#jammu#muslim#جموں مسلمانانِ


مسلمانانِ جموں
بجھے بجھے چراغ ہیں آندھیوں کے درمیاں

ریاست جموں وکشمیر کے تین صوبوں۔۔۔ کشمیر، جموں اور لداخ۔۔۔ ہر صوبے کی اپنی تاریخ ، پہچان اور انفرادیت ہے ۔ صوبہ جموں ایک ایسا خطہ ہے جو کبھی علم و ادب کے ساتھ ساتھ مسلم تمدن و تہذیب کا گہوارہ رہا۔تقسیم ہند سے قبل جموںمیں40 فیصد کے قریب مسلم آبادی تھی لیکن 1947 ءمیں قیام پاکستان کے بعد ایک منظم سازش کے تحت جموں کے مسلمانوں کی نسل کشی کرکے چار سے چھ لاکھ غیر مسلم بلوائیوں نے بڑی بے دردی کے ساتھ جموی مسلمانوں کو موت کی نیند سلا دیا گیا۔ نومبر سنتالیس کی تاریخ انہی خوں آشامیوں کا مرقع ہے ۔ لاکھوں مسلمانوں کو نقل مکانی کرنے پر مجبور کیا گیا اور ایک اچھی خاصی تعداد میں ہونے کے باوجود مسلمانوں کی آبادی کے تناسب کو گھٹا یا گیا۔جموں، سانبہ، کٹھوعہ، اُدہم پور اور ریاسی میں مسلمانوں کوقریب قریب ختم ہی کر دیا گیا۔خطہ میں بچے کھچے مسلمانوں نے پھر سے اپنے قدم سنبھال لئے اور آج کی تاریخ میں66 فیصد ہندو ¿ں کے مقابلے میں 30 فیصد مسلمان صوبہ جموں میں آباد ہیں ۔ تاریخ کی ورق گردانی کریں تو ہزاروں ایسی داستانیںانسانیت کا جگر چھلنی کردیتی ہیں جو اس خطہ میں اُمت مسلمہ کی بے بسی اور بے کسی کو ظاہر کررہی ہیں۔صوبہ جموں کے لوگ وادی کے مسلمانوں سے ہمیشہ گلہ کرتے رہتے ہیں کہ اُنہوں نے جموں میں رہنے والے مسلمانوں کے دُکھ اور درد کو کبھی سمجھنے کی کوشش نہیں کی اور اُنہیں اپنے ساتھ کسی بھی جدوجہد میں شامل نہ کر کے اُنہیں نظر انداز کیا۔1947 ءسے آج تک جموں کے مسلمانوں میں خوف اور ڈر پایا جاتا ہے کیونکہ اُن کے اردگرد دہائیوں سے سازشوں کا ایسا جال بچھایا گیا جس میں اُن کی زندگی کے شب و روز اس طرح الجھے رہے کہ اُنہیں اپنے مسائل کے تئیں ایک حد سے اوپر سوچنے دیا جاتا ہے نہ سرکاری اداروں اور محکمہ جات میں برابر کا حصہ ملتا ہے۔ نوے کی دہائی سے ریاست بھر میں مسلمانوں کے ساتھ بھید بھاو ¿ برتا جاتا ہے اور اس تفریق نے علی الخصوص صوبہ جموں کے مسلمانوں کا جینا دو بھر کردیا۔راقم کو گزشتہ دنوں راجوری اور جموں میں کئی دن گزارنے کا موقع نصیب ہوا ،موقع کو غنیمت جان کر جموں یونیورسٹی کے کئی مسلم اسکالروں کے ساتھ ساتھ چند بزرگ شہریوں سے بھی جموں کے سیاسی حالات کے حوالے سے تبادلہ ¿ خیال ہوا۔ سرینگر میں اخباری رپوٹوں کے کو دیکھ کر جو اندازے ہم جموں کے بارے میںلگاتے ہیں وہاں جاکر لوگوں سے یہ تاثر ملا کہ جو رپوٹیں اخبارات میں شائع ہوتی ہیں ،وہ اصل زمینی صورت حال کا دسواں حصہ بھی نہیںہوتا ۔ 
دلّی میں بی جے پی کی سرکار بن جانے کے بعد جب بھارتیہ جنتا پارٹی ،پی ڈی پی کی اتحادی جماعت بن کر پہلی مرتبہ ریاست جموں وکشمیر میں حکومت سازی کرنے میں کامیاب ہوئی تو پیشگی اندازے لگائے جارہے تھے کہ جموں میں فرقہ پرست طاقتوں کے حوصلہ بلند ہوجائیں گے اور وہ اپنے عزائم کا کھلے عام اظہار بھی کریں گے۔ گزشتہ چند ماہ سے جموں سے لے کر ریاستی اسمبلی تک کے حالات سے اب یہ بات ظاہر ہوگئی کہ فرقہ پرست طاقتوں کے کیا عزائم ہیںاور ان کے حوصلے کن بلندیوں کو چھو رہے ہیں۔ جموں اور بھدرواہ میں آر ایس ایس کی جانب سے پریڈ اور ہتھیاروں کی کھلے عام نمائش اور اس نمائش میں ریاستی اسمبلی کے اسپیکر سمیت کئی بی جے پی لیڈروں کی شرکت نے مسلمانوں میں قدرتی طور اضطرابی کیفیت پیدا کردی ہے۔ قبل ازیںاسمبلی کے مختصر سیشن کے دوران بھی اسپیکر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انہیں آر ایس ایس کا بنیادی ممبر ہونے پر فخر ہے۔ فرقہ پرست طاقتیں جموں میں شروع سے ہی سرگرم تھیں لیکن پی ڈی پی کا بی جے پی کو کولیشن پارٹنر بننے سے ان طاقتوں کے حوصلے اس قدر بلند ہوئے کہ وہ کھلے عام ہتھیاروں کی نمائش تک کرنے لگے ہیںبلکہ دن کے اُجالوں میں موقع بہ موقع مسلمانوں پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ اُدہم پوراور جموں کے اردگرد ٹرک ڈرائیور پر حالیہ حملے اس کی تازہ مثالیں ہےں۔ اقتداری سیاست کے متوالے جموں اور سرینگر میں دو معیار اپناتے ہیں۔ جموں میں ”ہندوتوا“ طاقتوں کو ہتھیاروں کے ساتھ پریڈ کرنے کی اجازت ہے اور کشمیر میں پُر امن احتجاجی مظاہرہ تو دور ماتم بھی کرنا بھی شجر ممنوعہ ہے۔ وادی میں معصوم نوجوانوں کو سنگ بازی کے جرم میں سیفٹی ایکٹ کے تحت برسوں جیلوں میں رکھا جاتا ہے اور احتجاجی نوجوانوں پر راست فائرنگ کرکے تمام اصول اور ضوابط کو بالائے طاق رکھا جاتا ہے ۔ اس کے برعکس جموں میں فرقہ پرست طاقتوں کے سامنے سرکاربھیگی بلی بنی رہتی ہے اور اُنہیںاپنی گھناو ¿نی کارروائیاں انجام دینے کے لیے کھلی چھوٹ دی جاتی ہے۔ کچھ عرصہ سے جموں میں جو پیچیدہ حالات بنائے جارہے ہیں ،وہ وہاں کے مسلمانوں کی دہلیز پر ایک اور نومبرسنتالیس کی دستک دے رہے ہیں۔
 آج کی تاریخ میںراجوری اور جموں کے دورے کے دوران اس خطہ کے حوالے سے تکلیف دہ حقائق آشکاراہوجاتے ہیں۔ مثال کے طو ر پر ایک جانب اسلام کے نام لیواو ¿ں پر چاروں جانب سے یلغار ہورہی ہے۔ اُن کی تہذیب ، اُن کا کلچر، اُن کی مذہبی شناخت اور اُن کی جان و مال سب کچھ فرقہ پرستی کی زد میں ہے ۔ اس گھمبیر صورت حال کا تقاضا یہ تھا کہ صوبہ جموں کے مسلمان یک جٹ ہوکر یکسوئی کے ساتھ حالات کا مقابلہ کرتے مگر المیہ یہ ہے کہ خطرات میں گھرے ہونے کے باوجود میں اُن آپسی اتحاد کا فقدان ہی نہیں ہے بلکہ وہ مسلکوں، مکتبوں،ذات پات، برادری ازم ،لسانیت اورعلاقائیت کے نام پر اس قدر تقسیم ہیں کہ ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے میں دشمن تک کی مدد لینے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ جب حالت یہ ہو کہ مسلمان ایک دوسرے کے خلاف ہی سازشیں رچانے بیٹھ جائیں تو مشترکہ دشمن کی تیروں سے بھلا وہ کیسے اپنے آپ کو بچا سکیں گے؟ جموں کے مسلمانوں میں تقسیم در تقسیم کا جو فارمولہ اپنایا گیا ہے، ایجنسیوں کی یہ مذموم کاوشیں ایک حد تک کامیاب دکھائی دے رہی ہیں۔ اس صوبہ میں مسلکوں اور مکاتب فکر کے ٹکراو ¿ نے مسلم آبادی کے درمیان بہت بڑی خلیج قائم کی ہوئی ہے۔مسلمان پہاڑی، کشمیری اور گجر کے خانوں میں بٹے ہوئے ہیں اور اُن کی اس ناہنجار تقسیم کو دن بدن جان بوجھ کروسیع سے وسیع تر کیا جارہا ہے۔نااتفاقی کی اس بیماری کے ساتھ ہی جموں کے مسلمانوں کے ذہنوں میں یہ بات بھی بٹھا دی گئی ہے کہ کشمیری مسلمان آپ کے لیے فکر مند نہیں بلکہ انہوں نے جموں واسیوں کو ہر دور میں اپنے ہی حال پر چھوڑ دیا ہے۔ یہ بات اس حد تو صحیح ہے کہ ۷۴۹۱ءمیں شیخ محمد عبداللہ نے اس خطے کے مسلمانوں کے ساتھ سوتیلا سلوک روا رکھاتھا لیکن آج کے دور میں یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ کشمیری قوم جموں کے مسلمانوں کے تئیں کافی فکر مند ہیں اور اُن کی ہر پریشانی کو اپنی پریشانی سمجھتے ہیں۔اس لیے اس غلط تاثر کو ختم کر نے کے لئے جہاں کشمیری قائدین اور عام لوگوں کو جموں کے مسلمانوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ روابط بڑھانے چاہئے، وہیں جموں کے مسلمانوں کو بھی اپنے موجودہ پوزیشن کو دیکھتے ہوئے کشمیری مسلمانوں کے تئیں اپنے دلوں میں غیر یت کا نہیں بلکہ اپنائیت کا جذبہ پیدا کرنا ہوگا۔
راجوری میں مسلم کمیونٹی بالخصوص نوجوان نسل کے ایک بڑے حصے کو اسلام سے دور کرنے کے لیے منشیات کا عادی بنایا جارہا ہے۔ یہ راجوری کا ہی مسئلہ نہیں ہے بلکہ وادی ¿ کشمیر میں بھی نوجوان نسل کو اپاہچ بنانے کی خاطر منشیات کی لعنت میں مبتلا کیا جارہا ہے۔ راجوری میں ذِی حس مسلمانوں کا کہنا ہے کہ وہاںمختلف غیر سرکاری تنظیمیں کام کررہی ہیں جو نوجوانوں کو مختلف اسکیموں کے نام پر جمع کرکے اُنہیں منشیات کا عادی بنارہی ہیں۔کالج کے ایک پروفیسر صاحب کا کہنا ہے کہ اگر یہی صورت حال رہی تو ہماری آنے والی نسلوں کا مستقل کسی بھی حال میں محفوظ نہیں رہے گا، کیونکہ ڈرگ کے عادی نوجوانوں کو جب پیسہ نہیں ملے گا تو یہ اپنا نشہ اُتارنے کے لیے قوم و ملّت کے مفادات کو نقصان پہنچانے کے لیے ہر وقت تیار رہیں گے۔ نیزمسلمانوں کی آبادی کا تناسب بگاڑنے کے لیے بھی اس خطہ میں خوف ناک سازشیں رچائی جارہی ہیں۔پاکستان سے آئے ہوئے شرنارتھیوں کو ریاست کا مستقبل باشندہ بنانے کے نام پر لاکھوں ہندوو ¿ں کو جموں خطہ میں آباد کیا جارہا ہے۔ سابق فوجیوں کے لئے کالونیوں کا خواب اگرچہ وادی ¿ کشمیر میں شرمندہ ¿ تعبیر نہیں ہوپائے گا، البتہ جموں میں بآسانی یہ منصوبہ پائیہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے فضا ساز گار بنائی جارہی ہے۔جنگلاتی زمین کو خالی کرانے کے نام پر غریب مسلمانوں کو اپنے گھربار سے بے دخل کرنے کے کام کا کئی مہینے قبل شروع کیا جاچکا ہے ۔ اسی طرح مسلمانوں کی ملکیتی اراضی جہاں مسجدیں اور عید گاہ قائم ہیں، پر جانائزقبضہ جمانے کے لیے مختلف ہتھکنڈے اپنائے جارہے ہیں۔ اس کی مثال یہ ہے کہ کئی ماہ قبل سندر بنی میں مسجد پر حملہ کرکے اُسے شہید کرنے کی کوشش کی گئی۔ جموںکے بشنہ علاقے میں مسلمانوں کے قطعہ اراضی پر زبردستی قبضہ جمانے کی کوشش کی جارہی ہے اور اس جگہ کو فرقہ پرست اپنے مصرف میں لانے پربضد ہیں ۔ جموں پولیس نے بشنہ میںمسلم نوجوانوں کو شام کے اوقات میں اپنے گھروں سے باہر نکلنا ممنوعہ بنارکھاہے او راُن سے کہا گیا ہے کہ اگراس صورت میں اُن کے ساتھ کچھ ہوجائے گا تو پولیس اس کی ذمہ دار نہیں ہوگی، جب کہ دیگر لوگوں کے کھلے عام گھومنے پھر نے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ وہاں کے لوگوں کا کہنا ہے کہ پولیس اس طرح مسلمانوں کو ہراساں کررہی ہے تاکہ وہ متعلقہ قطعہ اراضی سے دستبردار ہوجائیں ۔ اس طرح کی کارروائیاں اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ صوبہ جموں میں مسلمانوں کی آبادی کا توازن بگاڑنے کی بڑے پیمانے پر سازشیں ہورہی ہیں۔ستم ظریفی یہ ہے کہ اس خطہ کے مسلمان سوائے بے بسی کا اظہار کرنے کے کچھ بھی نہیں کرپاتے اور آنے والے طوفان کی سر سراہٹ محسوس کرنے کے باوجود وہ اپنے دفاع کرنے سے معذور ہیں۔
 راقم کوایک ۰۸ برس کے ایسے ذِی حس بزرگ سے بات چیت کا موقع ملا جو ۷۴۹۱ءسے آج تک کے تمام سیاسی واقعات کا چشم دید گواہ ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ بی جے پی اور آر ایس ایس کی جانب سے مسلمانوں کو جو آئے روز یہ کہا جارہا ہے کہ ”پاکستان چلے جاو ¿“اور اس پر ہم مسلمان آگ بگولہ ہوجاتے ہیں یہ بات سب سے پہلے شیخ عبداللہ نے کہی تھی۔ شیخ صاحب نے۷۴۹۱ءمیں جموں کے مسلمانوں کی نسل کشی کے بعد جب لٹے پٹے اور شکستہ حال مسلمانوں سے خطاب کیا تو میں بھی وہاں پر موجود تھا۔اس خطاب میں انہوں نے مسلمانوں کو حوصلہ دینے کے بجائے کہا کہ جس کو موجودہ سیاسی ماحول راس نہیں آتا ،وہ یہاں سے پاکستان چلا جائے۔ بقول اس بزرگ کے شیخ نے جموں میں قتل عام کے پس منظر میںیہاں کے مسلمانوں سے مخاطب ہوکر یہ بھی کہا” آپ ایسے ہی سلوک کے مستحق تھے۔“ ( واللہ اعلم )۔اس بزرگ نے کشمیریوں لیڈروں سے مخاطب ہوکر کہا کہ اگر ہندوستان پاکستانی شرنارتھیوں کو یہاں مستقل سکونت دینے کی بات کررہا ہے تو آپ یہ مطالبہ کیوں نہیں کرتے ہیں کہ ۷۴۹۱ءمیں جو مقامی لوگ اپنے جان کے خوف سے پاکستان بھاگ گئے اور جن کی زمینیں آج بھی ”نزول اراضی“ کے نام پر یہاںموجود ہیں، انہیں واپس اپنے آبائی علاقوں میں بسنے کی اجازت دی جائے۔ “ ۰۸برس کے اس بزرگ نے کہا کہ ۷۴۹۱ءسے پہلے ہی ریاست میں مسلمانوں کی آبادی کا توازن بگاڑنے کی سازشیں ہورہی تھیں۔ بقول اُن کے جب پہلی مرتبہ مردم شماری کی گئی تو جو فارمیٹ بنایا گیا اُس میں تین کالم رکھے گئے تھے۔ گجر مسلمان، کشمیری مسلمان ، ہندو....یعنی مسلمانوں کو گجر او رکشمیری میں تقسیم کیا گیا تھا اور اس تقسیم کا نتیجہ آج ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ گجر اور پہاڑی آپس میں دست و گریباں ہیں اور دونوں طبقے کشمیری مسلمانوں پر اعتماد نہیں کرتے ہیں۔یونیورسٹی اسکالرس سے بات کرتے ہوئے معلوم ہوا کہ جموں یونیورسٹی میں مسلمانوں کا تناسب کم کرنے کے لیے فرقہ پرست طاقتوں نے مربوط حکمت عملی ترتیب دی ہے۔ 
ریاست میںتحریک حق خود ارادیت کی جدوجہد کرنے والی جماعتوں کو جموں خطہ کے مسلمانوں کی دینی شناخت ، ملی تشخص ، سیاسی وزن اور اقتصادیات کو گھٹانے کی زہر ناک سازشوںکا نوٹس لیتے ہوئے نومبر سنتالیس کی خون آلودہ تاریخ کے اعادے کوروکنے کے حوالے سے سر جوڑ کر غور و فکر کرنا چاہیے۔ اس ضمن میںایک مربوط حکمت عملی ترتیب دے کر وہاں کے مسلمانوں تک رسائی حاصل کرکے اُنہیں یک جٹ کرنا ہوگا۔ مزید برآں تحریک کے حوالے سے جموں میں حکمت عملی دوسرے رُخ پر ڈال دینے کی ضرورت ہے۔ لازمی بات ہے کہ وہاں کے مسلمان کھلے عام تب تک حق خودا رادیت کا مطالبہ نہیں کرسکتے ہیں جب تک نہ اُنہیں سماجی سطح پر علمی، معاشی اور سیاسی طاقت حاصل ہوسکے۔ اس کے لیے لازمی ہے کہ اُنہیں گروہ بندیوں سے آزاد کرکے بحیثیت مسلمان ایک جگہ جمع کیا جائے۔،اُنہیں متحد ومنظم کیا جائے اور اُنہیں اُن کی طاقت کا احساس دلایا جائے۔ 
essahmadpirzada@gmail.com. Ph. 9797761908

Comments

Popular posts from this blog

لندن کی کشمیر کانفرنس۔۔۔ ایس احمد پیرزادہ

پبلک سیفٹی ایکٹ اور نیشنل کانفرنس....ایس احمد پیرزادہ