اور زیادہ امتحان نہ لیں


اور زیادہ امتحان نہ لیں

زمانے کے خداؤں سے زبان ِ خلق کہتی ہے


حال کے دنوں میں کشمیر میں جاری ہمہ گیر عوامی ایجی ٹیشن کے پیش نظر مسئلہ کشمیر کی جو گونج دنیا بھر میں سنائی دے رہی ہے، اُس کی وجہ سے حکومت ہند میں کافی اضطراب اور بے چینی پیدا ہوئی ہے۔ اس لیے ہندوستانی پارلیمنٹ میں کشمیر پر بحث بھی ہوئی ہے اور کئی پارٹیوں کے لیڈران نے تقریریں کرکے کشمیر میں ہورہی زیادتیوں پر حکومت کو آڑے ہاتھوں میں لیا ہے۔ کل جماعتی میٹنگ بھی منعقد کی گئی،ساتھ ہی ساتھ حکومتی وزیرا سمیت اپوزیشن لیڈران نے بھی وہی پرانا راگ الاپا کہ کشمیر میںحالات خراب کرنے کے پیچھے پاکستان کا ہاتھ ہے۔ بھارتی لیڈران نے ’’اٹوٹ انگ‘‘ والی پھر وہی طوطے کی رٹ لگائی جو مسئلہ حل نہ کر نے کا رمز واشارہ ہے۔ بے شک پاکستان کشمیرکاز کا پلیڈر ہے اور یہاں کی جدوجہد کا سیاسی، سفارتی اور اخلاقی مدد کرتارہا ہے لیکن یہاں کی تحریک کشمیر خالص کشمیری عوام کی ہے اور اس میں کوئی بیرونی مداخلت نہیں۔ بھارت کی سیاسی جماعتیں حقیقت سے آنکھیں چرا کر دعویٰ کررہی ہیں کہ کشمیریوں کو پاکستان ورغلا رہا ہے ، کیا یہ ممکن ہے کہ کسی بھی ملک کے بہکاوے میں پوری قوم آجائے۔ یہاں عقل کے اندھے لوگ نہیں رہتے ہیں، کشمیری قوم سوچ سمجھ رکھنے والی ذہین قوم ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ کس نے اُن کے ساتھ وعدے وفا نہیں کیے ہیں اور کن لوگوں نے برسوں پہلے شاطرانہ طریقہ اختیار کرکے اس قوم کی پسماندگی کا ناجائز فائدہ اُٹھا کریہاں انسانیت اور جمہوریت کی مٹی پلید کی ہے،اقوام متحدہ میں کشمیر کیس کو کون لے گیااور پھر عالمی فورم کی قرار دادوں کا پاس و لحاظ کس نے نہیں کیا۔ہندوستانی پارلیمنٹ میں گزشتہ دنوں کشمیر کے نام پر تماشہ ہوا ہے، وہاں ممبران نے خوب تقریریں کیں اور آخر پر وزیراداخلہ راجناتھ سنگھ نے اپیل کی صورت میں کشمیریوں کو دھمکی دی کہ وہ اپنی سر زمین پر سبز ہلالی پرچم نہ لہرائیں ۔ بی جے پی مسئلہ کشمیر کو فرقہ پرست نظروں سے دیکھ رہی ہے اور اس جماعت کو یہ پرواہ نہیں ہے کہ یہاں لوگ مررہے ہیں، فورسز کی فائرنگ سے نوجوان زندگی بھر کے لیے اپاہچ بن رہے ہیں، خاندانوں کے خاندان برباد ہورہے ہیں،والدین کے بڑھاپے کا سہارا چھن جاتا ہے، بچے یتیم ہورہے ہیں۔  سنگھ پریوار توآزادی اور حق خود ارادیت کی مانگ کرنے والی اس پوری قوم کو ’’پاکستانی‘‘ تصور کر کے کنوئیں کا مینڈک بن رہا ہے۔ وہ پاکستان کے’’بھوت‘‘ سے اس قدر خوف زدہ ہیں کہ اُنہیں ہر کشمیری چہرے میں پاکستانی نظر آرہا ہے بلکہ ایک موقع پلیگ کی وبا بھی پاکستان سے درآمد شدہ دِ کھا۔ یہاں نسل کشی کرکے یہ لوگ سمجھ رہے ہیں کہ اُنہوں نے پڑوسی ملک پاکستان کے شہریوں کا قتل عام کیا ہے۔اس جماعت سے ہمیں خیر کی کوئی اُمید نہیں ہے اور نہ ہی کشمیریوں کو فرقہ پرست سوچ رکھنے والی بھارتی حکومت کا کوئی اعتبار ہے ،البتہ یہاں جن لوگوں نے پاکستانیت کا پوز اختیار کرکے ووٹ بٹورے ، سبز کپڑے زیب تن کرکے لوگوں کو بیوقوف بنالیا ، سبز جھنڈے کا استحصال کرکے اپنی کرسی بنالی ، اُن کا چہرہ بے نقاب ہوجانے سے کم از کم اُن کا بہروپیا پن تو منظر عام پر آگیا ہے۔ پی ڈی پی ہو یا نیشنل کانفرنس یا پھر کوئی اور ، ہر ایک نے اپنے کندھے پر دلی کی بندوق رکھ کر یہاں کے لوگوں کا اپنی اپنی باری پر قتل عام کیا ، یہاں انسانی حقوق کی بڑی ہی بے رحمانہ انداز سے پامالیاں کیں۔۲۰۱۰ء میں جس کام کے لیے دلی نے نیشنل کانفرنس کا انتخاب کیا ، وہیں گھناؤنا کام آج پی ڈی پی سے کروایا جارہا ہے۔یہ سب ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے ہیں۔اقتدار کی ہوس میں یہ اپنا اصول اور انسانیت سب کچھ بیچ کھاسکتے ہیں۔المیہ یہ ہے کہ ان تمام کو اسمبلیوں تک پہنچانے کا کارِ بد بھی خودکشمیریوں نے بھی انجام دیا ۔ 
ٹسوے بہانا بھی اب سیاسی فن بن چکا ہے، دو چار آنسوؤں کے قطرے بہا کر رحم دل کہئے یا سادہ لوح کشمیری قوم کو آج تک بہت سارے لوگوں نے شیشے میں اُتار لیا ہے۔ شیخ عبداللہ نے سورہ الرحمن کی تلاوتیں کرکے پوری قوم کو کوڑیوں کے دام صدیوں کے لیے بیچ ڈالا ، اُن کے فرزندفاروق عبداللہ مکھوٹے بدل بدل کر دو دہائیوں تک ہمارے سروں پر سوار رہے، مفتی محمد سعید نے کشمیر حل اور باعزت امن کے نعرے سے مزاحمتی خیمے کا ایجنڈا ہائی جیک کرکے اقتدار کے مزے لیے اور اب اُن کی صاحبزادی مفتی وژن کی یادمیں آنسو بہا کر کشمیریوں کو ایک جانب مروارہی ہیں اور دوسری جانب ان کو اپنا بچہ ، بھائی ، بہن کہہ کر ان کامذاق اڑا رہی ہیں۔ اپنے حالیہ دلی دورے کے دوران جو باتیں اُنہوں نے کیں، اُن سے واضح ہوجاتا ہے کہ اُن کے اندر کشمیریوں کے لیے کس نوعیت کے جذبات ہیں۔ اخباری نمائندوں سے موصوفہ نے برملا کہہ دیا کہ ۲۰۱۰ء کی ایجی ٹیشن چار ماہ تک چلی اور اُس میں ۱۲۰؍ لوگوں کی موت واقع ہوئی اور آج ابھی ایجی ٹیشن کا پہلا ہی ماہ ہے اور ابھی تک صرف ۵۰؍ لوگ مارے جاچکے ہیں۔ کیا اس کا یہ مطلب لیاجائے وہ عمر حکومت کا ۲۰۱۰ء والا ریکارڈ توڑنا چاہتی ہیں۔ ہندسوں کا کھیل کھیل کر دلی کو بتانا چاہتی ہیں کہ وہ اور اُن کی جماعت پی ڈی پی، سابقہ حکمران پارٹی نیشنل کانفرنس سے زیادہ ہندوستان کی وفادار ہیں۔اُنہوں نے عوامی تحریک کو’’ہلہ غلہ‘‘ قرار دے کر یہاں کے شہیدوں ، زخمیوں اور لٹے پٹے لوگوں کی توہین کی ہے اور ہر دردمند کشمیر کے جذبات کو مجروح کردیا ہے۔ یہاں زمینی سطح پر تو اُن کے تمام منسٹرس سارے کے سارے غائب ہیں۔ MLA's کا بھی کوئی اَتہ پتہ نہیں ہے۔عوامی جدوجہد کو ’’ہلہ غلہ‘‘ قرار دینے والی وزیر اعلیٰ ذرا اپنے آبائی گاؤں بجبہاڑہ جاکر عوامی جلسہ منعقد کرکے دکھائیں ، اُن کے منسٹر س اور MLA's اپنے اپنے حلقوں میں جاکر دیکھیں کہ عوامی موڈ کیسا ہے اور عوام کیا چاہتے ہیں۔سرکاری پروٹوکال تو چار دن کی چاندی ہوتی ہے،جس وقت بھی دلی کے پالیسی سازوں کو لگے گا کہ اب ان کٹھ پتلیوں کی کوئی حاجت نہیں رہی ، تب انہیں اپنے ہی لوگوں میں جانا ہو گا۔ اپنے لیے زمین تنگ کرکے کرسیوں کے غلام ہند نواز سیاست دان تاریخ سے سبق نہیں سیکھتے ہیں۔
  وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے حال ہی میں رواں جدوجہد کے دوران جاں بحق ہوئے افراد کے لواحقین کے ساتھ’’ہمدردی ‘‘ کا اظہار کرنے کے لیے اسلام آباد اور کپواڑہ کادورہ کیا۔ اُن کے گھر نہیں جاسکیں اور نہ ہی لواحقین میں سے سوائے دو چار کے کسی نے وزیر اعلیٰ کے ساتھ ملاقات کرنے میں دلچسپی دکھائی۔اسلام آباد میں پی ڈی پی کے مقامی کارندوں کی مدد سے ایک فیملی کے جب کہ کپواڑہ میں پی سی ورکروں کی مدد سے دو فیملیوں کو ڈاک بنگلے پر لایا گیا۔ وہاں تینوں متاثرہ گھرانوں نے محبوبہ مفتی سے برملا کہہ دیا کہ اُنہیں سرکار سے ریلیف کی حاجت نہیں ہے اور نہ سرکار کی جانب سے گفتاری ہمدردی سے اُن کے زخم بھر جائیں گے، اگر گورنمنٹ واقعی کچھ کرنا چاہتی ہے تو اُن وردی پوشوں کو کیفرکردار تک پہنچائے جنہوں نے ہمارے لاڈلوں کو راست گولیوں کا نشانہ بناکر ابدی نیند سلادیا ہے۔ کپواڑہ میں بھی اور اسلام آباد میں بھی وزیر اعلیٰ جان بحق ہوئے نوجوانوں کے لواحقین سے وعدہ کرکے آئیں کہ وہ ضروری کارروائی کرکے ملوثین کو سزا دلوائیں گی۔سب جانتے ہیں کہ یہ وعدہ صرف وعدہ ٔ فرداہے کیونکہ ملوث وردی پوشوں کو سزا دلوانا دلی کے ان کنٹریکچول ملازمین اور ڈیلی ویجروںکے بس کی بات ہے اور نہ ہی کسی کشمیری وزیر اعلیٰ کی وہاں کچھ چلتی ہے۔ اگر ایسا کچھ ہوتا تو پھر ٹینگ پورہ سرینگر میں اپنے ہی گھر کے اندر والدین کی نظروں کے سامنے شبیر احمد کو موت کے گھاٹ اُتار دینے والے پولیس آفیسر کے خلاف کم از کم ایک عددایف آئی آر ہی درج ہوتی۔ جہاں پولیس عدالتی احکامات کو کوڑ دان میں پھینکے ،وہاں کس کے بس میں کیا ہے اس کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے۔ بار بار چیف جوڈیشل مجسٹریٹ سرینگر مسرت شاہین کی عدالت سے پولیس کو ایف آئی آر درج کرنے کے احکامات صادر کئے جانے کے بعد بھی پولیس نے عدالت کے فیصلے کو خاطر میں نہیںلایا، پھر مرہم کار سرکارنے آسیہ ا ور نیلوفر کی داستان دہراکر ایک پولیس والے کے دفاع میں سپریم کورٹ سے رجوع کرکے یہ عذرلنگ پیش کیا کہ اگر متعلقہ پولیس آفیسر کے خلاف ایف آئی آر درج کرلی گئی تو اس سے مزاحمتی جماعتوں کے حوصلے بڑھ جائیں گے۔ فی الحال ہے کہ سپریم کورٹ نے قبر کشائی کا حکم دے کر حقائق کی چھان بین کا حکم دیا ہے جس پر عمل درآمد ہو ا۔جو وزیر اعلیٰ پولیس کے ہاتھوں دن دھاڑے قتل پر بھی قانونی کارروائی کرانے کی پوزیشن میں نہ ہو، وہ بھلا ظلم و ستم کے سمندر میں ڈوبی قوم کو کیا انصاف دلا سکتی ہیں؟ وزیراعلیٰ اپنی کرسی کے ساتھ چمٹی ہوئی ہیں اور اُن کی ترجیح کرسی اور صرف کرسی ہے۔ اس کے لیے بھلے ہی یونیفائیڈ کمانڈ کونسل کی صدارت سے فورسز اہلکاروں کی ہر حرکت کا دفاع بھی کرنا پڑے۔ کشمیر اصل میں فوجی اسٹیٹ ہے جہاں’’افسپا‘‘ کی صورت میں جنگل کا قانون نافذ ہے کہ ترال میں ایک اسی سالہ بزرگ اور ان کی عمر رسیدہ اہلیہ تک کو پیلٹ اور بلیٹ کا نشانہ بناکر ایک اور بہادرانہ کارنامہ سر انجام دیا گیا۔ 
’’میں ایک حقیر انسان ہوں ، میری حکومت اور وجاہت بھی مٹنے والی ہے، میری زندگی بھی ناقابل اعتبار ہے۔ تاہم میرا فرض ہے کہ جب تک زندہ رہوں وطن کی حفاظت اور آزادی کے لیے جہاد کرتا رہوں۔ ہزاروں آدمی وطن کے لیے موت کے گھاٹ اُتر سکتے ہیں، لیکن حب وطن کے جذبات کبھی نہیں مرسکتے۔‘‘ یہ الفاظ شیر میسور سلطان ٹیپو کے ہیں۔ آج کی تاریخ میں یہ الفاظ ہر باشعور اور باضمیر کشمیری مسلمان کے ہیں۔ہم کمزور ہوسکتے ہیں، ہمارا سب کچھ داؤ پر لگ سکتا ہے، ہماری زندگیاں فنا ہوسکتی ہیں، ہمیں موت کے گھاٹ بھی اُتارا جاسکتا ہے، ہماری نسلوں کو پیلٹ گن کے ذریعے سے عمر بھر کے لیے ناکارہ بنایا جاسکتا ہے لیکن یاد رکھئے ہمیں کوئی جھکا نہیں سکتا ہے ، نہ ہی اس قوم کے دل سے کوئی  آزادی ٔ وطن کا جذبہ اور سیاسی جدوجہد کای راہ کھوٹی کر سکتا ہے۔ دلی کا یہ کام کرنے والی یہاں کی حکومتیں لاکھ جتن کریں ، اُن کی پیوند کاریاں کبھی بار آور ثابت نہیں ہوسکتی ہیں۔ مسئلہ کشمیر کوئی اقتصادی ترقی کا مسئلہ نہیں ہے، ایسا ہوتا تو یہاں بار بار دلی کی جانب سے اعلان کردہ قیاسی مالی پیکیجزپر ہی قبر ستان کی خاموشی طاری ہوجاتی، یہ نوکریوں کا مسئلہ ہوتا تو ۲۰۱۰ء کے بعد پانچ سو نوجوانوں کو پولیس نوکریاں فراہم کرنے کے بعد آج ۰۱۶ ۲ء میںسو گنا زیادہ سنگ باری کر نے والے پیدا نہ ہوتے، یہاں اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان  اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کا راستہ منتخب نہ کرتے۔دلی والے یہاں کل جماعتی وفود بھیجے یا پھر پارلیمنٹ میں قرار داد پاس کرکے کشمیریوں سے امن قائم کرنے کی اپیلیں کریں، آئین ہند کے دائرے میں بات چیت کا آفر دیں یا پھر طفل تسلیاں دے کر وقت ٹالٹے رہیں، کشمیر میں تب تک حالات میں کوئی سدھار پیدا ہونے کے امکانات بالکل ہی مخدوش ہیں جب تک یہاں کی عوام کے بنیادی حقوق کو تسلیم نہ کیا جائے اور مسئلہ کشمیر کے پائیدار حل کے لیے عوامی جذبات، خواہشات اور رائے کا احترام نہ کیا جائے۔ فوج سے زمینوں پر قبضہ کیا جاسکتا ہے، دلوں کو فتح نہیں کیا جاسکتا ہے مگر المیہ یہ ہے کہ بھارت کی موجودہ حکومت اور اُن کے دفاعی ماہرین بھی یہ سمجھتے ہیں کہ وہ کشمیریوں کی جدوجہد برائے حق خود ارادیت کی کمر طاقت کی بنیاد پر توڑ سکتے ہیں۔ یہ تجربہ گزشتہ ۷۰؍سال سے کیا جارہا ہے اور گزشتہ سات دہائیوں میں دلی کو ایک فیصد کامیابی بھی نصیب نہیں ہوئی ہے۔ شاید دلی میںیہ سوچ پائی جاتی ہے کہ کشمیریوں کی نسل کشی کرکے اور ریاست جموں وکشمیر میں آبادی کے تناسب کو بگاڑ کروہ بالآخر یہاں کی زمین پر قابض ہوجائے گی ۔ اُن کی یہ سوچ کمزور ہے ۔ آخری چارۂ کار کے طور پر دبے کچلے لوگ جان کی بازی لگانے تک پر آمادہ ہوجاتے ہیں ، یہ قانو قدرت ہے ۔اور جب کوئی کمزور قوم اپنی کمان کا یہ آخری تیر آزمانے پر ذہنی طور تیار ہوجائے تو پھر اس کی کامیا بی میں دیر نہیں لگتی اور نہ طاقت ور کا نشہ چور ہونے میں وقت لگتا ہے۔ ایک بارایسا ہواتو پھر کشمیریوں کی موجودہ پُرامن جدوجہد نہ ہی پرامن رہے گی اور نہ ہی یہ ریاست جموں وکشمیر کے حدود وقیود تک محدود رہے گی۔یہ آگ پھیل سکتی ہے اور اس کی لپیٹ میں پورا برصغیر آسکتا ہے۔دور اندیشی اِسی میں ہے کہ بھارت حقیقت کو سمجھے اور کشمیر حل کے لئے بصدق دل سامنے آئے ۔
رابطہ   9797761908

Comments

Popular posts from this blog

لندن کی کشمیر کانفرنس۔۔۔ ایس احمد پیرزادہ

پبلک سیفٹی ایکٹ اور نیشنل کانفرنس....ایس احمد پیرزادہ