پاور پروجیکٹوں کی واپسی.... دلی کا صاف انکار

پاور پروجیکٹوں کی واپسی.... دلی کا صاف انکار


٭.... ایس احمد پیرزادہ
ہندوستان کے مرکزی وزیر بجلی پیوش گوئیل نے ۰۲مئی کو ایک ویڈیو پریس کانفرنس کے دوران جس میں وہ اپنی پاور منسٹری کی کامیابیوں کی تشہیر کررہے تھے ، ایک سوال کے جواب میںکہا کہ”ریاست جموں وکشمیر کو این ایچ پی سی کے تحت قائم پاور پروجیکٹوں کے مالکانہ حقوق لوٹانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے۔ “انہوں نے ان پروجیکٹوں سے حاصل شدہ بجلی میں سے ریاست کا حصہ 12 فیصد سے25 فیصد کرنے سے بھی انکار کرتے ہوئے کہا کہ این ایچ پی سی نے تمام ریاستوں کے لیے کل پیداوار میں سے12 فیصدی کا جو حصہ معیار مقررکر رکھا ہے کسی ایک ریاست کے لیے اس میں تبدیلی نہیں لائی جاسکتی ہے۔ وزیرموصوف نے ریاست میں پاور پروجیکٹوں سے حاصل شدہ منافع میں سے بھی ریاست کو حصہ دینے سے انکار کردیا۔جب وزیر بجلی سے پوچھا گیا کہ ریاست جموں وکشمیرہندوستان بھر میں ہائیڈرل پاور پروجیکٹوں سے حاصل ہونے والی بجلی کا تقریباً 44فیصدی حصہ پیدا کرتی ہے اور اس کے باوجود ریاستی باشندوں کو بجلی دستیاب نہیں ہے۔ تو انہوں نے درجواب کہا کہ” ریاستی عوام بجلی کا بل ادا نہیں کرتے ہیں اور یہاں لوگ بجلی کی چوری بھی بڑے پیمانے پر کرتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ریاست میں بجلی کا بحران قائم و دائم رہتا ہے۔“یہ ایسی ہی بات ہوئی کہ چور چوری کرکے الزام اُس پر عائد کردیتا ہے جس کے گھر میں چوری ہوئی ہے۔
پورے بھارت میںاین ایچ پی سی کے زیر اہتمام چلنے والے ہائیڈرل پاور پروجیکٹوں کے ذریعے سے 6507 میگاواٹ بجلی پیدا کی جاتی ہے۔ جس میں متنازعہ ریاست جموں وکشمیرمیں 2009 میگاواٹ بجلی پیدا ہوتی ہے۔ ہماچل پردیش سے 1771 میگاواٹ، مدھیہ پردیش سے 1520 میگاواٹ، سکم سے570 میگاواٹ، اُتراکھنڈ سے 400 میگاواٹ، ویسٹ بنگال سے132 میگاواٹ جبکہ منی پور سے 105 میگاواٹ بجلی پیدا کی جاتی ہے۔ریاست جموں وکشمیرکو اپنی ہی سرزمین سے پیدا ہونے والی بجلی این ایچ پی سے خریدنی پڑتی ہے ۔ آر ٹی آئی کے ذریعے سے حاصل کی جانے والی جانکاری کے مطابق گزشتہ چودہ سال کے عرصے میں این ایچ پی سی نے جموں وکشمیر میں پیدا ہونے والی بجلی سے 19000 کروڑ روپے منافع کمایا۔ جبکہ ریاست جموں وکشمیر کو اس عرصے میں این ایچ پی سی سے 4129.58 کروڑ مالیت کی20841.65 میگایونٹ بجلی خریدنی پڑی۔ایک رپورٹ کے مطابق ریاستی حکومت نے2004 سے لے کر2015 تک 30296 کروڑ روپے بجلی کی خریداری پر خرچ کیے ہیں۔
اعداد و شمار سے صاف طور ظاہر ہوتا ہے کہ ریاست جموں وکشمیر میں جس قدر بجلی کی کھپت ہے اُس سے کئی گنا زیادہ بجلی یہاں پیدا کی جاتی ہے۔مستقبل میں مزید ایسے کئی بڑے منصوبوں پر ریاستی حکومت اور این ایچ پی سی کام کرنے کا سوچ رہی ہے جس سے پیدا ہونے والی بجلی کی مقدار اُتنی زیادہ ہوگی کہ ہندوستان کیا دیگر ممالک کو بھی یہاں سے بجلی فروخت کی جاسکتی ہے۔ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ این ایچ پی سی کے نام سے ایسٹ انڈیا طرز کی ایک کمپنی ہمارے آبی وسائل پر قابض ہوکر دو دو ہاتھوں سے فائدہ سمیٹ رہی ہے اور ریاست جموں وکشمیر نہ صرف بجلی کی عدم دستیابی کی وجہ سے مشکلات و مصائب کا سامنا کررہی ہے بلکہ یہاں کی تعمیر و ترقی بھی فنڈس اور توانائی کی عدم دستیابی کی وجہ سے رکی پڑی ہے۔حالانکہ ریاست کو اگر ان تمام پاور پروجیکٹوں کے مالکانہ حقوق حاصل ہوجاتے تو بجلی سے حاصل ہونے والی آمدنی سے نہ صرف یہاں کی معیشت سدھر جاتی بلکہ تعمیر و ترقی کے ایسے دروازے کھل جاتے جن کے ذریعے سے ترقی یافتہ ممالک کو بھی مات دی جاسکتی ہے۔ہمارے یہاں ایک مفروضہ قائم کیا گیا ہے۔ پڑھے لکھے لوگ بھی بناسوچے سمجھے اُس مفروضے کا ورد کرکے لوگوں میں بداعتمادی پھیلا رہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ کشمیر میں اپنا کیا ہے اگر دلی سے مدد و امداد بند ہوجائے گی تو کشمیری بھوکے مر جائیں گے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ اگر دلی ہمارے یہاں کے وسائل لوٹنا بند کردے اور اُن کے مالکانہ حقوق ریاست کو مل جائیں گے تو نہ ہی یہاں کی سرکاروں کو دلی کے سامنے کشکول لے کر جانا پڑے گا اور نہ ہی ہمارے یہاں غربت و افلاس کا نام و نشان رہے گا۔شمالی ہندوستان کی تقریباً تمام ریاستوں کے لیے بجلی یہاں سے سپلائی ہوتی ہے۔ ہماری رگوں سے خون چوس کر پنجاب ، ہریانہ ،دلی اور نہ جانے کون کون سی ریاست کو روشنی اور زندگی فراہم کی جاتی ہے۔دقیانوسی زمانے کے قبیلوں کی طرح لوٹ مار کا یہ جدید ایڈیشن ہے۔ اُس زمانے میں حملہ آور ہوکر کمزور قوموں اور قبیلوں کے مال و اسباب اور وسائل کو لوٹا جاتا تھا آج کے دور میں جدیدیت اور ترقی کے نام پر بڑی بڑی کمپنیوں کا جال بچھا کر طاقتور قومیں کمزور قوموں کے وسائل کو ہڑپ کررہی ہیں۔ دلی کی زرخرید میڈیا اور یہاں کے ہند نواز تنخواہ دار سیاست دان اس بات کا تو خوب پروپیگنڈا کرتے ہیں کہ دلی کشمیر کی تعمیر و ترقی کے لیے خوب سرمایہ کاری کررہی ہے اور یہاں کے عوام کی ترقی کی شدید خواہاں ہے حالانکہ سچائی یہ ہے کہ ہندوستان یہاں ایک روپے کے بدلے میں ہزاروں لے کر اپنی معیشت کو مضبوطی عطا کررہا ہے۔
بجلی ہی نہیں ہمارے یہاں کے جنگلات سے سبز سونا گزشتہ پچیس برسوںسے بے تحاشا انداز میں لوٹا جارہا ہے ۔ افسپا کی ”مقدس کتاب“ کی چھتر چھایہ میں فوجی افسران یہاں کے جنگلات سے لکڑیاں کاٹ کرلے جاتے رہے، رہی سہی کسر حکومتی ادارے پوری کررہے ہیں۔فرونٹ انڈسٹری کو شدید نقصان سے دوچار کردیا جاتا ہے۔کشمیری سیب اور اخروٹ کی مارکیٹ کم کرنے کی خاطر بیرون ملک کے سیب اور آخروٹ پر جان بوجھ کر ترجیح دی گئی۔ سیاحتی صنعت پر امرناتھ شرائن بورڈ جیسے اژدہ بٹھاکررکھ دئے گئے جو یہاں کے لوگوں پرروزی روٹی کمانے کے دروازے بند کرکے ہر کام کے لیے غیرریاستیوں کو اپنے ساتھ لے کر آتے ہیں۔ حتیٰ کہ یاترا کے دوران پانی کو معمولی بوتلیں تک بیرون ریاست سے ہی د رآمد کی جاتی ہیں۔ اور یہاںکے چند زرخرید قلمکاروں، نام نہاد دانشوروں اور ہند نواز سیاست دانوں اوراُن کے چیلے چمچوں کے ذریعے سے یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اگر ہندوستان سے امداد وغیرہ نہ آتی تو یہاں کے لوگ بھوکے مر جاتے ہیں۔ستمبر۴۱۰۲ئ کے سیلاب متاثر ین کے لیے گیارہ سو کروڑ روپے کی امداد کا اعلان وزیر اعظم ہند نے سینہ ٹھوک کراس انداز سے کیا کہ جیسے اُنہوں نے کشمیری قوم کو تاصبح قیامت اپنے احسانوں تلے دبا لیا ہو۔ صرف ہماری بجلی سے حاصل شدہ منافع کو اگر دیکھا جائے اور اگر19000 کروڑ روپیوں کی ہی بات کریں تو مودی جی! ابھی بھی ریاست جموں وکشمیر کے18000 کر وڑ روپیوں سے آپ اپنے ملک کی عوام کو کھلا پلا رہے ہیں۔
ہندوستانی وزیر بجلی پیوش گوئیل کا یہ الزام کس قدر بھونڈا ہے کہ کشمیری لوگ بجلی بل ادا نہیں کرتے ہیں اور بجلی چوری میں بھی ملوث ہیں۔ یہاں عوام نہ صرف بجلی فیس ادا کرتے ہیں بلکہ حد سے زیادہ اُن سے وصول کیا جاتا ہے۔ یہاں بجلی کی آنکھ مچولی روز کا معمول ہے۔ جن علاقوں میں میٹر نصب ہیں وہاں کئی کئی گھنٹوں تک بجلی غائب رہتی ہے ، بغیر میٹر والے علاقوں میں تو نام کی ہی بجلی ہوتی ہے۔ میٹر والے علاقوں میں ایک یونٹ کی فیس بہت زیادہ رکھی گئی ہے اور عوام کو جبراً زیادہ فیس دینے پر مجبور کیا جاتا ہے اور بغیر میٹر والے علاقوں کے لوگ کبھی کبھی ہی بجلی کا دیدار کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود اُنہیں برابر فیس ادا کرنی پڑتی ہے۔ اُنہیں کوئی رعایت نہیں دی جاتی ہے اور وقت سے پہلے سے ہی اُنہیں بجلی بلیں ادا کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ بجلی چور ی یہاں ہوتی ہے ، وہ بھی چھوٹے پیمانے پر نہیں بلکہ بڑے پیمانے پر ہوتی ہے لیکن اُس چوری میں یہاں کی عوام ملوث نہیں ہوتی ہے بلکہ ہندوستان کی لاکھوں مسلح افواج جو یہاں قیام پذیر ہے جتنی بھی بجلی استعمال کرتی ہے اُس کا بل ادا نہیں کرتے ہیں۔عارضی کیمپوں، سڑکوں ، شاہراہوں، بازاروں اور عوامی مقامات پر موجود بینکروں میںموجود اہلکار چوری شدہ بجلی سے بھر پور استفادہ کرتے ہیں۔ کوئی پوچھنے والا نہیں اور کسی کا اُنہیں خوف بھی لاحق نہیں ہے۔بڑے بڑے سرکاری ادارے اور دفاتر کے پاس کروڑوں روپے بجلی کے واجب الادا ہیں ۔ برسوں سے محکمہ بجلی اُن کے نام نوٹس جاری کرتا آرہاہے لیکن متعلقہ محکموں کی ملی بھگت سے عملی کارروائی کا سو چا بھی نہیں جاتا ہے۔اس لیے پیوش گوئیل کا عام کشمیریوں پر لگایا جانے والا الزام سراسر بہتان ہے اور اس بہتان طرازی کی آڑ میں حقیقی چوروں پر پردہ داری کرنی کی کوشش کی گئی ہے۔ جس چوری کا ارتکاب خود محکمہ بجلی حکومت ہند NHPC کے ذریعے سے کروارہا ہے اُس کی کوئی مثال ہی موجود نہیں۔ ایک متنازعہ ریاست کے وسائل پر قابض ہوکر فائدوں کو سمیٹنا زیادہ دیر تک عام کشمیریوں کی نظروں سے اوجھل نہیں رہے گا۔ کبھی نہ کبھی یہاں کے عوام اس ظلم عظیم پر سیخ پا ہوہی جائے گی۔
ریاست میں مسند اقتدار پر براجمان پی ڈی پی نے اپنے الیکشن ایجنڈے میں اس بات کو خصوصی اہمیت دے رکھی تھی کہ اقتدار میں آتے ہیں دلی سرکارسے این ایچ پی سی کے تحت ریاستی پاور پروجیکٹوں کے مالکانہ حقوق واپس حاصل کرلیے جائیں گے۔حکومت سازی کے لیے بی جے پی کے ساتھ ”ایجنڈا آف الائنس“ میں بھی یہ بات درج ہے کہ این ایچ پی سی سے کم از کم دو پاور پروجیکٹ 390 میگا واٹ بجلی پیدا کرنے والا ڈول ہستی پاور پروجیکٹ اور 480 میگاواٹ کی صلاحیت رکھنے والی اُوڑی ہائیڈرل پاور پروجیکٹ (اول)کے مالکانہ حقوق واپس حاصل کر لیے جائیں گے۔پی ڈی پی جس وقت بی جے پی کے ساتھ یارانہ گانٹھ رہی تھی اُس وقت اِس جماعت نے پہلی شرائط بی جے پی کے سامنے یہی رکھی کہ وہ این ایچ پی سی سے پاور پروجیکٹوں کے مالکانہ حقوق ریاست کو منتقل کروائےں۔ اب جبکہ ہندوستان کے مرکزی وزیر بجلی پیوش گوئیل صاف مکرر گئے تو یہ بات عیاں ہوگئی کہ ریاستی سرکار کی حیثیت بغیر پر کے اُس چڑیا جیسی ہے جو اُڑنے کی کوشش تو کرتی ہے لیکن اُس کے اُڑنے کا خواب کبھی پورا نہیں ہوتا ہے۔یہاںکی سرکار ہمیشہ بغیر پر کی ہوتی ہے۔ ریاستی عوامی کے مفادات کا تحفظ کرنے کے بجائے وہ دلی کے مفادات کی آبیاری کرتی ہے۔ 
ایک بات واضح ہے کہ یہاں کی ہند نواز جماعتوں نے ہر ہمیشہ دلی کے ہاتھ میں اقتدار کے خاطر کشمیریوں کے مفادات کا سودا کیا ہے۔ مرحوم شیخ محمد عبداللہ کی تاریخی غلطی کی سزا ہماری قوم کی نسلوں کو مل رہی ہے ۔ ابھی بھی نہ جانے کتنی اور نسلیں بھینٹ چڑھ جائیں گی۔ اُن کے فرزند ارجمند فاروق عبداللہ نے دل کھول کر دلی کے لیے دروازے کھول دئے۔ این ایچ پی سی کو مفت میں یہاں کے آبائی وسائل تک رسائی فراہم کرنے کا کارِ بد فاروق عبداللہ نے ہی انجام دیا ہے، یہ فاروق عبداللہ ہی تھے جنہوں نے امرناتھ شرائن بورڈ کے نام پر ایک ایساناسور کشمیریوں کے لیے کھڑا کردیا جو وقت آنے کے ساتھ ساتھ کشمیر کے سماج پر منفی اثرات بکھیرتا ہی چلا جارہا ہے۔ رہی سہی کسر اُن کے بیٹے اور پی ڈی پی نے پوری کردی۔ پی ڈی پی اقتدار کی حوس میں پہلے امرناتھ شرائن بورڈ کو زمین منتقل کرنے کا جرم کر بیٹھی تھی اور اب پنڈتوں کے لیے الگ کالنیوں، سابق فوجیوں کے لیے رہائشی کے لیے اراضی، غیر ریاستی صنعت کاروں کے لیے زمینیں فراہم کرنے کی منصوبہ بندی کرکے صدیوں تک ہماری آنے والی نسلوں کے لیے ناسور قائم کررہی ہیں۔یہاں کی ڈیموگرامی تبدیل کرنے کے حکومت ہند کے پلان میں پی ڈی پی خصوصی پُرزے کی حیثیت سے کام کررہی ہے۔ اقتدار اور کرسی کی لالچ نے آج تک نہ جانے کتنے کتنوں کو آنے والی نسلوں کے لیے عبرت کا سامان بنا کررکھ دیا ہے ، مگر المیہ یہ ہے کہ آج کے حکمران عبرت حاصل کرنے کے موڈ میں ہی نہیں ہیں۔ وہ اپنے حقیر مقاصد کے لیے پوری قوم کی عزت و عصمت اور مفادات کو داو ¿ پر لگارہے ہیں۔ اپنی آخرت برباد کرنے کے ساتھ ساتھ قوم و ملت کے لیے بھی مشکلات پیدا کررہے ہیں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ پوری قوم یک جٹ ہوکر اپنے حقوق کی بازیابی کے لیے جدوجہد میں اپنا کردار ادا کریں۔ اپنے ملی و قومی مفادات کے خاطر جدوجہد ہمارا جمہوری حق ہے اور اپنے حق کے خاطر آواز بلند کرنا ہماری منصبی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔اس بات کو عام کشمیری جتنی جلد سمجھ پائیں گے اُتنا ہی نہ صرف ہمارے لیے بلکہ ہماری آنے والی نسلوں کے حق میں بہتر رہے گا۔
رابطہ:9797761908 

Comments

Popular posts from this blog

لندن کی کشمیر کانفرنس۔۔۔ ایس احمد پیرزادہ

پبلک سیفٹی ایکٹ اور نیشنل کانفرنس....ایس احمد پیرزادہ