدار رہنا چاہیے اور ہر اُس اقدام کو ناکام بنانا چاہیے جو ہمارے سینوںمیں کیل ٹھوکنے کے مترادف ہو۔
رابطہ:9797761908

Comments

Popular posts from this blog

لندن کی کشمیر کانفرنس۔۔۔ ایس احمد پیرزادہ

پبلک سیفٹی ایکٹ اور نیشنل کانفرنس....ایس احمد پیرزادہ