زائرہ وسیم کنٹراورسی کشمیر میں

بات کا بتنگڑہ بنا نا ہم سے سیکھئے


ایس احمد پیرزادہ

 حالیہ دنوں ریاست جموں وکشمیر میں ایک نئی کنٹراورسی کواُس وقت جنم دینے کی کوشش کی گئی جب سرینگر سے تعلق رکھنے والی ایک کم سن لڑکی جو بالی ووڈ کی کسی فلم میں اداکارہ ہے، نے ریاستی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی سے ملاقات کرنے کے بعد قوم سے معافی طلب کرتے ہوئے کہا کہ اُن کے لیے ایسے حالات پیدا کیے گئے ہیں کہ اُنہیں نہ چاہتے ہوئے بھی ریاستی وزیر اعلیٰ کے ساتھ ملاقات کرنی پڑی۔اپنے فیس بُک پوسٹ میں اس لڑکی نے کہا کہ ’’ جن لوگوں کو میری حالیہ ملاقات کے ذریعے سے تکلیف پہنچی ہو ، میں اُن کے جذبات کو جانتی ہوں اور اس بات کا بھی ادراک رکھتی ہوں کہ گزشتہ چھ ماہ میں یہاں کیا کچھ ہوا ہے، میں اُن سے معافی مانگتی ہوں۔‘‘فیس بُک پر اس لڑکی نے پوسٹ کیا کیا، پوری ہندوستانی میڈیا نے آسمان سر پر اُٹھا لیا۔ کشمیری قوم کو شدت پسند، تنگ نظر، دہشت گرد او رنہ جانے کن کن القاب سے بے تکلفی سے نوازا گیا۔ بحث و مباحثہ شروع کیا گیا کہ وادیٔ کشمیر میںنوجوان نسل کو اپنی صلاحیتوں کالوہا منوانے نہیں دیا جارہا ہے۔ اسلام پسندوں اور حریت پسندوں کو موردِ الزام ٹھہرایا جانے لگا۔پرنٹ میڈیا میں ہزاروں الفاظ پر مشتمل بڑے بڑے کالم لکھے گئے۔ غرض ہر طرح سے کشمیری قوم کو بدنام کرنے اور اُنہیں تنگ نظر اور شدت پسند ثابت کرنے کے لیے زمین و آسمان کے قلابے ملائے گئے۔ المیہ تو یہ ہے کہ وادی سے تعلق رکھنے والے ایک مخصوص ٹولے نے بھی اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے جان بوجھ کر اپنے ہی سماج کو کوسنا شروع کردیا ہے ،حالانکہ ٹولہ بخوبی جانتا ہے کہ یہاں نہ ہی زمینی سطح پر ایسا کوئی معاملہ ہے اور نہ ہی یہاں کے سماج میں کسی کے ذاتی معاملات میں مداخلت کرنے کا کوئی چلن ہے۔ اس کے باوجود یہ طبقہ اپنے آپ کو دلّی اور اُن کے مقامی آقاؤں کی نظروں میں لبرل اور روشن خیال رہنے کے لیے کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتاہے جس میں کشمیریوں کی شبیہ بگاڑنے کا انہیں بہانہ ملے ۔

 سچائی یہ ہے کہ مذکورہ لڑکی کوئی پہلا فردبشر نہیں جس نے کشمیر سے ماڈلنگ یا ایکٹنگ کی دنیا میں قدم رکھا ہو۔ اس سے قبل درجنوں نوجوان اور افراد نے فلموں میں کام کیا ہے اور کر بھی رہے ہیں۔ گرچہ کشمیر کی سوسائٹی مجموعی طور پر فلمی دنیا کو پسند کی نظر سے نہیں دیکھتی ہے اور اس میں لڑکیوں کا بالخصوص کام کرنا معیوب سمجھتی ہے لیکن آج تک ایک بھی مثال کوئی نہیں دے سکتا کہ جس کسی نے بھی ایسا کیا ہو اُسے زبردستی ایسا کرنے سے روکا گیا ہو، یا اُسے ڈرایا دھمکایا گیا ہو۔ یہ کسی فرد کی اپنی سوچ پر منحصر ہے کہ وہ کیا کریں اور کیا نہ کرے۔ زیادہ سے زیادہ یہاں کا ذی حس طبقہ کسی کو پیار و محبت اور تہذیب تمیز سے سمجھانے کی کوشش کرے، مگرکسی کو بزور اپنے من پسند کام سے روکنے کے لیے مجبور نہیں کیا جارہا۔سوشل میڈیا ایک ایسا پیلٹ فارم ہے جہاں مسائل اور معاملات کے حوالے سے ہر کوئی اپنی رائے کا کھلم کھلا اظہار کرتا ہے، کشمیری بھی اس پیلٹ فارم کا استعمال کرتے ہیں۔ نہ صرف مختلف ایشوز کے حوالے سے کشمیر ی نوجوان بڑھ چڑھ کر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں بلکہ اپنے اوپر ہورہے مظالم، ناانصافیوں اور حقوق کے غصب ہونے پر بھی اپنا ردعمل شوشل میڈیا پر دکھاتے ہیں۔ دنیا کو اپنی مجبوریوں اور لاچاریوں سے باخبر کرنے کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال کیا جاتا ہے۔ مذکورہ لڑکی نے اپنے لئے فلمی دنیا کا انتخاب کرلیا، کسی نے اعتراض کیا؟ نہیں ۔اُس نے وزیر اعلیٰ سے ملاقات کی ، اس پر بھی کسی کو اعتراض نہیں لیکن جب وزیر اعلیٰ نے اس لڑکی کوکشمیری نوجوان نسل کے لیے رول ماڈل قرار دیا تو پھر یہاں کے نوجوانوں نے سوشل میڈیا پر نہ صرف محبوبہ مفتی کے ریمارکس کو رد کردیا بلکہ اُنہوں نے اداکارہ کی وزیر اعلیٰ کے ساتھ ملاقات پر بھی اپنی ناراضگی کا اظہار کیا جیسے اس موقع پر ہوا تھا جب محبوبہ جی کے پانپور میں عسکری جھڑپ کے موقع پر کہا تھا کہاا نہیں خود کو مسلمان کہتے ہوئے شرم آتی ہے ۔ سبھی جانتے ہیں کہ گزشتہ چھ ماہ کے دوران یہاں کے گلی کوچوں کو کس طرح لالہ زار بنادیا گیا ہے، کس طرح نونہالوں اور نہتے لوگوں کو گولیوں سے بھون ڈالا گیا، کس طرح معصوموںکی آنکھیں چھینی گئیں ہیں اور کس طرح ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے ہیں ، یہ سب محبوبہ مفتی کی حکومت میں ہوا ہے۔ حتیٰ کہ اُنہوں نے یہاں ایک سو سے زائدنوجوانوں کے قتل عام کویہ کہتے ہوئے جواز بھی فراہم کیا ہے کہ وہ گولی کھاتے وقت دودھ اور ٹافیاں لینے نہیں گئے تھے۔ نوجوانوں نے جمہوری طریقے پر سوشل میڈیا پر اس بات کولے کر اپنی ناراضگی کا برملا اظہار کردیا کہ مذکورہ لڑکی کو کشمیری سوسائٹی کا حصہ ہونے کی حیثیت سے اُن لوگوں سے ملنے نہیں جانا چاہیے تھا جو یہاں کی نوجوانوں کی نسل کشی میں کسی نہ کسی طرح ذمہ دار ہیں۔کسی نے مذکورہ لڑکی کو معافی مانگنے کے لیے نہیں کہا تھا،کسی نے اُسے دھمکی نہیں دی تھی جیسا کہ اُس نے از خود دوسرے پوسٹ میں قبول کرلیا کہ اس کے’’ اعتراف‘‘ کو ہندوستانی میڈیا نے غلط رنگ دے دیا ، حالانکہ اُسے اس کے لیے کسی نے مجبور نہیں کیا تھا۔لیکن اِس کو اتنا اچھالا گیا کہ جیسے کشمیری قوم میں ہی جنم لینے والی یہ لڑکی اپنوں میں نہیں بلکہ ’’درندوںاور وحشیوں‘‘ کے نرغے میں تھی۔ میڈیا کے ذریعے سے ماحول تیار کیا گیا ہے اور دلی میں حکومتی ذمہ داروں نے اس بات کا اعلان کرنے میں دیر نہیں لگا دی کہ وہ زائرہ وسیم کو سیکورٹی فراہم کرنے کے لیے تیار ہیں بشرطیکہ ریاستی حکومت اس بات کے لیے راضی ہوجائے ۔گویا ریاست سے باہر کشمیریوں کی ایک خوف ناک اور گھناؤنی تصویر پیش کرنے کی کوششیں کی جارہی ہے۔ کشمیریوں کی شبیہ مسخ کرکے اُنہیں دنیا کی خطرناک ترین مخلوق قرار دینے کی سازشیں ہورہی ہیں۔ یہ منفی پروپیگنڈا بیرون ریاست کشمیری طلبہ اور تاجروں پر جان لیوا حملوں کا شاخسانہ بن جاتا ہے۔

جس طرح ہندوتوا کے علمبردار زور زبردستی ، ڈرا اور دھمکاکر لوگوں کی آواز یں خاموش کرنے کے روا دار ہیں، جن ہتھکنڈوں کو استعمال میں لاکر دلی والے حقوق کی باز یابی کی جائز مانگ کو دبانے کے طریقے کار پر عمل پیرا ہیں ، اُن کے جیسا طرز عمل اگرکشمیری قوم نے بھی اختیار کرلیا ہوتا یا کرلے گی تو ہم یہ بات یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ آج کشمیر میں کوئی بھی شخص ہندنواز خیمے میں شامل نہیں ہوتا۔یہاں ۹۵؍فیصد سے زائد عوام کی آوازایک ہے، سوچ ایک ہے، یعنی وہ افسپا سے لیس ہندوستانی فورسز کو جابر وظالم تصور کرتے ہیں۔ اپنے سیاسی حقوق کی باز یابی کے لیے آخری حد تک جانے کے لیے تیار ہیں ، صرف ۵؍فیصد لوگ ایسے ہیں جو اپنے ذاتی اغراض و مقاصد کے لیے ہند نواز خیمے سے جڑے ہوئے ہیں، جن میں تمام ہند نواز سیاسی جماعتوں کے لیڈران بھی شامل ہیں۔ مثال کے طور پر اگرکشمیریوںنے بھی بے جے پی ، آر ایس ایس، ویشوہندو پریشد کا طریقہ کار اختیارکیا ہوتا تو کسی گاؤں میں آج کوئی این سی، پی ڈی پی اور کانگریس کا سیاسی ورکر نہیں ہوتا، کوئی اپنے مالی مفادات کے لیے بی جے پی جوائن کرنے کی جرأت نہیں کرتا، کوئی کوکہ پرے ، نبہ آزاداور جاوید شاہ بننے کی جرأت نہیں کرتا لیکن اس قوم نے کبھی بھی کسی کی سوچ پر قدغن نہیں لگائی ، کسی کو اپنی راہ متعین کرنے سے نہیں روکا ، یہاں سچائی کا پرچار ہوتا ہے، سیدھی راہ کی تلقین کی جاتی ہے، حق کا کلمہ بلند کیا جاتا ہے لیکن کسی پر سچائی تھوپی نہیں جاتی ہے، کسی کو زبردستی سیدھی راہ پر گامزن نہیں کیا جاتا ہے اور کسی کو باطل کے خیمے سے طاقت کے بل بوتے پرپکڑ کرحق کے جھنڈے تلے کھڑا نہیں کیا جاتا ہے کیونکہ یہ اسلام کا مزاج ومنہج نہیں۔یہاں زور زبردستی نہیں بلکہ پیار و محبت سے سمجھنے کا رواج ہے، یہاں علم اور تلقین سے دلوں پر راج کرنے کی روایت رہی ہے، یہاں ذہن سازی میں یقین کرلیا جاتا ہے، شاید اِسی لیے ۷۰؍سال کی مسلسل کوششوں کے باوجود ہندوستان اس قوم کو توڑنے میں کامیاب نہیں ہوپاتا ۔ اس قوم نے جوبھی راہ اپنائی ہے، سوچ سمجھ کر اور شعور کے ساتھ اپنائی ہے۔اس قوم نے شرافت کا دامن چھوڑا ہوتا تو یہاں کوئی استحصالی ٹولہ نہیںہوتا، سازشیں کرنے اور سازشوں کا حصہ بننے والے نہیں ہوتے۔ اس قوم کی شرافت ، صداقت اور اپنائیت کی مثالیں دنیا میں کہیں اور دیکھنے کو نہیں ملیں گی۔ ہمارا ہی یہ شیوا رہا ہے کہ ہم اپنے خطرناک سے خطرناک ترین دشمن کو بھی معاف کرنے کا سلیقہ رکھتے ہیں، اپنے قاتلوں کو بھی کھلاتے پلاتے ہیں، ہم وہی ہیں جن پر سی آر پی ایف کے اہل کار بے تحاشہ پیلٹ او رگولیاں برستاتے ہیں اور ہم سیلاب میں سامبورہ میں اپنی جانوں پر کھیل کر اُنہیں بچاتے ہیں، ہمیں وہی ہیں جن کے خلاف امرناتھ یاترا کو ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے اور بدلے میں ہم کرفیو توڑ کر بجبہاڑہ میں نہ صرف حادثے کا شکار ہونے والے یاتریوں کو نکال کر ہسپتال پہنچاتے ہیں بلکہ وہاں اپنے زخمیوں کے لیے عطیہ کیا ہوا خون تک اُنہیں چڑھا دیتے ہیں۔یہ سب کھلی کتاب کی طرح عیاں ہے اور اس کے باوجود اگر کوئی ہمیں شدت اور انتہا پسندی کا طعنہ دیتا ہے تو ہم یہیں کہیں گے کہ آسمان پر تھوکنے سے آسمان کی اونچائی اور عظمت کا تو کچھ نہیں بگڑ جائے گا البتہ تھوکنے والے کا اپنا ہی چہرہ گندہ ضرور ہوجاتا ہے۔

حالیہ عوامی ایجی ٹیشن نے نہ صرف دلی کو بوکھلاہٹ کر شکار کردیا ہے بلکہ اُن کی ترجمانی کرنے والی پی ڈی پی اور بی جے پی کولیشن سرکار کے پاؤں تلے بھی زمین سرکا دی ہے۔سرینگر سے دلی تک دفاعی ماہرین اور سیاسی پنڈٹ سر جوڑ کر بیٹھے ہوئے ہیں کہ کس طرح عوامی جذبات کو ٹھنڈا کیا جاسکے، کسی طرح ایک پوری قوم کے دلبرداشتہ کیا جائے اور کس طرح اُن کے حوصلوں کو توڑا جائے۔ دکھاوا کیا جاتا ہے ، جیسا کہ اس لڑکی نے از خود اعتراف کرلیا ہے کہ محبوبہ مفتی سے اُن کی ملاقات کے لیے ایسا ماحول بنالیا گیا کہ وہ نا نہیں کرسکیں۔ ریاستی وزیر اعلیٰ نے اس سے قبل کپواڑہ اور اسلام آباد جاکر اُن نوجوانوں کے لواحقین کے ساتھ ملنے کا ڈرامہ بھی کیا تھا جنہیں اُن کی سرپرستی میں کام کرنے والے وردی پوشوں نے گولیوں سے بھون ڈالاتھا، وہ اُس انشاء سے ملنے آل انڈیا میڈیکل انسٹی چیوٹ بھی گئیں تھی جن کی دونوں آنکھیں اُن کی پولیس نے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بینائی سے محروم کردی ہیں۔اُنہوں نے لڑکیوں میں اسکوٹر تقسیم کرکے نوجوانوں کا دھیان حالات سے موڑنے کی ناکام کوشش بھی کی تھی،او ر اب اُن کے صلح کاروں نے اُنہیں مذکورہ لڑکی سے ملاقات کروا کے ایسے حالات جان بوجھ کر پیدا کیے کہ جن کی آڑمیں پورے ہندنواز ٹولے اور دلی میں مقیم اُن کے آقاؤں کو کشمیری قوم کو بدنام کرنے کا موقع نصیب ہوا۔

اس سارے مسئلے کا ایک اور پہلو بھی ہے، فلمی دنیا کی روایت رہی ہے کہ وہاں کے لوگ اپنی فلموں کو ہِٹ کرانے کے خاطر کسی بھی حد تک جاتے ہیں۔ جوں ہی کوئی فلم تیار ہوکر ریلیز ہونے والی ہوتی ہے تو اس میں کام کرنے والے کسی اداکار یا اداکارہ سے جڑا کوئی کنٹراورسی بھرا مسئلہ اُچھالا جاتا ہے، یا اُن کو کسی سکنڈل میں ملوث کرکے میڈیا کے ذریعے اُس کی خوف تشہیر کی جاتی ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اُن کی جانب متوجہ ہوکر وہ فلم دیکھنے آجائیں۔ ایسا گزشتہ کئی برسوں کے اخبارات کھنگالنے سے واضح بھی ہوجاتا ہے۔یہاں بھی بھارتی میڈیا اور متذکرہ فلم بنانے والوں کے نزدیک عیاں طور کئی فائدے سمیٹنے کا نشانہ تھا۔ کشمیری لڑکی کو مظلوم دکھایا جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اُس کا کام دیکھنے سینماہالوں میں آجائیں ، کشمیریوں کو بدنام کرنے کے لیے بھی یہ سنہرے موقع ہے اور محبوبہ مفتی بھی اپنا نام بھارتی عوام کی نظروں میں ’’شدت پسندوں‘‘ کے گھیرے میں پھنسی ہوئی دکھانے کی متمنی ہیں تاکہ اُنہیں دلی دربار میں زیادہ سے زیادہ حمایت حاصل ہوجائے اور وہ زیادہ دیر تک بغیر عوامی حمایت کے بھی برسر اقتدار رہ سکیں ۔

موجودہ زمانے میں بڑی بڑی طاقتوں نے جھوٹ، فریب اور مکاری پر اپنی ترقی کی بنیادیں استوار کررکھیں ہیں، مسائل حل کرنے اور اغراض حاصل کرنے کے لیے غلط پروپیگنڈے کا سہارا لیا جاتا ہے۔ جس طرح پاکستان کی ملالہ یوسف زئی کو جھوٹ کے سہارا نوبل انعام کے اسٹیج تک پہنچایا گیا اور اُنہیں پاکستان اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لیے خوب استعمال کیا جارہا ہے، اُسی طرز پر ہندوستان بھی کشمیر سے کسی مالا یوسف زئی کو جنم دینے کی تاک میں بیٹھا ہوا ہے۔ ویسے کشمیری قوم بڑی ہی ذہین اور زیرک ہے، یہاں شاید ہی کوئی ملالہ یوسف زئی بننے کے لیے تیار ہوجائے گی اور شاید ہی کوئی اپنی قوم و ملت کی بدنامی کا سبب بن جائیں گی۔باقی رہی بات ہندوستانی میڈیا اور وہاں کے سیاست دانوں کی، دنیا جانتی ہے کہ اُن میں کتنی سنجیدگی ہے اور کتنی دور اندیشی۔وقت کشمیر اور کشمیریوں کی تحریک کے خلاف کیا جانے والا ہر پروپیگنڈہ غلط ثابت کرے گا اور کشمیر دشمن سازشی وجابر طاقتوں کو ہر ہر مرحلے پر ناکام ونامراد اوررسوا ہونا پڑے گا۔

رابطہ9797761908

Comments

Popular posts from this blog

لندن کی کشمیر کانفرنس۔۔۔ ایس احمد پیرزادہ

پبلک سیفٹی ایکٹ اور نیشنل کانفرنس....ایس احمد پیرزادہ