کشمیر میں خواتین کے بال کانٹا۔۔۔پردے کے پیچھے کیا ہے۔۔۔ایس احمد پیرزادہ

کشمیر میں خواتین کے بال کانٹا۔۔۔پردے کے پیچھے کیا ہے۔۔۔ایس احمد پیرزادہ

گزشتہ چند ہفتوں سے جموں وکشمیر بالخصوص وادی ٔ کشمیرمیں نامعلوم افراد ( جن کے طریقہ ٔ واردات اور تواتر کو دیکھ انہیں منظم ایجنسیوں کی کارستانیاں سمجھنے میں لوگ حق جانب نظر آتے ہیں ) کے ذریعے خواتین کی چوٹیاں کاٹنے کے پراسرار واقعات میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہورہاہے اور پتہ نہیں یہ سلسلہ کس بھیانک نتیجے پر جاکر تھم جائے۔ عوامی حلقوں میں اس طرح کی نازیبا،پْر اسرار اور انسانیت کو شرمندہ کرنے والے واقعات کے تکرار سے نہ صرف غم و غصے کی لہر دوڑ رہی ہے بلکہ ہر سو خوف و ہراس اور سنسنی بھی پائی جاتی ہے۔صوبہ جموں کے ڈوڈہ اور کشتواڑ کے بعد جنوبی کشمیر سے ہوتے ہوئے یہ ناگفتہ بہ واقعات وسطی کشمیر اور شمالی کشمیر میں بھی رونما ہونے لگے ہیں اور سری نگر میں بھی ان کی صدائے باز گشت سنی گئی۔ حالات اس حد تک بلا روک ٹوک ابتری کی جانب رواں دواں ہیں کہ اب گزشتہ سال کی طرح درجنوں دیہات میں عوام نے شبانہ پہرہ داری شروع کردی ہے۔ اس پورے معاملے میں ریاستی انتظامیہ بے بس بھی دکھائی دے رہی ہے اور بے حس بھی۔ قانون نافذ کر نے والے سرکاری اداروں کے کان پر گیسو تراشی سے یاتو جوں تک نہیںرینگتی یا پھر وہ عوامی صفوں میںاضطراب وبے چینی کی کیفیات سے اپنے اذیت پسندانہ ذہنیت کے سبب لطف اندوز ہورہے ہیں۔جس خطے کی پولیس بڑی بڑی اْلجھی ہوئی گتھیوں کوگھنٹوں اور دنوں میں سلجھانے کا آئے روز دعویٰ کرتی رہتی ہے، جہاں مختلف واقعات کے پیش آنے کے فوراً بعد اْس میں ملوث افراد کے نام سامنے لائے جاتے ہیں، وہاں عفت مآب خواتین کی بلاتمیز عمر بال کاٹنے کے معیوب مگر حیران کن واقعات کے پس منظر میں پولیس اور متعلقہ دیگر اداروں کی ظاہراًبے بسی اور لاعلمی پر سوال اْٹھنا لازمی بات ہے۔ اسی بات کو تاڑ کر ستائیس سال سے ظلم وتشدد کی بھٹی سے گزررہے لوگ ہر جگہ یہ کہتے ہوئے سنے جاتے ہیں کہ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔ بلاشبہ یہ کوئی معمولی مسئلہ نہیں ہے جس کو یونہی نظر انداز کردیا جائے بلکہ یہ ہماری عزت مآب ماؤں او ربہنوں کی عزتوں اور عصمتوں کاسوال ہے۔ کوئی بھی بیدار قوم چاہے وہ کتنی ہی پامال ہو، ہر طرح کا نقصان اور خسارہ برداشت کرسکتی ہے، البتہ اْس کی عزت وناموس پر آنچ آجائے،ا س کے طبقہ اْ ناث پر ظالموں کی طرف سے کوئی آفت ٹوٹے تو یہ چیزاس کی غیرت و حمیت کے لیے ناقابل برداشت ہوتی ہے۔ ہم نے گزشتہ تین دہائیوں کی طویل سیاہ رات میں اپنا بہت کچھ کھودیا ہے، ہم نے نسلوں کی قربانیاں دی ہیں، ہم نے مالی نقصان کو سہا ہے ،البتہ موجودہ مرحلہ ہمارے لیے سب سے زیادہ تکلیف دہ اور اذیت ناک ہے کیونکہ اس میں اْمت کی اْن عزت مآب خواتین کی توہین وتذلیل کی جاتی ہے جن کی عفت و عصمت سے بڑ ھ کرانمول دنیا کی کوئی شئے نہیں ہے، یہاں تک کہ آزادی بھی۔ اس لئے جو بھی شرپسند طاقتیں اور سیہ قلب قوتیں اس طرح کی رزیل وذلیل حرکتوں کا ارتکاب کررہی ہیں، وہ یقیناً ہمارے صبر وبرداشت کا کڑا امتحان لے رہی ہیں مگر اْنہیں سمجھ لینا چاہیے کہ وہ اْس ملت کے ایمان واستقامت کی آزمائش کر رہے ہیں جن کے اسلاف نے ایک بہن کی پکار پر ہزاروں میل پر محیط سندھ کو روند ھ ڈالا تھا تاکہ ایک مظلومہ کی فریاد بے اعتنائی کی دْھند میں غائب نہ ہو۔
 کشمیر میںیہ پہلا موقع نہیں ہے جب اس طرح کے پْراسرار واقعات پیش آتے ہوں بلکہ کشمیری قوم کے صبر وثبات کا اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ امتحان لیا جاچکا ہے۔ ایک زمانے میں جب صادق کا دور ِ حکومت تھا تو ’’ رَتہ ژْوروں‘‘ ( خون چوسنے والے ) کے ذریعے سے اس قوم کو دہشت زدہ کرنے کی بھاری کوشش کی گئی مگر خفیہ ایجنسیوں کی یہ سوانگ ا ورریشہ دوانی زیادہ دیر نہ چلی۔اس کے بعد چشم فلک نے وہ بھی زمانہ دیکھا جب اس وقت کے جن سنگھیوں نے پیٹھ پیچھے وار کرکے ہماری غیرت وحمیت کو للکارنے کی کوشش کی۔ ان دنوں معصوم بچوں کو سادھو ؤں کے لباس میںجن سنگھیوں کے ہاتھ اغواء ہونے کا شوشہ پھیلاکر عوام کی نیندیں اْچاٹ دی گئیں۔ نوے کی ہنگامہ خیز دہائی میں پْراسرار’’بھوت اور ڈائن‘‘ کی کہانی گھڑ کر اسی بھیس میں نہ جانے کون سی ایجنسیاں عوام کو خوف زدہ کر نے اور بے وقوف بنانے کے لیے سرگرم ہوئی تھیں۔ تاریخ کے ان ادوار کو یاد کر کے لگتا ہے کہ آج کل خواتین کی چوٹیاں کاٹنے کے یہ مذموم اور بزدلانہ واقعات گزشتہ ادوار کے پْراسرار واقعات سے کسی بھی طرح مختلف نہیں ہیں بلکہ یہ ممکنہ طور پر ایک ہی سوچ کی مختلف کڑیاںہیں۔ یہ نیا ابلیسی مشن بھی ظاہراً ایک ایسی گھٹیا سوچ کا ثمرہ ہے جو کشمیری قوم کو کسی نہ کسی بہانے اْلجھانے کے لئے اپنے نت نئے برگ وبار لاتی ہیں تاکہ وہ اپنے حل طلب مسئلہ کے بیانئے سے اعراض برتیں۔ اس قبیح عمل میں جس جس کا بھی فتنہ پرور دماغ اورہاتھ ملوث ہو، اْن کا مقصد یہاں کے عوام کی سوچ و فکر پر حاوی ہوکر اْنہیں ہپناٹائز کرنا محسوس ہوتا ہے تاکہ جب پوری قوم کسی اور مسئلہ میں ذہنی طور اس انداز سے الجھی رہ جائے کہ اسے دوسرے تمام اہم قومی و ملی مسائل پر غور و فکر کرنے کا موقع ہی میسر نہ  ہو۔ سائکلیوجیکل وار فئیر میں غالب قوتیںایسی حکمت عملیوں کو آزماکر مغلوب قوم کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو ماؤف کر تی ہیں۔ آج کے زمانے میں کمزور قوموں کو اصل اور اہم مسائل سے غافل کرنے کا آسان طریقہ یہ بھی ہوتاہے کہ اْنہیں بے جا مسائل میں الجھائے رکھنے کے ساتھ ساتھ نفسیاتی پسپائی کے طور انجانے خطرات کے وہم میں اس طرح مبتلا کیا جائے کہ وہ اپنے دونوں ہاتھ اوپر کریں۔ کشمیری قوم کے ساتھ یہی کچھ تحریک محاذ رائے شماری کے ساتھ مسلسل ہوتا چلا آرہا ہے۔ سقوط ڈھاکہ کے حادثے کو دیکھ کر قیادت اپنی موقف سے دستبردار ہونے کے لئے نفسیاتی طور آمادہ ہوئی کہ قوم کے حصے میں خسارے کے سوا کچھ نہ آیا۔ یہ قوم وقتاً فوقتاً ایسے ہی مسائل کے بھنور میں اْلجھائی گئی جو بظاہر مسائل ہی نہ تھے لیکن اس قوم کے قلب و ذہن اور اعصاب پر ایسے خطرات سوار کئے گئے جن کا کوئی ظاہری وجود نہ تھا۔
 ان دنوں گیسو تراشی کے حوالے سے عوامی حلقوں میں بہت سارے سوالات اْٹھائے جارہے ہیں اور عوام اپنی سوچ اور سوالات میں حق بجانب بھی دکھائی دے رہی ہے۔سوال یہ ہے کہ جب ملون کولگام میں لوگوں نے کسی ایسے مشتبہ شخص کو پکڑنے کی کوشش کی تو وہاں فوج کیوں نمودار ہوئی اور اْس نے کیوں جم کر ہوائی فائرنگ کی؟ سوال یہ بھی ہے کہ جس متنازعہ خطے میں اتنا فوجی جماؤ ہے اور جہاں اتنی ساری سرکاری ایجنسیاں بیک وقت کام کررہی ہیں، وہاں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس ان پْر اسرار واقعات کے حوالے سے کوئی ادنیٰ سی معلومات بھی کیوں نہیں ہیں؟کہیں ایسا تو نہیں کہ جان بوجھ کر ان واقعات کا ڈرامہ شان ِ بے نیازی سے رچایا جارہا ہو تاکہ لوگوں کے دل میں یقین کی جگہ خوف اور اْمید کی جگہ مایوسی اور شک وشبہ کی مہر لگ جائے ؟کہیں شرپسندوں کی ان کارستانیوں کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال میںلانے کی کوششیں تو نہیں ہورہی ہیں؟یہ کچھ ایسے تلخ سوالات ہیں جو بہرحال ذہن میں آہی جاتے ہیں۔سرکاری ایجنسیوں کا بے بس عوام کو مورد الزام ٹھہرانا کہ وہ انہیں تعاون فراہم نہیںکرتے ہیں ،صحیح Logic نہیں ہے بلکہ یہ سرکار اور اس کی تمام ایجنسیوں کی منصبی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کے تحفظ کو یقینی بنائیں، کیونکہ سرکار اور سرکاری ادارے عوام کی جانب سے ادا کیے جانے والے ٹیکس سے چلتے ہیں اور عوام اسی لیے ٹیکس ادا کرتی ہے تاکہ اْن کے جان و بال کو تحفظ فراہم ہو۔ اْن کی عزت و عصمت محفوظ رہے۔اْنہیں سکھ اور چین میسر ہو۔ یہاں اس کے بالکل ہی اْلٹا ہورہا ہے، عوام پریشان حال ہیں، اْن پر ایک انجانا ساخوف طاری ہوچکا ہے اور حکمران و انتظامیہ کے کل پرزے خوابِ خرگوش میں پڑے ہوئے ہیں۔ سرکاری کارندے عیش کوشی میں مبتلا ہیں اور پھر مظلومین سے گلہ کیا جاتاہے کہ تم تعاون نہیں دیتے۔ یہ کہاں کا انصاف ہے؟
بال کاٹنے والے کس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ایسی گھناؤنی حرکات کا ارتکاب کررہے ہیں؟ اْنہیں اس طرح کرکے کیا فائدہ حاصل ہوجاتا ہے؟ یہ بھی وہ سوالات ہیں جو حالات کا بغور مشاہدہ کر نے والوں کے تعاقب میں ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ کشمیری قوم جس پیچیدہ سیاسی کشمکش سے گزر رہی ہے، اْس کے حوالے سے انہیں کھلے ذہن کے ساتھ مسائل پر غور وفکر کرنے ، نئی راہیں نہ تلاشنے، مصائب و مشکلات سے گلوخاصی پانے کی بجائے طرح طرح کے ذہنی اضطرابوں میں اس قدر اْلجھایاجائے کہ اسے اصل مسئلہ پر سوچنے کی فرصت ہی نہ ملے؟ خون کھول دینے والے ان واقعات کا رونما ہونا یہی ظاہر کررہا ہے کہ کچھ غیبی طاقتیں کشمیریوں کو ذہنی طور پر مصروف رکھنا چاہتی ہیں، جو یہاں ڈر اور خوف کا ماحول پیدا کرنا چاہتی ہے۔اس صورت حال کا ہمیں اجتماعی سوجھ بوجھ کے ساتھ بہرحال مقابلہ کرنا ہوگا، اور ہمیں ایسی تمام شرپسند طاقتوں کو اپنے  غیر متزلزل عزائم اور بلند حوصلوں سے شکست فاش دینی ہے جو ہماری توجہ اصل مسائل سے ہٹانا چاہتی ہیں۔
 اس مسئلے کا ایک اور پہلو دامن ِ فکر کو پکڑ رہاہے۔عوامی سطح پر بھی چوٹیاں کاٹنے کے ان منحوس واقعات کے بعد کچھ ایسے حرکات کا ارتکاب ہورہا ہے جو بہرحال کسی مہذب سماج کا وطیرہ نہیں ہے ۔ شک کی بنیاد پر کسی راہ گیر یا غیر ریاستی کو پکڑنا اور پھر اْن پر تشدد کرنا کہاں کی انسانیت ہے؟ سرراہ کسی اجنبی شخص کو پکڑ کر اْس کی حقیقت جانے بغیر ہی اْس کی ویڈیو تیار کرنا اور اْس کی تذلیل کرکے سوشل میڈیا پر تشہیر کرنا بیمار ذہنیت کی عکاسی ہے۔جب کسی جگہ بھیڑ جمع ہوجاتی ہے تو لازمی طور پر اْس میں شرپسند عناصر بھی داخل ہوجاتے ہیں، جن کی شرانگیزیاں کسی معصوم کی جان بھی لے سکتی ہے۔ اس لیے ہمارے لیے لازمی ہے کہ ہر راہ چلتے انسان کو تنگ نہ کریں، افواہوں پر کان نہ دھریں، جھوٹی افواہوں کی تشہیر نہ کریں۔ اگر عوام کے ہاتھ کوئی مشتبہ شخص لگ جائے تو لوگوں کو اْس سے پوچھ تاچھ کرنے کے بجائے اْس علاقے کے ذی حس اور جہاں دیدہ وتجربہ کار افراد کواْن سے بات کر نے کے لئے سامنے لائیں۔ مجرم ثابت ہونے سے پہلے اْن کی ویڈیو نہ بنائی جانی چاہیے اور سوشل میڈیا پر اْس کی تصویر ڈال کر تماشہ نہ بنایا جانا چاہیں۔ اس طرح کی بے ہدف حرکتوں سے اکثر معصوم انسانوں کی عزت ریزی ہوتی ہے یا کسی بے گناہ کی تذلیل ہوجاتی ہے۔ ہمارا تعلق ایک مہذب قوم ہے، ہم دین اسلام کے پیروکار ہیں۔ ہم میں اور گاؤرکشکوؤں میںلازمی طور پر فرق ہونا چاہیے۔ دس گناہ گاروں کا چھوٹ جانا اس بات سے بہترہے کہ ایک بے گناہ کو مارا پیٹا جائے، اْس کی تذلیل کی جائے۔ ضلع اسلام آبا د میں انجانے میں اسی ہجومی بھگڈر سے ایک ستر سالہ بزرگ کی جان چلی گئی، یہ سراسر ظلم ہے اور جو قوم خود ظلم و جبر اور سختیوں سے گزر رہی ہو، جو مظلومیت کی تاریک گھاٹیوں میں ٹھوکریں کھا رہی ہو ، اْس قوم کے لوگ کبھی بھی ظالم نہیں ہو سکتے۔ شہر و دیہات میں درجنوں ایسے واقعات پیش آئے ہیں جہاں محض شک کی بنیاد پر لوگوں کو پکڑا گیا ، اْن کی مار پیٹ کی گئی ، اْن کے ویڈیو بناکر سوشل میڈیا کے سائٹس پرڈال کر اْن کا دنیا بھر میں تماشا بنایا گیا۔اس طرح کی غلط حرکات نہ صرف ہماری کند ذہنیت اور بیمار سوچ کی عکاسی کررہی ہیں بلکہ اللہ کے حضور بھی ہم گنہگار ہوجاتے ہیں۔ بحیثیت مسلمان ہم ہزار قسم کے مظالم برداشت کرسکتے ہیں لیکن کسی ایک مظلوم کی آہ کی بھی قیمت نہیں چکا سکتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ ایسے موقعوں پر ہم ہوش و حواس میں رہتے ہوئے صبر اور دور اندیشی کا مظاہرہ کریں۔ ہر بستی کے ذی حس لوگوں کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ نوجوانوں کو مشتعل نہ ہونے دیں ، اْنہیں کسی اجنبی یا غیر ریاستی بے گناہ شخص کے ساتھ زیادتی کرنے کی اجازت نہ دیں بلکہ ایسے نازک موقعوں پرذمہ دار لوگوں کو سامنے آکر حالات پر قابو پانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ہماری یہ اخلاقی ذمہ داری ہے کہ ہم کسی بے گناہ پر ظلم نہ ہونے دیں، کسی عزت والے کی عزت ریزی نہ ہونے دیں۔ہمارے لیے اس سے بڑھ کر شرمندگی کی اور کیا بات ہوسکتی ہے کہ دلنہ بارہمولہ میں اس طرح کے معاملے میں ایک لڑکی کا نام اْچھالا گیا، اْس کے والد کا نام لے کر اْن کو پوری دنیا میں رسوا کیا گیا۔ فرض کریں ملت کی اس بیٹی پر لوگ بوجوہ غصہ ہوئے تو بھی یہ کہاں کا تہذیب و اخلاق ہے کہ اس کے نام کا ڈھنڈورہ پیٹ کر اْس کی پوری زندگی تباہ کی جائے؟ دوسروں کے عیوب کی پردہ پوشی کرنے کا اسلام ہمیں درس دیتا ہے ، ہم میں ایسا کون ہے جس کے اندر چھوٹے بڑے عیب نہ ہوں گے۔ پھر ہمیں کیا حق پہنچتا ہے کہ ہم کسی منچلے لڑکے کا انٹرویو لے کر اْس کی تشہیر کرکے قوم کی کسی بیٹی کو بدنام کریں۔ کیا ایسا کر کے ہم نے وہی گناہ نہ کیا جو گیسو تراش شیطان کر رہے ہیں ؟ جوش میں ہوش رکھئے اور یہ بات گرہ میں باندھئے کہ ایسا کرنا ایک ناقابل معافی جرم ہے جس پر ہم اللہ کی پکڑ سے کبھی چھوٹ نہیں سکتے!


Comments

Popular posts from this blog

لندن کی کشمیر کانفرنس۔۔۔ ایس احمد پیرزادہ

پبلک سیفٹی ایکٹ اور نیشنل کانفرنس....ایس احمد پیرزادہ