اسیرانِ زندان

اسیرانِ زندان

ہیروں کو سنگ کردیا حالات کے کرب نے

 ۶۵؍برس عمر کا محمد لطیف خان ضلع راجوری کے ایک دور دراز علاقے کا رہنا والا شخص ہے۔ زندگی کے آخری پڑھاؤ پر بھی ہشاش بشاش اور مطمئن نظر آرہا ہے۔ محمد لطیف کے تین بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں، دس کنال اراضی اور ایک مکان بھی اُن کی کل ملکیت ہے، مال مویشی کو بہکوں میں لے جاکر یہ گھرانہ مقدور بھر کمائی کر کے اپناگزارہ چلاتا، گھر کے دن جوں توںکٹ رہے تھے۔ محمد لطیف اپنے بچوں کی پڑھائی کے تئیں لاپرواہ نہیں تھے۔ اُن کا بڑا بیٹا لکھنو یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کررہا تھا، ایک بیٹا اور تین بیٹیاں گجرات کے دینی مدارس میں قرآن حفظ کررہے تھے کہ ۲۰۰۶ء میں اس گھر پر آزمائشوں کا سلسلہ اُس وقت شروع ہوگیا جب محمد لطیف خان کے بڑے بیٹے محمد اسلم خان کو دلی پولیس کی خصوصی سیل نے لکھنو سے گرفتار کرلیا۔ اُنہیں ’’دہشت گردی‘‘ کے متعدد واقعات میں ملوث ٹھہراکرتہاڑ جیل میں بند کردیا گیا۔یہاں دلی میں اُن کے کیس کی شنوائی کچھوے کی چال چلتی رہی، تاریخ پہ تاریخ میں برسوں بیت گئے۔ محمد لطیف جس نے کبھی ریاست سے باہر قدم رکھا ہی نہیں تھا، کو اپنے بیٹے تک پہنچنے اور اُن کا کیس لڑنے میں کافی سختیاں جھیلنی پڑیں۔ابھی وہ دلی میں اپنے بڑے بیٹے کی رہائی کے لیے دوڑ دھوپ کرہی رہے تھے کہ اُن کا دوسرا بیٹا گجرات میں گرفتار ہوا، جسے کئی برسوں تک جیل کی کال کوٹھریوں میں تڑپا یا گیا۔ فرضی الزامات عائد کرکے اُنہیں سزا دینے کی بھرپور کوششیں ہورہی تھیں کہ گجرات میں کسی درد دل شخص نے جن کا اپنا بیٹا بھی اُن کے ساتھ گرفتا ر تھا، اُنہیں ضمانت پر رہائی دلوائی لیکن اُن کا کیس تاحال چل رہا ہے اور کسی بھی وقت لطیف خان کے دوسرے بیٹے کو دوبارہ گرفتار کیا جاسکتا ہے۔محمد اسلم جو تہاڑ جیل میں نظر بند تھا اور دلی میں اُن کا کیس چل رہا تھا ،کو دلی کی عدالت نے دو برس قبل تمام الزامات سے نہ صرف باعزت بری کردیا بلکہ یہ بھی حکم دیا کہ جن پولیس افسروں نے اس نوجوان کو بے بنیاد الزامات کے تحت گرفتار کرلیا ہے اُن کے خلاف کارروائی عمل میں لائے جائے۔ عدالتی احکامات کی پاسداری کا حال یہ ہے کہ جس دن محمد اسلم کو کورٹ نے باعزت بری کردی اُسی دن راتوں رات اُنہیں رہا کرنے کے بجائے ممبئی پہنچایا گیا ،جہاں کسی اور کیس میں اُن کا نام پہلے سے ہی درج کیا جاچکا تھا۔ محمد لطیف کا رابطہ یہاں سے ہی اپنے بیٹے کے ساتھ کٹ گیا کیونکہ اُن کی رسائی صرف دلی تک محدودتھی، دلی سے آگے جانے کے لیے نہ ہی اُن کی مالی حالت اُنہیں اجازت دے رہی تھی اور نہ اُن کے پاس وہاں جانے کے لیے ضروری جان کاری تھی۔ اُنہوں نے اپنے بیٹے کو مجبوراً حالات کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا اور گھر میں آکر بیٹھ گئے۔
 ۸؍جولائی۲۰۱۶ء کو برہان مظفر وانی اور اُن کے ساتھیوں کے جان بحق ہوجانے کے بعد وادی اُبل پڑی، ابتر حالات نے یہاں کی پوری آبادی کو باہری دنیا سے لاتعلق کرکے رکھ دیا تھا، کہاں کیا ہوا؟کس کی زندگی کہاںداؤ پر لگ گئی؟ اس بارے میں کسی کو کچھ معلوم ہی نہیں پڑتا تھا کیونکہ جمہوری حکمرانوں نے انٹرنیٹ اور دیگر ذرائع ابلاغ تک کشمیریوں کی رسائی کو قریب قریب ناممکن بنادیا تھا ۔اس کے علاوہ اُن دنوں یہاں ہورہی قتل غارت گری نے بھی عام باشندوں کو کشمیر کے حدود سے باہر کی دنیا سے لاتعلق کر رکھا تھا۔یہاں کشمیر میں نوجوانوں کے سینے گولیوں سے چھلنی کیے جارہے تھے اور وہاں محمد اسلم خان کو ممبئی کی عدالت میںاپنوں کی جرم بے گناہی کی سزا سنائی جارہی تھی۔ ریاست جموں وکشمیر سے تعلق رکھنے والے اس گمنام اسیر نوجوان کو ممبئی کی ایک عدالت نے دیگر چار لوگوں کے ساتھ برہان مظفر وانی کے جان بحق ہوجانے کے صرف تین دن بعد فرضی الزامات کے تحت عمر قید کی سزا سنادی ہے۔اُن کی سزا کے بارے میں یہاں شاید ہی کسی کو پتہ ہوگا لیکن اُن کے والدین پر اُس وقت غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑاجب کسی انجانے فرد نے اُنہیں فون کرکے اطلاع  دی کہ اُن کے بیٹے کو عمر قید کی سزا ہوئی ہے۔ چند ہفتے قبل جس وقت محمد لطیف خان سے میری ملاقات ہوئی اُنہیں یہ تک معلوم نہیں تھا کہ اُن کے بیٹے کو کس کیس میںعمر قید کی سزا سنائی گئی اور آج اُنہیں کہاں رکھا گیا ہے، اُنہیں ممبئی سے کسی وکیل نے صرف یہ اطلاع دی تھی کہ اُن کے بیٹے کو عمر قید کی سزا ہوئی ہے اور اگر وہ اس سزا کے خلاف اپیل کرنا چاہتے ہیں تو فوراً ممبئی پہنچ جائیں۔ میں نے محمد لطیف سے وکیل کا نمبر لیا اور اُن سے بات کی تو معلوم ہوا کہ محمد اسلم اس وقت امرا وتی جیل میں مقید ہیں اور اُنہیں عمر قید کی سزا سنائی جاچکی ہے۔ کن الزامات کے تحت سزاسنائی گئی، یہ وکیل صاحب نے مجھے فون پر بتانا مناسب نہیں سمجھا بلکہ کہا کہ آپ لوگوں کو ممبئی آکر ہی کیس کے بارے میں پوری تفصیل بتا دی جائے گی، شاید وکیل صاحب اپنے اخراجات ادا ہونے تک کیس کی تمام تر تفصیلات بتانا نہیں چاہتے ہیں۔
محمد لطیف خان کی درد بھری داستان کا ایک اور تڑپانے والا پہلو بھی ہے، اپنے دونوں بیٹوں کی رہائی کے لیے دوڑ دھوپ کرنے کے لیے اُنہوں نے لوگوں سے بہت قرضہ لیاہے، سختیاں جھیلیںہیں، مصیبت سہے ہیںلیکن کبھی بھی کشمیر کاز سے بددل نہیںہوئے۔ اُنہوں نے لوگوں سے قرضہ وصول کرنے کے عوض اپنی دس کنال پر مشتمل کل اراضی گروی رکھی، جس مکان میں رہائش پذیر ہیں وہ بھی قرض داروں کے یہاں گروی ہے، اب اُن کی مالی حالت اس قدر پتلی ہوچکی ہے کہ وہ ممبئی جاکر اپنے بیٹے سے ملاقات کرنے کا خواب بھی دیکھنا بھول چکے ہیں۔بقول اُن کے کہ وہ جب دلی اپنے بیٹے کی ملاقات کے لیے جاتے تھے تو کئی دنوں تک فاقہ کشی کا شکار رہتے تھے اور فٹ پاتھوں پر سرد و گرم راتیں بسر کرتے تھے۔ بیٹے کے کیس کو دوبارہ کھولنے اور اُن کی بے گنائی کو ثابت کرنے کے لیے ضروری قانونی چارہ جوئی کرنے کی نہ اُنہیں سکت ہے اور نہ ہی مالی لحاظ سے اس پوزیشن میںہیں کہ وکیل کی فیس اور ممبئی جانے کے اخراجات کو پورا کرسکیں۔ دس سال سے اُن کا اسکالر بیٹا جیل کی کال کوٹھریوں میں سڑ رہا ہے، اُن کی پوری زمین اور مکان قرض داروں کے پاس گروی ہے، دوسرے بیٹے پر سزا کی تلوار لٹک رہی ہے، اس کے باوجود جب اُن سے بات کرتے ہیں تو صبر و استقامت کی ہمالیائی شخصیت اُن کے بوڑھے وجود میں نظر آتی ہے۔سرینگر میں اُن دنوں سخت ہڑتال تھی ، وہ شوپیان کے راستے سے وادی واردِ ہوئے تھے، اُنہیں میلوں پیدل سفر طے کرنا پڑا تھا، یہاں آنے کا مقصد بھی اُن کی زندہ دلی اور انسان دوستی کی غمازی کررہا ہے۔ وہ ایک آٹھ سالہ بچے کو یہاں لے کر آیا تھا، اُس بچے کا والد یہاں جیل میں بند ہیں، اس معصوم بچے کو اپنے والد سے ملانے کے لیے وہ ہڑتال ، کرفیو اور احتجاج کی پروا کئے بغیر یہاں چلے آئے، حالانکہ اُس بچے کے ساتھ یا اُن کے والد کے ساتھ اُن کا کوئی خونی رشتہ نہیں ہے۔شاید اس لیے وہ اس معصوم بچے کو لے کر یہاں آئے کیونکہ وہ مقید افراد کے اہل خانہ اور قرابت داروں کا درد محسوس کرتے ہیں۔ انہوں نے معصوم بچوں کی جدائی کی تکلیف سہی ہے، اس لیے وہ کسی بچے کو اپنے والد سے دور دیکھنا نہیں چاہتے ہیں۔
یہ صرف محمد لطیف کی ہی بات نہیں ہے بلکہ یہ بیرون ریاست درجنوں کشمیری قیدیوں کی داستان الم کا صرف ایک پنا ہے۔ ورنہ دل دہلانے والے درجوں مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ کشمیر یونیورسٹی کے نوجوان اسکالر محمد رفیق شاہ گزشتہ قریباً۱۰؍برس سے تہاڑ جیل میں پابند سلاسل ہیں۔ اُن کے کیس کی سماعت بھی کچھوے کی چال ہو رہی ہے، اُن کی زندہ دل والدہ ٔ محترمہ بڑی ہی دلیری کے ساتھ حالا ت کا مقابلہ کرکے اپنے اکلوتے بیٹے کی رہائی کے لیے کوششیں کرتے کرتے تھک چکی ہیں، لیکن وہ ہمت نہیں ہاری اور اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے۔ٹنگ مرگ کے ایک اور قیدی محمد مظفر ڈار کے بھائی سے معلوم ہوا کہ این آئی اے نے اُن کے خلاف چار سو گواہوں کی فہرست عدالت میں پیش کی ہے اور این آئی اے دلی کے وکلاء پر اُن کا کیس نہ لڑنے کے لیے دباؤ بھی ڈال رہی ہے، جس کے نتیجے میں ایک معروف وکیل نے ڈھائی لاکھ کی فیس وصول کرنے بعد اُن کا کیس چھوڑ دیا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ محمد مظفر ڈار جنہیں ڈھائی برس قبل این آئی اے نے سرینگر سے تہاڑ منتقل کرکے وہاں کسی کیس میں ملوث کیا اور اُن کے خلاف چار سو گواہوں کی فہرست تیار کی ، وہ گواہ کب تک اپنا بیان درج کرائیں گے اور پھر کورٹ فیصلہ کب سنائی گئی؟ حد تو یہ ہے کہ ایک ایسا گواہ بھی فہرست میں شامل رکھا گیا ہے جو امریکہ میں مقیم ہے اور شاید ہی وہ کبھی ہندوستان آکر گواہی کے لیے کورٹ کے سامنے پیش ہوں گے۔ ہندوستان کے عدالتی سسٹم میں محمد مظفر ڈار کو اپنے کیس کا فیصلہ سننے کے لیے کئی زندگیاں درکار ہوں گی ۔ اُن کے بھائی کے بقول جیل میں وہ کئی امراض کا شکار ہوچکے ہیں، کمر درد نے اُن کا بڑا ہی براحال کردیا ہے۔تحریک حریت سے وابستہ غلام محمد بٹ ساکن زکورہ، مشتاق احمد ساکن کنیل ون اسلام آباد، طالب لالی وغیرہ بھی کئی برسوں سے تہاڑ جیل میں قید و بند کی زندگی بسر کررہے ہیں اور انصاف کے ناقص سسٹم کے بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔اُن کا نہ ہی یہاں کوئی پرسان حال ہے اور نہ ہی عالمی انسانی حقوق کی تنظیمیں اُن کی رہائی اورضروری قانونی امداد فراہم کرانے کے لیے اپنا کوئی کردار نبھا رہی ہے۔انسانی حقوق کی یہ تنظیمیں پریس بیانات اور رپوٹیں مشتہر کرنے تک ہی محدود ہیں اور کشمیری قیدیوں کے حوالے سے اِنہوں نے ان دونوں چیزوں سے بھی جیسے توبہ ہی کررکھی ہوئی ہے۔
یہ صرف چند مثالیں ہیں ورنہ سینکڑوں کشمیری بیرون ریاست کی جیلوں میں نہ صرف جسمانی سختیاں جھیل رہے ہیں بلکہ نسلی تعصب کا شکار بھی بنائے جارہے ہیں۔ جیل حکام بھی اُن کے ساتھ دوسرے ملک کے شہریوں جیسا سلوک کرتے ہیں۔ ہندوستان کی جیلوں میں قاتلوں، چوروں اور لٹیروںکی عزت وتکریم کی جاتی ہے، اُنہیں ہر طرح کی سہولیت دستیاب رکھی جاتی ہیں لیکن کشمیر کے پڑھے لکھے سیاسی قیدیوں کی تذلیل ہی نہیں بلکہ اُنہیں ہر حیثیت سے ذہنی طور پر اپاہچ اورمریض بنانے کے لیے کام ہورہا ہے۔اُن کی زندگیوں کو اجیرن بنایا گیا ہے۔بے بنیاد کیسوں میں پھنسانا اور پھر قانون کے نام پر اُن کے ساتھ مذاق کرنا کشمیر سے باہر قانونی اداروں کا وطیرہ بن چکا ہے۔ ظلم و جبر کی چکیوں میں پسنے والے ان مظلوم کشمیری نوجوانوں کو اپنے لواحقین سے کھل کر ملاقات کرنے کی اجازت بھی نہیں دی جاتی ہے۔گزشتہ تین ماہ سے مزید پندرہ ہزار سے زائدکشمیریوں کو جیلوں میں ٹھونس دیا گیا ہے۔آج تک ہمارے ان اسیران نے کبھی بھی اپنی قوم سے کوئی شکایت نہیں کی بلکہ یہ لوگ تحریک حق خودارادیت کے لیے اپنی جوانیاں قربان کررہے ہیں، اپنی راتوں کی نیند اور دن کا سکون غارت کررہے ہیں۔ صبر کے پیکر یہ نوجوان ہمارے ہیروز ہیں ۔ یہ ہماری تحریک کا اثاثہ ہیں۔ ان کی قربانیوں کو ہمیں ہر سطح پر اور ہرحال میں یاد رکھنا ہوگا اور اِن قربانیوں کے تئیں ہمیں اپنی ذمہ داریوں کو نبھانا ہوگا۔
مزاحمتی قیادت نے بحیثیت مجموعی خطۂ پیرپنجال اور وادیٔ چناب کو نظر انداز کیا ہوا ہے، لیکن جموں کے ان مسلم اکثریتی والے علاقوں میں محمد لطیف خان اور اُن کے بیٹے محمد اسلم جیسے قربانی کے مجسمے بھی رہتے ہیں۔ وہ خاموشی کے ساتھ سیاسی حقوق کی باز یابی کے لیے قربانیاں دے رہے ہیں۔ اُن کی یہ قربانیاں نہ ہی لیڈران کی نظروں میں آجاتی ہیں اور نہ اخبارات کی زینت بن جاتی ہیں۔ محمد اسلم اور اُن کا پورا گھرانہ اور جیلوں میں مقید ہزاروں کشمیری قیدیوں کی مثال اُن پتھروں جیسی ہے جو کسی عمارت کو مضبوط بنیاد فراہم کرنے کے لیے زمین کے اندر اپنا وجود ختم کردیتی ہیں۔ یہ نوجوان اپنی زندگی کے قیمتی سال تعذیب خانوں میں کاٹ کر ہماری تحریک کو بنیاد فراہم کررہے ہیں ہمیں ہر حال میں اُن کی قربانیوں کو سلام پیش کرنی چاہیے۔ان اسیران کے تئیں ہماری چند اہم ذمہ داریاں ہیں ۔ ہمیں اس وقت جب کشمیر تحریک ادارہ جاتی شکل اختیار کررہی ہے، اسیران کو قانونی امداد فراہم کرنے، اُن کے لواحقین کا خاص خیال رکھنے کے لیے ایسی ذیلی تنظیموں کی نشود نماء کی جانی چاہیے جو خالص جیلوں میں مقید افراد کے لیے کام کریں گے۔ ہمیں جیلوں کے اندر اور باہر اپنے ان ہیروز کی ضروریات پورا کرنے کے لیے مالی وسائل جٹانے ہوں گے۔ ہمیں محمد لطیف خان جیسے لوگوں کے درد کو سمجھنا ہوگا۔ یہ ہم ان مقید افراد پر کوئی احسان نہیں کریں گے بلکہ اپنے اُس فرض کو ادا کریں گے جو قرآن مقدس میں اللہ تعالیٰ نے ’’وفی الرقاب‘‘ کی صورت میں اُن کے لیے مختص کررکھا ہے۔
رابطہ  9797761908

Comments

Popular posts from this blog

لندن کی کشمیر کانفرنس۔۔۔ ایس احمد پیرزادہ

پبلک سیفٹی ایکٹ اور نیشنل کانفرنس....ایس احمد پیرزادہ