متاثرین نظر انداز نہ ہوں!

اعانت غمگساری اور ہمدردی


رواں عوامی ایجی ٹیشن کوگزشتہ 27 ؍برس کی ایسی پہلی ایجی ٹیشن قرار دیا جاسکتا ہے ، جس میں شعوری طور پر لوگ زمینی سطح پرسرگرم عمل ہیں۔ہر کوئی کشمیری اس میں اپنی قربانی کا حصہ ڈال کر قومی جدوجہد کوفیصلہ کن راہ پر ڈالنے کا خواب سجائے ہے۔ عوام کا ہر طبقہ اپنے جذبات اور احساسات کا برملا اظہار کرکے رواں ایجی ٹیشن کی کامیابی کے لئے کوشاں ہے۔ تاہم یاد رکھئے کہ اگر مسئلہ کشمیر کو عالمی اور علاقائی حالات کے تناظر میں سامنے رکھا جائے تو بغیر کسی لگی لپٹی کے کہا جاسکتا ہے کہ منزل کی جانب چڑھتی سیڑھیوں کے ضمن میں یہ قربانیاں اولین زینے ہیں، ابھی اُوپر تک پہنچنے کے لیے نہ جانے ہمیں کتنے ایسے مراحل سے گزر نا ہوگا۔دنیا کی سیاسی صورت حال کے پس منظر میں بات کرنا اپنی جگہ صحیح ہے، البتہ لوگوں کا جوش وجذبہ، ایمان و یقین اور جذبۂ حریت دیکھ کر ہی شاید ہی قائدین بھی یہ نہیں بتا پاتے کہ تحریک کی جانب رواں سفر کی ابھی بہت منزلیں ہمیں طے کرنا ہوں گی۔ بہر کیف عوام الناس کے جذبۂ حریت کو سلام پیش کیا جانا چاہیے۔ اُن کی قربانیوں اور تحریک کے تئیں لگاؤ کا اولین تقاضا یہ ہے کہ قائدین اور دانشور حضرات اُنہیں اُن تمام کامیابیوں سے روشناس کرائیں جو اُن کی قربانیوں کے بدولت گزشتہ 52 آیام میں بین الاقوامی اور مقامی سطح پر ہمیں حاصل ہوا ۔ ساتھ ہی ساتھ بحیثیت مجموعی ہمارا یہ بھی فرض بنتا ہے کہ جو لوگ اس جدوجہد کا حصہ بن رہے ہیں، قربانیاں دے رہے ہیں، اس کی کامیابی کے لئے اپنا سب کچھ داؤ پر لگا رہے ہیں ، وہ رواں جدوجہد کو پایہ ٔتکمیل تک پہنچانے کے لیے نہایت عجلت پسندی کا مظاہرہ کررہے ہیں ، ہم اُن کا بھی خاص خیال رکھیں۔ اُن کی ضروریات ، مجبوریوں اور پریشانیوں کو مل بیٹھ کر دیکھیںاور حل کرکے ان کٹھن ایام میں ایک دوسرے کا سہارا بنیں۔ایجی ٹیشن کے پہلے ہی دن سے نانِ شبینہ کے لیے محتاج مزدور نے مزدوری ترک کرکے احتجاج کاحصہ بن کر اپنا گرم گرم لہو پیش کیا، تاجر برادری نے شروع سے ہی اپنی دوکانوں پر تالے چڑھا کر تمام کاروباری سرگرمیاں ٹھپ کردیں، ریڑھی بانوں، آٹو ڈرائیوروںٹرانسپوٹروں نے پہیہ جام کر کے پوری دنیا کو آرزوئے کشمیر کی جانب متوجہ ہونے پر مجبور کردیا، ہاؤس بوٹ اور ہوٹل مالکان کے علاوہ شکارہ والوں نے اپنے پورے سیزن کو قربان کرکے جہلم او رڈل کے پانیوں میں بھی آزادی کے نغمے گاکر اپنی دلی تمنا اور قلبی آرزوں کا برملا اظہار کیا۔گویا سماج کا کوئی بھی طبقہ او ر فرد ایسا نہیںہے جو کسی نہ کسی صورت میں اور کسی نہ کسی سطح پر قربانی پیش کرکے اپنا حصہ ادا نہ کررہا ہو۔یہاں سب مجبور ہیں، مجموعی طور پر ہم مشکلات اور مصائب کا شکار ہورہے ہیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ جس مقصد کو پانے کے لئے کشمیری قوم یہ سب کچھ کررہی ہے اُس کے لیے ہماری راہ میں مشکل اور کٹھن ترین مراحل کا آنا لازمی امر ہے۔دن گزرنے کے ساتھ ساتھ ہماری تکالیف اور مشکلات میں اضافہ ہوجائے گا،  اللہ نہ کرے بہت سارے خانوادے مختلف النوع مصائب کا شکار بھی ہوسکتے ہیں، ضروریات زندگی کی عدم موجودگی سے ہنگامی صورت حال پیدا ہونے کا احتمال ہے۔ یہ سب وہ چیزیں ہیں جن سے کشمیری قوم گھبراتی نہیں اور اس کا واضح ثبوت حال ہی میں تاجر برادری کی جانب سے اس اعلان سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ وہ کشمیری قوم کی جدوجہد کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے کوئی بھی قربانی دینے کے لیے تیار ہیں اور وہ اپنی ساری تجارت کو قربان کرسکتے ہیںمگر ہماری دعا ہونی چاہیے اللہ انہیں ایسی کڑی آزمائش میں نہ ڈالے۔ یہ بھی حقیقت اور سچائی ہے کہ ایسی صورت حال میں بقائے حیات ممکن بنانے کے لیے ہمیں خود ہی سر جوڑ کر سوچ بچار کرنا ہوگا۔ حکومت وقت اور اس کے سرکاری کارندے تو اس حکمت عملی پر کام کررہے ہیں کہ عام کشمیری زیادہ سے زیادہ مشکلات کا شکار ہوکر تھک ہارکر ہاتھ کھڑا کر ے ۔ اگر ہم اس سرکاری پالیسی کا موثر اور مبنی برحقیقت توڑ نہ کریں اور ایک ایسا طریقہ کار وضع نہ کریں جو سماج کو درپیش مسائل کا ازالہ کرسکے تو پھر مسائل کے انبار تلے ہماری پُر امن سیاسی جدوجہد کو نقصان پہنچ جانے کا بھی قوی اندیشہ لاحق ہوسکتا ہے۔
انتظامیہ کی اپوزیشن ، رکاوٹوںاور عدم موجودگی میں ہم آنے والے مشکلات کا مقابلہ کیسے کرسکتے ہیں؟ اس سوال کا جواب ہماری تاریخ میں موجود ہے۔ کرفیو اس قوم نے 90 کی دہائی میں بھی دیکھا ہے، ہڑتال ، کرفیو اور بندشیں ہم نے۲۰۰۸ء، ۲۰۱۰ء میں بھی دیکھی ہیں۔حکومت کی جانب سے دودھ اور غذائی اجناس کی ترسیل پر پابندی کا سامنا ہم نے گزشتہ کئی ادوار میں کیاہے، ہم نے۲۰۱۴ء کے بھیانک سیلاب میں بغیر انتظامیہ او رحکومت کی اسٹیٹ بھی دیکھی ہے، ہم نے سیلاب میں عوامی سطح پر قابل قدر ریلیف سرگرمیاں بھی دیکھی ہیں جب بے یار و مددگار کشمیری سیلاب کے رحم وکرم پر تھے اورجب کہ فوجی ہیلی کوارپٹر ان کی نظروں کے سامنے سیلاب میں گھرے غیرریاستی باشندگان کو چن چن کر نکالے جارہے تھے، یہ مناظر آج بھی ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں۔ہم نے اُن خطرناک اور مشکل ترین حالات کا یک جٹ ہوکر مردانہ وار مقابلہ کیا ۔ ایک دوسرے کا سہارا بنتے ہوئے اخلاص، ہمدردی، اُخوت اور بھائی چارہ کی ایسی داستانیں اس قوم نے رقم کیں کہ ہماری آنے والی نسلوں کا سریقینا فخر سے اونچا ہو گا۔مشکل اور کٹھن حالات ہمارے جذبۂ انفاق کو دوبالا کرتے ہیں، ہماری صفوں میں اتحاد پیدا کرتے ہیں، ہمیں ایک دوسرے کی مدد کے لیے سامنے آنے پر اُبھارتے ہیں، ہمیں سیسہ پلائی ہوئی دیوار کے مانند ہر چلینج کا مقابلہ کرنے کی متاثرکن ہمت عطا کرتے ہیں۔اس لیے آج بھی ہم حالات کا مقابلہ کرسکتے ہیں بشرطیکہ ہم وقت پر سمجھ جائیں کہ کرنا کیا ہے۔ 
ہمارے سماج میں دن کو مزدوری کرکے شام کو اُسی کمائی سے اپنے عیال کا پیٹ پالنے والا بھی رہتا ہے، بینکوں سے قرضو ں پر حاصل کرنے والے ٹرانسپورٹر بھی رہتے ہیں، سڑکوں پر ٹھیلا لگانے والا بھی اسی سماج کا حصہ ہے اور عیال کثیر رکھنے والے کم آمدن والے لوگ بھی ہم میں موجود ہیں۔دوائیوں کے لیے ترسنے والے مریض بھی یہاں کثیر تعداد میں ہیں اور حالات کے ستائے ہوئے دو وقت کی روٹی کے لیے محتاجوں کی بھی یہاں کوئی کمی نہیں ہے۔ہماری سماج میں سات ہزار زخمیوں کے ساتھ ساتھ شہید ہوئے افراد کے کسمپرسی کی حالت میں پڑے افراد خانہ بھی ہیں۔ ایسے تمام مجبور لوگوں کا خیال رکھنے کے لیے کسی کا انتظار کرنے کے بجائے ہمیں خود کچھ نہ کچھ کرناہوگا۔ ہمیں ایک ایسا امدادی وراحت کاری سسٹم ترتیب دینا ہوگا جو ایسے تمام لوگوں کی ضروریات کو پورا کرسکے جن پر حالات کی مار پڑ ی ہے۔ اس ضمن میںذیل میں چند تجاویز ہیں جن پر یا ایسی دوسری بہت ساری تجاویز پرہمیں فرداً فرداً اور اجتماعی طورلازمی طور پر غور کرنا ہوگا۔
سماجی مسائل سے نبرد آزماہونے کے لیے دین اسلام نے بیت المال کا سسٹم پہلے سے ہی رائج کیا ہوا ہے۔ ہمارے یہاں اس جانب زیادہ توجہ نہیں دی جارہی ہے۔ اب حالات ایسے پیدا ہوئے ہیںکہ ہمیں بیت المال کے قیام اور ان کے ذریعے سے متاثرین تک پہنچنے کے سسٹم کو مضبوط سے مضبوط تر بنانا ہوگا۔ بیت المال قائم کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہر مسجد کے ساتھ بیت المال قائم کیا جائے کیونکہ مسجد کمیٹیاں اپنے محلہ اور علاقے میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والے لوگوں تک آسانی کے ساتھ پہنچ سکتی ہیں۔یہاں کام کرنے والی دینی تنظیموں اور اداروں کے بیوت المال بہت سارے علاقوں میں اَحسن کام انجام دے دہے ہیں لیکن ریاست کے ستر فیصد سے زیادہ دیہات ایسے ہیں جہاں بیت المال قائم ہی نہیں ۔ایسے علاقوں میں نہ صرف بیت المال قائم کرنے کے سلسلے میں فوری اقدامات کی ضرورت ہے بلکہ دس پندرہ محلوں کی مساجداور بیت المال کمیٹیوں کے درمیان تال میل پیدا کرنے کے لیے ایک رابطہ کمیٹی بھی تشکیل دینا ناگزیر ہے تاکہ اگر کہیںکوئی خوشحال محلہ یا بستی ہو اور اُن کے اپنے محلہ میں کوئی مستحق نہ ہوگا، تو وہاں سے دوسرے محلہ کے مستحقین کی آسانی کے ساتھ مدد کی جاسکے۔بیت المال قائم کرنا اور مختلف مساجد کمیٹیوں کے درمیان تال میل پیدا کرنا نہایت ہی ضروری ہے۔
بیت المال تبھی بڑے پیمانے پر لوگوں کی ضروریات کو پورا کرپائیں گے جب عام لوگ زیادہ سے زیادہ انفاق یعنی اللہ کی راہ میں خرچ کرنے میں سبقت لیں گے۔ زکوٰۃ اور عام صدقات کے علاوہ ان نازک حالات میں ابوبکر صدیق ؓ اور عمر فاروق ؓ کی مثالیں دوہرانے کی ضرورت ہے۔ ضرورت سے زیادہ اپنے پاس جمع رکھنے کے بجائے اللہ کو قرضہ دے کر اپنے مال کو ہر حال میں منافع بخش کاروبار میں لگانا ہوگا۔ عید قربان آنے والی ہے۔ اس عید کے مقدس موقعے پر ایک بہت ہی بڑی رقم جمع ہوسکتی ہے۔ اتنی بڑی کہ ہم متاثرین کے 50 ؍فیصد سے زیادہ لوگوں کی ضروریات اُسی سے پوری کرسکتے ہیں۔ قربانی کے جانوروں کی کھالیں اگر جمع ہوجائیں گی تو اُن سے اربوں روپے مالیت کی آمدن ہوسکتی ہے۔ ہر محلہ میں جتنی بھی قربانیاں ہوں گی ، پوست ہائے قربانی متعلقہ محلہ کے بیت المال میں جمع کی جانی چاہیے۔ مختلف دارالعلوم وغیرہ جو پوست ہائے قربانی جمع کر تے رہے ہیں ، جوان کی آمدنی کا اہم ذریعہ ہے لیکن اگر امسال یہ لوگ جنگی حالات کے پیش نظر قربانی کی کھالیں حالات کے متاثرہ ضرورت مندوں کے لیے چھوڑ دینے کی حامی بھرلیں تو یہ ایک قابل قدر ایثار ہوگا۔ اس سلسلے میں اگر دینی اداروں کے وفاق کے نام قیادت ایک اپیل بھی جاری کرے تو یہ بہت احسن عمل ہوگا، اور اسے قبولنا وادی بھر میں دینی خدمات انجام دینے والے اداروں کی جانب سے ملت کے تئیں فوری ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے کا عمل متباور ہوگا۔ نیز پوست ہائے قربانی جمع کرنے والے ان لوگوں کی سخت  حوصلہ شکنی ہونی چاہیے جو فراڈ ہوتے ہیں اور ریلیف اور دوسرے رفاہی ناموں سے چندہ جمع کر کے آپسی بندر بانٹ سے ملت کا سرمایہ ہڑپ کرلیتے ہیں۔ اس لیے لازمی ہے کہ کسی بھی محلہ میں جمع ہونے والی قربانی کی کھالیں وہاں کی مسجد کمیٹی یا مستندبیت المال میں جمع کی جائے ،پھر وہیں سے ضرورت مندوں میں اُن سے حاصل ہونے والی آمدن کو اخفاء کے پردے میں تقسیم کیا جائے تاکہ متاثرین کی عزتِ نفس پر کوئی آنچ نہ آئے۔
آج کے جن کٹھن ایام میں یہاں ایجی ٹیشن چل رہی ہے، یہ شادیوں کا موسم ہے۔ یہاں سینکڑوں شادیاں ہونے والی ہیں یا ہورہی ہیں۔ اخبارات میں دعوت نامہ منسوخ کرنے کے اور شادی سادہ طریقے پر انجام دینے کے اشتہار ات روز شائع ہوجاتے ہیں۔ شادیاں انجام دینے کی کا جو سادگی کاچلن عام ہورہا ہے یہ ایک صحت مند قوم کی علامت ہے۔ یہاں جتنے بھی لوگ شادیاں سادگی کے ساتھ انجام دے رہے ہیں یا جتنے بھی لوگ دعوت ولیمہ دینے کے خواہش مند تھے لیکن حالات کی وجہ سے ایسا نہیں کرپائے ہیں، اُن سے التماس کی جاسکتی ہے کہ وہ شادی بیاہ کے حوالے سے وہ تمام رقم جو اُنہیں دعوت ولیمہ پر خرچ کرنا تھی، اللہ کی راہ میں مجبوروں اور ضرورت مندوں کے لیے بیت المال میں جمع کریں۔ ایک تو یہ ملت کے تئیں اُن کی عظیم خدمت تصور کی جائے کی ، دوسرا اللہ تعالیٰ کی رضا بھی اُن کے لئے شامل حال رہے گی اور اُن کے بیٹا یابیٹی کی ازدواجی زندگی میں برکتوں کا نزول ہوجائے گا۔اپنے بچوں کی شادیاں کرنے والے ایک ہزار والدین اگر دعوت ولیمہ پر خرچ ہونے والے رقم میں سے صرف پچاس پچاس ہزار روپے بیت المال میں جمع کریں گے تو یہ پانچ کروڑ روپے بن جاتے ہیں۔ پانچ کروڑ کی رقم سے کم از کم تین ہزار گھرانوںکی دو ماہ کی تمام ضروریات کو بآسانی پورا کیا جاسکتا ہے۔
امسال عازمین حج کی تعداد چھ ہزار سے زائد ہے۔ حج ایک مقدس فریضہ ہے اور حالات چاہیے کتنے بھی خراب کیوں نہ ہوں ، کشمیر سے لوگوں کوحج کا  مذہبی فریضہ انجام دینا چاہیے۔ البتہ چند باتوں کا عام حالات میں بھی اور موجودہ ابتر صورت حال میں بھی زیادہ خیال رکھنا لازمی ہے۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ حج پر روانہ ہونے کے لیے سفر خرچہ اور زادِ راہ سے زیادہ آنے جانے کے مواقع پر رسمی تقریبات اور حرمین میں غیر ضروری خریداریوںپر بہت زیادہ خرچہ آجاتا ہے۔ چھ ہزار عازمین حج میں اکثریت نے غالباً ان تمام اخراجات کا انتظام کررکھا ہوگا۔ سفر محمود پر گئے یا جانے والے یہ چھ ہزار اگر اپنے اخرجات میں سے صرف بیس بیس ہزار روپیہ ہی مجبوروں ، زخمیوں اور لاچاروں کے لیے انفاق کی مد میں دیں گے تو یہ دس بارہ کروڑ کی رقم بن جاتی ہے۔بارہ کروڑ ایک بہت بڑی رقم ہوتی ہے اور اتنی رقم سے ہزاروں خاندان کے ورزمرہ مسائل کا ازالہ کیا جاسکتا ہے۔ سرکاری ملازمین جن کی تنخواہیں کم وبیش وقت پر واگزار ہوجاتی ہیں اور ہمارے سماج کی اکثریت سرکاری ملازمین پر ہی مشتمل ہے، ملازم انجمنوں اور ٹریڈ یونینوں کو بھی اس نازک موقعے پر متاثرین کی مالی امداد کے لئے سامنے آجانا چاہیے۔ سرکاری ملازمین اگرہر ماہ کی صرف ایک یادودن کی تنخواہ مستحقین کے لیے دینے پر آمادہ ہوجائیں تو ہم یقینی بات ہے کہ یہاں کوئی بھی آٹو والا، ریڑھی والا، سومو ڈرائیور قومی کاز میں مزید ایثار کرے گا اور کوئی بھی شخص عوامی ایجی ٹیشن کے نتیجے میں پیدا شدہ گھمبیر صورت حال سے نااُمید اور مایوس نہیں ہوگا،  بشرطیکہ ہم اُن کی روز مرہ ضررویات کو پورا کرسکیں۔عام لوگ بھی اگر معمولات ِزندگی کے اخراجات میں معمولی کٹوتی کریں اور بچ جانیو الی رقم متاثرین میں بانٹ لینے کا ثواب کمائیں تو اس سے بھی کروڑوں روپیہ جمع ہوسکتا ہے۔ مثال کے طور پر جن گھرانوں میں ہفتے میں چار مرتبہ گوشت اور مرغا پکایا جاتا تھا ،وہاں اگر صرف دو مرتبہ گوشت پکایا جائے اور دودفعہ کے گوشت کی خرید پر خرچ ہونے والی رقم بیت المال میں جمع کر یں تو یہ بھی ایک بہت بڑا سعادت والا کام ہوگا۔ غریب سے غریب انسان بھی دس روپے ہی سہی اپنی ضروریات میں بچت کرکے ضرورت مندوں کی امداد سے راہ خدا میں خرچ کرکے اپنی قوم پر مقدور بھر احسان کر سکتے ہیں۔
یہ چند ایسے نکات ہیں جن کی جانب اس امید سے اشارہ کیا گیا کہ قوم کے مستحق امداد طبقات عام التفات کے شکار نہ ہوں ۔ یہاں کا ہر ذی شعور باشندہ ان نازک حالات میں اگر خلوص دل کے ساتھ اپنے پڑوسی، بھائی، رشتے دار اور دوست کی مدد کرسکے گا تو ہزاروں نئی راہیںکھل سکتی ہیں۔ہم مسلمان ہیں، اسلام ہمیں انسانیت کی بھلائی کا درس دیتا ہے۔ جب سارے مسلمان ہوں اور ہر ایک حالات کے دائروں میں پھنس چکا ہو تو پھر ملت کے ہر فرد پر لازمی بن جاتا ہے کہ وہ اپنی سطح پر دوسروں کی مدد وراحت کرنے کے لیے رات دن مواقعے تلاشتا رہے اور اگر کسی سے ایساکچھ بھی نہ بن پڑے تو بھی اللہ کے حضور دست بدعا ہو کر وہ اپنی ذمہ داری سے عہداہ برآہوسکتا ہے۔
رابطہ:9797761908

Comments

Popular posts from this blog

لندن کی کشمیر کانفرنس۔۔۔ ایس احمد پیرزادہ

پبلک سیفٹی ایکٹ اور نیشنل کانفرنس....ایس احمد پیرزادہ