وراب شر نارتھیوں کی اقامتی اسناد!


اوراب شر نارتھیوں کی اقامتی اسناد!

امتحاں لے لے کے ہم کو آزما تا آسماں

 کشمیریوں کی حالیہ ایجی ٹیشن میں ایک ٹھہراؤ آیا ہی چاہتا ہے کہ بی جے پی نے اپنے زیر کنٹرول کولیشن سرکار سے سنگھ پریوار کے دیر ینہ خاکوں میں رنگ بھرنے کا عمل شروع کرلیا ۔ اس بارجموں میں رہائش پذیرمغر بی پاکستان سے آئے شرنارتھیوں کو خصوصی اقامتی اسناد فراہم کرکے بقول بی جے پی اُنہیں ریاست کا مستقل باشندہ بنانے کا پہلا قدم اٹھوایا گیا اور پی ڈی پی اس اقدام کو سیاسی پشت پناہی دے کر اپنے دھرم پال رہی ہے بلکہ کشمیر سپیسفک زعفرانی ایجنڈ کے حوالے شاہ سے زیادہ وفادار بن رہی ہے۔ریاستی سرکارکے ترجمان نعیم اختر سرکاری سطح پر اس اقدام کا بھرپور دفاع کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ شرنارتھیوں کواقامتی اسناد جاری کرنے کا واحد مقصد یہ ہے کہ اُنہیں مرکزی سرکار کی نوکریاں حاصل کرنے میں آسانی ہوجائے اور حکومت کا ان شرنارتھیوں کو ریاست کا مستقل باشندہ بنانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ حالانکہ بی جے پی کے لیڈران کھلے عام یہ سچ اگلتے پھررہے ہیں کہ مغربی پاکستان سے آئے ہوئے اِن لاکھوں شرنارتھیوں کو ریاست جموں وکشمیر کا مستقل باشندہ بنانے کی جانب یہ پہلا قدم ہے۔ گویا بی جے پی اپنے ایجنڈے اور مقاصد کا دن کے اُجالے میں کھلے عام پرچار کررہی ہے اور پی ڈی پی کے وزیر تعلیم کشمیری عوام کے جذبات کو اپنی لن ترانیوں اور الفاظ کے گورکھ دھندے میں اُلجھاکر  اس کہاوت کو عملی جامہ پہنانے کی کوششیں کر رہے ہیں جو بتاتی ہے کہ کس طرح ایک عرب کو اونٹ نے سردی سے بچنے کے لئے پہلے اپنا پیر خیمہ کے اندر ڈالنے کی مودبانہ التجاکی ، پھر کچھ دیر بعد اپنے سر کو جائے پناہ دینے کی نرم نرم گزارش کی اور آخر پر موقع محل موزوں سمجھ کر اپنا دھڑ اندر کر کے بچارے عرب کو خیمے سے باہر دھکیل دیا۔ یہی کہاوت ۱۹۱۹ء میں شروع کر کے ۱۹۴۸ء میںاپنے کلائمکس کو پہنچی جب فلسطینی باہر اور یہودی اندر ہو گئے اور ابھی تک وہ لمحوں کی بھول بھگت رہے ہیں ۔ بہرصورت بقول وزیر تعلیم ریاست میں کچھ لوگ شرنارتھیوں کو خصوصی اقامتی اسناد فراہم کرنے کے اس اقدام کو لے کر ’’عوام کو ورغلا رہے ہیں ‘‘اور وہ نہیں چاہتے کہ ’’یہاں امن و امان‘‘ قائم ہوجائے ۔ موصوف کا یہ اشارہ واضح طور مزاحمتی جماعتوں اور قائدین کی جانب ہے، حالانکہ اس مسئلے کو لے کر یہاں کی آزادی پسند جماعتیں اور افراد ہی تشویش میں مبتلا نہیں ہیں بلکہ نیشنل کانفرنس، کانگریس اور دیگر ہند نواز جماعتوں اور افراد نے بھی سرکار کے اس نامعقول فیصلے کو آڑے ہاتھوں لے کر اس کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور اس طرح کے اقدامات کو کشمیر کی خصوصی پوزیشن کے خلاف گہری سازش سے تعبیر کیا ۔نیشنل کانفرنس نے وزیر تعلیم پر سرکار کا ترجمان ہونے کے بجائے بی جے پی کا ترجمان ہونے کی چوٹ کی جب کہ بھاجپا کے مرکزی وزیر ڈاکٹر جیتندرا نے  این سی اور کانگریس پر ’’علحیدہ پسندی‘‘ کی پھبتی کس دی۔
 ایک ایسے وقت میں جب چھ ماہ کی مسلسل زوردار عوامی ایجی ٹیشن سے حریت قائدین کے کہنے پر اس قوم نے روز مرہ کے معمولات بحال کرنے بادل نخواستہ شروع کردئے ، دلی کی ماتحتی میں کام کرنے والی ریاستی سرکار عوامی جذبات کی از سر نو نشترزنی کی کوششیں شروع کررہی ہیں۔ متحدہ حریت قائدین نے سرکار کے اس عمل کا سنجیدہ نوٹس لیتے ہوئے اس طرح کی کھلی سازشوں کو ناکام بنانے کے لیے سر نو سڑکوں پر آنے کا عندیہ دے دیا ہے جب کہ عوامی سطح پر بھی ریاست کی ڈیموگرافی تبدیل کرنے کی ان زہریلی سازشوں کو لے کر شدید قسم کا اضطراب پایا جاتا ہے۔حالیہ عوامی ایجی ٹیشن کے دوران ریاستی سرکار کا منفی کردار، بالخصوص پی ڈی پی ممبران اسمبلی اور منسٹروں کی جانب سے کھلم کھلا عوام کش اقدامات اور فورسز اہل کاروں کو عوامی ایجی ٹیشن دبانے کی کھلی چھوٹ دینے سے پہلے ہی وادی میں پی ڈی پی کی ساکھ بری طرح مجروح ہوچکی ہے ،اب رہی سہی کسر شرنارتھیوں کو خصوصی اقامتی اسناد فراہم کرکے پوری کی جارہی ہے۔آثار و قرائن اور حالات و واقعات سے صاف ظاہر ہورہا ہے کہ پی ڈی پی محض اقتدار کی خاطر ریاست کے مجموعی مفادات سے سمجھوتہ کر نے میں کوئی پس وپیش نہیں کر تی، حالانکہ اس پر پہلے سے ہی ظاہر تھا کہ بی جے پی اصلاً ریاست جموں وکشمیرکی خصوصی پوزیشن کے ساتھ ساتھ یہاں کی تحریک حق خود ارادیت کو دبانے کے مشن پر کام کررہی ہے اور جب بھی اس جماعت کو موقع ملا اس نے انڈیا سمیت کشمیر کو ہندو راشٹر بنانے کے تمام تراقدامات کئے ۔ بھارت بھر میں مسلم اور دلت اقلیتوں کے ساتھ بد ترین سلوک اسی کا غماز ہے ۔ ریاست میں الیکشن کے دوران پی ڈی پی نے عوام سے ووٹ یہ کہہ کر مانگا تھا کہ یہ جماعت اقتدار میں آکر بی جے پی کا راستہ روکے گی لیکن پھر پینترابد ل کر پی ڈی پی نے اپنے انتخابی منشور کے بالکل ہی برعکس لائن پکڑ لی ہے۔ اب بی جے پی کا راستہ روکنے کاجُل دینے والی پی ڈی پی نہ صرف بی جے پی کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر دلی کے حکم پر کام کررہی ہے بلکہ ریاست کی ڈیموگرافی تبدیل کرنے، نیز ریاست کی خصوصی پوزیشن کمزور کرنے کے لیے بھاجپاکی راہ میں حائل تمام رکاوٹوں کو صاف کرنے میں ہراول دستے کاکام کر رہی ہے۔
 پی ڈی پی اور وادی سے تعلق رکھنے والے ان کی حکومت کے دیگر حمایتی ممبران اور جماعتوں نے تو حد ہی کردی ہے۔ جن لوگوں کے ووٹ سے اقتدار حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی ، جس عوام کو جاگتے کے سپنے دکھائے، اُنہی لوگوں اور اُسی عوام کو دبانے اور اُن کی جائز او رمبنی برحق آواز سنگینوں کے سائے میں خاموش کرنے کے لیے پی ڈی پی تمام حدیں پار کرنے کا ادھار کھائے بیٹھی ہے۔وادی بھر سے شکایات موصول ہورہی ہیں کہ ایجی ٹیشن کے دوران گرفتاریاں اور پبلک سیفٹی ایکٹ کا نفاذ ہند نواز جماعتوں کے  ایماء پر ہوتا رہا ہے۔پولیس تھانوں میں گرفتار شدگان کو عدالت سے ضمانتیں ملنے کے باوجود رہا نہیں کیا جاتا ، سیفٹی ایکٹ عدالت کی جانب سے کالعدم قرار دی جاتی ہے لیکن پولیس قیدیوں کو کسی دوسرے کیس بھی پھنسا کر ا نہیں جیل بھیج دیتی ہے جب توہین ِعدالت کی وجہ جاننے کی کوشش کی جاتی ہے تو پتہ چلتاہے ان قیدیوں کے افراد خانہ سے کہاجاتا ہے کہ وہ جاکر مقامی ممبران اسمبلی سے رابطہ قائم کریں۔ جن سرکاری ملازمین کو حالیہ ایجی ٹیشن میں بیک جنبش قلم نوکریوں سے برطرف کردیا گیا اُن میں سے بھی اکثر و بیشتر ہندنواز جماعتوں کے ممبران اسمبلی اور دیگر چھوٹے بڑے سیاسی ورکروں کی دوغلی پالیسی کا شکار بن چکے ہیں۔آوپریشن توڑ پھوڑ ، راتوں کو گھروں میں پولیس چھاپے اور نونہالوں ومعصوموں کو زندگی بھر کے لیے اپاہچ بنانے کا سارا گناہ اقتدار کی کرسیوں پر براجمان انہی لوگوں کے سر ہے کیونکہ ان ہی کے اشاروں پر وردی پوش اپنا ساری غنڈہ گردیاں ، انتقامی  سرگرمیاں اورہراسانی کارروائیاں کرتے رہے ہیں۔دلی جاکر آل پارٹی میٹنگوں میں یہی لوگ خود کو دیش بھکت دکھانے کے لئے حکومت کے اصل پالیسی سازوں کو کشمیریوں کی نسل کشی کرنے کا مفت مشورے تک دیتے رہے ہیں۔ پی ڈی پی کے ممبر پارلیمنٹ مظفر حسین بیگ کی جانب سے دلی میں وزیر اعظم ہند کی سربراہی میں منعقد ہونے والی میٹنگ میں کیے گئے اظہار خیال کا پورا حال احوال مقامی اخباروں میں شائع ہوا ۔ اُنہوں نے بھارت سے کشمیر حل کی عوامی مانگ اور زمینی صورتحال بیان کرنے کے بجائے یہاں کے دینی حلقوں اور مدارس کو موردِ الزام ٹھہراکر گویادلی کو اشارہ دیا کہ وہ کشمیریوں کی مبنی برحق آواز خاموش کرنے کے لیے دینی جماعتوں، مذہبی لیڈروں اور مدارس پر ہاتھ ڈال کر ان کا قلع قمع کریں۔وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کے کتنے ایسے بیانات الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں منظر عام پر آئے جن میں اُنہوں نے کشمیری قوم کی توہین و تذلیل کی ، عوام کی مظلومیت اور ان کی ساسی جدوجہد کو برا بھلا کہا ، تحریک کی بھاگ ڈور سنبھالے لیڈران کو آڑے ہاتھوں لیا ۔ ایجی ٹیشن کے ابتدائی دنوں میں ہی دلی جاکر اُنہوں نے یہاں تک گل افشانی کر دی کہ ابھی مرنے والوں کی تعداد ۲۰۱۰ء کی طرح ۱۲۰ ؍تک نہیں پہنچی ہے بالفاظ دیگر عمر عبداللہ کا ریکارڈ توڑنے کے بعد ہی اُن پر قتل عام کاالزام آجانا چائیے، اس ہندسے تک پہنچنے کے لئے نوجوانوں کے سینے چھلنی کردینا اور بینائیاں سلب کرناجیسے کوئی جرم ہی نہیں تھا۔ حکومتی وزراء قوم کی مشترکہ آواز کو’’ پانچ فیصد لوگوں کی کارستانی‘‘ قرار دیتے رہے ۔ مر کزی وزیرداخلہ کی موجودگی میں ایک بھری پُری پریس کانفرنس میں اس محترمہ نے بے تکلفی کے ساتھ کہہ دیا کہ جو بچے وردی پوشوں کی گولیوں کا شکار ہوگئے ہیں وہ دودھ اور ٹافیاں لینے کے لیے بازار نہیں گئے تھے۔ اقتداری ٹولے کا یہ لہجہ ہی بتادیتا ہے کہ اُن کے نزدیک کشمیریوں کی کیا اہمیت ہے اور وہ یہاں کے عوام کی زندگیوںکو کن نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ کل تک حریت لبادہ اُوڑھے ای  کابینی وزیر کو آج کس خدمت کے صلے میں فرقہ پرستوں کی جانب سے ’’سب سے بڑ ے اعزاز شیاما پرشاد مکھرجی ایوارڈ‘‘ سے نوازا جارہا ہے؟ایوارڈ حاصل کرنے کی اُس تقریب کی ویڈیو دیکھ کر اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ شخص مذکورہ کشمیر یوںسے کوئی تعلق رکھتا ہے یا کبھی اس نے کشمیریوں کے سلب شدہ حقوق کی بات کی ہوگی۔ کر سیٔ اقتدار کی غلامی میں انصاف اور اصولوں کی جدوجہد کا طاقت کے بل پرخاتمہ کر نا ان لوگوں کی اولین ترجیح ہے، اس لئے ان سے کسی خیر کی اُمید رکھنا عبث ہوگا۔ ابھی بی جے پی ان سے چھوٹے چھوٹے کام ہی لے رہی ہے ،حالانکہ یہ لوگ اپنی تجوریاں بھر نے اور کرسی کا مزا لینے کے لئے یہ لوگ بڑے بڑے کام کر نے کے لئے بھی بھاجپا پر نچھاور ہونے کے لئے بے تاب ہیں۔ اس لئے شر نارتھیوں پر ان کا اتنا پیار اور دلار کوئی اچنبھے کی بات نہیں ۔
 سچ یہ ہے کہ سٹیٹ گورنمنٹ کی طرف سے اقامتی اسناد کو شناختی کارڈ کہہ کراس سنگین مسئلے کی شدت کو کم نہیں کیا جاسکتا ہے۔ یہ تو ایسی ہی بات ہے کہ اقامتی سندیں  شرنارتھیوں کے ہاتھ میں تھماکر گویاان کو پہلے ڈیلی ویجری دی گئی ، پھر اگلا قدم ان کی کنفرمیشن ہوگی یعنی انہیںسٹیٹ سبجکیٹ کا اہل قراردیا جائے جائے گا ۔ اگر بالفرض شرنارتھیوں کے لیے دلی سرکار کی نوکریاں حاصل کرنا ہی اصل مسئلہ مانا جائے تو ان کا پارلیمانی ووٹر کا رڈ اور آدھار کارڈ کس کام کا؟ مرکز سے اجراء شدہ آدھار کارڈ کا ہونا ہی ان کی سکونت اور دیگر کوائف ظاہر کرنے کے لئے کافی ہے ۔ ایسے میں ریاست کو بیچ میں لانے کی کیا ضرورت ہے ؟ اسی سے پتہ چلتا ہے کہ دال میں کچھ کالا ہی نہیں بلکہ ساری دال کالی ہے ۔ کیااس سے پہلے فوج اور نیم فوجی دستوں میں یہ لوگ ملازمت نہیںکر پاتے تھے؟ کیایہ پارلیمانی انتخابات میں آرام سے ووٹ نہیں ڈالتے تھے؟ ریاستی اربا ِ ب ِاقتدار کمزور دلائل سے ریاست کے اصلی باشندوں کو قائل نہیں کر سکتے۔ المیہ تو یہ ہے کہ جموں کے رہنے والے غیر مسلم ڈوگرے اس حساس مسئلے پر خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں، وہ لوگ بھی  ریاست کے پشتینی باشندوں سے ا س صریح ظلم کوہندو مسلم کی عینک سے دیکھ کر یہ نہیں سمجھتے کہ شرنارتھیوں کو ریاست جموں وکشمیر کی شہریت دی نے سے کشمیری مسلمانوں سے زیادہ جموں کے غیر مسلم نقصان میں رہیں گے۔ کیا عجیب وغریب چیستاں ہے کہ ایک جانب جموں کے اصلی مسلم باشندوں کو اپنی زمینوں سے بے دخل کیا جارہا ہے ،دوسری جانب غیرریاستی ہندو باشندوں کو اقامتی سندیں عطا کی جارہی ہیں۔ مجموعی طور اس اقدام کا واحد ماحصل یہ ہے کہ جموں وکشمیر میں آبادی کے تناسب کو بگاڑ کر ریاست کی مسلم اکثریتی شناخت کو ختم کیا جائے، یہاں کی ڈیموگرافی کو اسرائیلی طرز پر تبدیل کیا جائے، کشمیر کی خصوصی پوزیشن اور متنازعہ حیثیت کو ختم کیا جائے۔ یہ تمام حربے اسرائیل سے درآمد شدہ ہیں اور حکومت ہند انہیں آنکھیں بند کر کے عملانے کی ہرممکن کوشش کررہی ہے۔ اس کے لیے ہمارے یہاں اقتدار کی صفوں میں موجود آستین کے سانپوں سے کرسی سے مشروط ہر ممکن مدد لی جارہی ہے۔ تعلیم اور ترقی کے نام نہاد ٹھیکیدار ریاستی عوام کی عزت، آبرو ، مفادات، مستقبل کی نیلامی کرنے نکلے ہیں ، اگر بحیثیت قوم جموں وکشمیر کے ہم تمام پشتینی باشندوں نے مل کر اس ٹولے کو روکنے کی کوشش نہیں کی اور اُن کے مکروہ عزائم کا توڑ نہ کیا تو نہ صرف ہم خالق حقیقی کی عدالت میں مجرم ٹھہریںگے بلکہ ہماری موجودہ اور آنے والی نسلیں بھی ہمیں معاف نہیں کریں گی۔کشمیری قوم کو یہ کریڈٹ ضرور جاتا ہے کہ اس نے مختلف ادوار میں اغیار کی سازشوں کو ناکام بنانے کی خاطرمتحد ہوکر جدوجہد کا راستہا ختیار کیا اور آئندہ بھی ہمیں اصولوں کی اس لڑائی میں حق کا طرف دار بننا ہوگا، ہمیں سازشوں اور فریب کاریوں کو بے نقاب کرنا ہوگا، ہمیںان دو چہرہ لوگوں کاجو ہمارے ہی ووٹ کا استحصال کررہے ہیں،کوان کی اصل اوقات یاد دلانی ہوں گی۔ہماری جدوجہد مقدس ہے، اس کی خاطر ہماری نسلوں کا مقدس خون نچھاور ہواہے، اس سفر عزیمت میں ہماری عزت مآب ماؤں اور بہنوں کی  سرچادریں بھینٹ چڑھ گئیں، اس کے لیے ہمارے نوجوان جیلوں میں سڑ رہے ہیں، اس کے لیے یہاں چپے چپے پہ قبرستان آباد ہوئے ہیں اور اس کے لیے ہم نے دہائیوں تک للہ و فی اللہ کوششیں کی ہیں، سختیاں جھیلی ہیں۔ ہمیں اس بات کا یقین ہونا چاہیے کہ پہاڑ جیسی سازشیں بھی کیوںنہ ہوں ، ہماری موثر جدوجہد اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے وہ ناکام ہوجائیں گی۔مقدس کاز کو نقصان پہنچانے والے لوگ اور طاقتوںکے مقدر میں رسوائی ہی رسوائی لکھی ہوئی ہیں۔ہمیں بس اللہ کی خاطر اور اُن کی رضا کے لیے اپنی جدوجہد کو خالص کرنا ہوگا ، ہم اگر عمل کا میدان مار گئے تو ہر مرحلے پر غیبی مدد و حمایت کو ہم اپنا انتظار کرتے ہوئے پائیں گے۔ان شاء اللہ۔
رابطہ    9797761908

Comments

Popular posts from this blog

لندن کی کشمیر کانفرنس۔۔۔ ایس احمد پیرزادہ

پبلک سیفٹی ایکٹ اور نیشنل کانفرنس....ایس احمد پیرزادہ