عثمان مجید کشمیریوں کاقاتل

اسمبلی ۔۔۔ ضد ِانقلاب کا باب کھلا !
حقائق سے پردے سر کتے ر ہیں گے

 ریاست جموں وکشمیر کے سرمائی راج دھانی جموں میں اسمبلی کے رواں اجلاس میں پی ڈی پی رکن اسمبلی بٹہ مالو نور محمد شیخ نے ایم ایل اے بانڈی پورہ عثمان مجید کو اخوان دور کا ماسٹر مائنڈ قرار دیتے ہوئے اُن پر الزام عائد کیا کہ اس نے سونا واری اور بانڈی پورہ میں اخوان دور میں درجنوں معصوموں کا خون بہایا ہے اور وہ صدر کوٹ میں ایک ہی کنبے کے ۸؍افراد کی ہلاکتوں میں بھی ملوث رہے ہیں۔ سابق ہندنواز بندوق بردار و موجودہ ایم ایل اے بانڈی پورہ عثمان مجید، نور محمد کے ان الزامات پر آگ بگولہ ہوگئے۔ انہوں نے اسملی فلور پر ایم ایل اے بٹہ مالو پر حملہ کرنے کی ناکام کوشش کرنے کے علاوہ ممبران اسمبلی کو مخاطب کرتے ہوئے یہ تک کہہ دیا کہ :’’مجھے زبان کھولنے پر مجبور مت کرو،اگر ہم(MLAs)یہاں بات کررہے ہیں تو یہ ہم ککہ پرے کی وجہ سے کررہے ہیں۔‘‘ اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ’’میں جانتا ہوں کہ نوے کی دہائی میں کس طرح مفتی محمد سعید نے ککہ پرے سے کہا کہ ہم آپ کے ساتھ ہیں ، آپ آگے بڑھو‘‘ ۔ عثمان مجید نے ایم ایل اے بٹہ مالو سے معافی مانگنے کے لیے کہا اور دھمکی دی کہ اگر نور محمد نے اُن سے معافی نہیں مانگی تو وہ سب کی اصلیت ظاہر کردیں گے۔ الزامات اور جوابی الزامات کا یہ سلسلہ یہاں ہی ختم نہیں ہوا۔ دوسرے روز ایم ایل اے بٹہ مالو نے اسمبلی میں پھر کہہ دیا کہ عثمان مجید اُنہیں جان سے مار دینے کی دھمکیاں دے رہے ہیں اور انہوں نے یہ بھی کہا کہ نوے کی دہائی میںجب ککہ پرے اخوان کے چیف تھے اور عثمان مجید ڈپٹی چیف اُنہیں دو دفعہ اغوا ء کرلیا گیا تھا۔ میری رہائی کے لیے میرے والد نے پہلے اُنہیں ایک لاکھ پھر۶۰؍ہزار بطورتاوان پیش کیے ہیں۔
نوے کی دہائی میں منحرف بندوق برداروں اور اُن کے سرغنوں کی ان کالی کرتوتوں پر یہ لب کشائی کسی حریت لیڈر نے نہیں کی ہے، نہ ہی کسی کالم نویس یا انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی کسی تنظیم نے ایسا کہا ہے، بلکہ پردہ ٔ غیب میں نہاں ان تلخ حقائق پر مبنی ا نکشافات حکومت ہند کے لیے کام کرنے والے اور دلی کے قدم کشمیر کو مضبوطی عطا کرنے والے ایک ہی اسمبلی ممبران کر رہے ہیں۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے، ابھی صرف ڈیڑھ دہائی کا وقفہ گذرا ہے۔ نوے کی دہائی کے وحشت ناک ماہ و سال، منحرف یا ضد انقلاب کہلانے والے بندوق برداروں کی دہشت گردی اور اُن کی جانب سے خون کی ہولیاں کھیلنے کے روح فرسا مناظر ابھی تک عام کشمیریوں کے دل و دماغ پر حاوی ہیں۔ بھلے ہی قوم نے چپ سادھ لی ہو لیکن یہ قوم ’’اخوان‘‘ اور دیگر ’’فرینڈلی‘‘بندوق برداروں کی اُن کالی کرتوتوں اور جرائم کو بھول نہیں پائی ہے۔جس عثمان مجید پراسمبلی میں موجود ایک دوسرے ایم ایل اے نے معصوم لوگوں کو قتل کرنے کا الزام عائد کیا ہے ، ابھی چند ہی ماہ پہلے۵؍جون ۲۰۱۶ء کو جموں وکشمیر ہائی کورٹ نے اُن کو ۲۳؍سال قبل جماعت اسلامی جموں وکشمیر سے وابستہ عبدالخالق وانی ساکن مدون حاجن ضلع بانڈی پورہ کے قتل میں ملوث ہونے کے کیس میں اپنا جواب پیش کرنے کو کہا تھا۔ عبدالخالق وانی کو۶؍جون۱۹۹۳ء کو گولی مار کر جان بحق کردیا گیا اور اُن کے لواحقین کی جانب سے ہائی کورٹ میں دائر ایک عرضی میں الزام عائد کیا گیا کہ عبدالخالق وانی کو عثمان مجید اور اُن کے ساتھ کام کرنے والے دیگر ہندنواز بندوق برداروں نے ابدی نیند سلا دیا ۔
نوے کی دہائی میں جب ریاست جموں وکشمیر میں عسکریت اپنے جوبن پر تھی تو دلی کی ایجنسیوں نے ایک منصوبہ بند طریقے سے یہاں سرکاری بندوق برداروں کی ایک کھیپ تیار کرکے اُنہیں مسلح کر کے مالی معاونت کی اور یہ کھلی چھوٹ دی کہ وہ آزادی نوازاور اسلام پسندافراد کو تختۂ مشق بناکر حکومت ہند کا کام آسان کریں۔ آرمی اور دیگر فورسز ایجنسیوں کی چھتر چھایہ میں کام کرنے والے اِن بندوق برداروں نے شہر و دیہات میں دہشت مچائی ، اُن دنوں کو یاد کرتے ہوئے آج بھی انسان کے رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ یہ بے لگام بندوق بردار چن چن کرلوگوں کو گھروں سے نکال کر قتل کرتے تھے۔ اغوا ء کرکے تاوان وصول کرنا، عصمت ریزیاں کرنا، جسمانی تشدد اور نہ جانے کیا کیا ستم ڈھانا ان کا مشغلہ تھا۔ درندوں کی طرح بستیوں پر ٹوٹ پڑنا، دین داروں کو بے دریغ انداز سے قتل کرنا ، سرراہ لوگوں کو لوٹنااُن کا وظیفہ ٔ عمل تھا۔ ہر ضلع اور تحصیل میں اِن کے بڑے بڑے کیمپ تھے، جہاں سے یہ فوج اور نیم فوجی دستوں کے سائے میں بے لگام ہو کرکام کرتے تھے۔ حاجن ، سنبل ، صفا پورہ ،کولگام، اسلام آباد، بانڈی پورہ ، بڈگام اور کپواڑہ اضلاع ان بندوق برداروں کے خصوصی نشانے پر رہے ۔بانڈی پورہ، حاجن ، سونہ واری کے علاقہ میں منحرف بندوق برداروں کا سرغنہ ککہ پرے سرگرم عمل تھا۔ککہ پرے کا اعتراف رہا کہ اُس نے خصوصی طور پر جماعت اسلامی جموں و کشمیر کو نشانہ بناکر اس کے سینکڑوں کارکنوں کو ابدی نیند سلا دیا ہے۔ اُس نے خود1996 میں’’ انڈین ایکسپرس‘‘کی د و خاتون صحافیوں کو انٹرویو دیتے ہوئے اعتراف کیا کہ میں نے اپنے علاقے میں جماعت اسلامی کے125؍ ارکان کو موت کی گھاٹ اُتار دیا ہے۔’’انڈیا ٹوڈے ‘‘کو دئے گئے ایک اور انٹرویو میں ککہ پرے نے بڑی ہی بے باکی سے اعتراف کرلیا کہ میں نے اسلام اورآزادی پسند پانچ سولوگوں کو موت کی نیند سلا دیا ہے۔کپواڑہ میں نوے کی دہائی میں ایک ہی رات کے دوران منحرف بندوق برداروں نے ایک درجن افراد جان بحق کردئے ۔ جان بحق کیے جانے والوں میں اساتذہ، دانشور، ادیب اور مذہبی اسکالر شامل تھے۔اُن کا ’’جرم‘‘ یہ تھا کہ وہ جماعت اسلامی سے وابستہ تھے۔ان بندوق برداروں کے ہاتھوں ایک محتاط اندازے کے مطابق صرف جماعت اسلامی جموں وکشمیر کے کوئی ڈھائی ہزار ارکان، رفقاء و ہمدردان جان بحق کردئے گئے ہیں،جن میں کولگام کے سابق اسمبلی ممبرمیر عبدالرزاق بچرو،اعلیٰ سرکاری عہدے پر تعینات محمد افضل تانترے ساکن کولگام،معروف شاعر علی محمد شہباز ؔ ساکن ہانگا ہندواڑہ، تحصیل ایجوکیشن آفیسر عبدالعزیز پیر ساکن نگری کپواڑہ ، ماہر تعلیم علی محمد میر ساکن درد پورہ کپواڑہ ، عبدالغنی زونگل پورہ کولگام اور معروف ماہر تعلیم و عالم دین ماسٹر محمد نورالدین قریشی ساکن پنجواہ ویلگام ، نذیر احمد نائیک ساکن زینہ پورہ، عبدالغنی شاہ ساکن تجر وغیرہ وغیرہ شامل ہیں۔ضلع بڈگام میں سرگرم ایک اور سرکار نواز بندوق بردار غلام محمد میر المعروف ممہ کنہ کو اپنی انہی’’ اعلیٰ خدامات‘‘ کے صلے میں پدم شری ایوارڈ سے نوازا گیا، اُس نے یہ پدم شری ایوارڈ حاصل کرنے کے بعد از خود اعتراف کرلیا تھا کہ میں نے پانچ ہزار عسکریت پسندوں کو جان بحق کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔(دیکھئے گریٹر کشمیر۲؍ستمبر۲۰۱۰ء)۔اس ایوارڈ کے لیے اُن کے نام کی سفارش سابق وزیر اعلیٰ اور نیشنل کانفرنس کے صدر فاروق عبداللہ نے کی تھی جسے وجاہت حبیب اللہ نے بہ حیثیت ڈویژنل کمشنر کشمیر حکومت ہند کو ارسال کیا۔ایک اندازے کے مطابق نوے کی دہائی میں وادی بھر میں ہند نواز بندوق برداروں کی تعداد دو ہزار کے قریب تھی یعنی دو ہزار ایسے بندوق بردار جنہیں ہر طرح کے اختیارات حاصل تھے، وہ لوگوں کو جان سے مار دینے کی طاقت بھی رکھتے تھے، خواتین کی عصمت ریزی بھی کرتے تھے،اغواء کرکے بھاری تاوان وصول کرتے تھے،جو تاوان دینے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے ، اُنہیں کھلے عام جان سے مار دیتے تھے۔ ٹارچر کرکے نوجوانوں ، بزرگوں، خواتین اور بچوں تک کو تشدد کا شکار بناتے تھے ، حتیٰ کہ سرکاری محکموں میں مداخلت کرکے مختلف محکموں کا کام اپنی مرضی سے کرواتے تھے، ، جنگلات کی لوٹ مار اور ڈکیتیاں ان کا معمول تھا۔
 ۱۹۹۳ء سے۲۰۰۵ء تک کا زمانہ کشمیر کی تاریخ کا ایک ایسا پرآشوب سیاہ دور تھا جس میں ہندوستانی ایجنسیوں کی جانب سے وجود میں لائے گئے ان ہند نواز بندوق برداروں کے ذریعے سے قتل عام کروایا گیا۔ یہ بندوق بردار جرائم پیشہ اور منشیات کے عادی لوگ تھے۔ اُنہیں یہ ہدف دیا گیا تھا کہ وہ تحریک آزادی کو کمزور کرنے اور جدوجہد کی کمر توڑنے کے لیے آزادی پسندوں کا مکمل صفایا کریں۔ یہ لوگ رات کی تاریکیوں میں لوگوں کے گھروں میں گھس کر اندھا دھندگولیاں چلاتے تھے،ان کے سیاہ کارناموں پر اگر لکھنے بیٹھ جائیں تو ہزاروں اوراق بھی کم پڑ جائیں۔اسمبلی کے اندر جو لوگ آج الزام لگا رہے ہیں اور جن پر الزام لگایا جارہا ہے دونوں شریک جرم رہے ہیں۔ ایک نے اگر خود دہشت گردی کرکے لوگوں کے سروں پر اپنے لیے اسمبلی کی کرسی محفوظ کرلی تو دوسرا جس سیاسی جماعت سے وابستہ ہیں، اُس کے لیڈروں نے ان جرائم پیشہ لوگوں کی پیٹھ تھپتھپائی ۔۱۹۹۶ء میں ریاستی اسمبلی میں داخل ہونے کے لیے بے قرار اقتدار پرست سیاست دانوں نے ہر وہ جائز و ناجائزحربہ استعمال میں لایا جوایوانِ اسمبلی تک اُن کی راہ ہموار کرنے میں کار آمد ثابت ہوا۔اس میں جرائم پیشہ سرکار نواز بندوق برداروں کی پشت پناہی کرکے اُنہیں عوام کو ڈرانے ، دھمکانے اور اپنے سیاسی، نظریاتی اور فکری مخالفین کو راہ سے ہٹانا بھی شامل رہا۔ہزاروں افراد کا خون بہانے والے سینکڑوں قاتلوں میں آج تک صرف چند ایک گرفتار ہوئے ہیں۔ پاپا کشتواڑی ،ایس ایس پی ہنس راج پری ہار،ڈی ایس پی بہادر رام،اے ایس آئی فاروق احمد گڈوہی قانون کے شکنجے میں آچکے ہیں۔ سینکڑوں لوگ تاحال بغیر کسی قانونی مواخذے کے عیش و عشرت کی زندگی گزار رہے ہیں، سرکاری مراعات پا رہے ہیں اور اُنہیں مختلف ایجنسیوں کی جانب سے پروٹوکال بھی حاصل ہے۔ضلع کپواڑہ میں رشید خان اور لال دین کا نام سنتے ہی لوگوں کے تن بدن میں خوف طاری ہوجاتا تھا۔نوے کی دہائی میں رشید خان کے لوگ پورے ضلع میں ہتھیاروں کے ساتھ گھومتے تھے، سرکاری دفاتر میں ملازمین سے تاوان وصول کرتے تھے۔ انہوں نے اپنے علاقے ہیہامہ میں اپنی ہی سلطنت قائم کررکھی تھی۔اُن کے اشاروں پر نہ جانے کتنے لوگ جان کھو بیٹھے ۔عثمان مجید تو بہرحال ککہ پرے کی جماعت’’اخوان‘‘ کا ڈپٹی کمانڈر تھا  جب کہ اخوان پر ہزاروں لوگوں کو قتل کرنے کا الزام ہے۔ خود اس تنظیم کے بدنام زمانہ چیف ککہ پرے نے بھی اعتراف کیا تھا کہ میںنے پانچ سو لوگوں کو مار دیا ہے۔ قانون کی بالا دستی کا تقاضا یہ ہے کہ جتنے بھی منحرف بندوق بردار ہیں، ان کو قانون کے شکنجے میں لایا جائے۔ وہ بے آسرا لوگ جن کے عزیز و اقارب ان دہشت گردوں کی بربریت کا شکار ہوئے ہیں، کو بھی یہ مطالبہ لے کر آگے آنا چاہیے۔ متحدہ قیادت کی بھی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ عوام پر مظالم ڈھانے والے بندوق برداروں کے چہرے سے نقاب سرکنے کے لیے قانونی، سیاسی و سفارتی لڑائی لڑیں۔دنیا کو بتانے کی ضرورت ہے کہ جو لوگ کشمیر میں جنگی جرائم میں ملوث رہے ہیں ، وہ نہ صرف آزاد گھوم پھر رہے ہیں بلکہ سرکاری مراعات اور ممبران اسمبلی تک بن بیٹھے ہیں، اُن کے خلاف عالمی سطح کا کوئی ٹربیونل قائم کیا جانا چاہیے، جو اُنہیں کیفر کردار تک پہنچاسکے۔ ایسا نہ کیا گیا تو تاریخ کے اوراق پر یہ دھبہ قائم رہے گا کہ کالے کارناموں میں ملوث لوگوں کو ایک مظلوم قوم سزا سے ہمکنار نہیں کراسکی ۔ بہر حال خوف اور دہشت سے بھلے ہی لوگ خاموشی اختیار کریں، کوئی نوے کی دہائی میں اخوانیوں اور دیگر سرکار نواز بندوق برداروں کے ہاتھوں ہوئے قتل عام پر لب کشائی نہ کریں، مگر تاریخ بتاتی ہے کہ ایک نہ ایک دن ضرور معصوم لوگوں کا خون پکار اُٹھتاہے اور ظالموں کو خس وخاشاک کی طرح وقت کے دھارے میں بہا لیتا ہے۔ انسانیت کے قاتلوں کو نہ ہی اس دنیا میں سکھ اور چین نصیب ہوتا ہے اور نہ ہی اُس دنیا میں اُن کے بچ نکلنے کی کوئی گنجائش ہوتی ہے۔وہاں تو اُن کا انجام عبرتناک ہوگا ہی ،البتہ یہاں بھی اُنہیں خون کے ہر اُس قطرے کا حساب دینا ہوگا جو انہوں نے نہتے اور معصوم لوگوں کا قتل کر کے بہایا ۔نیشنل کانفرنس ہو یا پھر پی ڈی پی، کانگریس ہو یا پھر کوئی اور ہند نواز سیاسی جماعت ،ہر ایک نے ان منحرف بندوق برداروں کو اپنے مفاد کے لئے خوب استعمال کیا ہے۔ اُنہیں نہ صرف سیاست دانوں نے بلکہ حکومت ہند نے بھی وقتی طور ان سے کام لے استعمال کر سرراہ چھوڑ دیا ہے کیونکہ ظلم زیادہ دیر تک نہیں رہتا، جس طرح نوے کی دہائی گزر گئی اور اخوانیوں کی دہشت اور وحشت کا خاتمہ ہوا ، قانون مکافاتِ عمل یہ ہے کہ اِسی طرح ایک دن ضرور آئے گا جب باقی بچے سارے مجرمین کیفرکردار تک پہنچ جائیں گے۔ بہترین انسان وہی ہوتا ہے جو حالات کی رو میں بہہ کر انسانیت کی قدریں اور اصول فراموش نہیں کرتا۔ بہتر اور معقول بات یہ ہے کہ جتنے بھی سرکارنواز بندوق بردار ماضی میں کشمیریوں کے قتل عام میں ملوث رہے ہیں ،وہ اللہ کے حضور سچی توبہ کریں، عوام سے دل سے معافیاں مانگیں اور اپنے گناہوں پر نادم ہوجائیں۔ شاید دل کی نرم کشمیری قوم اُن کے بدترین گناہ معاف کردے ۔ البتہ جس روش پر یہ لوگ اب بھی قائم ہیں ، یہ بہرحال اُن کی دنیا و آخرت دونوں کو تباہ کرنے کا سبب بن جائے گا۔ دانائی اور دور اندیشی اسی میں ہے کہ غیروں کے بجائے اپنی ہی قوم کا دامن پکڑ لیا جائے، کیونکہ اِن سبوں کو یہی جینا بھی ہے اور یہی مرنا بھی ہے۔
essahmadpirzada@gmail.com


Comments

Popular posts from this blog

لندن کی کشمیر کانفرنس۔۔۔ ایس احمد پیرزادہ

پبلک سیفٹی ایکٹ اور نیشنل کانفرنس....ایس احمد پیرزادہ