پاکستان جیت گیا‘‘، ایسا ہندوستان کہتا

پاکستان جیت گیا‘‘، ایسا ہندوستان کہتا ہ

نگہدار دبرہمن کار خود را
بہ کس ہرگز نگفت اسرار خود را
مرا گوید کہ از تسبیح بگذر
بدوش خود نہد زنار خود را
ترجمہ: برہمن اپنی دھن کا پکا ہے، اپنا بھید کسی پر نہیں کھولتا، مجھ سے کہتا ہے تسبیح کو پرے پھینک، مگر اپنا زنار اپنے کاندھے سے ہرگز نہیں اتارتا۔
کشمیر کے حوالے سے ہندوستانی پروپیگنڈا مشینری پر ان اشعار کا اطلاق بخوبی ہوتا ہے۔ جھوٹ بولنے کے لیے بھی کم از کم کوئی افسانوی بنیاد ہونی چاہیے، مگر اس ملک کے حکمران، ایجنسیاں اور ذرائع ابلاغ مسلسل جھوٹ کی بے بنیاد کڑیوں کو ملا کر، زمینی حقائق کی پردہ پوشی کر کے یا انہیں آدھا سچ بتا کر اپنے ہی ملک کی کروڑوں عوام کو گمراہ کررہے ہیں۔ کشمیر، مسلم اکثریتی خطے پیر پنچال اور وادی چناب کے بارے میں آج تک اپنے گناہوں اور گھناؤنے کارناموں کو چھپانے کے لیے میڈیا، پولیس اور حکومت کے بڑے بڑے ذمہ دار بڑی ڈھٹائی کے ساتھ جھوٹ پہ جھوٹ تصنیف کرتے جارہے ہیں، اور وہ بھی روایتی بھونڈے انداز میں۔ یہ لوگ اپنی نامعقول روش ترک کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں اور موقع بے موقع عام کشمیریوں کو مورد الزام ٹھہرا کر انہیں اپنی غیرت اور حمیت بلکہ انسانیت تک چھوڑ دینے کو کہتے ہیں۔
28 مارچ کو چاڈورہ میں پولیس اور فوج نے ایک مکان میں موجود مجاہد کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا تو آس پاس کے دیہات سے سینکڑوں نوجوانوں نے انکاؤنٹر والی جگہ کا رُخ کر کے فوج اور پولیس کے خلاف مظاہرے شروع کردیے۔ اس دوران نوجوانوں نے وردی پوشوں کی کارروائی میں رخنہ ڈالنے کے لیے سنگ باری بھی کی، جس کی وجہ سے پولیس اور فوج کو عوامی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ گو کہ مکان میں موجود عسکریت پسند کو یہ نوجوان محاصرے سے نکالنے میں کامیاب نہ ہوپائے، لیکن اِنہوں نے اپنی جانوں پر کھیلتے ہوئے براہ راست گولیوں کا مقابلہ کر کے فوج اور پولیس کے ساتھ دو دو ہاتھ ضرور کیے۔ فوج اور سی آر پی ایف نے آرمی چیف بپن روات کی پیشگی دھمکی پر عمل کرتے ہوئے ان سینکڑوں نوجوانوں پر براہ راست بندوق کے دہانے کھول کر تین معصوم نوجوانوں کو ابدی نیند سلادیا اور دیگر دو درجن کے قریب نوجوانوں کو بُری طرح زخمی کردیا۔ جس اکیلے مجاہد سے نبرد آزما ہونے کے لیے ہزاروں بھارتی فوجی پورے لاؤ لشکر کے ساتھ چاڈورہ کی مخصوص بستی میں میدان جنگ سجا چکے تھے، اس کے بارے میں رپورٹیں شائع ہوئی ہیں کہ وہ سخت بیمار تھا اور اس کے پاس صرف ایک پستول تھا۔ مبینہ طور بیمار عسکریت پسند پر “فتح” پانے کے لیے فوج اور پولیس کو 9 گھنٹے کی طویل جنگ میں تین عام شہریوں کی جان لینی پڑی اور کروڑوں روپے مالیت کے بارود سے مکان کو اڑانا پڑا۔ عام شہریوں کو جاں بحق کرنے کی کارروائی کو جواز فراہم کرنے کے لیے شام کو سی آر پی ایف کے ترجمان نے اخباری نمائندوں کو واقعہ کی بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ آج کا دن ہمارے لیے مشکل ترین دن تھا، کیونکہ ہمارے اہلکاروں کو دو محاذوں پر جنگ لڑنی پڑی۔ ایک جانب عسکریت پسند تھا، دوسری جانب عام نوجوان جو احتجاجاً سنگ باری کررہے تھے۔ پولیس کی جانب سے بھی ایک بیان اخبارات میں شائع ہوا جس میں کہا گیا کہ نوجوانوں کو سوشل میڈیا کے ذریعے انکاؤنٹر کی جگہ پر جمع کیا جاتا ہے اور انہیں سرحد پار سے ہدایات دی جارہی ہیں۔ پولیس کے اس بیان کو بعد میں دلی کے مختلف ٹی وی چینلز نے بنیاد بنا کر ایسی ایسی فرضی کہانیاں گھڑیں اور پرائم ٹائم میں پروگرامات چلائے، جو صحافتی معیار کی ادنیٰ کسوٹی پر بھی پورا نہیں اترتے۔ یہ جھوٹ اور بے پرکی بڑی بے تکلفی سے اڑائی گئی کہ تین، چار سو روپے کی لالچ میں کشمیری نوجوانوں کو اپنی جان پر کھیلنے کو کہا جاتا ہے۔ ان رام کہانیوں کی صداقت پر کسی بھی معمولی عقل و فہم والے کو ہنسی آسکتی ہے۔ گزشتہ ستائیس سال سے ایسی ہی کہانیوں سے مظلوم کشمیریوں کی شبیہ بگاڑنے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی رہی ہے۔ اس دوران ہماری ایک ایسی گھٹیا تصویر دنیا کو دکھائی گئی کہ جیسے یہاں کے باشندوں نے کبھی دمڑی بھی نہیں دیکھی اور چند سو روپے کی لالچ میں یہاں کے نوجوان 8 لاکھ فوجیوں کے سامنے سینہ تانے کھڑا ہوجاتے ہیں۔
چاڈورہ میں ہوئی تازہ جھڑپ کے دوران وردی پوشوں نے تین گھرانوں کے چشم و چراغ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے گل کردیے۔ پانچ بہنوں کے اکلوتے بھائی زاہد رشید گنائی کے علاوہ عامر فیاض وازہ اور اشفاق احمد کو وردی پوشوں نے براہ راست گولیاں مار کر ابدی نیند سلا دیا۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیوز اور تصویروں سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ پولیس اور سی آرپی ایف اہلکاروں نے نشانہ تان کر احتجاجی نوجوانوں پر گولیاں برسائیں۔ مانا کہ یہ نوجوان آپریشن کو ناکام بنانے کے لیے پولیس اور فوج کے کام میں رخنہ ڈال رہے تھے، مانا کہ یہ سنگ باری کر رہے تھے، لیکن یہ کون سا قانون ہے کہ عام نوجوانوں کے خلاف بندوق کے دہانے کھول دیے جائیں، عام لوگوں کے خلاف اس طرح جنگ لڑی جائے جیسے کسی ریگولر آرمی کے ساتھ دوبدو لڑی جاتی ہے۔ کس ملک میں ایسا ہوتا ہے کہ اپنے سیاسی حقوق کی مانگ کرنے والی عوام پر طاقت کا بے تحاشا استعمال کیا جارہا ہو؟ کشمیر دنیا کا واحد خطہ ہے جہاں ایک ملک کی آٹھ لاکھ ریگولر آرمی، نیم فوجی دستے اور پولیس، پوری عوام کے خلاف برسر جنگ ہیں۔ مہذب دنیا کا کوئی بھی قانون یا انسان پولیس اور سی آر پی ایف کی اس تھیوری کو تسلیم نہیں کرے گا کہ سنگ باری کا مقابلہ گولیوں اور پیلٹ گن سے کیا جانا چاہیے۔
چاڈورہ واقعے پر پولیس، سی آر پی ایف اور بھارتی میڈیا کی پروپیگنڈا مشینری کا واحد مقصد سویلین جانوں کے زیاں سے توجہ ہٹانا تھا۔ پروپیگنڈا یہ کیا جارہا ہے کہ نوجوانوں کو گولیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے تین، چار سو روپے دیے جارہے ہیں۔ ان عقل کے اندھوں سے کوئی یہ نہیں پوچھتا کہ ایسا کون ہوگا جو محض چند سو روپے کے لیے اپنی جان گنوانے کے لیے تیا ر ہو؟ بھارتی میڈیا پر بیٹھے لوگوں سے کوئی یہ سوال پوچھنے کی جسارت کیوں نہیں کرتا کہ بھئی اگر سرحد پار سے پاکستان یہاں کے نوجوانوں کو پیسوں کی لالچ دے سکتا ہے، تو آپ پھر ان نوجوانوں کو چار سو کے بجائے ایک ہزار دے کر خاموش رہنے پر آمادہ کیوں نہیں کرپاتے؟ ان لوگوں کو پھر پبلک سیفٹی ایکٹ کا اطلاق کرنے کی ضرورت کیوں پڑجاتی ہے؟ یہ بھارت کی کھلی ناکامی ہے اور تمہیں اس بات کا اعتراف کرلینا چاہیے کہ پڑوسی ملک کی ایجنسیوں کے سامنے تمہارے خفیہ ادارے اور حکومتی کارندے نیند کے ماتو ہیں۔
ہندوستان کی تمام ایجنسیوں پر پاکستان کا بھوت سوار ہے۔ ہر بات کے لیے پاکستان کو موردِ الزام ٹھہرا رہے ہیں۔ حالانکہ حقائق اس کے برعکس ہیں۔ پاکستان کشمیریوں کی سیاسی، سفارتی اور اخلاقی تعاون ضرور کررہا ہے مگر کشمیری اپنی لڑائی خود ہی لڑ رہے ہیں اور اگر خدانخواستہ کبھی پاکستان نے اپنے تعاون سے ہاتھ کھینچ بھی لیے، تب بھی کشمیری اپنی جدوجہد جاری و ساری رکھیں گے۔
کوئی بھی کشمیری یہ نہیں چاہتا ہے کہ ان کے بچے ہتھیاروں سے کھیلیں اور وہ روز اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے رہیں۔ کوئی بھی باپ یہ نہیں چاہے گا کہ اس کا بیٹا فوجی اہلکاروں کے سامنے نہتا ہو کر بھی انہیں للکارے اور بدلے میں ان کی گولیوں کا شکار ہوجائے۔ کوئی بھی ماں اپنے بیٹے کی لاش دیکھنے کی تمنا نہیں کرے گی۔ ایک بھی شخص اپنی نوجوان نسلوں کو بینائی سے محروم دیکھنا نہیں چاہتا۔ کسی بھی کشمیری کی خواہش یہ نہیں ہوگی کہ رات کی تاریکیوں میں ہندوستانی فوج ان کے گھروں میں گھس جائے اور ان کے نونہالوں کو اٹھا کر لے جائے، ان پر تھرڈ ڈگری ٹارچر کرے اور انہیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دے۔ کوئی بھی ادنیٰ سے ادنیٰ کشمیری بھی یہ خواہش نہیں رکھتا ہے کہ اس کے بچے قلم اور کاغذ کی جگہ پتھر اوربندوق تھام لیں۔ پھر کیا وجہ ہے کہ یہ سب نہ چاہتے ہوئے بھی کشمیر کی نوجوان نسل پڑھائی کو خیر باد کہہ کر عسکریت پسندوں کے صفوں میں شامل ہورہی ہے؟ جھڑپ کے دوران سینکڑوں نوجوان اپنے والدین کی تلقین و تنبیہ اور آرمی چیف سے لے کر ڈی جی پی تک، سب کی دھمکی کو فراموش کر کے سڑکوں پر نکل آتے ہیں؟ برستی گولیوں میں سینہ تان کر وردی پوشوں کے سامنے کھڑے ہوجاتے ہیں؟ پھر کیوں مزاحمت کا جنوں ہماری نئی نسل کے سر پر سوار ہے؟ کیوں فطرتاً شریف اور امن پسند کشمیری قوم کے نونہال تشدد کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہورہے ہیں؟ ان سوالوں کا جواب ڈھونڈنا مشکل کام نہیں ہے۔
جب دلی خواہشات کے اظہار پر پہرے بٹھائے جارہے ہوں، جب سیاسی خوابوں کی تکمیل کے تمام پرامن ذرائع ممنوع قرار دیے گئے ہوں، جب نعرے بلند کرنے پر بھی قدغن ہو، جب اپنے بنیادی حقوق کی مانگ کرنا جرم ٹھہرایا جاتا ہو، جب سرکاری سطح پر عوام کے جذبات پر نمک پاشی کی جارہی ہو، جب معززین کی عزتیں اچھالی جارہی ہوں، جب سانس لینے پر پابندی ہو، جب پیر و جوان اور بچوں سے جیل اور زندان بھرے جارہے ہوں، جب عوام کے خلاف سرکار کا ہر جرم اور گناہ ‘دیش بھگتی’ کا ثبوت سمجھ کر سند قبول پا رہا ہو، تو پھر تنگ آمد بہ جنگ آمد کے مصداق کمزور سے کمزور تر انسان بھی آخری چارۂ کار کے تحت انتہائی اقدام پر مجبور ہوجاتا ہے۔ یہاں آج تک یہی کچھ ہوتا آرہا ہے۔ یہاں ترقیوں کے لیے فرضی انکاؤنٹرز کا ڈراما رچایا گیا، یہاں نوجوانوں کو پولیس تھانوں میں بلاوجہ بلا کر طرح طرح سے ہراساں کیا جاتا رہا تا کہ ان سے تاوان وصولا جائے۔ یہاں پڑھی لکھی قوم کو بھیڑ بکریوں کی طرح ہانکنے کی روایت قائم کی گئی۔
برق رفتار انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس دور میں پرورش پانے والی نوجوان نسل کو جب آپ بنیادی حقوق سے محروم کردیں گے تو نتائج ایسے ہی ہونے ہیں۔ پھر دنیا کی بڑی آرمی کا جنرل عام لوگوں کو دھمکی دینے پر مجبور ہو جاتا ہے اور پولیس چیف کو وارننگ جاری کرنا پڑتی ہے۔ یہ لوگ اپنی کارروائیوں کا جواز فراہم کرنے کے لیے پاکستان پر الزام تراشی کرتے ہیں حالانکہ حالات کو اس قدر ابتر بنانے میں انہیں اپنا ہاتھ نظر ہی نہیں آتا۔ سیاست دانوں کی ووٹ بنک سیاست کے لیے ہٹ دھرمیاں، پولیس اور فوجی اہلکاروں کا اپنی ترقیوں اور مفادات کے لیے من مانیاں کرنا، ظلم و جبر کے پہاڑ توڑنا اور انسانی حقوق کی بے حرمتی کرنے کے رواج نے یہاں کی نوجوان نسل کو اب بے خوف بنادیا ہے۔ اس نسل نے تمام دروازے بند دیکھ کر اب خود اپنے راستے تلاشنے شروع کردیے ہیں۔ آپ اس صورت حال کے ذمہ دار سوشل میڈیا کو گردانتے ہیں، اور آپ کے نزدیک شاید مسئلہ کا حل یہ ہے کہ پوری آبادی کو گھروں یا قبروں میں مقید کرکے قبرستان کی خاموشی قائم کی جائے اور اسے ‘امن کی بحالی’ کا نام دیا جائے۔ یہ پہلے سے کی گئیں غلطیوں پر ایک اور خوف ناک غلطی کا اضافہ ہوگا۔ سوشل میڈیا پرپابندی عائد کر کے، نوجوان نسل کو غم اور غصہ کے اظہار سے محروم کر کے، انہیں نئی راہیں تلاش کرنے پر مجبور کررہے ہیں۔
ہماری نوجوان نسل کو شدت پسندی کی جانب دھکیلنے کے اس پورے منظرنامے کا اگر غیر جانبداری سے تجزیہ کیا جائے تو یہی نظر آئے گا کہ اس کے لیے حکومت ہند، یہاں کی مقامی انتظامیہ اور مختلف فورسز ایجنسیاں ذمہ دار ہیں۔ یہاں ان کا کچھ نہیں بگڑ رہا بلکہ ہمارا نقصان ہورہا ہے۔ نسل کشی ہماری ہو رہی ہے، گھر ہمارے برباد ہو رہے ہیں، حکومت ہند کشمیری قوم کو دشمن تصور کر رہی ہے، فورسز ہماری نسل کشی سے اطمینان حاصل کر رہے ہیں۔ حالانکہ انہیں علم ہونا چاہیے کہ کسی قوم کو طاقت سے دبانے کے نتائج الٹے بھی برآمد ہوسکتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ کسی زیر تسلط قوم میں، جو آگ غالب قوت لگا دیتی ہے، اس کی چنگاریاں آگ کے کھلاڑیوں کو بھی بھسم کر کے ہی ٹھنڈی ہوتی ہے۔ دانشمندی اسی میں ہے کہ مسئلہ کشمیر منصفانہ بنیادوں پر متعلقہ فریقوں کے مابین افہام و تفہیم سے حل کیا جائے، اس کے لیے صرف بات چیت کا راستہ اختیار کیا جائے، بنیادی مسئلے یعنی مسئلہ کشمیر پر بات کی جائے۔ پاکستان پر الزام تراشی کے بجائے ان کے ساتھ امن اور دوستی کی زبان میں گفتگو کی جائے۔ پاکستان کو بھی چاہیے کہ ہر سنجیدہ اقدام کو شک کی نگاہ سے دیکھنے کی روش ترک کرے۔ ہندوستان اپنی کشمیر پالیسی کو شیش خانوں میں بنانے کے بجائے یہاں کے زمینی حقائق کا ادارک کرنے کی خو اپنے اندر پیدا کریں۔ کشمیر حل کے ضمن میں علی الخصوص یہاں کی ایثار پیشہ نوجوان نسل کے جذبات کی حقیقی ترجمان قیادت کو اعتماد میں لیا جائے۔
بھارتی وزیر داخلہ کہتے ہیں کہ وہ بات چیت کے لیے تیار ہیں لیکن محض بیان برائے بیان نہیں بلکہ خلوص نیت کے ساتھ مسئلہ کشمیر حل کرنے کی جانب اگر کوئی ٹھوس پہل کی جاتی ہے تو قیادت کیوں کنی کترائے؟ دلی سرکار کو سمجھنا چاہیے کہ ماضی میں فوجی طاقت سے خوف پیدا کیا جا سکتا تھا مگر اب یہاں اس کا الٹا اثر ہورہا ہے۔ کشمیری قوم بے خوف ہورہی ہے۔
اگر وردی پوشوں کی جانب سے ظلم و جبر کا یہ بے قابو سلسلہ یونہی چلتا رہا تو پھر کشمیری عوام میں اس کا ردعمل کیا ہوگا؟ دلی اور اس کے مقامی حواریوں کو شاید اس کا اندازہ نہیں۔ بہتر یہی ہے کہ دلی بالغ نظری سے کام لے کر اپنی روایتی ضد اورہٹ دھرمی کو ترک کرے اور کشمیر حل کی پیش رفت پر فوری توجہ دے۔ اس وقت بھاجپا کے پاس مطلوبہ سیاسی طاقت موجود ہے مگر اس میں اول تو ہمت نہیں، دوم ووٹ بنک کی سیاست آڑے آرہی ہے۔ بایں ہمہ ایک بار سنگھ پریوار اس درد سر کا موثر اور قابل قبول سیاسی علاج و معالجہ کرتی ہے تو برصغیر میں امن اور خیر سگالی کی مشعلیں فروزاں ہونے میں دورائے نہیں۔ اس حوالے سے دلی کو کشمیری قوم سے زیادہ کوئیco-operative نہیں ملے گا مگر شرط یہ ہے کہ کشمیر حل اس کامطمحِ نظر ہو۔
بھارتی ذرائع ابلاغ کہتا ہے کہ پاکستان کشمیری نوجوانوں کو اکسا کر سڑکوں پر لے آتا ہے۔ بھارتی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کہتے ہیں کہ پاکستانی ایجنسی آئی ایس آئی کشمیری نوجوانوں کو بہکانے میں کامیاب ہورہی ہے۔ کشمیر کے پولیس چیف کہتے ہیں کہ پاکستان سوشل میڈیا کے ذریعے انکاؤنٹر والی جگہوں پر نوجوانوں کو جمع ہونے کی شہ دیتا ہے۔ پھر اس کا مطلب یہ ہوا ہے کہ پاکستان نے ہر سطح پر کشمیریوں کے دل جیت لیے ہیں اور کشمیر میں پاکستان کی کامیابی کے جھنڈے لہرائے جاتے ہیں۔ یہ اعتراف خود بھارتی پروپیگنڈا مشینری کر رہی ہے، پھر بھارت کا کشمیر میں بچتا ہی کیا ہے؟ سوائے فوجی طاقت کے بل بوتے پر جبری قبضہ

Comments

Popular posts from this blog

لندن کی کشمیر کانفرنس۔۔۔ ایس احمد پیرزادہ

پبلک سیفٹی ایکٹ اور نیشنل کانفرنس....ایس احمد پیرزادہ