سینک کالونیاں ۔۔۔ حقیقت کیا ہے ؟
خدا را وطن کو بچائیں بچائیں

 سینک کالونی کے مجوزہ حکومتی منصوبے کا مسئلہ روزبروز سلجھنے کے بجائے الجھتا ہی جارہا ہے۔ ایک جانب مختلف غیر سرکاری تنظیمیں ،مزاحمتی جماعتیں ، حتیٰ کہ اپوزیشن نیشنل کانفرنس ریاستی حکومت پر بیک زبان الزام عائد کررہی ہیں کہ وہ ریاستی مفادات کا سودا کرکے یہاں کی زمینیں نیلام کررہی ہیں اور اسرائیلی طرز پر جموں وکشمیر کی ڈیموگرافی تبدیل کرنے کی راہ پر گامزن ہے، دوسری جانب ریاستی سرکاری متضاد بیانات کے ذریعے سے اس بات سے انکار کررہی ہے کہ سرینگر میںکوئی سینک کالونی بننے والی ہے۔ حالانکہ کولیشن سرکاری میں شامل بی جے پی کے متعدد لیڈران کھلے عام اپنے بیانات میں کہہ رہے کہ سرینگر میںسابق فوجیوں کے لیے کالونی تعمیر ہوکر رہے گی۔ ۶جون کو ریاستی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے اسمبلی کے اجلاس میں اپنی ایک تقریر میں واضح کیا کہ سینک کالونیاں کہیں تعمیر نہیں ہورہی ہیں۔ انہوں نے حزبِ اختلاف اور میڈیا کو صبر کی تلقین کرتے ہوئے کہا کہ بعض حلقے ریاست کے امن و امان کو درہم برہم کرنا چاہتے ہیں ۔ محبوبہ مفتی نے غصے میں آکر کہا کہ ہم اخبار والوں کے ساتھ ہیں ، اُنہیں مراعات دے رہے ہیں ، انہیں سہولیات فراہم کرنا چاہتے ہیں، اُن کے لیے ویلفیئر فنڈ بھی قائم کیا، اس کے باوجود اگروہ جموں وکشمیر کے خرمن ِامن میں آگ لگانا چاہتے ہیں تو اُن سے سختی سے نپٹا جائے گا۔ سری نگر کے اولڈ ائر پورٹ کے احاطے میں ہورہیں فوجی تعمیر ات کے حوالے سے محبوبہ مفتی نے کہا کہ ”یہاں فوج اپنے لیے رہائشی فلیٹ تعمیر کررہی ہے جس طرح بادامی باغ کے اندر کیا جاتا ہے۔ ان رہائشی کوارٹروں کی تعمیر کا سینک کالونیوں کے ساتھ کوئی واسطہ نہیں ہے، جیسا کہ دعویٰ کیا جارہا ہے۔محبوبہ مفتی نے سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ پر پلٹ وار کرتے ہوئے کہا کہ” عمر عبداللہ نے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے خود سینک کالونی کے لئے اراضی کی نشاندہی کی ہدایت دی تھی اور اب اس بارے میں ٹویٹ پہ ٹویٹ او ر صرف ٹویٹ ہی کرتے جار ہے ہیں۔ “ اپنی تقریر میں کسی حد تک البتہ محبوبہ مفتی نے خود ہی تسلیم کر لیا کہ فوجیوں کے لئے رہائشی کالونیاں بن رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ کالونیاں صرف ریاست کے پشتینی باشندوں کے لیے ہوں گی اور اس کے لیے اراضی کی نشاندہی کی کوشش کی جارہی ہیں، لیکن تاحال زمین کہیں دستیاب نہیں ہورہی ہے۔“ 
گزشتہ ماہ کئی اخبارات نے اس بات کا سننی خیز انکشاف کیا کہ ریاستی حکومت نے ”راجیہ سینک بورڈ(RSB) “ کی درخواست پر اولڈ ائرپورٹ کے حدود میں 173 کنال اراضی پر سینک کالونی کی تعمیر کرنے کے لیے ابتدائی لوازمات پورا کرنے کے احکامات صادر کئے ہیں۔اس خبر کی تصدیق اُس وقت ہوئی جب ۷مئی کو سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے اپنی ٹویٹ کے ذریعے سے محبوبہ مفتی کی باضابطہ دستخط شدہ آرڈکاپی منظر عام پر لائی جس میں مجوزہ سینک کالونی کے لئے اراضی کی نشاندہی کا حکم صادر فرمایا گیا تھا۔ یہ سنسنی خیزخبر منظر عام پر آجانے کے فوراً بعد مزاحمتی جماعتوں میں ہلچل شروع ہوگئی۔ برسوں سے باہم دگر دوریاں بنائے رکھے ہوئے مزاحمتی رہنماو ¿ں کو زمینی حالات کی شدت نے انہیں ایک دوسرے کے دروازوں پر دستک دینے پر مجبور کیا۔ لبریشن فرنٹ کے چیئرمین محمد یاسین ملک نے دوڑدھوپ کرکے، سید علی گیلانی، میرواعظ عمر فاروق، جماعت اسلامی، جمعیت اہلحدیث، دختران ملت، بارایسویشن، مسلم لیگ اور مختلف ٹریڈیونینوں کے ذمہ داروں سے طویل گفت و شنید کرکے اُنہیں حالات کی سنگینی پر یک جٹ ہونے کی دعوت دی۔ یاسین ملک کے ہمراہ میرواعظ نے بزرگ لیڈر سید علی گیلانی کے ساتھ اُن کی رہائش گاہ واقع حیدر پورہ پر ملاقات کرنے کے بعد تینوں لیڈروں کی جانب سے مشترکہ بیان اخبارات کے نام جاری کیا گیا، جس میں بتایا گیا کہ فرقہ پرست طاقتوں کے اس ایجنڈے کو کسی بھی صورت میں کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا کہ وہ اسرائیلی طرز عمل اپنا کر ریاست کے زمینوں پر قابض ہوکر یہاں غیر ریاستی فوجیوں کو آباد کریں۔ سیاسی ماحول گرم ہوتا دیکھ کر ریاستی سرکار میں ہلچل پیدا ہوگئی۔ محبوبہ مفتی اور ان کے قریبی ساتھیوںکو اس بات کا احساس ہونے لگا کہ جو دلی میڈ منصوبہ ہزارہا پردوں میں چھپانے کے باوجود عوام میں موضوع بحث بن گیا وہ کہیں ۰۰۸ ۲ءاور ۲۰۱۰ءجیسی صورتحال پیدا ہونے پر منتج نہ ہو ، اس لیے متضاد بیان بازیاں کرکے لوگوں کو مطمئن کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ حالانکہ سچائی یہی ہے کہ اس ساری لن ترانی کے پیچھے دال میں کچھ کالاضروردکھائی دے رہا ہے مگر اس پر الفاظ کے گورکھ دھندوں سے لیپا پوتی کی جارہی ہے۔ 
اسمبلی میںوزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کی نہایت ہی تیز طرار تقریر ” جموں وکشمیرکولیشن آف سول سوسائٹی“ کی جانب سے جاری اُس پریس ریلیزکے پس منظر میں تھی جس میں سوسائٹی نے حکومت سے سوالیہ انداز میں پوچھا کہ وہ پرانے ائر پورٹ پر ہورہی تعمیرات کی حقیقت آشکارہ کریں۔JKCCS نے اپنے بیان میں کہا کہ جس اراضی کی نشاندہی مجوزہ سینک کالونی کے لیے کی گئی ہے ،اُس پر تعمیر کا کام شدو مد سے جارہی ہے۔ وہاںروزانہ 800کے قریب مزدور کام پر لگے ہوتے ہیں اوریہ سلسلہ گزشتہ دو برسوں سے جاری ہے۔بیان کے مطابق تاحال47 عمارتیں تعمیر ہوچکی ہیں ۔ کل ملا کر یہاں 700 فلیٹ تعمیرہورہے ہیں۔JKCCS نے اپنے بیان میں حکومت سے جواب طلب کیا ہے کہ وہ اس بات کی وضاحت کریں کہ آیا یہ رہائشی فلیٹ سینک کالونی کے لیے تعمیر ہورہے ہیں یا کچھ اور ہے؟ محبوبہ مفتی کی اسمبلی کے اندر تقریر سے صورت حال واضح نہیں ہوجاتی ہے بلکہ مزید الجھن پیدا ہوتی ہے۔ الجھن ہی نہیں بلکہ کسی حد تک ”سینک کالونی“ تعمیر ہونے کے انکشافات بین السطور صحیح ثابت ہور ہے ہیں۔ ایک جانب وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی انکار کررہی ہیں کہ کسی قسم کی کوئی سینک کالونی تعمیر نہیں ہورہی ہے ،ا گلے ہی لمحہ میں وہ کہتی ہیں کہ یہ کالونیاں ریاست کے سابق فوجیوں کے لیے تعمیر کی جائیں گی۔اگر محبوبہ جی کہتی ہیں کہ سینک کالونی ریاست کے سابق فوجیوں کے لیے ہی تعمیر کی جائے گی تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ کشمیریوں کو یہ منظور ہے؟ ہر گزنہیں، ریاست جموں وکشمیر کے لوگ فوجیوں کو یہاں بسانے کے لیے کسی بھی منصوبے کی سرے سے ہی مخالف ہیں، چاہے اُس میں ریاست کے سابق فوجی رہیں یا غیر ریاستی فوجیوں کو لا لاکر بسایا جائے،کیونکہ یہ دنیا کا تسلیم شدہ متنازعہ خطہ ہے اورکسی بھی متنازعہ خطہ میں کوئی ملک اپنی فوج کو مستقل بنیادوں پر آباد نہیں کرسکتا۔ریاستی سرکار کی لن ترانیوں سے اس لیے بھی پردہ سرک جاتا ہے کیونکہ جس جگہ بقول محبوبہ مفتی کے آرمی اپنے آفسروں کے لیے فیملی کواٹر تعمیر کررہی ہے وہ جگہ وہی ہے جس کی نشاندہی راجیہ سینک بورڈنے کی تھی۔اس کا مطلب یہ ہوا ہے کہ سرکار کی اجازت طلب کرنے سے قبل ہی آرمی نے کوارٹر تعمیر کرنے کا کام شروع کررکھا ہے ، وہ بھی دو سال کی مدت سے شدومد سے جار ی ہے۔ بڑی بڑی عمارتیں تعمیر ہونے کے بعد اب ریاستی حکومت کی اجازت طلب کی جارہی ہے۔یہاں ریاست جموں وکشمیر میں ”عوامی“ حکومت کی اصلیت واضح ہوجاتی ہے۔ ا ٓرمی کے سامنے اس کی کیا حیثیت ہے ،اس کا اندازہ اسی بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کالونی تعمیر ہونے کے بعد حکومت سے ”اجازت“ طلب کی جاتی ہے۔ مطلب حکومت کو اجازت دینی ہی دینی ہے۔ کولیشن سرکار بھلے ہی اخبارات کو دھمکیاں دیں اور اُنہیں سرکار کی اِن اشتعال انگیز پالیسیوں سے پردہ سرکنے کی اجازت نہ دیں، بھلے ہی آرمی اپنا اثر رسوخ استعمال کرکے یہاں کے لیڈران کے منہ پر تالے چڑھا لے، مگر جوں توں حقیقت آشکارہ ہوہی جاتی ہے۔امرناتھ شرائن بورڈ کو پی ڈی پی نے ہی بھی خفیہ طریقے سے زمینیں فراہم کی تھیں، گورنر ہاو ¿س سے محکمہ جنگلات کی اُس وقت کی منسٹری تک نہایت ہی راز داری کے ساتھ کارروائی عمل میں لائی گئی تھی لیکن بالآخر عوام کو پتہ چل ہی گیا اور انہوں نے ردعمل کے طور اپنی طاقت کا لوہا منواکرنہ صرف سرکار کو آرڈر منسوخ کروا نے پر مجبور کردیا بلکہ پی ڈی پی اور کانگریس کی کولیشن سرکار کو بھی لے ڈوبے۔ 
جہاں تک ریاست کی زمینوں پر فوجی وغیر فوجی قبضے کا سوال ہے ، یہ کوئی نئی بات ہے نہیں ۔ برسوں سے دلی کے پالیسی ساز اس حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں اور ریاست جموں وکشمیر میں آبادی کا توازن اور حلیہ بگاڑنے کے لیے یہاں اسرائیلی طرز پر کام کیا جارہاہے ۔ جموں میں لاکھوں شرنارتھیوں کے ساتھ ساتھ غیر ریاستی لوگوں کو نہ صرف آباد کیا جا تارہا ہے بلکہ بڑی بڑی کالونیوں میں رہائش پذیر ہزاروں لوگوں کو قانونی طور پر ریاست کے شہری تسلیم کرنے کے لیے بھی اَڑچنوں کو دور کیا جارہا ہے۔جموں کی سیٹوں پر نظر رکھنے والی ہر کوئی سیاسی جماعت اس حق میں ہے کہ اُن ہی کے ہاتھوں لاکھوں غیر ریاستی باشندوں کو شہریت حاصل ہوجائے تاکہ کل کو وہ اُن کے ووٹ سے اسمبلی میں پہنچ سکیں۔ بی جے پی، کانگریس، این سی اور پی ڈی پی سب اس بات کے حق میں ہیںکہ غیر ریاستی شرنارتھیوں کے ساتھ ساتھ پنجاب ، ہریانہ اور ہماچل پردیش کے علاوہ دیگر ریاستوں کے لاکھوں لوگوں کو یہاں کا مستقبل باشندہ تسلیم کیا جائے۔اس کے لیے پی ڈی پی نے حکومت سازی کے مشترکہ ایجنڈے میں اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ حکومت شرنارتھیوں کو مستقل شہریت کے حق سے نوازے گی۔نیشنل کانفرنس اور کانگریس کے دور اقتدار میں اُس وقت کے نائب وزیر اعلیٰ تارا چند نے اعتراف کیا تھا کہ جموں ضلع میں 35 کالونیاں غیر قانونی ہیں جن میں سے۲۰۰۲ءسے لے کر ۲۰۱۰ءتک 13 کالونیوں کو قانونی جواز فراہم کیا گیا۔بتایا جاتا ہے کہ 35 کالونیوں کے 80 فیصد لوگ غیر ریاستی باشندے ہیں۔ قانونی زمرے میں لانے کا مطلب یہ ہے کہ اُنہیں ریاست کی شہریت فراہم کی گئی ہے۔غیر ریاستی باشندوں کی اکثریت پر مشتمل جن کالونیوں کو قانونی طور پر تسلیم کرنے کے لیے بی جے پی ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے ،جس میں وہ کامیاب بھی ہوتی نظر آرہی ہے، اُن میں اندرا کالونی، گورکھا نگر، جوگی گیٹ، سنجے نگر، بالمکی کالونی، شیوا کالونی، چنانی راما، کچا تالاب، گوسوامی کالونی، حیدر پورہ، پورن نگر، بسنت وہار، نئی بستی، وکاس نگر، صنعت نگر، قاسم نگر اور کبیر کالونی قابل ذکر ہے۔غرض زمینوں پر قبضہ کرنے کی مہم دہائیوں سے جارہی ہے اور جموں کو ہندو سٹی بنانے کے لیے غیرریاستی ہندوو ¿ں کو یہاں لالاکربسایا جارہا ہے۔
وادی ¿ کشمیر کی بات کریں تو یہاں بھی نہ جانے کتنے غیر ریاستیوں کو تجارت کے نام پر زمینیں فراہم کی گئیں ہیں۔ سب سے بڑا ادارہ جو یہاں کی زمینوں پر قابض ہے وہ ہندوستان کی فوج ہے۔ ایک محتاظ اندازے کے مطابق فوجی تحویل میں دس لاکھ کنال اراضی (10,00,000) ہے۔ ان دس لاکھ کنال میں بیشتر زمین پر فوج نے جبراً قبضہ جما لیا ہے۔ حالت یہ ہے کہ مسلم وقف بورڈ کی 2710 کنال اراضی پر بھی فوج قابض ہوچکی ہے۔ان دس لاکھ کنال پر بڑے بڑے فوجی کیمپ قائم ہیں۔ ان کیمپوں کے اندر کیا ہورہا ہے؟ کیا تعمیر ہورہا ہے ؟اس کے لیے سرکار کے پاس کوئی ریکارڈ نہیں ہے کیونکہ فوج اپنی مرضی کے مطابق وہاں رہائشی کالونیاں بھی تعمیر کرتی رہی ہے۔ المیہ تو یہ ہے کہ جہاں جہاں بھی فوج جنگلاتی اراضی پر قابض ہوئی ہے، وہاں سبز سونے کا مکمل صفایا کرکے نہ صرف ریاست کے ماحول کو بری طرح متاثر کرلیا گیا ہے بلکہ اربوں اور کھربوں روپے مالیت کی لکڑی بھی غیر قانونی طریقے سے ہڑپ کرلی گئی ہے۔یہ محض سینک کالونی تعمیر کرنے کے لیے 173 کنال اراضی کی بات نہیں ہے بلکہ دس لاکھ کنال اراضی پر سے ناجائز تصرف کو ہٹانے کی مانگ ہے۔ امرناتھ شرائن بورڈ کی تحویل میں کتنی زمین ہے؟محکمہ سیاحت کے ذریعے سے کتنے غیر ریاستی وادی میں اپنا کاروبار سجانے کے بہانے یہاں کے وسائل پر قابض ہوئے؟ یہ ایک لمبی داستان بن جائے گی۔ کشمیر جیسے ایک چھوٹے سے پہاڑی خطہ پر اس طرح غیر قانونی طور پر قابض ہوکر ایک منصوبہ بند طریقے پر یہاں کی ڈیموگرافی کو تبدیل کیا جاتارہا ہے۔ 
حکومت وقت کچھ بھی کہے، کوئی بھی بہانہ بنائے ، ایک بات واضح ہے کہ کرسی کے عوض دلی سرکار کے ہاتھ تمام ریاستی حکومتوں نے اپنی اپنی باری پر یہاں کے وسائل کا سودا کر نا ہمیشہ ان کا شیوہ اورشعار رہا ہے۔ یہ محض ایک پی ڈی پی کی ہی بات نہیں ہے، بلکہ جو عمر عبداللہ اور غلام نبی آزاد آج کل موجودہ مخلوط سرکار کو آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں، انہوں نے بھی اپنے دور اقتدار یہی کچھ کیا جو آج پی ڈی پی اور بی جے پی کی کولیشن سرکار کررہی ہے۔ دھمکیوں سے حقائق پر پردہ نہیں ڈالا جاسکتا ہے اور نہ ہی غلط بیانی کرکے حقیقت کو جھٹلایا جاسکتا ہے ۔ یہ کھیل ہے جو دلی اقتدار کی ہوس میں گرفتار سیاسی جماعتوں اور افراد کے ذریعے سے کشمیر کے سیاسی میدان میں کھیل رہی ہے۔ اس کی شروعات ذرا کھل کر صادق نے کی اور آج یہیleagacy پی ڈی پی پروان چڑھارہی ہے ۔اقتدار میں آکر گھرکے یہ سارے بھیدی اپنا سب کچھ ڈھا رہے ہیں اور المیہ یہ ہے کہ عام کشمیری ہر دفعہ اُن کے بہکاوے میں آجاتے ہیں۔ ایک بات کا ہر جماعت اور ہر سیاست دان کو ادراک حاصل ہونا چاہیے کہ اپنے کیے کی ان سب کو ایک نہ ایک دن حساب دینا ہوگا۔ دانشمندی اور دور اندیشی اسی میں ہے کہ بجائے اس کے کہ وقت احتساب پر پچھتایا جائے، آج ہی نیلامی ¿ کشمیر سے باز آیا جائے ۔
رابطہ:9797761908

Comments

Popular posts from this blog

لندن کی کشمیر کانفرنس۔۔۔ ایس احمد پیرزادہ

پبلک سیفٹی ایکٹ اور نیشنل کانفرنس....ایس احمد پیرزادہ