عنادومنافرت ۔۔۔ یہ آگ کب بجھے؟

اپنے ہی ہاتھ موت کا سامان کر گئے

تہذیبوں کے تصادم کے عنوان سے مسلمانوں کے خلاف انتھک جنگ لڑنے والا مغرب گزشتہ ڈیڑھ دہائیوں سے دنیا بھر کی خاک چھان کر بالآخر عراق اور اب افغانستان میںپسپائی اختیار کرکے راہ فرار اختیار کرنے کی سبیلیں ڈھونڈ رہا ہے۔ بظاہر شکستہ خوردہ مسلمانوں کے ساتھ براہ راست جنگ کے نتائج اگر اس قدر بھیانک ظاہر ہوں گے تو پھر اگر ملت اسلامیہ مستحکم پوزیشن کے ساتھ متحدہ ہوکر اپنی صلاحیتوں اور وسائل کا استعمال کرتی تو شاید ہی مغربی طاقتیں اُمت محمدیؐ سے ٹکرانے کی جرأت کرپاتیں۔عراق میں دس سال کی جنگ لڑنے کے باوجود جب امریکہ عراقی لوگوں کی مزاحمتی تحریک کو کچلنے میں ناکام ہوا تو اس ملک کو تباہ و برباد کرکے انکل سال اپنے پورے لاؤ لشکر کے ساتھ وہاں سے دُم دبا کر بھاگ کھڑا ہوا۔ افغانستان میں آج امریکیوں کی حالت کیا ہے؟ یہ پوری دنیا کی نظروں کے سامنے عیاں و بیاں ہے۔ سپرپاور کہلانے والا امریکہ ا س خستہ حال ملک سے باعزت واپسی کے لیے پر تول رہاہے ، دنیا کی سب سے بڑی طاقت ہونے کا دعویٰ رکھنے والا ملک آج پاکستان کے سامنے جھولی پھیلائے ہوئے ہے، کہ وہ اُسے محفوظ راہداری فراہم کرنے میں مدد کرے۔ جن طالبان کے ساتھ ’’دہشت گردی‘‘ کے نام پر گزشتہ پندرہ برسوں سے امریکہ برسرپیکار تھا اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کے جانب سے شائع کردہ ’’دہشت گرد فہرست‘‘ سے اُس کے کمانڈر ملا عمر اور دیگر چار کمانڈروں کے نام کواِسی امریکہ نے خارج کروادیاہے۔مطلب اب امریکیوں کی نظروں میں ملا عمر اور اُن کے ساتھی ’’دہشت گرد‘‘ نہیں رہے ہیں۔ایسا کیوں؟ جس شخص اور جس ملیشیا سے آج تک مغرب برسرپیکار تھا ، اس کے تئیںاُن کے دل میں نرم گوشہ پیدا کیوںہوا؟ کیوںملا محمد عمر اور اُن کے دیگر کمانڈروں کا نام’’ عالمی دہشت گرد ‘‘فہرست سے خارج کردیا گیا؟ دراصل امریکہ افغانستان میں اپنی عزت بچانے کی فکر میں ہے۔ اس ملک کے سنگلاخ پہاڑ امریکیوں کے لیے قبرستان ثابت ہورہے ہیں اور دنیا بھر کی افواج بالآخر شیر دل افغانیوں کے سامنے پسپائی اختیار کرنے پر مجبور ہوگئی۔ اب وہ افغانستان سے نکلنا چاہتے ہیں اور اِس کے لیے اُنہیں طالبان کی رضا مندی اور نرم خوئی چاہیے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جہاں بھی اغیار نے اُمت مسلمہ سے براہ راست ٹکر لی ، بے سروسانی اور کمزور ایمان کے باوجود اُمت مسلمہ نے اُن طاقتوں کا مردانہ وار مقابلہ کرکے اُنہیں پسپائی اختیار کرنے پر مجبور کردیا۔ مسلمانوں کے عزم ، ہمت اور بہادری کو دیکھ کر مغرب اپنی حکمت عملی نئے سرے سے ترتیب دینے لگاہے۔ اب بھی امریکہ اور اس کے مغربی و مشرقی حواری اُمت مسلمہ کے ساتھ برسر پیکار ہیں لیکن میدان جنگ میں براہ راست اپنی فوج اُتارنے کے بجائے ایک نئی حکمت عملی کے تحت اُمت مسلمہ میں ہی بہت سارے ایسے گروہوں ، فرقوں اور افرادکی پیٹ تھپتھپاکر اُنہیں جنگ لڑنے پر آمادہ کیا جارہا ہے،جو ناعاقبت اندیشی کا شکا ر ہیں اور اپنے ذاتی مقاصد کے خاطر غیروں کے آلۂ کار بن رہے ہیں۔ گویا مسلمان کے خلاف اب مسلمانوں کو ہی جنگ میں اتارا جارہا ہے۔ اس حکمت عملی سے اسلام دشمنوں کی طاقت بھی صرف نہیں ہوتی اور اُنہیں وسائل بھی لٹانے نہیں پڑتے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ دشمنانِ مسلم ساحل پر رہ کر اُمت مسلمہ کی اِس اپسی سرپھٹول کر تماشہ دیکھتے رہتے ہیں اور دنیا کو یہ باور کرانے میں کامیاب بھی ہوجاتے ہیں کہ مسلمان’’ جھگڑالو‘‘ قوم ہے اور اس قوم کو جنگ وجدل اور خون خرابے کی لت پڑی ہوئی ہے۔ اقوام متحدہ کے ذریعے سے اسلام دشمن طاقتیں عالم انسانیت کو پروپیگنڈے کے جھانسے میں پھنسا کر اُن کے سامنے مسلمانوں کی شبیہ ’’درندوں‘‘ جیسی بناکر اُمت کو کچلنے کے اپنے اداروں کو جواز فراہم کرتے ہیں۔المیہ یہ ہے کہ جو مغرب اپنے پورے ساز و سامان ، لاؤ لشکر اور جدید جنگی ٹیکنالوجی کے باوجودمسلمانوں کو زیر کرنے میں ناکام رہا، اُن کا وہ کام ہم نے آپسی سرپھٹول اور گروہی تصادموں میں الجھ کر آسان کردیا۔ جن عراقیوں نے غاصب امریکیوں کا مردانہ وار مقابلہ کرکے اُنہیں اپنے ملک میں ٹکنے نہ دیا ، وہی عراقی آج شیعہ سنی اور کرد وغیرہ گروہوں میں تقسیم ہوکر ایک دوسرے کا قتل عام کررہے ہیں۔ جتنے مسلمان دس برس کی خلیجی جنگ میں از جان نہیں ہوئے اُسے کئی زیادہ از خود شام اور عراق میں مسلمانوں کی آپسی رنجشوں میں کام آگئے۔ افغانستان میں طالبان نے امریکیوں کوبے بسی کے مقام پر لاکھڑا کردیا لیکن جاتے جاتے امریکہ نے یہاں بھی چند گروہوں کی سرپرستی کرنی شروع کردی جو طالبان کے خلاف برسر پیکار ہونے لگے۔ ابھی حال ہی میں طالبان سے ایک گروہ نے علاحدگی اختیار کرکے عراق اور شام میں لڑنے والی پراسرار تنظیم آئی ایس آئی ایس کے ساتھ وابستگی کا اعلان کردیا۔ اعلان کے ساتھ ہی اِس گروہ نے طالبان کے ساتھ لڑائی چھیڑ دی اور دو ہفتے پہلے ایک لڑائی کے دوران اس گروہ نے طالبان کے دس جنگجوؤں کے سر قلم کردئے،جس پر طالبان نے شوریٰ اجلاس طلب کرکے آئی ایس آئی ایس عراق کے سربراہ البغدادی کے نام ایک خط لکھا جس میں اُن سے کہا گیا کہ وہ افغانستان میں مداخلت نہ کریں اور افغان جنگ کو طالبان تک ہی محدود رکھیں۔پاکستان میں تحریک طالبان، سعودی عرب اور ایران کی سرد جنگ میں پورے عرب دنیا کا الجھنا، یمن پر جنگ تھوپناوغیرہ اس سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ مصر اور بنگلہ دیش میں اسلام پسندوں کے قدم روکنے کے لیے بھی اپنے ہی ہاتھوں کا استعمال کیا گیااور پُر امن اسلام پسند اخوان اور جماعت اسلامی سے وابستہ لوگوں کو تختہ دار پر چڑھانے کا کام امریکہ، اسرائیل اور دلّی کو نہیں کرنا پڑتا تھا بلکہ اُن کے پالے ہوئے وہ حکمران ، جماعتیں اور افراد یہ کارِ بد انجام دے رہے ہیں جو اپنے حقیر مفادات اور اپنی کرسیوں کو بچانے کے لیے مسلمانوں کا شیرازہ بکھیرنے کا کا انجام دے رہے ہیں۔غرض جو جنگ اسلام دشمن حرب و ضرب اور طاقت سے نہ جیت سکے اُن میں مسلمانوں کی نادانیوں کا فائدہ اُٹھاکر شاطرانہ طریقے سے مسلمانوں کو ایک دوسرے سے لڑاکر انہوں نے فتح کے جھنڈے گاڑ دئے۔ مسلم دشمن یہ پالیسیاں عالمی سطح پر ہی نہیں آزمائی جارہی ہیں بلکہ علاقائی سطح پر بھی غاصب طاقتیں اس پالیسی کے ذریعے سے ایک تو اُمت مسلمہ کی نسل کشی خود اُن کے ہاتھوںکرواتے ہیں اور دوسرا سیاسی فائدہ سمیٹنے میں بھی اُن کی یہ حکمت عملی کارگر ثابت ہورہی ہے۔ ریاست جموں وکشمیر میں گزشتہ چھ دہائیوں سے حق خود ارادیت کی جدوجہد چل رہی تھی۔اس جدوجہد میں کشمیری قوم نے اپنا سب کچھ نچھاور کردیا۔ جان، مال، عزت اور آبرو تک لٹ گئی ۔اس کے لیے قومِ کاشمیر نے ہر طرح کانسخہ آزمایا ہے۔ دنیا سے دُہائیاں بھی دی، جلسے او جلوس بھی نکالے، الیکشن بھی لڑے اور سیاسی ایوانوں میں بھی اپنی بات رکھی۔ جب کچھ نہیں ہوا تو تنگ آمد بہ جنگ آمد کے مصداق آخری چارۂ کارکے طور پر عسکری لڑائی بھی لڑی۔کشمیریوں کی جائز جدوجہد کو کچلنے کے لیے ہمارے کرم فرماؤں اور ان کے مقامی بغل بچوں نے ہرطریقہ اپنایا ہے۔ طاقت ، دھونس دباؤ، قتل و غارت گری ،املاک کی لوٹ مار سب کچھ آزمایا گیا ، پر ہر زہریلی تیر کے سامنے اہلیاں کشمیر نے اپنے جگر پیش کرکے دیدہ دلیری کے ساتھ ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا۔ پھر وہی حکمت عملی اپنائی گئی جو امریکہ نے اسلامی دنیا میں اختیار کرلی تھی۔ یہاں قوم کو بانٹنے کے لیے بڑی ہی عیاری کے ساتھ غلط فہمیاں پیدا کی گئیں۔تقسیم کی فارمولہ اختیار کرکے آزادی پسندوں کو تقسیم در تقسیم کردیا گیا۔ آپسی منافرت کو ہوا دی گئی اور ایک دوسرے کے خلاف اس حد تک بدظنی پیدا کی گئی کہ ایک ہی منزل کے راہی آج ایک دوسرے کے منہ لگنا بھی گوارا نہیں کرتے۔ ایک زمانے کے ہائی پروفائیل پولیس سربراہ کے پی ایس گل نے ایک دن اپنے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ ریاست جموں وکشمیر میں عسکریت کو کچلنے میں تب تک کامیابی حاصل نہیں ہوگی جب تک نہ اس جنگ میں کشمیر پولیس کو ملوث کردیا جائے گا۔ اِسی سوچ کے نتیجے میں ایس اؤ جی کو وجود میںلایا گیا۔آہستہ آہستہ فوج اور نیم فوجی دستوں نے دوسری لائن پر کھڑا ہوکر پولیس کو ہی سامنے لاکھڑا کردیا۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ سنگ بازوں سے لے کر عسکریت پسندوں تک سے نبٹنے کے لیے پولیس کا ہی استعمال کیا جارہا ہے۔زمینی سطح پر کشمیری سماج میں دو طرح کی سوچ پائی جاتی ہے۔ ایک آزادی پسند سوچ رکھنے والی اکثریت ہے اور دوسری جانب ذاتی مفادات کے غلام اقتدار نواز وں کی قلیل تعداد ہے۔ عسکریت پسند ،سنگ بازیا کوئی آزادی پسند پولیس کی گولیوں سے جان بحق ہوجاتا ہے تو ہند نواز مسرت کا اظہا رکرتے ہیں اور جب کوئی کشمیر پولیس کا اہل کار نامعلوم بندوق برداروں کی گولیوں سے مارا جاتا ہے تو آزادی پسند خیمے میں دبی زبان میں ہی سہی خوشی کا اظہار ضرور کیا جاتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ کوئی اس بات پر غور کرنے کے لیے تیار نہیں کہ دونوں جانب مرتے تو کشمیری مسلمان ہی ہیں۔ عسکریت پسند بھی کشمیری ہوتا ہے، سنگ باز بھی کشمیری، پولیس والا بھی کشمیر ، مارنے والے ہاتھ بھی کشمیریوں کے ہیں اور گولی کھانے والا بھی کشمیراس میں بھلا اغیارکا کیا جاتا ہے؟؟؟ اغیار کی جنگ کشمیری قوم سے ہے ۔انہیں کو کشمیری لوگوں سے کئی گنا زیادہ محبوب کشمیرکی سرزمین ہے۔ اس کے لیے اُن کے پالیسی ساز وں نے ہر ہمیشہ کشمیری کو کشمیری کے سامنے لاکھڑا کرنے کی حکمت عملی کے ذریعے سے ایک تیر سے دو شکار کرنے کا گھناؤنا کھیل کھیلا ہے۔ معروف انسانی حقوق کارکن اُرون دھتی رائے نے چند برس قبل اپنے ایک کالم میں یہ بات لکھی ہے اور سرینگر میں ایک سمینار کے دوران بھی اس کا اظہار کیا ہے کہ ہندوستان کہ بہت ساری ریاستوں میں علاحدگی پسند تحریکیں چل رہی ہیں اور اُن تحریکوں سے نبٹنے کے لیے دلی کے سیکورٹی ماہرین نے یہ پالیسی اختیار کی ہوئی ہے کہ اِن ہی ریاستوں کے نوجوانوں کو فوج اور نیم فوجی دستوں میں بھرتی کرکے ایک جگہ سے دوسری جگہ لڑنے کے لیے بھیجا جارہا ہے۔ مثال کے طور پر کشمیر میں نوجوانوں کو فوج اور سی آر پی ایف میں بھرتی کرکے اُنہیں ناگا لینڈ اور منی پور جیسی شورش زدہ ریاستوں میں مرنے کے لیے بھیجا جاتا ہے اور وہاں کے نوجوانوں کو کشمیر لایا جاتا ہے۔ اس طرح ایک ہی کاز کے حامل مختلف ریاستوں کے لوگوں کو ایک دوسرے کے سامنے لاکھڑا کردیا جاتا ہے۔دو مہینے پہلے ہم نے دیکھا ہے کہ سرینگر کے رنگریٹ علاقے میں فوج میں بھرتی ہونے کے لیے ہزاروں نوجوان اُمڈ آئے تھے۔۱۷؍جون کی شام کو بجبہاڑہ میں جنگجوؤں نے شہر خاص سے تعلق رکھنے والے ایک پولیس اہلکارعارف نذیر خان کو گولی مار کر ابدی نیند سلا دیا۔ عارف کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ مرحوم۲۰۰۸ء میں مبینہ جانا مانا سنگ باز تھے اور کئی مرتبہ پولیس نے اُنہیں گرفتار بھی کر لیا تھا۔ اُن کے خلاف کیس بھی درج ہوا تھا بالآخر ۲۰۰۸ء سے۲۰۱۰ء تک سنگ بازی کے ذریعے سے نام کمانے والوں کو پولیس نوکری میں لیا گیا اور سینکڑوں نوجوانوں کو جموں وکشمیر پولیس میں بھرتی کردیا گیا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ عارف کے سینہ میں آزادی پسند دل تھا اور ستم ظریفی یہ دیکھئے کہ بظاہر وہ آزادی پسندوں کی ہی گولیوں کا شکار ہوگیا، اگرچہ معاملہ تحقیق طلب ہے۔اس میں خطا کس کی ہے؟ یہ سب مخالف سمت کی پالیسیوں کا نتیجہ ہے اور اس میں کشمیری قوم بحیثیت مجموعی جھکڑ ی جاچکی ہے۔کشمیریوں کو ایک خطرناک راہ پر ڈال دیا گیا ہے۔ مرنے والا بھی کشمیر ہو، مارنے والا بھی کشمیر ہو اور فائدہ سمیٹنے والے دیار غیر میں آرام سے بیٹھے ہوں تو قوم کو بحیثیت مجموعی سوچنا چاہیے۔ حریت قائدین ، عسکری قیادت ، ہندنواز کشمیری سیاست دانوںاورعام کشمیری کو بھی یہ سوچنا چاہیے کہ اگر یہی حالت رہی تو ہم خود اپنے ہی ہاتھوں نسل کشی کرنے کے مجرم گردانے جائیں گے۔جس دن یہ قوم مشتر کہ دشمن کی پالیسیوں کو سمجھ پائے گی اُس دن نہ ہی کوئی عارف سنگ باز سے پولیس والا بنے گا اور نہ ہی کوئی پولیس والا اپنی ہی ملت کے نوجوانوں پر گولیاں داغ دے گا اور نہ ہی کوئی نامعلوم بے گناہوں کے سینے چھلنی کردے گا۔ کشمیری قوم کو دلّی کی لڑائی لڑنے کے بجائے اپنی جائز جدوجہد کو پُر امن انداز سے آگے لے جانے کی فکر کرنی چاہیے۔اغیار کی جنگ کا حصہ بننا ملت سے وفاداری نہیںبلکہ دغا ہے اور روز محشر میں اپنی ہی قوم کے ساتھ بے وفائی کرنے کا دردناک عذاب جھیلناہوگا۔ essahmadpirzada@gmail.com

Comments

Popular posts from this blog

لندن کی کشمیر کانفرنس۔۔۔ ایس احمد پیرزادہ

پبلک سیفٹی ایکٹ اور نیشنل کانفرنس....ایس احمد پیرزادہ