دوست نما دشمن!

یہ صلہ ملا ہے مجھ کو تیری دوستی کے پیچھے

کسی مغربی فلاسفر کا قول ہے کہ ”اپنے دشمن کو تباہ و برباد کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اُس کو اپنا دوست بناو ¿“۔آج کے زمانے میںدنیا بھرکی عالمی طاقتوں اور نام نہاد جمہوری ممالک نے یہی طرز عمل اختیار کررکھا ہے۔ تاریخ گواہ ہے امریکہ بہادر نے جس کسی بھی ملک سے دشمنی نبھائی ، پہلے پہل وہ دشمن بن کر نہیں بلکہ دوستی کافریب دے کر اُس ملک کی تباہ وبربادی کے لیے راستہ بناتا رہا۔ عراق اور پاکستان امریکہ کے اس طرز عمل کی بہترین مثالیں ہیں۔ عراق کے سابق مصلوب صدر صدام حسین کے ساتھ پہلے یارانہ قائم کیاگیا پھر خفیہ طریقے سے اُن کو کویت پر حملہ کرنے پر اُکسایا گیااور جب صدام نے حملہ کردیا تو پھر دو درجن ممالک کو اپنے ساتھ ملاکر علم و ادب گہوارے اور بے پناہ قدرتی تیل اورعسکری قوت کے حامل ملک عراق کو پتھر کے زمانے میں پہنچادیاگیا۔ مملکت خداداد پاکستان کے ساتھ امریکہ ہر ہمیشہ دوستی کا ہی راگ الاپتا رہا، لیکن پاکستان جن مشکلات اور مصائب کا اس وقت شکار ہے، اُس کی بنیادی وجہ امریکہ کے ساتھ پاکستان کی غیر مساویانہ ”دوستی“ ہے۔اگر افغانستان پر حملے کے وقت سابق پاکستانی صدر پرویز مشرف امریکہ کا ساتھ نہیں دیتے تو شاید پاکستان میں تحریک طالبان کے نام پر دہشت گردی کا بازار گرم نہیں ہوتا، شاید مسجدوں، خانقاہوں، اسکولوں اور بازاروں میں خودکش دھماکوں کے ذریعے سے انسانی اعضاءکے چتھڑے ہوا میںنہ اُڑتے۔ ”دوستی“کے روپ میں دشمنیاں نبھانے کا طرز عمل موجودہ دنیا کی سیاست کا اسٹنڈارڈ وتیرہ بن چکا ہے۔ آج کی دنیا میں مملکتوں کے سربراہ ایک دوسرے کے ساتھ گلے بھی ملتے ہیں ، مہمان و میزبان بھی بنتے ہیں ، مشترکہ پریس کانفرنسیں بھی ہوتی ہیں اور اعلامیے بھی جاری ہوتے ہیں لیکن میڈیا کی نظروں سے دور ایجنسی سطح پر ایک دوسرے کی دشمنی میں گھناو ¿نی حرکات کا ارتکاب بھی ہوتا رہتا ہے۔آج کے دور میں جو ممالک اپنے آپ کو ترقی یافتہ کہتے ہیں اور مہذب دنیا کے نام سے اپنے آپ کو کہلانا پسند کرتے ہیں، اُن کی ترقی اور تہذیب کی اصل حقیقت یہی ہے۔سچائی، حقیقت پسندی اور اصولوں پر مبنی تعلقات مغربی طاقتوں کے نزدیک دقیانوسی قصہ کہانیاں تصور کی جاتی ہیںبلکہ مائنڈ گیم کے ذریعے سے ایک دوسرے پر برتری پانے کا رواج عام ہے۔
فریب، دغا اور دوستی کی آڑ میں دشمنیاں بین الاقوامی سطح پر ہی نہیں بلکہ مقامی طور پر بھی آزمودہ نسخے تصور کیے جاتے ہیں۔ ریاست جموں وکشمیر تقسیم ہند کے وقت چالیس کی دہائی سے ہی متنازعہ حیثیت ہونے کی وجہ سے سازشوں ، فریب اور دغابازیوں کا مرکز رہا ہے۔ یہاں کے عوام امن پسند، لڑائی جھگڑے سے دور رہنے والے تصور کیے جاتے ہیں لیکن اپنے سیاسی حقوق کی بازیابی کے لیے انہی عوام نے نہتے ہوکر بھی بالادست قوت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ہر ہمیشہ بات کی اور ہزار ہتھکنڈوں کے باوجود اپنی جدوجہد سے دستبردار ہونے کے لیے آمادہ نہیں ہوئے۔ بھارت بظاہر ایک اُبھرتی فوجی طاقت ہے، زمینی و انسانی وسائل کو فروانی کی وجہ سے عالمی طاقتوں کا جھکاو ¿ بھی برصغیر میںاسی ملک کی جانب ہے کیونکہ یہ اس کے لئے ایک وسیع کاروباری منڈی ہے۔ اس لیے بھارت کے ہاتھوں کشمیر میں ہورہی جبر و زیادتیوں پر امر یکا سمیت خود غرض دنیا کوآنکھیں موند لینے میں ہی اپنی مصلحت وعافیت نظر آتی ہے۔ غیر مسلم اقوام کا گلہ ہی نہیں ہے مسلم دنیا بھی ملی مفادات پر ملکی مفادات کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔ مسئلہ فلسطین جن مسلم ممالک کے لیے کبھی وقار کا مسئلہ ہواکرتا تھا اورجنہوں نے مل کر کبھی غاصب اسرائیل کے خلاف جنگ بھی لڑی تھی، وہیں مسلم ممالک آج کے دور میں فلسطینیوں کی جدوجہد کی کمر توڑنے کے لیے خفیہ طور پر اسرائیل کو بلواسطہ مالی مدد فراہم کررہے ہیں۔ کہنے کو اپریل کے مہینے میں ترکی کے شہر استنبول میں تیرہویں اسلامی ممالک کی سربراہ کانفرنس کے اختتام پر۲۱۸نکات پر مشتمل اعلامیے میں کشمیر کو متنازعہ قرار دے کر ہندوستان اور پاکستان سے اپیل کی گئی کہ وہ مسئلہ کشمیر کو کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق حل کریںاور حق خود ارادیت کے لیے کشمیریوں کی جدوجہد کی حمایت بھی کی گئی۔کشمیر میں فورسز اہلکاروں کی جانب سے ہورہی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تشویش کا اظہار بھی کیا گیا، لیکن عملی صورت حال کا جب جائزہ لیتے ہیں تو پھر سوائے پاکستان کے مسلم ممالک کے یہ سارے حکمران اپنی ملکی مفادات کی خاطر بھارت سے روابط بڑھانے کے وقت کشمیر کو یکسر بھول جاتے ہیں۔ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب جیسے ممالک جب بھارتی وزیر اعظم نریندرمودی کا خوب آوبھگت کریں گے اور اُن کے دورے کے دوران کہیں پر بھی ریاست جموں وکشمیر میں ہورہی ظلم وزیادتیوں پر ایک لفظ بھی نہ بولا جائے بلکہ شاہ سلمان مودی کو ملک کا سب سے بڑا سول اعزاز دیں اور امارات میں مند ر کی تعمیر کے لئے لینڈ الاٹ کریں تو پھر اسلامی ممالک کی سربراہ کانفرنس کے اعلامیے میں کشمیر کے حوالے سے اختیار کیے گئے مو ¿قف کی کیا وقعت رہ جاتی ہے؟کہنے کا مطلب یہ ہے کہ بھارت کے ساتھ تجارتی روابط بڑھانے کی خاطر مسلم وغیر مسلم دنیاکشمیر اور کشمیریوں کی جدوجہد کو مکمل طور پر نظر انداز کررہے ہیں اور ایسی صورت حال میں دلی کو کھلم کھلا آزادی حاصل ہوجاتی ہے کہ وہ جو چاہیں کشمیر کے حوالے سے پالیسی اختیار کرسکتے ہیں۔
مسئلہ کشمیر کے حوالے سے اگر چہ بھارت پر بیرونی دنیا کا دباو ¿ نہ ہونے کے برابر ہے لیکن اندرون خانہ کشمیری عوام کا اپنے مو ¿قف پر چٹان کی طرح قائم رہنا، طاقت کے بے جا استعمال کے باوجود اُن کے عزائم میں کمزوری نہ آنا دلی اور اُن کے پالیسی سا ز اداروں کو پریشانی میں مبتلا کررہا ہے۔ اس لیے بہت ساری حکمت عملیوں میں ایک حکمت عملی یہ بھی اپنائی جارہی ہے کہ مزاحمتی خیمے سے تعلق رکھنے والے مختلف اسٹیک ہولڈرس کے ساتھ ”دوستیاںاور راہ ورسم“ بڑھائے جاتے ہیں اور اس طرح” دوست“ بن کر پہلے اُن کی کمزوریوں کو پہچانا جاتاہے اور پھر صحیح وقت اور صحیح جگہ پر وار کرکے اُن کو نگل دیا جاتا ہے۔ یہ ایک کھلا راز ہے ۔ نیز یہ حکمت عملی کوئی نئی نہیں ہے بلکہ مسئلہ کشمیر کے وجود میں آنے کے فوراً بعد سے اس طرح کی پالیسیاں اپنائی جارہی ہیں ۔ پنڈٹ جوہر لعل نہرو اور شیخ محمد عبداللہ کے ”دوستانہ “ تعلقات کو کون نہیں جانتا ۔ دونوں دو جسم ایک جان سمجھے جاتے تھے۔ اُن کی ذاتی دوستی دونوں خاندانوں کو اتنی قریب لے آئی ہے کہ سورہ الرحمٰن کی تلاوت سے کشمیری عوام کو لبھانے والے شیخ محمد عبداللہ کے خاندان نے بعد میں شادی بیاہ وغیرہ کے معاملات میں مذہبی بندشوں کو بھی تیاگ دیا ۔مسئلہ کشمیر کو کمزور کرنے کے لیے پنڈت نہرو نے شیخ محمد عبداللہ سے کیا کیا نہ کروایا ۔”دوستی “سے جتنا کچھ حاصل کرسکے وہ کیا، پھر جب لگا کہ شیخ محمد عبداللہ سے سیدھی اُنگلی سے مزید مفادات کی گھی نہیں نکالی جاسکے گی تو بیک جنبش قلم اُنہیں جیل کی کال کوٹھریوں میں ٹھونک دیا، یہاں تک کہ جب وہ پوری طرح سے ”سدھر“گئے تو محاذ کو سہ طلاق دے کر محض سات سالہ کرسی کے عوض ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کشمیریوں کے مفادات کا سودا کرگئے۔جس ”دوستی“ کے سراغ سے ایک مرتبہ کشمیریوں کی قیادت کو ڈس لیا گیا ، عقل مندی یہ ہے کہ قیامت تک آنے والی کشمیریوں کی دوسری نسلیں اُسی سراغ سے دوبارہ نہیں ڈسی جانی چاہیے مگر ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم دوبارہ ہی نہیں بلکہ بار بار ایک ہی سراغ سے ڈسے جارہے ہیں۔مزاحمتی قیادت میں جتنے بھی لوگ شامل ہیں ، پوری قوم جانتی ہے کہ اُن میں بعض کے نامہ ¿ اعمال میں قربانیوں کا ایک بیش بہا خزانہ ہے۔ اُنہیں قیادت کے منصب پراُن کی ذاتی قربانیوں نے پہنچایا ہے۔یہ وہ لوگ ہیں جو کشمیر کی تاریخ سے بخوبی واقف ہیں، جو دلی کے دام ہم رنگِ زمین کو خوب پہچانتے ہیں۔ کم از کم اِن لوگوں کو تاریخ سے سبق حاصل ہوجانا چاہیے مگر اس تلخ حقیقت کو ہمیں تسلیم کرہی لینا چاہیے کہ بھارت سرکار یہاں تک کامیاب ہوگئی ہے کہ اُنہوں نے پورے مزاحمتی خیمے کو ہی لوگوں کی نظروں میں مشکوک بناڈالا۔گزشتہ سال سابق را چیف اے ایس دُلت کی کتاب Kashmir: The Vajpayee Years میں مختلف لیڈروں کے ساتھ اُس نے اپنے تعلقات کی بات کرکے سیاسی گلیاروں میں پنا مہ لیکس جیسا دھماکہ کردیا جس سے کشمیر اُمور کے ساتھ دلچسپی رکھنے والا ہر فرد دہل اُٹھاتھا۔ اگر چہ مختلف وجوہات کی بنیاد پر کشمیری عوام نے اُن انکشافات پر بظاہر خاموشی ہی اختیار کرلی لیکن قیادت کے تئیں لوگوں کے دلوں میں شکوک و شبہات نے ضرور جنم لیا ۔ تحریک حق خود ارادیت کی جدوجہد کرنے والی عوام کی قیادت کو اس بات کا اختیار ہے کہ وہ کسی سے بھی بات چیت کرسکتے ہیں، کسی سے بھی مل سکتے ہیں، وہ اپنے آپ کو محدود کرکے نہیں رکھ سکتے بلکہ اپنے عوام کی بات ہر فرد اور فریق مخالف کے متعلقہ ذمہ داروں تک پہنچاسکتے ہیں لیکن یہ تمام ملاقاتیں پردے کے پیچھے نہیں بلکہ عوام کی نظروں کے سامنے ہونی چاہیے۔ عام لوگ جو اس تحریک کے لیے اپنا سب کچھ داو ¿ پر لگا رہے ہیں اور جن کی قربانیوں کی وجہ سے ہی مزاحمتی لیڈران کو نمائندگی کا منڈیٹ حاصل ہوا ہے، وہ اپنی قیادت کے ہر فیصلے اور ہر تعلق سے واقف ہونے چاہیے۔ کیا ہی بہتر ہوتا کہ بجائے اس کے سابق را چیف آزادی پسند قیادت کے ساتھ اپنے خفیہ تعلقات کو منظر عام پر لانے کے لیے کتاب لکھتے ، اس سے قبل ہی لیڈران کرام نے از خود ہی اصل حقیقت سے اپنے عوام کو آگاہ کردیا ہوتا۔مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے لیے بات چیت ہوتی یا اپنے نقطہ نظر کو پیش کرنے کے لیے ملاقاتیں ہوتیںتو کوئی المیہ والی بات نہیں ہوتی لیکن جب وزارت ِاعلیٰ کی کرسی پر براجمان ہونے کے لیے ابتدائی شرائط آئی بی اور را چیف کے ساتھ طے کرنے والی باتیںتک ہوئی ہوں تو لوگوں میں بدگمانی پیدا ہونا لازمی امر ہے۔ 
آئے روز ریاست جموں وکشمیرکے دورے پر دلی کی شہ پر مختلف وفود آتے ہیں، جو یہاں کی آزادی پسند خیمے سے وابستہ لیڈران کے ساتھ ملاقاتیں کرتے رہتے ہیں، اُن کے ساتھ تعلقات استوار کرتے ہیں، اُنہیں دلی میں منعقد ہونے والی مختلف تقاریب میں مدعو بھی کرتے ہیں۔ مزاحمتی لیڈران کا ایسے لوگوں کے ساتھ ملاقاتیں کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اُن کی دعوت پر تقریبات میں شرکت کرنے میں بھی کوئی قباحت نہیں ہے۔ البتہ بات دوٹوک اور واضح ہونی چاہیے۔اخبارات میں ان ملاقاتوں کی پوری تفصیل عوام کے سامنے آنی چاہیے تاکہ کل کو کوئی یہ نہ کہے کہ فلاںموقع پر اُس نے فلاں کشمیری لیڈر کو شیشہ میں اُتار لیا تھا۔ دلی سے آنے والے یہ سرکاری و غیر سرکاری لوگ” دوست“ بن کرآتے ہیں، ہمدردی جتلاتے ہیں اور کبھی کبھی اپنے بیانات میں ایک آدھ بات کشمیری قوم کے حق میں بھی کرتے ہیں۔ یہ لوگ ہمارے قائدین کا قد کاٹھ بڑھانے کے لیے اخبارات کے کالم میں اُن کی تعریف میں بھی رطب اللسان ہوجاتے ہیں لیکن مقاصد اُن کے عزائم کچھ اور ہی ہوتے ہیں۔ یہ اپنی قوم اور ملک کے تئیں خاصے وفادار ہیں، اُن کی نظروں میں ہماری جدوجہد اُسی طرح کھٹکتی ہے ، جس طرح آر ایس ایس اور شوسینا کے لوگوں کو کھٹکتی ہے۔بھلا اس کے معانیٰ کہ دلی کے یہ کارندے ایک آزادی پسند لیڈر کی قصیدہ خوانی کرتے ہیں تو دوسرے قائد کو تخریب کار قرار دیتے ہیں؟دراصل اس طر ح یہ نہایت ہی شاطرانہ طریقے سے مزاحمتی لیڈران کو ایک دوسرے کی نظروں میں بھی اور عوامی سطح پر بھی مشکوک بنارہے ہیں۔ آج جو انتشاری حالت ہم مزاحمتی خیمے کی دیکھ رہے ہیں ،یہ دلی کی اسی حکمت عملی کا پھل ہے۔افسوس کا مقام یہ ہے کہ سب کچھ جاننے اور سمجھنے کے باوجود بھی ہماری قیادت ہوش کے ناخن نہیں لے رہی ۔ وہ اپنی روش پر قائم ہے یا مفاد و مراعات و سہولیات ان کو زیادہ پیارے ہیں۔ ظاہری طور پر تو ایک دوسرے کے حق میں بیانات بھی دئے جارہے ہیں لیکن عملی حالت یہ ہے کہ اُنہیں ہندنوازوں کے ساتھ بیٹھنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں ہوتی ہے لیکن اپنی ہی منزل کے راہی دوسرے حریت لیڈران کا نام سننا بھی اُنہیں گوارا نہیں ہوتا۔ تحریک حق خود ارادیت کے تمام لیڈر یہ تو ضرور کہتے ہیں کہ تحریک آزادی کی قیادت کرنا اپنے سر پر کانٹو ںکا تاج رکھنے کے مترادف ہے ، مگر قال اور حال میں زمین و آسمان کا تضاد اُس وقت سامنے آجاتا ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ اُن میں سے ہر ایک اس دوڑ میں لگاہوا ہے کہ قیادت کی کرسی اُسے ہی حاصل ہوجانی چاہیے۔ کرسی کی چار ٹانگوں پر کھڑا ہونے کے لیے پھر نہ جانے کہاں کہاں سے مدد لینے کی کوشش کی جاتی ہے اور کرسی پر براجمان ہونے کا یہی نشہ پھر اُنہیں اے ایس دُلت جیسے لوگوں کے ساتھ یارانہ گانٹھنے پر بھی مجبور کرتا ہے۔حالانکہ انہیں اب تک اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ تحریک حق خودارادیت میں لاکھوں لوگوں کی قربانیاں شامل ہیں۔ اس کے پلڑے میں لٹتی عزتیں اور عصمتیں ہیں، خلوصِ دل سے بہایا جانے والا خون ہے، یہ تحریک افراد سے نہیں بلکہ قربانیوں سے آگے بڑھ رہی ہے۔ افراد کے ذریعے نسل در نسل منتقل ہوتی تو پھر گزشتہ پانچ برسوں سے مزاحمتی قیادت کو حکومت نے پر بھی مارنے نہیں دیا اور آج سرکاری ایجنسیوں کے یہ رپورٹ سامنے نہیں آتی کہ ریاست میں ”شدت پسندی“ کا گراف بڑھ رہا ہے۔ ہندوستان کے ساتھ ناراضگی میں اضافہ ہورہا ہے۔ قیادت کچھ کرے یا نہ کرے تحریک حق خود ارادیت از خود اپنے منزل کی جانب رواں دواں رہے گی۔ اس لئے اس تحریک کی قیادت کا سہرا بھی اُسی عاشق و مجنوںسر پرخود بخود سجے گا جو جدوجہد کے تئیں مخلص ہوگا اور خالص اللہ کی رضا کے لیے میدان عمل میں برسر پیکار رہے گا۔ 
ضرورت اس امر کی ہے کہ کشمیری عوام اور قیادت دونوں دوستوں او ردشمنوں میں فرق کرنا سیکھ لیں۔ دشمنوں کے ساتھ ”دوستیاں اور روابط“ بڑھانے سے نہ ہی اس تحریک کا بھلا ہوگا اور نہ ہی ذاتی طور پر ایسے اشخاص کا۔ متحد ہوکر اپنی قربانیوں کی حفاظت کرنے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ ہاتھ ملانا ہوگا۔ ہمیں کھلے ذہن کے ساتھ تحریکوں کو ڈِی ریل کر نے کی فریب کاریوں اور دغابازیوں کی تاریخ کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے بھی اپنے مقدس کتاب قرآن مجید میںہمیں متنبہ کیا ہے کہ تمہارے دشمن کسی بھی حال میں تمہارے دوست نہیں ہوسکتے ہیں۔ جتنی جلد ہم اس آفاقی حقیقت کو سمجھ لیں گے، اتنا ہمارے لیے بہتر ہوگا

Comments

Popular posts from this blog

لندن کی کشمیر کانفرنس۔۔۔ ایس احمد پیرزادہ

پبلک سیفٹی ایکٹ اور نیشنل کانفرنس....ایس احمد پیرزادہ