اَفسپا ہٹے گا ہی نہیں! 
کاغذ کی ناؤ تھی بڑے ہی چاؤ سے ڈوبی 

حال ہی میںریاست جمو ں وکشمیر کے نائب وزیر اعلیٰ ڈاکٹر نرمل سنگھ نے بی جے پی یونٹ ممبئی کی جانب سے ایک تقریب میں شرکت کرنے کے دوران میڈیا نمائندوں سے انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ’’ریاست جموں وکشمیر میں افسپا کو ہٹانے کے لیے ابھی وقت موزون نہیں ہے، ریاست میں جنگجوؤں کے حملے جاری ہیں اور کولیشن گورنمنٹ ایسی تمام طاقتوں کے ساتھ سختی کے ساتھ نپٹنے کے لیے اپنے ارادوں میںپختہ ہے اور افسپا کے بارے میں حتمی فیصلہ مرکزی سرکار کو لینا ہے۔‘‘نائب وزیر اعلیٰ کا یہ بیان بی جے پی کے الیکشن ایجنڈے کی بھرپور عکاسی کررہا ہے کیونکہ دوران الیکشن بی جے پی نے افسپا کے بارے میں سخت مؤقف اختیار کرتے ہوئے کہا تھا کہ بی جے پی ریاست جموں وکشمیر سے اس قانون کو کسی بھی صورت میں ہٹنے نہیں دے گی۔ البتہ پی ڈی پی نے جس منشور کے تحت الیکشن لڑا ہے اُس میںپارٹی نے واضح طور پر کہا تھا اور پی ڈی پی کے لیڈران اپنی الیکشن مہموں کے دوران بھی اس بات کا بلند بانگ اعلان کرتے تھے کہ اگر پی ڈی پی اقتدار میں آگئی تو افسپا ہٹانا اُس کی اولین ترجیحات میں ہوگا۔ جس وقت دونوں جماعتوں کادو مہینے کی طویل مذاکرات کے بعد اتحاد بنا اور جو مشترکہ ایجنڈاCMP یہاں کے اخبارات میں بڑی ہی طمطراق انداز سے شائع کیا گیا تھا ،اُس میں افسپا اور دفعہ370 کے بارے میں خاموشی ہی اختیار کرلی گئی ۔ سیاسی تجزیہ نگاروں نے اُسی وقت کہا تھا کہ بی جے پی اور پی ڈی پی دونوں جماعتیں کچھ لو اور کچھ دو کی پالیسی پر گامزن ہوکر اتحاد کے دائرے میں آگئی ہیں۔ بی جے پی نے دفعہ 370 کے بارے میں وقتی طور اپنی ضد چھوڑ دی ، اس کے بدلے میں پی ڈی پی نے افسپا کے حوالے سے دونوں ہاتھ کھڑا کردئے ۔فائدہ کس کا ہوا؟ یہ واضح ہے۔ بی جے پی اور اس جماعت کے ووٹر بھی جانتے ہیں کہ دفعہ370 کو ہاتھ لگانا کوئی آسان کام نہیں ہے کیونکہ بھارت سرکار دہائیوں سے کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی جدوجہد اور قومی جذبات سے نبرد آزما ہونے کے لئے اُنہیں طرح طرح کی لالچیں دے چکے ہیں۔ آزادی سے کم گورنمنٹ آف انڈیا ، اِن کی تمام ایجنسیاں اور ادارے کشمیر کو دینے کے لیے ہر وقت تیار تھے، تبھی سابق ہندوستانی وزیر اعظم میں سے نرسیما راؤ نے Sky is the limit کا آپشن کشمیریوں کے سامنے رکھا اور اٹل بہاری واجپائی نے ’’انسانیت کے دائرے میں‘‘کچھ بھی دینے کی یقین دہانی کرائی۔ مطلب آزادی سے کم زیادہ سے زیادہ خودمختاری دینے کے لیے مودی سرکار بھی تیار ہوجائے گی، کیونکہ بھارتی پالیسی ساز اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ کشمیری جو سیاسی جدوجہد کررہے ہیں اُس میں وہ حق بجانب ہیں اور اُن کی لڑائی اصولوں اور حقوق کی بازیابی کی لڑائی ہے۔دیر سویر دنیا کشمیری لوگوں کی بات سننے پر مجبور ہوجائے گا اور پھر بھارت پر عالمی دباؤ پڑنا لازمی بن جائے گا۔بھارت کے تمام ادارے اس بات سے بھی واقف ہیں اور انہوں نے ضرور اپنی حکومتوں کو اس کی اطلاع دی ہوگی کہ کشمیریوں کا جذبہ توڑنا کوئی آسان کھیل نہیں ہے بلکہ اس بظاہر کمزور قوم پر جتنی بھی سختی کی جاتی ہے ،اُس کے ارادے اور حوصلے مستحکم ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ورنہ گزشتہ دودہائیوں سے بالخصوص ظلم و ستم کے جو پہاڑ اس قوم ِ مظلوم پر ڈھائے گئے اُس کے باوجود یہ اپنی اجتماعی ڈیمانڈ پر برابر قائم ہیں اور دیوانوں کی طرح کشمیر کاز کے ساتھ نہ صرف جڑے ہوئے ہیں بلکہ ہر طرح کی قربانیاں پیش کرنے میں کبھی بھی بخل سے کام نہیں لیا جاتا ہے۔ایسے میں دلّی سے جموں تک سخت گیر بی جے پی لیڈران بھی یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ دفعہ370 محض ایک ہتھیار ہے جو عام بھاجپا ووٹ بنک کو لبھانے اور اُن کے جذبات کا استحصال کرنے کے لیے استعمال میں لانے تک ہی محدود ہے، باقی اس کو حقیقی معنوں میں چھیڑنے کا مطلب یہ ہوگا کہ مستقل طور پر اپنے الیکشن ایجنڈے میں ایک خوشنما نعرے کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نکال باہر کرنا ہے اور ایسی نادانی بی جے پی کبھی نہیں کرے گی۔ اس کے برعکس پی ڈی پی سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کو ہمیشہ طعنہ دیتی تھی کہ افسپا کے حوالے سے وہ حکومت ہند اور اُن کی فورسز ایجنسیوں کو قائل نہ کرسکے ۔ یہ جماعت کشمیر یوں پر اپنا رعب جمانے کے لیے کمر کس چکی تھی کہ افسپا کو کسی بھی صورت میں چند مخصوص علاقوں سے ہٹاکر نیشنل کانفرنس پر سبقت لی جائے تاکہ وہ عام لوگوں سے یہ کہنے کی پوزیشن میں آسکتے تھے کہ انہوں نے اقتدار میں آکر ہی افسپا جیسا ظالم قانون ہٹانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ پی ڈی پی کا یہ خواب بی جے پی نے پورا نہ ہونے دیا اور خودبی جے پی اپنے ووٹ بنک میں پوائنٹس بنا رہی ہے جب کہ پی ڈی پی کے کھوکھلے دعوے کشمیر میں عریاں ہوتے چلے جارہے ہیں۔ عام کشمیریوں کے لیے افسپا کی صورت میں فوج کو حاصل یہ خصوصی اختیارکوئی معنیٰ نہیں رکھتا ہے۔ فوج اس قانون کو ’’مقدس کتاب‘‘ کی حیثیت دے چکی ہے کیونکہ اس کے ذریعے سے اُنہیں اپنی مرضی سے انسانی حقوق کی دھجیاں بکھیرنے کی کھلی چھوٹ حاصل ہے۔ البتہ کشمیریوں کے لیے یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے، کیونکہ اُن کی جدوجہد کو کچلنے کے لیے افسپا کے بغیر بھی یہاںکام کرنے والے تمام ایجنسیاں اور ادارے متفق ہیں۔ نیشنل انٹرسٹ کے نام پر جہاں میڈیا کی آنکھ بھی کشمیریوں کو دشمنوں جیسی نظر سے دیکھتی ہو اور حقائق کے بجائے پروپیگنڈا میں یقین رکھتی ہے، جہاں وردی پوشوں کو کشمیریوں سے زیادہ کشمیر کی سرزمین پیاری ہو، جہاں ملک بھرکے لوگ تمام کشمیریوں کو پاکستانی تصور کررہے ہوں گے، جہاں رائے عامہ کو یہ سمجھایا گیا ہو کہ عام کشمیری کو مارنے کا مطلب یہ ہے کہ ایک ’’پاکستانی دشمن‘‘ کو مار دیا گیا ہے، وہاں افسپا کے بغیر بھی وہ سب کچھ ہوگا جس کے لیے کبھی چنگیریت اور بربریت کو دوش دیا جاتا تھا۔حالانکہ تاتاری اور بربرلوگوں کے پاس بھی کچھ اصول اور ضابطے ہوا کرتے تھے جب کہ یہاں تمام اصولوں اور ضابطوں کو بالائے طاق رکھا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر حال کے ہی چند مہینوںکے دوران ترال میں ایک نوجوان محمد مظفر وانی کو فورسز نے شدید جسمانی تشدد کا نشانہ بناکر ایک فرضی جھڑپ میں جاں بحق کردیتی ہے ، ماورائے عدالت قتل میں ملوثین کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی جاتی ہے، نارہ بل میں ایک معصوم طالب علم سہیل احمد کو کشمیر پولیس کے اہلکار کھلے عام گولیوں سے بھون دیتے ہیں ، پولیس اہلکاروں کا نام اور پتہ معلوم ہونے کے باوجود اُن کا نام عوامی دباؤ میں درج کئے جانے والے ایف آئی آر میں نہیںلکھا گیا۔کولگام میں چند ہی روز قبل ایک جھڑپ کے دوران پانچ بہنوں کے اکلوتے بھائی آصف احمد تانترے کو بلاوجہ اُس کے گھر کے صحن میں گولی مار دی جاتی ہے، کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔اس کے برعکس جموں میں سکھ نوجوان کی ہلاکت پر فوراً کارروائی عمل میں لائی جاتی ہے اور ایس ایس پی سمیت دیگر ذمہ دار لوگوں کو اپنے عہدوںسے ہٹاکر تحقیقات کرائی جاتی ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ ایک ڈرگ مافیا کے کارندے کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت کے فوراً بعدسیاست دانوں سے لے کر پولیس کے اعلیٰ افسران تک ہر کوئی حرکت میں آجاتا ہے اور ایس اؤ جی سے وابستہ پانچ اہلکاروں کو فوری طور گرفتار کرلیا جاتا ہے۔ جہاں یہ دوہرا معیار ہو، جہاں اس طرح کشمیریوں کے ساتھ دوسرے درجے کے شہریوں سے بھی بدتر سلوک روا رکھا جارہا ہو ، وہاں افسپا کے ہونے یا نہ ہونے سے اس قوم پر کوئی فرق پڑنے والا نہیں ہے۔ البتہ یہاں کی اقتدرا نواز جماعتوں نے اسے ناک کا مسئلہ بناکر ووٹ بٹورنے کی سیاست کا حصہ بنا رکھا ہے اور اب دلّی اور بی جے پی اُن کا تماشا بنا رہی ہے۔ یہ افسپا کا ہی معاملہ نہیں جہاں پی جے پی ، پی ڈی پی پر اپنی کمتری کا احساس ظاہر کررہی ہے بلکہ تعمیر و ترقی کے جتنے بھی دعوے پی ڈی پی لیڈران نے اہل وادی سے کیے ہیں ،اُن کی ہوا پن بجلی پروجیکٹوں کی واپسی سے کھلے انکاراور سیلاب متاثرین کو امداد نہ دئے جانے والے اعلانات سے کب کونکل گئی۔ ا س وقت جتنے بھی فنڈس آتے ہیں ، جو بھی تعمیراتی کام ہوتا ہے وہ جموں کے لیے آتے ہیں اور جموں میں ہی کام بھی ہوتا ہے۔ وادی کو یکسر نظر انداز کردیا گیا ، تعمیر و ترقی کے بجائے یہاں پولیس راج قائم ہے۔ ہر سو عام لوگ وردی پوشوں کے رحم و کرم پر جی رہے ہیں۔ کسی کو بھی کسی بھی الزام میں گرفتار کرکے پولیس کوئی بھی بیان دے گی حکومت سے لے کر عوام تک سب کو ماننا پڑتا ہے۔ یونیورسٹی طالب علم مذمل فاروق کی گرفتاری اس سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ انہیں یونیورسٹی کیمپس سے گرفتار کر لیا جاتا ہے ، اُن کی رہائی کی مانگ کرنے والے طلباء و طالبات کا کہنا ہے کہ انہوں نے یونیورسٹی کیمپس میں’’یوگا ڈے‘‘ منانے کے خلاف آواز بلندکی ، اسی وجہ سے اُنہیں گرفتار کرلیا گیا۔ المیہ تو یہ ہے کہ اُن رہائی کی مانگ کرنے والے طلباء و طالبات پر بھی پولیس نے گولیاں چلائی اور شدید لاٹھی چارج کیا۔یونیورسٹی کے وی سی پروفیسر خورشیدا قبال اندابی صاحب پولیس والوں سے ہاتھ جوڑ کرمذمل کی رہائی چاہتے ہیں لیکن پولیس عسکریت کا مہر لگا کر مذمل کو چھوڑنے سے صاف انکار کردیتی ہے۔ پی ڈی پی منسٹر اور خود وزیر اعلیٰ ان سارے واقعات کے حوالے سے چپ سادھے ہوئے ہیں۔ جب کوئی اپنی شکایت لے کر اُن کے پاس جاتا بھی ہے تو خالی ہاتھ واپس لوٹتاہے ۔ اُدھر ’’گریٹر کشمیر‘‘ کے سنیئر ایڈیٹر جاوید ملک کی طرح اُن کا شدید زد کوب کرایا جاتا ہے اور پھر اُنہیں ’’شرابی‘‘ ہونے کے الزام میں تھانے میں بند کردیا جاتا ہے۔ یہ حال ہے ہمار ے برے دنوں کا!کشمیر کے ساتھ کس طرح کا سوتیلا سلوک کیا جارہا ہے، اس کی مثال سڑکوں کی مرمت کے لیے آنے والے فنڈس کی تقسیم کاری سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ سنٹرل روڑ فنڈ اسکیم کے تحت حال ہی میں گورنمنٹ آف انڈیا نے ریاست جموں وکشمیر کے نام140 کروڑ روپے سڑکوں کی تعمیر و تجدیر کے لیے واگزار کیے ہیں۔ ان 140 کروڑ میں سے کشمیر وادی کو محض1355.75 لاکھ روپے دئے گئے جب کہ باقی12795.80 لاکھ روپے جموں کے کھاتے میں چلے گئے۔ جموں کو کشمیر سے 11440 لاکھ روپے زیادہ فراہم کیے گئے۔ حالانکہ گزشتہ سال کے بھیانک سیلاب کی وجہ سے سب سے زیادہ متاثر وادیٔ کشمیر کی سڑکیں ہوئی ہیں۔ یہاں مین شاہراہوں کی حالت اس قدر خستہ ہے کہ منٹوں کا سفر گھنٹوں میں طے ہوتا ہے۔اس سے قبل بھی اس مد میں30 کروڑ روپے جو وادی کی شاہراہوں کی تجدید و تعمیر کے لیے مختص کیے جاچکے تھے ،کو بھی جموں منتقل کردیا گیا۔آئی آئی ایم اور AIIMS کے بارے میں جموں کے بی جے پی لیڈران نے ڈنکے کی چوٹ پر کہہ دیا ہے کہ سب سے پہلے یہ ادارے جموں میں ہی بنیں گے۔بی جے پی لیڈران کے بیانات اور اقدامات سے صاف طور پر دکھائی دے رہا ہے کہ یہاں مفتی سعید کی سرکار نہیں بلکہ ریاست جموں وکشمیر میں حکومت کی بھاگ ڈور براہ راست ناگپور، بنارس اور پی ایم ہاوس سے سنبھالی جارہی ہے۔ مخلوط حکومت کے یہ سب حالات اس بات کی عکاسی کررہے ہیں کہ پی ڈی پی کو جو تھوڑا بہت عوامی سپورٹ وادی کشمیر میں حاصل ہوا تھا، اس جماعت نے اُس اعتماد کی کوئی لاج نہیں رکھی بلکہ محض کرسی سے چمٹ کررہنے کے لیے بی جے پی کو ریاستی بالخصوص وادی کشمیر کے مفادات کو زک پہنچانے کی کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔ پی ڈی پی کے پالیسی ساز اگر حالات کا صحیح طور پر انداز نہ کرسکے تو عنقریب اس جماعت کو عوامی غیض و غضب کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کشمیر میں حق کشمیر کازکی حمایت میںعوامی سینٹمنٹ موجود ہے، یہاں عوام کے لیے یہ بات کوئی معنیٰ نہیں رکھتی ہے کہ کون پارٹی اقتدار میں آتی ہے اور کون نہیںاور الیکشن پروسس سے جڑجانا یہاں کے لوگوں کے لیے محض دل بہلائی کا مشغلہ بن چکاہے۔ جن لوگوں نے پی ڈی پی کو ووٹ دیا ہے ،ا گر ان کی توقعات پوری نہ ہوئیں تووہی لوگ کل کو اس جماعت کے خلاف جاکر این سی کی طرح ناسیاًمنسیا کرسکتے ہیں۔ اس لیے وزیراعلیٰ مفتی سعید کے لیے ضروری ہے کہ وہ ذاتی کرسی کے بجائے لوگوں اور کشمیرکے مفادات کی نگرانی کریں۔ essahmadpirzada@gmail.com

Comments

Popular posts from this blog

لندن کی کشمیر کانفرنس۔۔۔ ایس احمد پیرزادہ

پبلک سیفٹی ایکٹ اور نیشنل کانفرنس....ایس احمد پیرزادہ