پاک بھارت رسہ کشی اور مسئلہ کشمیر۔۔۔۔۔۔ایس احمد پیرزادہ

پاک بھارت رسہ کشی اور مسئلہ کشمیر۔۔۔۔۔۔ایس احمد پیرزادہ

حال ہی میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا72واں جنرل اجلاس امریکہ میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں حسب روایت بھارت اور پاکستان کی نمائندگی کرنے والے پاکستانی وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کی جانب سے ایک دوسرے پر الزامات اور جوابی الزامات کا سلسلہ دیکھنے کو ملا۔ پاکستانی وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے بھرپور انداز میں مسئلہ کشمیر کا تذکرہ کرنے کے علاوہ اپنی تقریر میں کشمیر میں کی بدترین صورتحال،بھارتی فورسز کے مظالم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی جانچ پڑتال کے لیے وہاں اقوام متحدہ کا مشن بھیجنے کا مطالبہ کیا۔ پاکستانی وزیر اعظم کی تقریر کو تجزیہ نگار جارحانہ قرار دیتے ہیں اور کشمیری لیڈران نے بھی شاہد خاقان عباسی کی مسئلہ کشمیر پر جاندار مؤقف اختیار کرنے پر اطمینان کا اظہار کیا۔بھارتی وزیر خارجہ سشماسوراج نے پاکستان پر پلٹ وار کرکے اُس ملک کو’’دہشت گردی‘‘ کی ماں قرار دیتے ہوئے کہا کہ آزادی کے بعد ہندوستان نے بڑے بڑے تعلیمی ادارے قائم کیا، ڈاکٹر اور انجینئر تیار کیے جبکہ پاکستان نے خالص’’دہشت گرد‘‘ تیار کیے ہیں۔ جنرل اسمبلی کے دوسرے سیشن میں بھی دونوں ممالک کے نمائندوں نے جی جان سے ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کی بھرپور کوشش کی۔ پاکستانی مندوب ملیحہ لودھی نے کشمیرمیں بھارتی فورسز کی جانب سے پیلٹ گن کے قہر ناکیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے دنیا کو یہاں کی صحیح صورتحال سے آگاہ کرنے کی احسن طریقے سے کوشش کی ہے۔
امریکہ میں ڈونالڈ ٹرمپ کی حکومت برسراقتدار آجانے کے بعد پاکستان کے تئیں امریکی پالیسی میں کافی بدلاؤ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے کئی مرتبہ اشاروں کنایوں میں پاکستان کو دھمکیاں تک دے ڈالی ہیں کہ یہ ملک دہشت گردی کی آماجگاہ بن چکا ہے۔ افغانستان کے معاملے میں تعاون نہیں کررہا ہے، طالبان کی درپردہ سپورٹ کرنے کے علاوہ حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی نہیں کررہا ہے۔ چین کے بڑھتے اثر ورسوخ کو کم کرنے کے لیے امریکہ بھارت کے کافی قریب آچکا ہے، امریکہ نے بھارت کو افغانستان تک رسائی بھی فراہم کی ہے اور پاکستان مسلسل یہ الزام لگاتا رہتا ہے کہ افغانستان میں بھارتی ایجنسیوں کی سرگرمیاں بڑھ رہی ہیں اور پاکستان میں دہشت گرد تنظیم تحریک طالبان کو بھارتی ایجنسیاں ہی فنڈنگ کرتی ہیں۔ گزشتہ ہفتے ٹائمز آف انڈیا نے بھی اپنی ایک رپورٹ میں اس بات کاسنسنی خیز انکشاف کیا کہ بھارتی خفیہ ایجنسیوں کی تحریک طالبان کے ساتھ گہرے تعلقات ہیں اور اس بات کے لیے امریکہ نے بھی اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔امریکہ پاکستان سے ہر ہمیشہ’’ڈو مور‘‘ کا مطالبہ کرتا رہتا ہے ۔ ڈونالڈ ٹرمپ کی پاکستان مخالف تقریر کے بعد پاکستانی فوج کے سربراہ قمر جاوید باجوہ نے صاف طور کہہ دیا تھا کہ اب بہت ہوگیا ہے، ڈو مور کے جواب میں اُنہوں نے اپنے پیغام میں امریکہ کو واضح طور پرNo More کہہ دیا ہے۔ پاکستانی مؤقف کی چین او ر روس نے کھل کر حمایت کی ہے۔ بدلتے ہوئے عالمی منظر نامہ کو دیکھتے ہوئے کہہ سکتے ہیں کہ دنیا کی تشکیل نو ہورہی ہے، نئی دوستیاں وجود میں آرہی ہیں اور نئی دشمنیاں جنم لے رہی ہیں۔ حریف حلیف بن رہے ہیں اور دوستیاں دشمنی میں تبدیل ہورہی ہیں۔ پاکستان کا جنرل اسمبلی میں سخت مؤقف اختیار کرنا اور واضح طور پر کشمیر اور افغانستان کے معاملات پر بات کرنا اس بات کا عندیہ ہے کہ شائد پاکستانی فوج اور وہاں کے پالیسی ساز امریکی غلامی سے چھٹکارا پانے کی سنجیدہ کوششیں کررہے ہیں۔پاکستان نکل پائے گا یا نہیں یہ آنے والا وقت ہی بتا پائے گا البتہ ایک بات طے ہے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان تلخیوں میں کمی آجانے کے بجائے دونوں ملکوں کے درمیان خلیج بڑھتی ہی جارہی ہے۔ کسی بھی وقت کوئی معمولی چنگاری پورے برصغیر کو آگ و آہن کی لپیٹ میں لاسکتی ہے۔مسئلہ کشمیر کی صورت میں دبا آتش فشاںکبھی بھی پھٹ سکتا ہے ، اور نہ جانے کتنی بڑی انسانی تعداد اس کی لپیٹ میں آکر جھلس سکتی ہے۔
اقوام متحدہ امریکی اشاروں پر چلنے والا ادارہ بن چکا ہے، اقوام متحدہ سے جڑے بیشتر ممالک عالمی مسائل کے حوالے سے وہی مؤقف اور لائن اختیار کرلیتے ہیں جو امریکہ اختیار کرلیتا ہے۔ یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ امریکہ بھارت کے کافی قریب آچکا ہے، حالانکہ اکثر یہ تصور کیا جاتا ہے کہ امریکہ کی دشمنی سے زیادہ اُن کی دوستی خطرناک ہوتی ہے، جس کی واضح مثال پاکستان کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہے۔ برسوں امریکی منصوبوں کو روبہ عمل لانے اور اپنی تمام خدمات امریکہ کے قدموں میں رکھنے کی وجہ سے ہی پاکستان بدترین دہشت گردی کی لپیٹ میں آچکا ہے۔اب جبکہ پاکستان امریکی استعماریت سے نکلنے کی کوشش کررہا ہے بھارت اُن کے چنگل میں پھنستا جارہا ہے۔ جس طرح امریکہ نے پاکستان کو روسی طوفان کے سامنے لاکھڑا کردیااِسی طرح اب وہ بھارت کو چین کی ترقی کے سامنے کھڑا کرکے اس ملک کو قربانی کا بکرا بناکر اپنی سپرپاور والی پوزیشن کو برقرار رکھنا چاہتا ہے۔اس لیے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے فی الحال دنیا بھر میں نہ ہی کوئی کشمیریوں کی سننے کے لیے تیار ہے اور نہ ہی پاکستان کا واویلا دنیا کو متاثر کرسکتا ہے کیونکہ انکل سام فی الوقت دنیا کو بھارت کی نظروں سے دیکھنے پر مجبور کررہا ہے۔ایسے میں یہ حقیقت اپنی جگہ واضح ہے کہ اقوام عالم مسئلہ کشمیر کو نظر انداز کررہے ہیں لیکن اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں ہے کہ اقوام عالم کی نظریں چرانے سے مسئلہ کشمیر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفن ہوجائے گا۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو سات دہائیوں سے چلا آرہا ہے، جس پر تین جنگیں ہوچکی ہیں، جس کی وجہ سے لاکھوں لوگوں کی جان چلی گئی ہے، اِسی مسئلے کی وجہ سے یہاں ہر گھر کے ساتھ کوئی نہ کوئی درد بھری داستان جڑی ہوئی ہے۔ ہر گلی او رنکڑ پر کسی بے گناہ کا خون چیخ چیخ کرانسانیت کو پکار رہا ہے، یہاں عصمتیں لٹی ہیں، یہاں دستاریں اچھالی گئیں ہیں، یہاں ذلت و رسوائی کو جنگی ہتھیار بنالیا گیا ہے، یہاں عام لوگوں سے زیادہ وردی پوش تعینات ہیں، یہاں کی نئی نسلیں ایک الگ طرح کی سوچ کے ساتھ ہی جنم لے رہی ہیں۔ عجب نہیں اپنی شرافت اور امن پسندی کے لیے مشہور قومِ کشمیر کی آنے والی نسلوں کو حالات دنیا کے خطرنات ترین جنگجو بنادیں گے۔اس کا اندازہ ہمیں موجودہ زمانے کی نسل نو کو دیکھ کر بخوبی ہوسکتا ہے۔
یہ صورتحال کسی بھی حیثیت سے ہندوستان کے لیے مثبت نہیں ہوگی۔ فی الوقت یہاں ہورہی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے ذریعے سے یہ ملک اپنے نامۂ اعمال کو سیاہ بنارہا ہے، یہ ہماری آنے والی نسلوں کے دلوں میں نفرت اور عداوت کو فروغ دینے کے لیے سامان فراہم کررہا ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ تاریخ کے پنوں میں اپنے اسلاف کے ساتھ ہورہی زیادتیوں کو دیکھ کر ہماری مستقبل کی نسلیں نہ خود چین سے رہ سکتی ہیں اور نہ ہی اپنے اباؤ اجدادپر ظلم کرنے والی طاقتوں کو چین کی نیند سونے دیں گے۔ گویا دلی کے پالیسی ساز جس مسئلے کو امریکی حمایت سے وقتی طور پر دفن کرنا چاہتے ہیں ، وہ مستقبل قریب میں ضرور اپنی پوری شدت کے ساتھ پھٹ سکتا ہے اور برصغیر کے کروڑوں عوام کے امن و سکون اور خوشیوں کو چھین سکتا ہے۔مسئلہ کشمیر کے تئیںبی جے پی کی شدت پسندانہ پالیسی سے بھارتی سماج کا کوئی بھلا ہونے والا نہیں ہے، بلکہ اس طرح جموں وکشمیر میں بھارت کی رہی سہی اعتباریت بھی ختم ہوجائے گی ۔اس بات کا اندازہ بہرحال بھارت کے ذی حس طبقے کو کرنا چاہیے۔ دنیا اپنی آنے والی نسلوں کو محفوظ بنانے کے لیے کام کررہی ہے اور بھارتی سیاست دان اپنے آنے والی نسلوں کو خطرناک ترین مسائل کے حوالے کرکے اُن کی زندگیاں اجیرن بنانے کے مشن پر مصروف عمل ہیں۔
کشمیری عوام جن کے خلاف چومکھی لڑائی چھیڑی جاچکی ہے، لاکھوں فوجی اور نیم فوجی اہلکاروں کو اُن کے خلاف میدان جنگ میں اُتارا گیا ہے، جیل خانوں میں نظربندکرکے اُن کی آواز کو دبانے کی بھرپور کوششیں ہورہی ہیں، این آئی اے جیسے تحقیقاتی ایجنسیوں کے ذریعے سے اُنہیں خوف زدہ اور ہراساں کرنے کا کام بھی ہورہا ہے، نوجوان نسل کو گولیوں سے بھون ڈالا جارہا ہے، پیلٹ گن کے چھروں سے نونہالوں اور معصوموں کی بینائی چھینی جارہی ہے، رات دن اُنہیں اضطراب اور پریشانیوں میں مبتلا رکھنے کے لیے کیا کیا طریقے نہ اپنائے جارہے ہیں۔ مشرق و مغرب اور شمال و جنوب میں عزت مآب خواتین کے بال پُر اسرار طریقے سے کاٹے جارہے ہیں اور جنوبی کشمیر میں عوام کھلے عام الزام لگا رہے ہیں کہ اس قبیح عمل میں مبینہ طور پر فوجی اہلکار ملوث ہیں۔ مالون کولگام کے لوگوں نے حالیہ دنوں الزام عائد کیا کہ جب اُنہوں نے ایک ایسے ہی مجرم کو پکڑنے کی کوشش کی جو عورتوں کے بال کاٹنے والا تھا تو پاس میں موجود فوجی اہلکاروں نے ہوائی فائرنگ کی اور اُس مشکوک اہلکار کو چھڑاکر لے گئے۔یہ گری ہوئی حرکتیں اور اس طرح کے اوچھے ہتھکنڈے اگر کشمیری قوم کے عزم اور اُن کو اصولوں سے ہٹانے کی کوششوںکے طور پر کیا جارہا ہے تو ایسی تمام تر طاقتوں کو سمجھ لینا چاہیے کہ جس آواز کو گزشتہ70 سال میں تمام تر وسائل اختیار ، حکمتیں اختیار کرلینے سے خاموش نہیں کیا جاسکا وہ بھلا اس طرح کی کارروائیوں سے کیسے دبائی جاسکتی ہے۔
حقیقت پسند بننے کی ضرورت ہے، حالات کو سمجھنا وقت کا تقاضا ہے۔ سیاسی چال بازیاں چھوڑ کر انسانی بنیادوں پر سوچنا چاہیے۔ پاکستان اور بھارت کے پالیسی سازوں کو یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ جس مسئلے کو طاقت کے بل بوتے پر حل نہیں کیا جاسکتا ہے وہ انسانی بنیادوں پر سوچنے سے پل بھر میں حل ہوسکتا ہے۔ہندوستان اور پاکستان کی ترقی اور وہاں کے عوام کو زندگی کی تمام تر سہولیات میسر ہونا کشمیرمسئلے کے حل کے ساتھ مشروط ہے۔ ایک دفعہ اگر یہ دونوں ممالک سنجیدگی کے ساتھ کشمیری عوام کو اُن کے حقوق دے دیں گے اور اس مسئلہ کو کشمیریوں کی خواہش کے مطابق حل کرنے میں کامیابی حاصل کرلیں گے تو ہندوستان او رپاکستان کے کروڑوں غریب عوام کے لیے خوشیوں کے دروازے وا ہوجائیں گے۔ بھارت میں غریبی کی سطح سے نیچے زندگی بسر کرنے والے جن کروڑوں عوام کا استحصال کشمیر کے نام پر ہورہا ہے ، اُن کی رگوں سے محنت کا جو خون نچھوڑا جارہا ہے اور بے جاہ سیکورٹی پر جتنی بڑی رقم خرچ کی جاتی ہے اُس سے ہر ہندوستانی کو عزت اور وقار کی زندگی میسر ہوسکتی ہے۔جس دن ہندوستانی عوام فرقہ پرستانہ ، مفاد پرستانہ اور استحصالی سیاستدانوں کے سحر سے باہر نکل آئیں گے اُس دن سے اُن کی قسم بدلنی شروع ہوجائے گی۔ ورنہ جب تک مسئلہ کشمیر کو ’’دیش بھگتی‘‘ اور ’’ قومی سلامتی‘‘ کے ساتھ جوڑ کر ہندوستانی عوام کو بے وقوف بناتا جائے گا تب تک روٹی، کپڑا اور مکان کے بغیر رہنے والی ہندوستانی آبادی میں اضافہ ہی ہوتا جائے گا۔
بھلے ہی دونوں پڑوسی ممالک ایک دوسرے کو عالمی فورموں کو نیچا دکھانے کے لیے دھواں دار تقریریں کرتے رہیں گے ، سرحدوں کو گرم رکھنے کے لیے سیول آبادیوں پر بمباری کرکے اپنے اپنے عوام کے جذبات ابھارتے رہیں گے ، اصل مسئلہ سے اُن کی جان چھیڑنے والی نہیں ہے۔ مسئلہ کشمیر حل ہونے کے لیے کبھی نہ کبھی دونوں ممالک کو حالات مجبور کریں گے، وہ وقت آئے گا جب بھارت کو اپنی ضد او رہٹ دھرمی چھوڑنی پڑے گا، البتہ تب تلک کشمیری عوام کو صبر اور حوصلے سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ اس قوم کی جولی میں قربانیاں ہیں، یہ قوم اصولوں کی بات کرتی ہے، ہماری قوم ہر ایک کی خیر خواہ ہے اور ہمیں اس بات پر یقین ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں کبھی بھی نااُمید اور مایوس نہیں کرے گا۔ ہمارے یہاں کامیابی کا سورج ضرور طلوع ہوجائے گا البتہ اس کے لیے ہمیں اپنے اصولوں پر قائم رکھنے کے ساتھ ساتھ اللہ سے رجوع کرنا چاہیے۔

Comments

Popular posts from this blog

لندن کی کشمیر کانفرنس۔۔۔ ایس احمد پیرزادہ

پبلک سیفٹی ایکٹ اور نیشنل کانفرنس....ایس احمد پیرزادہ