روہنگیائی مسلمانوں کا المیہ 

خامشی یہ سنگ دلی ہے بزدلی یا بے بسی 


برما میں روہنگیا مسلم آبادی پرزمین اپنی تمام وسعتوں کے باوجود تنگ ہورہی ہے ۔ اور اسی طرح عالم اسلام اس وقت جس غم و الم کا شکار ہے شاید ہی تاریخ کا کوئی اور دور ایسا گزرا ہو،جب اس طرح مسلمانانِ عالم ذلت و پستی اور رسوائیوں کا شکار ہوئے ہوں۔ مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب تک دنیا کا کوئی خطہ ایسا نہیں جہاں اس وقت کلمہ خوانوں کو بہ حیثیت مجموعی چین و سکون ، آرام وراحت اور احساسِ تحفظ میسر ہو۔ اُمت مسلمہ بے چارگی کے عالم میں عرش اعلیٰ سے ہی آس لگائے بیٹھی ہے ، کیونکہ دنیا والوں نے اس ملت مر حومہ کا جینا حرام کررکھاہے ، دنیا کے کونے کونے میں مسلمانوں کا قافیہ حیات تنگ کیا گیا ہے،نہ کوئی اُن کی رُودادِ غم پر کان دھرتا ہے اور نہ ہی کوئی ان مظلوموں کی فریاد سنتا ہے۔ملت اسلامیہ کے پیرو جوان کٹ مررہے ہیں، خواتین کی عزت و عصمت تار تار ہورہی ہے، معصوم بچوں کے جنازے اُٹھ رہے ہیں، ہر جگہ مسلمانوں کی نسل کشی کی جارہی ہے ، آباد شہر ویران کردئے گئے ہیں، فلک بوس عمارتیں خاکستر کردی گئی ہیں، مسلمانوں کی زمین ہڑپ لی جاتی ہیں، اُن کے وسائل پر زبردستی قبضہ جمایا جارہا ہے، اُن کے افرادی قوت ضائع کی جارہی ہے۔ عراق سے شام تک، فلسطین سے کشمیر تک ، افغانستان ، چیچنیا،یمن، مصر، بنگلہ دیش سے پاکستان تک بے گناہ اور معصوم مسلمانوں کے قتل عام سے سرزمین اسلام لہو لہو ہورہی ہے۔مسلمان جن دوسرے ممالک میں رہ رہے ہیں وہاں اُنہیں دوسرے درجے کا شہری بناکے رکھ دیا گیا۔بات یورپی ممالک کی ہویا پھر بھارت کی مسلم اقلیت یا برما کے روہنگیاکی، مسلمان ذلت و بے بسی کا شکار بنا دئے گئے ہیں ، جس طرح سے اُن پر آئے روز جان لیوا حملے کیے جارہے ہیں، اُن کی عزت اور عصمت داؤ پر لگی ہوئی ہے، اِس تکلیف دہ صورتحال سے کلیجہ پھٹ جانے کو آتا ہے۔ہندوستان میں فرقہ پرستی کی آگ گھرواپسی جیسے شدھی کرن پروگرام سے اس قدر سلگائی گئی ہے کہ اب کھلے عام اور دن دھاڑے مسلمانوں کو للکارا جارہا ہے اپنا دین تیاگ دیں، اُنہیں ہندوستان چھوڑ دینے کی دھمکیا ں دی جارہی ہیں، اُن کی مسجدوں کو عام عمارتوں سے تشبیہ دے کر اُن میں مورتیاں رکھنے کی باتیں کہی جارہی ہیں، وہ کیا کھائیں ، کیا پہنیں یہ فرقہ پرست طے کررہے ہیں، وہ کہاں رہیں اور کہاں نہ رہیں یہ بھی فرقہ پرستوںکی مرضی پر منحصر بتایا جارہا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ جمہوریت کا دعویٰ کرنے والا یہ ملک اس منافرت آمیز سوچ کو اب حکومتی سطح پر فروغ دینے لگا ہے۔ یہی حال برما کی مسلم آبادی کے ساتھ ہورہاہے۔ غرض زمین کا کوئی خطہ ایسا نہیں جہاں ا س وقت مسلمان اپنی بے بسی او رکمزوری کا رونا نہیں رو رہے۔ بالکل اُسی صورتحال کی من و عن عکاسی ہورہی ہے جس کی پیشیںگوئیاں آقائے نامدار حضرات محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ساڑھے چودہ سو سال قبل کی تھیں۔ صحابہ ؓ سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ’’ میری اُمت پر وہ وقت آنے والا ہے جب دوسری اُمتیں اس پر اس طرح ٹوٹ پڑیں گی جس طرح کھانے والے لوگ دستر خوان پر ٹوٹتے ہیں، توکسی کہنے والے نے کہا کہ جس زمانہ کا آپ حال بیان فرمارہے ہیں اس زمانہ میں کیا ہم مسلمان اتنی کم تعداد میں ہوں گے کہ ہم کو نگل لینے کے لیے قومیں متحد ہوکر ٹوٹ پڑیں گی؟ آپؐ نے فرمایا نہیں، اس زمانہ میں تمہاری تعداد کم نہ ہوگی، بلکہ تم بہت بڑی تعداد میں ہوں گے لیکن تم سیلاب کے جھاگ کی طرح ہوجاؤ گے اور تمہارے دشمنوں کے سینے سے تمہاری ہیبت نکل جائے گی اور تمہارے دِلوں میں پست ہمتی گھر کرلے گی۔ تو ایک صحابہؓ نے پوچھا کہ اے اللہ کے رسولؐ ! یہ پست ہمتی کس وجہ سے آجائے گی؟ آپؐ نے فرمایا کہ اس کی وجہ یہ ہوگی کہ تم( آخرت سے محبت کرنے کے بجائے) دنیا سے محبت کرنے لگو گے، اور(خدا کی راہ میں جان دینے کی آرزو کے بجائے)موت سے بھاگنے اور نفرت کرنے لگو گے۔‘‘ اس وقت کی صورتحال کے تناظر میں دیکھا جائے تو عالم اسلام پر دیگر اقوام بالکل اس طرح ٹوٹ پڑے ہیں جس طرح کئی دن کے بھوکے کھانے کی دسترخواں پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ برمامیں مسلمان گزشتہ کئی برسوں سے تختہ مشق بنائے جارہے ہیں۔اُن کا قتل عام کیا گیا۔ پیرو جوان، بچے اور عورتوں کو تہ تیغ کیا گیا حتیٰ کہ خواتین کو بدترین قسم کے جسمانی تعذیب اور ذہنی تشدد کے بعد بُری طرح سے مار ڈالا گیا۔لاکھوں برمی مسلمانوں پر زمین تنگ کردی گئی ہے، دنیا کے ممالک نے اپنی سرحدیں اُن کے لیے بند کردی ہیں، اُن کی بستیاں جلا دی گئی ہیں، امن کے گیت گانے والے بودھ بھکشوں اُن پر قسائی بن کر ٹوٹ پڑے ہیں۔ میانمار کے یہ روہنگیائی مسلمان اس وقت دنیا کے مظلوم ترین لوگ ہیں۔بارہ سو سال قبل اسلام اس خطے میں داخل ہوا تھا۔دنیا پر اسلام کی چھاپ قائم ہوتے ہوتے برما تک پہنچ گئی اوربنگال کے ساتھ ساتھ برما کے ساحلی علاقے اراکان میں بھی مسلمانوں نے بود باش اختیار کرلی۔ پندریوں صدی کے آغاز میںاراکان کے بادشاہ نے دشمنوں سے لڑنے کے لیے شاہ بنگال جلال الدین محمد سے مدد مانگی، یوں بنگالی فوجی اراکان میں پڑاؤ ڈال کر یہی کے ہوگئے۔جہاںپر بنگال آئے ہوئے فوجی آباد ہوگئے، اُس علاقے کا نام ’’روہنگ‘‘ رکھ دیا گیا ۔ اس طرح یہاں کے لوگ روہنگیائی مسلمان کہلانے لگے ۔ان کی زبان بھی روہنگیائی کہلانے لگی۔انیسویں صدی میں انگریزوں نے برصغیر میں قدم رکھا تو روہنگیا (اراکان)بھی اُن کی زد میں آگیا۔برما کے بدھ بھکشو انگریزوں کے لیے کسی کام کے نہ تھے، اس لیے بنگال سے انگریزوں نے کام کے سلسلے میںمسلمانوں کو یہاں لاکر آباد کیا۔اب روہنگیا کی آبادی کا کل 98فیصد حصہ مسلمانوں پر مشتمل ہے۔اس دوران برما کے لوگ یورپی قوم پرستی کی تحریک کی لپیٹ میں آگئے اورقوم پرستی کا نعرہ دے کر یہاں کے بودھ مسلمانوں کو غیرملکی قرار دے کر اُن کو روہنگیا سے بے دخل کرنا چاہتے ہیں۔اس میں حکومتی سطح پر بودھ شدت پسندوں کو سرپرستی حاصل ہے، کیونکہ مسلمانوں کو نہ ہی یہاں سرکاری نوکری کرنے اختیار حاصل ہے اور نہ ہی تعلیم حاصل کرنے کا، اُن کے شہری حقوق سلب کرلیے گئے ہیںاور اُن کے تعمیر و ترقی کے تمام دروازہ دہائیوں سے بند پڑے ہیں۔ اسی تناظرمیں گزشتہ کئی برسوں سے منظم انداز میں مسلمانوں کے خلاف یہاں نفرت پر مبنی تحریک چلائی گئی۔ اس تحریک کا روح رواںبودھ مذہبی رہنما آشن وراٹھو ہے۔ اس شخص پر حال ہی میں امریکہ کے ایک معروف انگریزی میگزین ’’ٹائم‘‘نے Cover Story کرکے اسے ’’دہشت گردی کا نیا خوفناک چہرہ ‘‘قرار دیا ہے۔ آشن وراٹھو کے خیالات کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ علی الاعلان اپنے مریدوں سے مخاطب ہوکر کہتاہے :’’ہماری سرخ چادریں تازہ مسلم خون پی کر ہی چمکتی رہ سکتی ہیں‘‘۔ اُس کی ایک تقریر کے الفاظ اس طرح سے ہیں:’’اگر تم روہنگیامسلم ہو؟ تم کو زندہ جلانا، تمہارا قیمہ بنانا، تمہاری عورتوں کی آبروریزی کرنا،تمہارے دودھ پیتے بچوں کو ذبح کرنا برمی فوج اور بدھ قوم کا حق ہے‘‘۔اس درندہ صف انسان کی برمی بودھ قوم میں کیا حیثیت ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اُس پر کہانی شائع کرنے پر برما کی حکومت کو’’ٹائم ‘‘ میگزین پر پابندی عائد کرنا پڑی۔ اس درندہ صفت انسان کا اکثریتی طبقے میں اثر و رسوخ کو دیکھتے ہوئے برما کی سیاسی جماعتیں بھی اُس کے ان کالے کارناموں میں ساجھے دار بن رہی ہیں۔ اُنہیں خدشہ ہے کہ اگر کسی نے معمولی آواز بھی بلند کی تو الیکشن میں سخت نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا۔ برمی نوبل انعام یافتہ آنگ سانگ سوچی جو۹۰؍کی دہائی کے آغازسے۲۰۱۰ء میں اپنی رہائی تک ظالم فوجی آمرکے خلاف ثابت قدمی کی علامت سمجھی جاتی تھی ،نے برمی مسلمانوں کے قتل عام کے حوالے سے میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ میں سیاست دان ہوں کوئی انسانی حقوق کارکن نہیں ہوں جو مسلمانوں کے قتل عام پر کوئی بات کرسکوں گی۔ایسا وہ صرف اس لیے کہہ رہی ہیں کیونکہ روہنگیائی مسلمانوں کی حمایت کرنے سے وہ فوری طور پر طاقت ور دہشت گرد چہرہ آشن وراٹھوکی مخالفت مول نہیں لے سکتی ہیں۔اگر وہ ایسا کرے گی تو لازماً اس سال ہونے والے اہم انتخابات کا پانسا اُن کے خلاف پلٹ سکتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ۵۷؍آزاد اسلامی مملکتوں میں سے سوائے ترکی کے ایک بھی مسلم ملک کو یہ توفیق نہ ہوئی کہ وہ برما کے لاکھوں بے حال مسلمانوں کی کوئی مدد کریں۔گزشتہ مہینے ہفتوں ہزاروں مسلمان جن میں بچے ، عورتیں اور پیرو جوان بھی شامل تھے سمندر کی ظالم لہروں کے آغوش میں تڑپتے رہے۔ جہاں بھی جان میںاَمان پانے کے لیے اُن بیچاروں نے قدم رکھنا چاہا، وہاں دھکے ملے۔ بھوکے پیاسے یہ لوگ تڑپ رہے تھے اور مسلم دنیا کے ظالم حکمرانوں کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ پڑوسی ملک بنگلہ دیش کی سخت گیر وسنگ دل وزیر اعظم شیخ حسینہ نے بڑی ہی ڈھٹائی کے ساتھ الجزیرہ ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ’’ برما کی حکومت اپنے لوگوں کے ساتھ کیا کرتی ہے ،مجھے اس کے ساتھ کوئی سروکار نہیں ہے۔ وہ اُنہیں ماریں یا زندہ رکھیں مجھے اس کے ساتھ کیا ہے؟ میرا کام یہ ہے کہ میں وہاں سے بھاگنے والوں کو اپنے ملک میں داخل نہ ہونے دوں کیونکہ میرا ملک پہلے ہی بڑھتی آبادی کی وجہ سے مسائل میں جھوج رہا ہے۔‘‘پاکستانی عوام کے سینوںمیں بے شک دنیا کے مسلمانوں کا درد بھرا ہوا ہے۔ روہنگیائی مسلمانوں کے لیے پاکستانی عوام نے احتجاجی کیا، ظلم و بربریت کے خلاف آواز اُٹھائی لیکن پاکستانی حکمرانوں نے سفارتی سطح پر کوئی عملی اقدام نہ کرکے حقیقی معنوں میںاپنی بے غیرتی کا مظاہرہ کیا۔عام مسلمان مسلم حکمرانوں سے یہ سوالات پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ اگر آپ مصر میں اپنے ہی بھائیوں کا قتل عام کروانے کے لیے ۱۲؍ملین ڈالر امداد دے سکتے ہو؟ اگر آپ شام کو خانہ جنگی کا شکار بنا سکتے ہو؟ اگر آپ یمن کی جمہوریت کو بچانے کے نام پر فوجی کارروائی کرسکتے ہواور پوری عرب دنیا کو اس لاحاصل جنگ میں جھونک سکتے ہو؟ اگر آپ بنگلہ دیش میں اسلام پسندوں کو تختۂ دار پر چڑھانے کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرسکتے ہو؟ اگر آپ اسرائیل کے ساتھ حماس کے خلاف خفیہ ساز باز کرسکتے ہو؟ اگر آپ عراق اور افغانستان میں امریکی اتحادی بن سکتے ہو تو خدارا بتایئے کیا آپ برمی مسلمانوں کے حق میں دو بول بھی نہیں بول سکتے ؟ کیااربوں مربع میل پر پھیلی ملت اسلامیہ کی سرزمین اتنی تنگ پڑگئی ہے کہ چند لاکھ برمی لوگوں کو اپنے اندر نہ سما سکتی؟کم از کم روہنگیائی مسلمان اخوان المسلمین سے تعلق نہیں رکھتے جو آپ کی بادشاہت کے لئے’’ خطرہ‘‘ ثابت ہوسں، نہ ہی اُن کا تعلق بنگلہ دیش کی جماعت اسلامی سے ہے کہ سیاسی محاذ پر آپ کے ساتھ مقابلہ آرائی کریں، نہ وہ حماس کے سرفروش ہیں جو اپنی بہادری اور شجاعت سے اسرائیل کو آپ سے ناراض کرنے کا وجہ بن جائیں؟اُن بے چاروں کا طالبان سے بھی کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی وہ القاعدہ کو ہی جانتے ہیں بلکہ یہ مظلوم ترین لوگ ہیں، وہ حالات کے ستائے ہوئے امن پسند لوگ ہیں جنہیں امن کے ٹھیکہ دار ہی زندہ نارِ نمرود میں ڈال دیتے ہیں، سولیاں چڑھا لیتے ہیں ، جن کی عورتوں کو سر راہ الف ننگا کرکے اُن کی پریڈ کرائی جاتی ہے، جن کے معصوم بچوں کے جگر چاک کئے جاتے ہیں۔ عرب سے عجم تک ترکی کا رجب طیب ارد غان ہی وہ واحد مسلم حکمران ہے جس کے سینے میں انسانیت کے لیے تڑپنے والا دل ہے۔ جو صحیح معنوں میں ملت واحدہ کا تصور رکھتا ہے۔ رجب طیب اردغان نے ہر فورم میں نہ صرف مظلوم مسلمانوں کے حق میں آواز بلند کی بلکہ عملی اقدامات کے ذریعے سے حالات کے ستائے ہوئے مسلمانوں کی ہر ممکن مدد کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔مسلم حکمرانوں کی اگر یہی روش رہی تو وہ وقت دور نہیں جب سقوط بغداد کے بعد خلیفہ معتصم باللہ کی طرح اِنہیں بھی بوریوں میں بند کرکے عبرت ناک انجام سے دوچار کردیا جائے گا اور اُس وقت عام مسلمانوں کی کوئی بھی آنکھ اُن پر آنسو نہیں بہائے گی۔عام مسلمانوں کے لئے تاریخ کا یہ کٹھن امتحان ہے۔یہ وقت دنیا کی گہماگہمی میں گم ہوجانے کا نہیں ہے بلکہ ملت اسلامیہ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو سر جوڑ کر بیٹھنے کی ضرورت ہے۔ اُن راہوں کو تلاشنے کا وقت آگیا ہے جو دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں کو ظلم و بربریت، دہشت اور وحشت اور چنگیزیت سے نجات دلا سکے۔ essahmadpirzada@gmail.com

Comments

Popular posts from this blog

لندن کی کشمیر کانفرنس۔۔۔ ایس احمد پیرزادہ

پبلک سیفٹی ایکٹ اور نیشنل کانفرنس....ایس احمد پیرزادہ