دلی کادل خوش ہوا؟

ہر موڑ پہ جو چھوڑ گیا لُوٹ کر ہمیں


۷نومبر۵۱۰ ۲ءکو ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی نے ریاست جموں وکشمیر کا دورہ کرکے بغلیار( دوم) پاور پروجیکٹ کا افتتاح کرنے کے علاوہ کنٹونمٹ ایریاءسرینگرمیں واقع ایس کے کرکٹ اسٹیڈیم میں اپنی حلیف سیاسی تنظیموں کے کارکنوں سے بھی خطاب کیا۔ پی ڈی پی، بی جے پی سرکار وجود میں آئے ہوئے آٹھ ماہ سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے مگر ڈیلیوری کے اعتبار سے یہ وہیں جہاں سے اس نے شروع کیا تھا۔ ریاست میں اس حکومت کا استقبال صدی کے بدترین سیلاب کے فوراّ بعد ہوا۔ گرچہ سیلابِ کشمیر نے ریاست میں ہنگامی حالات پیدا کئے تھے مگر اس کے باوصف قومی تعمیر نو کے نعرے کو لے کر سردیوں کے موسم میں الیکشن کرائے گئے، حالانکہ ابھی سیلاب زدہ کشمیر ی عوام سنگین ترین سیلابی حالات سے گزرہے تھے۔ پی ڈی پی اسمبلی میں سب سے بڑی پارٹی کے طورا بھری تو مفتی سعید نے بھاجپا سے ہاتھ ملاکر حکومت کی باگ ڈور سنبھال لی ۔ ا نہوں نے پریوار کے ساتھ رشتہ جوڑنے کی ایک وجہ یہ بھی بتائی کہ چونکہ مرکز میں بی جے پی بھاری اکثریت کے ساتھ اقتدار میںہے اور ریاست بدترین اقتصادی حالات پائے جار ہے ہیں ، اس لیے ریاست کی اقتصادی ترقی کے لیے بی جے پی کے ساتھ گٹھ جوڑ قائم کرنا ناگزیر بن چکا ہے۔ آج آٹھ ماہ سے زائد وقت گزرنے کے بعد مفتی محمدسعیدکا یہ استدلال غلط ثابت ہورہا ہے، کیونکہ اس عرصہ میں دلّی سرکار نے جس طرح سے ریاستی سرکارکو بار بارا پنے اوقات یاد دلائے، وہ ہو اکارُخ بتانے کے لئے کافی ہے۔ شاید ہی دلی کے کسی دور میں ایسے تیکھے تیور رہے ہوں جواب ہیں۔ نیپال میں زلزلہ آیا یا پھر پاکستان میں زمین لرز اُٹھا، نریندر مودی نے عالمی سطح پر پوئنٹس ا سکور کرنے کے لیے دونوں ممالک کو بھاری امداد کی پیشکش کردی تھی، جب کہ اندرونِ خانہ حالت یہ ہے کہ اس ملک کے کروڑوں عوام دو وقت کی روٹی کے لیے در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں، کروڑوں لوگ سرد و گرم موسمی تبدیلوں کے رحم وکرم پر کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور دلی کی جانب سے مابعد سیلابِ کشمیر جس وسیع پیمانے پر ریلیف اور باز آبادکاری کے لیے کشمیر کو امداد دینے کی ضرورت تھی، اُس کا عشر عشیر بھی دیا گیاہوتا تو شاید کچھ نہ کچھ مفتی سرکار کابھرم رہتالیکن کھوکھلے وعدوں اور الفاظ کے گورکھ دھندوں میں یہاں کے لوگوں کو اس طرح اُلجھا دیا گیا کہ وہ ریلیف اور بازآبادکاری کی آس ہی چھوڑ بیٹھے ہیں ۔ آج آٹھ ماہ بعد مسٹر مودی کے لیے جس طرح سے سری نگر نے پی ڈی پی اسٹیج سجایا تھا ،جس جوش وخروش سے مودی کی آمدِ کشمیر کو پارٹی تاریخی قرار دے کرریاست کی تقدیر بدلنے سے تعبیر کر رہی تھی ، ۷نومبر ۵۱۰۲ءکو وہ سب مونگیری لا ل کا حسین سپنا ثابت ہوا۔ کشمیریوں کی اکثریت اقتداری ٹولے کی ان لن ترانیوں کے انجام سے پہلے ہی بخوبی واقف تھی جب کہ مزاحمتی خیمہ جانتا تھا کہ یوں پی ڈی پی کر سی کے عوض ترقی، تعمیر اور پیکیج کے نام پر مسلم اکثریتی ریاست میں آر ایس ایس کے لیے راہ ہموار کررہی ہے ۔
مزاحمتی خیمے کے حوالے سے ریاستی وزیر اعلیٰ بڑے بڑے دعوے کرر ہے ہیں کہ وہ’ خیالات کی جنگ“ کو فراخ دلی کے ساتھ قبول کریں گے۔حقیقت حال یہ ہے کہ ان کی یہ باتیں میڈیا بیانات تک ہی محدود ہیں ۔ حقیقی صورت حال یہ ہے کہ مزاحمتی لیڈران کے لئے زمین تمام وسعتوں کے باوجود تنگ کرنا میں نظر بند رکھنا اب عمر حکومت کی طرح موجودہ سرکار کا معمول بنایاچکا ہے۔ نوجوان نسل بدستور لاٹھیاں، گولیاں اور جیل کی کال کوٹھریا ںا پنا مقدر پارہی ہیں۔ اسی حقیقت کو اجاگر کر نے کے لئے وزیر اعظم نریندر مودی کے دورے کے موقع پر حریت کانفرنس (گ) کی جانب سے © ©”ملین مارچ“کے اعلان کیا جس نے ریاستی حکومت کی نیندیں حرام کردی تھیں۔ عام طور پر ایسے دورو ں کے موقعوں پر حریت کی ہڑتال حکومت کے لیے اس اعتبار سے نفع بخش بن جاتی ہے کہ لوگوں کی چلت پھرت مسدودہونے سے وہ اپنے پروگرام کوبحسن وخوبی انجام دےتی ہے۔ اس مرتبہ حریت نے ملین مارچ کا اعلان کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی واضح کردیا تھا کہ مارچ پُر امن ہوگا اور جو لوگ مودی کی ریلی میں شریک ہونے کے لیے آنا چاہتے ہوں گے اُن کو بھی محفوظ راہداری فراہم کی جائے گی۔ حریت نے انتظامیہ کو بھی تحریراّ مطلع کر کے مجوزہ مارچ کے پُرامن ہونے کی ضمانت دی ۔ ”خیالات کی جنگ“کو قبول کرنے کی بات میں اگر خلوص ہوتا تو حکومت ملین مارچ کی راہ روکنے کی کوشش نہ کرتی لیکن جب قول اور فعل میں زمین و آسمان جیسا تضاد ہوتوپھر وہی ہونا طے ہے جو ریاستی حکومت نے مزاحمتی کیمپ کا ہمہ پہلوکریک ڈاو ¿ن کر کے کیا۔حریت کانفرنس کے ملین مارچ کو روکنے کے لیے ریاست کو بیک جنبش قلم محاصرے میں لے کر جیل خانے میں تبدیل کرنا ، لوگوں کے نقل و حمل پر مکمل قدغن لگانا اورسینکڑوں حریت پسندکارکنوں کو جیلوں اور تھانوں کے اندر ٹھونس دینایاخانہ نظر بندی کی سز ا دنیا ،ا س سارے جنجال نے ثابت کردیا کہ ریاستی حکومت ہی نہیں بلکہ دلّی کے مسند اقتدار پر بیٹھے حضرات بھی اس بات کا گویا اعلان کر گئے کہ نہ ہمیں انسانیت چاہیے اور نہ جمہوریت ۔ اگر بالفرض یہ بات نہیں تو کیا وجہ ہے کہ مودی کی آمد پر مزاحمتی جماعتوں کے ملین مارچ کو بزور بازونہیں ہونے دیا گیا ۔ سیکورٹی یا صحیح ترالفاظ میں محاصرے کے اس قدر سخت انتظامات کیوںکیے گئے کہ چڑیا بھی پر نہ مار سکی۔ یہ بات الگ ہے حریت خواہ کشمیری اس مجوزہ ملین مارچ کے ذریعے سے جو پیغام اقوام عالم کو دینا چاہتے تھے، وہ ملین مارچ کے نہ ہونے سے اُجاگر ہوا۔ دنیا بھر کے اخبارات اور میڈیا اداروں نے مودی کی آمد کے موقع پر کشمیری لوگوں کو محصور کرنے اور ملین مارچ نہ ہونے دینے کو بڑے پیمانے پر کوریج دے کر اس خبرکی خوب تشہر کی کہ خطہ ¿ مینو نظیر کی سیاسی حقیقت کیاہے ۔
 واقف کار حلقے کہتے ہیں کہ اقتصادی بدحالی سے ریاست کو تھوڑی بہت راحت فراہم کیے جانے کے لیے کولیشن سرکار کے سامنے وزیر اعظم ہند کی ریلی کو کامیاب بنانے کی شرط رکھی گئی تھی۔ یہ بات اس لیے قرین قیاس ثابت ہوئی کہ نہ صرف دو گھنٹے کے اس سرکاری پروگرام کی ”کامیابی “پر غریب ریاست کے خزانے سے کروڑوں روپے خرچ کیے گئے بلکہ اخبارات میں یہ خبریں بھی پڑھنے کی ملیں کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو جمع کرنے کے لیے حکمران پارٹی نے کیا کیا حربے ہتھکنڈے آزمائے ۔ ریلی میں سول وردی میں لاتعدد ایس پی اوز کو ریگولر کر نے کے لالچ میں جمع کرنا، راتوں رات بہاری مزدوں ، غیر ریاستی باشندوں کو سرینگر کے مضافات میں سے جمع کرکے لانا، ڈیلی ویجروں اور آنگن واڑی ورکروں کو یہ لالچ دیناکہ اُن کی نوکری اُسی صورت میں مستقل بنادی جائے گی اگر وہ ریلی میں شریک ہوجائیں گے۔ یہ سب کس بات کی چغلی کھاتا ہے ۔ پی ڈی پی اور پیپلز کانفرنس نے باضابطہ طور اپنے اپنے علاقوں سے پارٹی ورکروں کو لانے او رلے جانے کے لیے مفت گاڑیاں فراہم کر کے مودی شو کو کامیاب بنانے میں اپنی خدمات پیش کیں۔ ایک جماعت کے بلاک صدر نے راقم کو بلا کسی پس وپیش کے بتایا کہ میں نے اپنے بلا ک میں دس گاڑیاں کرایہ پر لینے کے لیے ہائی کمان سے کرایہ کی رقم وصولی مگر تین ہی گاڑیوں کو بھرکر بچت شدہ رقم اپنی جیب میں ڈال دی۔ ریلی میں جانے والی ایک ایک سومو گاڑی میں دو اور تین آدمیوں سے زیادہ سواریاں نہ تھیں۔ کل ملاکر ہم کہہ سکتے ہیں کہ جس پیمانے پر پوری سرکاری مشینری کو مودی ریلی ”کامیاب “بنانے پر لگادیا گیا تھا اور جس دریا دلی سے دولت لٹائی گئی، اُس مناسبت سے یہ ریلی ایک فلاپ شو ہی قرارپاتی ہے کیونکہ معاملہ ’جوچیرا تو اک قطرہ ¿ خوں نکلا والا‘ بنا۔ حکومت اور بی جے پی کے یار دوست مادی وسائل کے باوجود ایک قلیل تعداد بھی جمع نہ کرسکے۔ اس کے برعکس اگر ملین مارچ کی اجازت دی گئی ہوتی تو شاید ۸۰۰۲ءعیدگاہ اور ٹی آر سی ریلیاں بھی دنیا بھول جاتی ۔ حکومت وقت کو بھی اس کا پکااور صحیح اندازہ تھا کہ ملین مارچ کی اجازت دی گئی تو حکومتی جلسہ برائے نام ہی رہ جائے گا۔اس لیے ملین مارچ کو بڑی سختی کے ساتھ طاقت کے بل پر ناکام بنادیا گیا۔ 
 ریاستی سرکار کی طرف سے جس مالی پیکیج کا ڈھنڈورا پیٹا جارہا تھایا جس طمطراق سے کہا جارہا تھا کہ ریاست جموں وکشمیر کی مودی پیکیج تقدیر بدل دینے والا ہے، مر کز سے جس فراخ دلانہ امداد کی دُہائی دے کر بتایا جارہا تھا کہ سیلاب متاثرین کے وارے نیارے ہوجائیں گے ،ا س سب کی ۷ نومبر کو پول کھل گئی۔ ۰۸ہزار کروڑ کے جس مالی پیکیج کا سینہ ٹھونک کر پی ایم مودی نے اعلان تو کیاجس پر پی ڈی پی حکومت بغلیں بجا رہی ہیں ، اس بارے میں اب جو تفصیلات سامنے آرہی ہیں وہ کشکولی سیاست میں یقین رکھنے والوں کو کافی مایوس کررہی ہیں۔ گزشتہ ایک برس سے ریاست میں جتنی بھی اسکیمیں یہاں چل رہی ہیں اور جتنے بھی کام حسب معمول ہورہے ہیں، اُن کے بجٹ کی جمع تفریق کرکے وزیر اعظم نے اعداد و شمار کو انہیں ہی پیکیج کانام دیا۔ ماہرین اقتصادات کا ماننا ہے کہ اس اعلان میں ایسا کچھ بھی نہیں جس کی بنیاد پر کہا جاسکے کہ ریاستی حکومت کو تگ وود سے خاطرخواہ نتائج براآمد ہوئے۔ کشکول لے کر دلّی کے پاس ہاتھ پھیلانے کی عادت قائم رہے، اس کے لیے ریاست جموں وکشمیر میں مختلف اسکیموں کے تحت ہورہے کاموں کے لئے مختص رقومات آسانی کے ساتھ واگزار نہیں کی جاتیںہےں۔ اس طرح کے خودپسندانہ طرز عمل سے ذہنی سطح پر ہمیشہ ریاستی حکمرانوں کو یہ احساس دلایا جاتارہا ہے کہ ریاست جموں وکشمیر مر کز کے رحم وکرم پر ہے اور ہر حیثیت سے کشکولی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہے۔
مفتی محمد سعید نے ۲۰۰ ۲ءجب پہلی مرتبہ بحیثیت وزیر اعلیٰ اقتدار حاصل کرلیا تو اُس وقت انہوں نے پاکستان اور مزاحمتی خیمے سے بات چیت کی کھل کروکالت کی۔ مسئلہ کشمیر کی متنازعہ حیثیت کو بھی تسلیم کر لیا اور کئی موقعوں پر برملا اس بات کا اظہار کیا کہ مسئلہ کشمیر کا سیاسی طور پر حل نکالنا ابھی باقی ہے۔ سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کو سرینگر میں لاکر پاکستان اور حریت کو بات چیت کی پیش کش کرنے کا سارا کریڈٹ مفتی اپنے سر باندھتے رہے ہیں۔ اس مرتبہ بھی مفتی محمد سعید مالی پیکیج کے ساتھ ساتھ سیاسی پیکیج کے متمنی تھے۔ شیر کشمیر اسپورٹس اسٹیڈیم میں اپنی پندرہ منٹ کی تقریر میں وزیر اعلیٰ نے بار بار نریندر مودی کو یاد دلانے کی کوشش کی کہ وہ اس موقع پر پاکستان اور حریت کے حوالے سے بات کریں لیکن نریندر مودی نے اپنی تقریر کی ابتدا ءمیں ہی یہ کہہ کر کہ ”کشمیر کے حوالے سے کسی کا بھی مشورہ نہیں لینا چاہتے ہیں“انہوں نے یہاں کی حکومت کو ہی نہیں بلکہ سیاسی حلیفوں کو اپنے صحیح اوقات یاد دلائے۔ حالانکہ وزیراعلیٰ مفتی سعید کی اس خاص بات میں دم ہے اور سیاسی معنویت کی اتھاہ گہرائی ہے کہ اصل سیاسی مسئلے کو نظرانداز نہ کیاجائے مگربی جے پی ہے کہ اپنے شدت پسندانہ اپروچ کو کسی بھی صورت میں چھوڑنے کے لیے تیار نہیں اور نہ ہی ماضی میں دلی کبھی بھی کشمیر کے حوالے سے زمینی حقائق کا ادراک کرنے میں سنجیدہ رہی ہے ۔ایسے میں مودی جی نے اگر تیز طرار زبان میں یہاں کی حکومت کو اشاروں میں سمجھا دیا کہ وہ اپنے دائرہ کار سے باہر قدم رکھنے کی غلطی نہ کریں، تو اس پرا چھنبے کی ضرورت نہیں۔اس کے باوجود پروپیگنڈا یہ کیا جارہا ہے جیسے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کا یہ دورہ تاریخ ساز بھی ہے اور کامیاب بھی۔حالانکہ سیاسی پیکیج دینا تو محض چھلاوا ہوتا ہے، آج تک جتنے بھی سیاسی پیکیجز کا ڈھنڈورا پیٹا گیا وہ صرف اور صرف کشمیری عوام کو ساحرانہ لوریاں سناکر سلا دینے کے حربے تھے۔
جب بھی ریاست جموں وکشمیر میں دّلی اور دلّی کے حمایت یافتہ لوگوں کے لیے اسٹیج سجانے کی کوشش کی گئی ،یہاں ناحق کسی نہ کسی معصوم کا قتل ضرور ہوتا رہا۔ زوبن مہتہ کو موسیقی کاکنسرٹ کرنا تھا تو شوپیان میں چار نوجوانوں کا سینہ گولیوں سے چھلنی کردیا گیا۔ سینکڑوں احتجاجی نوجوانوں کو زخمی کردیا گیا۔ گزشتہ سال نریندر مودی نے جب ماہِ اکتوبر میں ریاست کا دورہ کیا تو چھتر گام میں نوگام کے دو معصوم نوجوانوں کو پہلے ہی گولی مار کر ابدی نیند سلا دیا گیا۔ اس مرتبہ مسٹر مودی سپورٹس گراونڈ سرینگر میں یہاں کے لوگوں سے مخاطب ہوکر کہہ رہے تھے کہ ”دلی کے خزانوں کے ساتھ ساتھ ہمارا دل بھی آپ کا ہے“ اور دوسری جانب ریاست کے طول و عرض میں پولیس اور سی آر پی ایف اپنی بربریت کے ذریعے سے اُن کو کھلے عام نکاررہے تھے۔ اسی ضمن میںگوہر نذیر ڈار جو انجینئرنگ کے ایک ہونہار طالب علم تھے،کو سی آرپی نے صرف اس خطا پر گولی ماردی کہ اُن کا تعلق کشمیری مسلم قوم سے ہے ۔ نارہ بل سری نگر میں سی آر پی ایف اہلکاروں نے اس نہتے اور معصوم نوجوانوں کو جرم بے گناہی میں گولی مار کر” دلی کے دل “کی اصلیت ظاہر کردی۔یہاںنسل کشی بھی جائے اور مالی پیکیج کے مذاق سے انسانی لاشوں کا کاروبار بھی رکھا جائے، کیا یہی زخموں کی مرہم کاری اور گولی کے بدلے بولی کا لب لباب ہے؟ طرفہ تماشہ یہ کہ ابھی گوہر نذیر کا کفن خون سے تر ہی ہے کہ محبوبہ مفتی صاحبہ نے جان بوجھ کر موضوع بدلتے ہوئے سنگ باری کر نے والوں کی مذمت کرڈالی ۔ رنج وغم کے اس موقع پر اس بیان کا مطلب کیا ہے ، کشمیری عوام خوب جانتے ہیں ۔ عین ممکن ہے آگے مقتول کوہی خطاوار ٹھہرانے کی ضرورت پڑنے کی صورت میں یہ بیان کام آئے۔ الغرض عارضی کرسی کا مزا لینے کے لئے چاہے کشمیریوں کو ذہنی طور پر اُلجھا دینے کی کتنی بھی کوششیں کی جائیں، ایک بات خوش آیند ہے کہ جابرانہ وساحرانہ حکومتی اقدمات سے یہاں عوام میں یہ احساس دن بدن گہرا ہوتا جارہا ہے کہ کشمیرکوہر حال میں اپنے سلب شدہ سیاسی حقوق کی لڑائی لڑکر ہی اپنا قومی مستقبل محفوظ بنا نا ہوگا۔

Comments

Popular posts from this blog

لندن کی کشمیر کانفرنس۔۔۔ ایس احمد پیرزادہ

پبلک سیفٹی ایکٹ اور نیشنل کانفرنس....ایس احمد پیرزادہ