پیرس۔۔۔ دہشت گردانہ حملے!
نہ خطا کوئی نہ قصور وار میر ے نام تہمتیںبے شمار

13نومبرکی رات کو فرانس کی معروف شہر پیرس میں نامعلوم افراد کی جانب سے کیے جانے والے خود کش حملوں میں ڈیڑھ سو کے قریب افراد ہلاک جب کہ ساڑھے تین سو عام شہری زخمی ہوگئے۔ یہ دہشت گردانہ حملے یکے بعد دیگرے کیے گئے۔ پہلا حملہ شام کے 8:20 بجے پر ، دوسرا 9:40 بجے جب کہ تیسرا حملہ11:20 بجے پر کیا گیا۔ حملہ آور خود کش بمبار تھے جنہوں نے عوامی جگہوں پر اپنے آپ کوبارود سے اُڑا دیا۔ حملوں کے فوراً بعد فرانس میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی اور فرانس سے باہر جانے والی سبھی سڑکوں کو بند کردیا گیا۔ عراق اور شام میں سرگرم ایک پُراسرار جنگجو تنظیم نے مبینہ طور حملوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا کہ فرانس کا شام اور دیگر مسلم ممالک میں امریکی اتحاد ی فوج کا حصہ بننا اور فرانسیسی فوج کی جانب سے شام میں اس کے ٹھکانوں پر بمباری کیے جانے کے جواب میں یہ حملے کیے گئے۔ کہاجاتاہے کہ دولت اسلامیہ نے مستقبل میں بھی یورپ کے دیگر ممالک میں مزید ایسے حملوں کی دھمکی دی۔پیرس میں کیے جانے والے اِن حملوں کی دنیا بھر میں مذمت کی جارہی ہے۔ اقوام متحدہ نے اپنے ایک خصوصی اجلاس میں ”دہشت گردی“ کے ساتھ سختی سے نپٹنے کا عہد کیا۔ یورپ اور امریکہ نے جنگ جو تنظیم کو سبق سکھانے کے لیے اُن کے خلاف جاری ہوائی حملوں میں شدت لانے کی بات کا اعادہ کیا۔ مسلم دنیا کا خوف زدہ حکمران طبقہ بھی فرانس میں ہوئے حملوں کی مذمت میں زبردست بیان بازی کررہا ہے۔ قابل غور ہے کہ سیکولر ، لبرل اور اپنے آپ کو روشن خیال کہلانے والے مسلم دانشور اِن مذموم حملوں کے لیے براہ راست اسلام کو ہی قصور وار ٹھہرانے لگے ہیں۔سوشل میڈیا پربیشترلوگوںنے فرانس کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرنے کے لیے اپنی اپنی رائے کا اظہار کیا۔ فیس بُک نے فرانسیسی عوام سے اظہار یکجہتی کے لیے فیس بُک پکچرکو فرانس کے جھنڈے کے عکس کے ساتھ عارضی طور پر تبدیل کرنے کا ایک آپشن پیش کیا۔ فرانس سے اظہار یکجہتی کے لیے لوگوں نے اپنی پروفائل پکچر تبدیل کرکے اس آپشن کا بھرپور انداز میں استعمال کیا۔ دنیا بھر کے اخبارات ، ٹیلی ویژن چینلوں اور دوسرے میڈیا ذرائع نے جی توڑ کوششیں شروع کردی ہیں کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کی شبیہ مسخ کریں اور اسلام کو بدنام کرکے دنیا بھر میں اس آفاقی دین کے خلاف بد ظنی پھیلا ئیں۔ المیہ تو یہ ہے کہ مسلم دنیا کا میڈیا بھی اس تحقیق طلب واقعے کے بارے میںکچھ جانے بغیر ہی بڑی حد تک سنی سنائی باتوں کی تشہیر میں ملوث ہورہا ہے۔مغربی دنیا بالخصوص فرانس میں مسلمانوں کو ہراساں وپریشاں کرنے اور اُن کے خلاف بد ترین نفرت اور کردار کشی کی فضا قائم کرنے کا عمل پھر سے شروع کردیا گیا۔ فرانس اور برطانیہ میں کئی مساجد پر حملے بھی کیے گئے اور جگہ جگہ مسلمانوں کو نسلی تعصب کا شکار بھی ہونا پڑ رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر ایک ایسی ویڈیو اَپ لوڈ کی گئی جس میں حالیہ ٹی ٹونٹی میچ میں پاکستان کی کامیابی کا سن کر پاکستانی عوام رقص کررہے تھے ۔ اس ویڈیو کے ذریعے بد دیانتی کی حد پار کر کے یہ ظاہر کیا گیا کہ پیرس حملوں کی خبر سنتے ہی” مسلمان خوشی میں جھوم“ رہے ہیں۔ 
اسلام امن کا دین ہے،اسلامی نظام میں امن کی ضمانت موجود ہے۔ کوئی جاہل ہی ایسی بات کہہ سکتا ہے کہ دین اسلام دنیائے انسانیت کے امن و سکون کے لیے خطرہ ہے۔ اسلامی تعلیم میں ایک انسان کے ناحق قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا گیا ہے اور مسلم قوم انسانی جان ومال کا جتنا احترام کرتی ہے دنیا کی دیگر اقوام اُس کا ایک حصہ بھی کرتی تو شاید عالمی سطح پر اس قدر بے چینی اور غیر یقینی صورت حال قائم نہیں ہوتی۔ پیرس میں ہوئی ہلاکتوں پر کسی بھی صورت میں کوئی بھی باشعور مسلمان خوش ہونے کا سوال ہی نہیںاور نہ ہی اُمت مسلمہ کا کوئی ادنی فرد ایسے اقدامات کی اجازت دے سکتا ہے۔ اگر اس طرح کے واقعات کسی بھی صورت میں مسلمانوں کے شایان ِشان نہیں ہےں تو پھر ایسے حملوں میں مسلمان ہی ملوث کیوں بتائے جاتے ہیں؟ یہ وہ اہم سوال ہے جس کا جواب گزشتہ نصف صدی سے چلے آرہے عالمی حالات کے تناظر میں سمجھنا بالکل ہی آسان ہے۔مغرب اور اِس کے حواریوں نے دنیا میں انسانی حقوق اور جنگی قوانین کے معانیٰ ہی تبدیل کردئے ہیں۔ مسلم دنیا کے لیے ایک پالیسی اپنائی جارہی ہے اور غیر مسلم دنیا کے لیے دوسری پالیسی پر عالمی غنڈے عمل پیرا ہیں۔ ہزاروں مثالیں موجود ہیں جن کے تناظر میں ان حوالوں سے اہل مغرب کے دوہرے معیار کو جانچا جاسکتا ہے۔پیرس کے حملوں میں عام لوگوں کے جانوں کا اتلاف ہوا تو فیس بُک نے فرانس کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے لیے فوراً ڈی پی تبدیل کرنے کا آپشن فراہم کیا۔عراق میں روز دھماکوں میں سینکڑوں لوگ جان بحق ہوجاتے ہیں، شام میں قیامتیں برپا ہورہی ہیں، حال ہی میں بیروت دھماکوں میں ہلاکتیں ہوئیں،شام کے معصوم بچوں کی اوندھی منہ پڑیں لاشیں ساحل سمندر پردنیائے انسان کے سوئے ضمیر کو پکار رہی ہیں، فلسطینی عوام کے خلاف اسرائیلی جارحیت اپنی جوبن پر ہے ، پشاور پاکستان میں آرمی اسکول میں نہتے اور معصوموں کے خون کی ہولی کھیلی گئی، برما میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اُمتیوں کو وحشیانہ طریقے سے زندہ جلا دیا گیا، مصر میں نمازیوں کو مسجدوں اور میدانوں میں دوران نماز ٹینکوں اور توپوں سے کچل دیا گیا، افغانستان میں براتیوں پر شب خون مارا گیا، غرض پورے مسلم بلاک پر روز قیامت ِ صغریٰ ڈھائی جارہی ہے، بلکہ اب تو پیرس حملوں کے فوراً بعد فرانسیسی جنگی جہازوں نے شام کی سول آبادی پر جو آگ و آہن کی بارش کی ، اس کے نتیجے میں معصوم شہری جن میں درجنوں نونہال بچے شامل تھے، کی بے گور وکفن لاشیں ہر سو بکھر گئیں ، یہاں ہمارے اپنے وطن کشمیر میں آئے روزگوہر نذیر اور زاہد بٹ جیسے معصوم نونہالوں کی زندگیوں کی شمع گل کردی جاتی ہے ،کبھی کسی فیس بُک نے یکجہتی کے لیے کوئی آپشن پیش نہیں کیا، کسی اقوام متحدہ کا اجلاس فوراً طلب نہیں کیا گیا ، کسی جی ٹونٹی نے اس پر لب کشائی نہ کی اور کبھی عالمی سطح پر ان وحشیانہ کارروائیوں کی مذمت نہیں کی گئی جس طرح پیرس میں حملوں کے حوالے سے دیکھنے کو مل رہی ہے۔کیا مسلمانوں کی رگوں میں خون کے بجائے پانی دوڑتا ہے؟ کیا اُمت مسلمہ کی زندگیوں کا کوئی مول نہیں ہے؟ کیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اُمتی اس قدر بے وقعت ہوچکے ہیں کہ اُنہیں کیڑے مکوڑوں کی طرح کچل اور مسل بھی دیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں؟مغرب اور دنیائے انسانیت کے اس دوہرے معیارکی جگ ہنسائی ہونی چاہیے ۔دنیاکے ایک کونے سے دوسرے کونے تک کوئی یہ ثابت نہیں کرسکتا ہے کہ مسلمانوں نے کبھی کسی مذہب کے ماننے والوں کی دل آزاری کی ہو؟ کبھی کسی مذہبی شخصیت کی توہین کی ہو،یا کبھی کسی قوم کے مذہبی معاملات میں بے جا مداخلت کی ہو، اس کے برعکس دیگر اقوام وملل کی حالت کیا ہے ،اس کا اندازہ مشرق سے مغرب تک ہر جگہ آئے روز پیش آنے والے خون آشام واقعات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔اسی فرانس کے ایک اخبار نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گستاخانہ خاکے بنائے اور ہمارے دین و مذہب کا مذاق اُڑایا، ہماری دل آزاریاں کیں، مغرب کے بیشتر ممالک میں حجاب پر پابندی عائد کرکے، نمازوں پر پابندی لگاکر، اذانوںاور میناروں کو ممنوع قرار دے کر کیامسلمانوں کے مذہبی، عائلی اور تعزیری قوانین میں مداخلت سے کلمہ خوانوں کے دل کو چوٹ نہیںپہنچائی جاتی ؟
مغرب کی جانب سے مسلم دنیا پر تھوپی گئی جنگ میں گزشتہ ڈیڑھ دہائی میں کتنے مسلمانوں کا خون بہایا گیا، اس کا صحیح اندازہ لگانا مشکل ہے ۔البتہ محتاط اندازوں کے مطابق آج تک جنگ زدہ مسلم ممالک میں چار ملین سے زیادہ مسلمانوں کو موت کی گھاٹ اُتار دیا گیا۔ایک امریکن غیر سرکاری تنظیم Physicians for Social Responsibility کی مارچ ۵۱۰۲ءکی رپورٹ کے مطابق عراق جنگ میں آج تک 1.3 ملین سے2 ملین تک لوگ مارے گئے۔اقوام متحدہ کی جانب سے شائع کردہ اعدادوشمار کے مطابق امریکہ کی جانب سے عائد پابندیوں کے نتیجے میں عراق میں ہی1.7 ملین لوگ بھوک اور دوائیوں کی عدم دستیابی کی وجہ سے لقمہ ¿ اجل بن گئے۔اِن میں نصف تعداد کم عمر بچوں کی ہے۔9/11 کے بعد امریکی صدربش نے صلیبی جنگCrusadeکا اعلان کرکے مسلمانوں کے قتل عام کا عندیہ دیا ۔ ایک دہائی گزر جانے کے بعد امریکیوں کی جانب سے شروع کی گئی یہ جنگ پوری مسلم ورلڈ میں پھیلا دی گئی اور آج پاکستان سے لے کر عرب سرزمین تک مسلم ممالک کی سرزمین اسلام کے نام لیواو ¿ں کے خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے۔”دہشت گردی کے خلاف جنگ“ کے نام پر پوری مسلم دنیا میں دہشت پھیلائی گئی اور امن و امان کی صورت حال کو درہم برہم کردیا گیا، یوںزبردستی مسلمانوں کو جنگ اور جارحیت میں جھونک دیا گیا۔فرانس جو صرف ایک سو بے گناہ افراد کے ہلاک ہونے جانے پر دہل اُٹھا ہے ،نے امریکہ کی جنگ میں ہر جگہ شرکت کرکے بے گناہ مسلمانوںکے قتل عام میں ساجھے داری نبھائی۔عراق ، افغانستان اور اب شام میں فرانسیسی فوجی کارروائیاں روز اَن گنت مسلمانوں کی زندگیاں چھین لیتی ہیں ۔ بحیثیت مسلمان ہمیں فرانس کے دُکھ زدہ سووگوار خاندانوں سے بھرپور ہمدردی ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ ہم یہ بھی تمنا کرتے ہیں کہ کاش اس زخم سے فرانسیسی عوام کو برسوں سے اُن کی فوج کی جانب سے دئے جارہے اُن زخموں کا اندازہ ہوسکے جو انہوں نے مسلمانوں کو دئے ہیں۔ کہنے کاہر گز یہ مطلب نہیں کہ دہشت گردی کاجواب دہشت گردی سے دیا جا نا کسی طور روا ہے ۔
مشرق سے مغرب تک دیگر اقوام کو اس بات کا ادراک حاصل ہونا چاہیے کہ ”مسلمان“ چاہے کتنے بھی کمزور اور بے آسرا کیوں نہ ہوں، تاریخ بتاتی ہے کہ یہ مٹ جانے والی ملت نہیں ہے۔ ہر چوٹ اُن کے دل اور دماغ کو یک جٹ کرکے سوچنے پر مجبور کرتی ہے، ہر زخم اُنہیں اُٹھ کھڑا ہونے کے لیے بے قرار کردیتا ہے، ہر وار اُنہیں سخت جان بنادیتا ہے اور ہر بار گر کرسنبھلنے کا گُر اُنہیں آتا ہے۔مسلمانوں کا قتل عام کرکے اُن کی تعداد کم کرنے سے یہ ملت ختم ہونے والی نہیںہے۔ یہ حربہ تو تاتاریوں نے بھی آزمایا تھا۔ چنگیز سے لے کر ہلاکوں خان تک برسوں تک دنیا بھر سے مسلمانوں کا صفایا کیا گیا لیکن یہ خاکِ ارجمند پھر سے اُبھر کر ملت بن کر دنیا کے سامنے کھڑی ہوگئی۔ 1924 ءمیں ترک کی سرزمین پر اس ملت کے تابوت میں آخری کیل ٹھوک کر یہ سمجھ لیا گیا تھا کہ اب ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس قوم کا خدا حافظ ہوگیا لیکن آج اکیسویں صدی میں بغیر حرب و ضرب کے اسی قوم کی نوجوان نسل نے اسلام دشمن طاقتوں کی نیندیں حرام کردی ہیں۔ ناحق پٹنے والی اس قوم کی پشت پر اللہ کا ہاتھ ہے۔ یہ قوم کتنی بھی گئی گزری کیوں نہ ہو، جب تک قرآن اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایک ادنیٰ سے رمق بھی ان میں موجود ہے، یہ پلٹ کر اپنا کھویا ہوا مقام پھر سے حاصل کرکے ہی دم لے گی۔اہا لیانِ مغرب دیکھ رہے ہیں کہ ا ن کی کردارکشیوں کے باوصف خود اس کے گھر وں سے اسلام قبولنے و الے نکل کر کعبے کے پاسبان بن رہے ہیں ۔ اس لئے مغرب کو سمجھ لینا چاہیے کہ اسلامی دنیا کو جنگ میں بہ جبر اُتار کراُنہوں نے مسلم ملت کو نیست و نابود کرنے کی جوسازش رچائی تھی، اُس کے اُلٹے اثرات برآمد ہوئے ہیں۔ 
اسلام کے نام لیواو ¿ں کے لیے مایوسی کی کوئی بات نہیں ہے، بشرطیکہ وہ اسلام کے پیغام امن اآشتی اور انسانیت کے درس پر ہمیشہ عامل رہیں۔ بے شک اس وقت عالمی سطح پر ہمارے خون کی ارزانی ہورہی ہے لیکن ان قربانیوں نے اپنا اثر دکھانا شروع کردیا ہے۔ مغرب کی پریشانیاں دن بدن بڑھ رہی ہیں۔ جن زیر زمین تنظیموں کو انہوں نے مسلمانوں کے خاتمہ کے لیے وجود میں لایا تھا،وہیں تنظیمیں اب مغرب اور یورپ کے لیے دردِ سر بنتی جارہی ہیں۔بم اور بارود کو کاروبار بنانے والے مغرب نے گرچہ مسلم مملکتوں میں آگ لگا دی تھی لیکن یہ آگ اب اُن کے اپنے گھروں میں داخل ہورہی ہے۔جنگی صورت حال سے حقیقی معنوں میں مسلمانوں کی نسل کشی ہورہی ہے، اُمت مسلمہ کی سرحدیں تبدیل ہورہی ہیں، اہل اسلام کاانفراسٹریکچر تباہ وبرباد ہورہا ہے، ہمارے وسائل کو دو دو ہاتھوں سے لوٹا جارہا ہے،لیکن اس سب کے باوجود یہ بات حوصلہ افزاءہے کہ مسلمان اسلام کے تئیں وفادار بنتا جارہا ہے۔ اُمت کی نوجوان نسل کو اپنے دین پر کاربند رہنے اور اسلام کے مشن کے ساتھ جڑ جانے کا احساس بڑھ رہا ہے۔ مسلمان عالمی سطح پر بیدار ہورہا ہے اور اپنے حقوق کی بار یابی کے لیے جدوجہد کرنے کے لیے ذہنی طور پر تیار ہورہا ہے۔ مسلم دنیا کو اس بات کا بھی صحیح طور احساس ہورہا ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی اب شکست خوردہ ہوچکے ہیں،افغانستان اور عراق میں اُنہوں نے گھٹنے ٹیک دئے ہیں، اب شام میں ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ لڑا نے کا آخری حربہ استعمال میںلا رہے ہیں۔ عنقریب زمانہ آئے گا جب اُمت مسلمہ کی شیرازہ بندی ہوجائے گی اور یہ ملت پلٹ وار کرکے پھر اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرے گی۔ یہ محض خیالی باتیں نہیں بلکہ اس طرح کے حالات عالمی سطح پر اُبھررہے ہیں۔فتح اور نصرت کے لیے خالص ایک شرط ہے کہ اُمت مسلمہ مایوسی کے دلدل سے نکل کر اللہ پر یقین اور توکل کرکے حق ، امن، انسان دوستی اور سچائی کے طرف داربنکر جئیں۔

Comments

Popular posts from this blog

لندن کی کشمیر کانفرنس۔۔۔ ایس احمد پیرزادہ

پبلک سیفٹی ایکٹ اور نیشنل کانفرنس....ایس احمد پیرزادہ