فکری ابتذال کو روکئے


فکری ابتذال کو روکئے


حق لازوال ہے

برسوں پہلے کی بات ہے کہ آر ایس ایس کے اُس وقت چیف کے سدرشن جی سے ملنے ایک مسلم وفد جس میں ہندوستان کے اعلیٰ پایہ مسلم دانشور شامل تھے، اُن کے ہیڈ آفس ناگپور چلا گیا۔ ملاقات کا مقصد ہندوستان میں میں بڑھتی ہوئی فرقہ پرستی کو کم کرنے کے لیے آرایس ایس جیسی شدت پسند تنظیم کے لیڈر شب کو قائل کرنا تھا اور اُن کے سامنے اسلام اور مسلمانوں کے نظریہ کو رکھنا تھا۔ یہ ملاقات خوش گوار ماحول میں ہوئی۔ باتوں ہی باتوں میں جب سدرشن جی سے مسلم وفد میں ایک صاحب نے پوچھا کہ کیا مسلمانوں اور ہندوو ¿ں میں مفاہمت نہیں ہوسکتی ہے؟ کیا رسہ کشی کے ماحول کو ختم کرکے دوستانہ ماحول میں نہیں رہا جاسکتا ہے؟اس کے جواب میں کے سدرشن نے مسلم وفد کو بتایا کہ ضرور آر ایس ایس جیسی شدت پسند تنظیم مسلمانوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرسکتی ہے لیکن اس کے لیے شرط ہے۔ مسلم وفد کے استفسار پر سدرشن نے کہا ” آپ لوگ(مسلمان)کہتے ہو کہ اسلام ہی برحق اور سچا دین ہے، آپ ایسا کہنا چھوڑ دیجئے اور کہیے کہ اسلام بھی برحق اور سچا دین ہے تو ہماری آپ کے ساتھ مفاہمت ہوسکتی ہے۔“ بقول وفد میں شامل ایک سینئر ممبر ودانش ور کے کہ ہم مطالبہ سن کرسکتے میں آگئے ۔ مختلف جماعتوں کے اس وفد میں سے کسی ایک بھی فرد نے سدرشن کی اس بات پر اُنہیں یقین دلانے کی جرا ¿ت نہیں کی کہ وہ اس سمت کوششیں کریں گے کیونکہ وفد میں شامل سب لوگ جانتے تھے کہ جس بات کا مطالبہ کیا جارہا ہے وہ ہمارے بنیادی عقیدے کے خلاف ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ کے سدرشن جن کا انتقال ۱۵ستمبر۲۰۱۲ءکو ہوا ، آر ایس ایس میں اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہونے کے بعد اسلام کی جانب مائل ہوچکے تھے۔ آخری وقت ۲۰ اگست ۲۰۱۲ءکو انہوں نے اپنی سیکورٹی اور سٹاف ممبران سے ضد کی کہ وہ اُنہیں نماز عید کے موقع پر بھوپال کی تاج مسجد لے چلیں ، جہاں وہ نماز عید اداکرنے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو عید کی مبارک بادی بھی دے دیں گے۔ البتہ اُن کی سیکورٹی اور سٹاف نے ٹریفک جام کا بہانہ بناکر ایسا نہیں کیا۔ بعد میںمدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ رہ چکے بابو لعل گور اُنہیں ایک مسلمان کے گھر لے گئے جہاں انہوں نے مسلم خاندان کے ساتھ مل کرعید منائی۔ ایک اور موقع پر کے سدرشن ایک دن اپنے گھر سے لاپتہ ہوگئے۔ اُن کے لواحقین ، سیکورٹی اور دیگر آر ایس ایس ورکر اُن کی تلاش میں اِدھر اُدھر نکل پڑے۔ تبھی ایک مسلمان نے اطلاع دی کہ وہ نزدیکی مسلم بستی کی ایک مسجد میں گم سم بیٹھا ہوا ہے۔ آر ایس ایس کے اس سابق چیف کی موت بعد میں پُراسرار حالت میں ہوئی تھی۔ 
’اسلام ہی حق ہے ‘کے بجائے اسلام بھی حق ہے، کا مطالبہ کرنا بظاہر ایک معمولی بات ہے اور مسلمانیت کے بنیادی عقیدے سے ناواقف لوگ کہیں گے کہ یہ کہنے سے کون سا فرق پڑے گابلکہ ایسا کہہ کر ہندوستانی مسلمانوں کو سکون کی زندگی میسر آسکتی ہے۔ یہ مطالبہ ہندوستانی فرقہ پرست ذہنیت کا ہی نہیں ہے بلکہ موجودہ زمانے میں اسلام کے نام لیواو ¿ں سے دنیا کے ہر خطے میں کیا جارہا ہے۔ یہ مطالبہ آج کا نہیں ہے بلکہ حضور صلی علیہ وسلم کے زمانے میں اُن سے بھی مشرکین مکہ نے یہی مطالبہ کیا تھا کہ آپ ہمارے معبودوں کو باطل قرار نہ دیں اور اُن کے خلاف کچھ نہ کہیں ، ہم آپ کے ساتھ مفاہمت کریں گے۔ مشرکین کے اس مطالبہ کو خود اللہ تعالیٰ نے سورہ کافرون کے ذریعے سے یکسر ٹھکرا دیا ہے اور کہا کہ بنیادی عقیدے کے معاملہ میں کوئی کمپرومائز نہیں ہوسکتا ، باقی انسانی معاملات میں مشتر کہ موقف اختیار کیا جاسکتا ہے۔عالم عیسائیت، یہودیت اور دیگر تمام ادیان کے لیے اسلام کی حقانیت سے آج بھی وہی خطرہ لاحق ہے جو قرونِ اولیٰ میں تھا۔ بھلے ہی مسلمانوں کا اجتماعی کردار اُس نوعیت کا نہیں رہاہے جیسا کہ ہونا چاہیے لیکن اسلامی فکر ، تعلیمات اور اس کے آفاقی پیغام میں ہمیشہ کشش رہے گی اور لوگ اس کے سایہ ¿ رحمت میں آتے جائیں گے۔ اِسی خوف سے دیگر ادیان کے پیروکار اسلام کی دعوت سے بوکھلاہٹ کا شکار ہوجاتے ہیں۔ وہ لوگوں کو سوچنے ، سمجھنے اور غور وفکر کرنے سے روکنا چاہتے ہیں ،اس لیے کبھی تبدیلی مذہب پر مکمل پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں تو کبھی مسلم تنظیموں کی دعوتی سرگرمیوں پر قدغن لگانا چاہتے ہیں اور کبھی مطالبے کیے جاتے ہیں کہ مسلمان اسلام کو دین حق کہنا چھوڑ دیں بلکہ مسلم علماءسارے ادیان کے حق ہونے کو سند عطاکریں۔طاقت میں بدمست ایسے کند ذہن لوگ مسلمانوں سے یہ بھی مطالبہ کرتے رہتے ہیں کہ وہ قرآن مقدس سے جہاد ، جنگ اور دعوت سے متعلق آیات کو نکال دیں اور خدمت و عبادت تک ہی قرآن مقدس کو محدود رکھیں۔ان عقل کے اندھوںنے یہاں تک جرا ¿ت کی کہ ”الفرقان“نام سے حذف و اضافے کے ساتھ ایک کتاب تیار کی گئی اور اُس کتاب کو مسلمانوں میں قرآن کی جگہ رائج کرنے کی ناکام کوشش کی گئی۔ انہیں یہ معلوم نہیں کہ قرآن پاک کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ رب العزت نے بندوں پر نہیں بلکہ قیامت کی صبح تک خود اپنے ذمہ لے رکھی ہے ، اس لیے اس کتابِ الٰہی میں معمولی سے معمولی تبدیلی کا بھی کوئی تصور نہیں کرسکتاہے۔
آرایس ایس علماءو دانشوروں پر مبنی اُس وفد کواُس وقت قائل نہیں کرسکی کیونکہ وفد کے تمام لوگ دینی علوم سے مکمل طور پر واقفیت رکھتے تھے اور اُس مطالبے کو ماننے سے ایمان کا کیا حشر ہوجائے گا، اس بات کی بھی وہ بخوبی واقفیت رکھتے تھے۔ انہوں نے مطالبے کو ماننے سے نہ صرف انکار کردیا بلکہ ایسی حکمت علمی اپنائی کہ کے سدرشن جیسا شدت پسند ، ہندوتوا کے علمبردار کے دل میں بھی اسلام کے تئیں نہ صرف دلچسپی پیدا ہوئی بلکہ آثار وقرآئن سے ایسا لگ رہا تھا کہ وہ اسلام قبول کرنے کے قریب پہنچ چکا تھا۔ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں میںسے ہر ایک نے آر ایس ایس کے اس مطالبے کو بالکل ہی ٹھکرادیاہے ،البتہ ریاست جموں وکشمیر میں اپنے آپ کو دانشوروں کی صف میں کھڑا کرنے والا جدیدیت اور مغربیت کا پُرستار نفس پرست طبقہ نہ صرف اس بات کو قبول کرچکا ہے بلکہ اس کے لیے پرچار بھی کیا جارہا ہے۔ یہ لوگ کھلی مجلسوں میں، سمینارز میں، اخباری کالموں اور مباحثوں میں کھل کر کہہ رہے ہیں کہ ہمیں اسلام کو ہی حق نہیں کہنا چاہیے بلکہ ہر مذہب کو برحق ماننا چاہیے۔یہ لوگ مذہبی معنی میں وقت کے ایک ”سر سید“ کے مر ید بن کر ایسا بھی کہتے ہیںکہ مسلمانوں کو دین کی دعوت عام لوگوں کے سامنے رکھنے کے بجائے خدمت خلق کے شعبے تک ہی اپنے آپ کو محدود رکھنا چاہیے۔اپنے کالموں میں دنیائے اسلام کی تحریکات کو تنقید کا نشانہ بنانا ، علمائے حق کی تذلیل کرنا، اسلامی ریاست و سیاست کی بات کرنے والوں کو ہر برائی کی جڑ قرار دینا،اللہ کے قانون کے نفاذ کو دقیانوسی قرار دینا ان ”بالا ذہن “لوگوں نے اپنا مشغلہ بنارکھا ہے۔حد تو یہ ہے کہ جو لوگ دین اسلام کی سربلندی کے لیے پھانسیوں پر چڑھ رہے ہیں اور جو لوگ اُنہیں تختہ ¿ دار پر چڑھا رہے ہیں دونوں کو یہ لوگ ”بر حق “ قرار دیتے ہیں۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ایک ہی وقت میں ، ایک ہی مسئلہ پر، متضاد رائے رکھنے والے لوگ صحیح ہوں؟ اگر اس طرح کا معیار مقرر کیا جائے تو پھر رشوت کھانے والا بھی صحیح ہے اور رشوت نہ کھانے والا بھی صادق القول، ناحق قتل کرنے والا بھی اچھا اور انسانی جان کی احترام کرنے والا بھی اچھا۔ یہ کیسا قاعدہ کلیہ ہوا ؟ تو پھر دنیا میں کوئی بھی نظریہ غلط نہیں کہلایا جاسکتا ہے۔ حق اور باطل کی اصطلاحیں ہی ”صحیح“ نہیں رہ جاتی ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ نے دونوں اصطلاحوں کو قرآن مقدس میں بار بار استعمال کیا ہے۔ یہ ایک فاسد تصور ہے اور اُن لوگوں کا پروان چڑھایا ہوا ہے جو دنیا پرستی کے زعم میں مبتلا ہیں، جو مغربیت کے دلدادہ ہوچکے ہیں، یہ مرعوبیت کا اس قدر شکار ہیں کہ جو چکا چوند زندگی کے علمبردار آنکھیں دیکھتی ہیں، وہی خود بخود اِن کی آنکھیں بھی دیکھنے لگتی ہے۔جو صہیونی اور کلیسا کے پچاریوں کی پسند ہے ،وہیں ہمارے ان”روشن خیال دانشوارانِ قوم“ کو بھی پسند ہے۔ 
ریاست جموں وکشمیر میں جاری تحریک حق خود ارادیت کے ساتھ یہاں کے مظلوم عوام جڑے ہوئے ہیں، جن کی قربانیاں، فکرو عمل اور وقت دین بیزار لوگوںکوسرچڑھ کر بولنے نہیں دیتا ہے۔ ورنہ لبرل ازم کے علمبرداروں کاایک طبقہ یہاں بھی موجود ہے، جو دین کا لبادے خود تو اُتار چکے ہیں، البتہ پوری قوم کو اسلام اور اسلامی سوچ و فکر سے مکمل طور آزاد دیکھنے کا خواہاں ہے۔یہ طبقہ ملت اسلامیہ میں برپا مختلف فتنوں کی آڑ میں اپنا نظریہ پھیلا رہے ہیں اور اپنی فکر کو عام کرنے کے لیے دانشورانہ طرز عمل اختیار کرکے کام پر لگاہوا ہے۔ ۲۰۱۰ءکے سات مہینوں پر مشتمل عوامی احتجاج کے بعدایک دن تحریک حریت نے آئندہ لائحہ عمل مرتب کرنے اور گزشتہ حالات کا جائزہ لینے کے لیے مختلف اخبارات کے کالم نویسوں اور کشمیر اُمور کے ماہرین کو اپنے دفتر پر بلایا تھا۔ اس نشست میں درجنوں قلم کار، صحافی ، ادیب اور دانشور شامل ہوئے۔ بزرگ حریت لیڈر سیّد علی گیلانی صاحب کی صدارت میں منعقد ہونے والی اس نشست میں کچھ لوگوں نے گیلانی صاحب سے برملا کہہ دیا کہ وہ مسئلہ کشمیر سے اسلام کو الگ کریں۔ کیونکہ اسلام کو مسئلہ کشمیر کے ساتھ جوڑنے سے بیرون دنیا بالخصوص یورپ اور امریکہ میں کشمیر کاز کو زبردست نقصان پہنچ جاتا ہے۔اِن قلم کاروں اوردانشوروںنے محترم گیلانی صاحب کو دلایل سے قائل کرنے کی بے حد کوشش کی۔حالانکہ وہیں پر موجود دوسرے اسلام پسند قلم کاروں اور دانش وروں نے اُن کے اِس سوچ کے خلاف زبردست ردعمل دکھا یا لیکن قوم کی رہنمائی کرنے والے اور قائدین کو اپنے مشوروں سے نوازے والے قلم کار اور دانش ور حضرات میں ایسے بااثر لوگ موجود ہیں جو کشمیریوں کی جدوجہد کو اسلام سے بالکل علاحدہ کرنا چاہتے ہیں۔حالانکہ حقیقت حال یہ ہے کہ کشمیریوں کی جدوجہد اگر سات دہائیوںتک محیط رہی اور اب بھی زور و شور سے جاری ہے، اگر کشمیر یوں کے عزم و استقلال کو کوئی چیز نہیں توڑ سکی، اگر نہتے اور کمزور ہونے کے باوجود یہ قوم چٹان کی طرح اپنے اصولی اور برحق مو ¿قف پر قائم ہے ، تو اس کا سارا کریڈٹ دین اسلام کو ہی جاتا ہے۔ یہ دینی جذبہ ہی ہے کہ نوجوان اپنے سینوں پر گولیاں کھاتے ہیں، یہ اسلامی شعور ہی ہے کہ ہزار لالچوں کے باوجود دلوں سے اپنے مقصد کے تئیں لگن کو زائل نہیں کیا جاسکا۔ یہ بات بہرحال حقیقت ہے کہ کشمیر کے اس چھوٹے سے خطہ میں جہاں اسلام کے تئیں لوگوں کا رجحان کافی زیادہ پایا جاتا ہے، میں بھی آر ایس ایس اور اُس کے فکری پرچارک ایسے افراد کا ٹولہ تیار کرنے میں کامیاب ہوگئے جو وہ کام سرانجام دیتے ہیں جو ہندوتوا کے علمبردار نہ کبھی دے سکے اور نہ ہی دے سکتے ہیں۔بتایا جاتا ہے کہ ۲۰۰۸ءکی عوامی ایجی ٹیشن میں بھی کئی لیڈروں اور دانشو روں نے گیلانی صاحب سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ مسئلہ کشمیر اور اسلام کو ایک دوسرے سے الگ کریں۔ یورپ او ر امریکہ کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی طاقتیں ہمارے کاز کی کیا مدد کریں گے ،یہ الگ موضوع ہے۔ غیر اقوام اپنے مفادات کے غلام ہیں۔ ہم امریکہ اور یورپ کی کیا بات کریں ، مسلم ورلڈ نے کشمیریوں کو تن تنہا چھوڑ دیا ہے۔ وہ وزیر اعظم ہند کو اعزازات سے نوازتے ہیں اور ہمارے دانش ور اور لیڈران اُن سے تواقعات وابستہ کیے ہوئے ہیں۔
وقت فروعی مسائل کے اختلاف میں الجھنے کا نہیں ہے۔ نہ ہی اختلافات کو ہوا دے کر ملت کو ٹکڑوں میں بانٹنے سے ہی دین کا کوئی بھلا ہوگا۔ آج کے دور میں علمی ، فکری اور ذہنی محاذ پر اُمت مسلمہ کو بیرون خانہ سے زیادہ درونِ خانہ ہی چلنج درپیش ہے۔دشمن کی کھلی جارحیت کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔ عزت و عصمت کی حفاظت کے لیے جان کی بازی بھی لگائی جاسکتی ہے۔ وسائل پر غیروں کی اجارہ داری کو دیر سویر ختم کیا جاسکتا ہے لیکن فکری تنزل اور دھیمک کی طرح ہماری نوجوان نسل کی عقل و شعور کو ختم کرنے کا جوکام اپنوں کے ہاتھوں انجام دلوایا جارہا ہے ، وہ سب سے بڑا خطرہ ہے۔ اسلام پسند جب تک یک جٹ ہوکر فکری محاذ پر درپیش ایسے چلینجز ز کا مقابلہ نہ کریں، اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں دی جاسکتی کہ سماج کے سواد اعظم کو ہی دین سے بے گانہ نہ کیاجاسکے گا۔اختلاف رائے کا احترام لازمی ہے ، کسی کی سوچ اور فکر کو زبردستی تبدیل نہیں کیا جانا چاہیے ،البتہ یہ ضروری ہے کہ علماءکرام، مختلف مکاتب فکر سے وابستہ دانش ور حضرات ہوشیار رہیں اور اُن لوگوں کا علمی سطح پر جواب دیں جو دین اسلام کو ہماری اجتماعی و انفرادی زندگی سے الگ کرنا چاہتے ہیں، جو اسلام کے بجائے لبرل ازم کی حکمرانی کے قائل ہیں۔دلائل سے اور لوگوں میں زیادہ سے زیادہ بیداری لانے سے اسلام بیزار طاقتوں کے تمام عزائم کو خاک میں ملایا جاسکتا ہے۔اس کے لیے ضروری ہے کہ دعوت دین کا کام کرنے والی تمام جماعتیں، ادارے اور افراد ایک ساتھ مل کر کام کریں۔ ایک دوسرے کے معاون و مدد گار بنیں اور آپسی رسہ کشی کو کسی بھی صورت میں پروان چڑھنے نہ دیں۔ اسلام پسندوں کوخود کو بہترقرار دینے اور دوسروں پر الزام تراشیاں کرنے کی روش ترک کردینی چاہیے۔تب جاکے اُمت مسلمہ کی ہچکولے کھاتی ہوئی کشتی میں سوراخ کرنے والی طاقتوں کے عزائم کو خاک میں ملایا جاسکتا ہے۔ 
....................
رابطہ:9797761908

Comments

Popular posts from this blog

لندن کی کشمیر کانفرنس۔۔۔ ایس احمد پیرزادہ

پبلک سیفٹی ایکٹ اور نیشنل کانفرنس....ایس احمد پیرزادہ