نشاء سے اقراء تک طلبہ کا غصہ !

نشاء سے اقراء تک طلبہ کا غصہ !

ڈنڈے چھرے گولی سے کیاٹھنڈا ہوگا

ایس احمد پیرزادہ
اپریل کے مہینے میں وسطی کشمیر میں ضمنی پارلیمانی انتخابات میں رائے دہندگان کی شرح کم رہنے اور تشدد کی وجہ سے حکومت ہند کے الیکشن کمیشن نے جنوبی کشمیر کے ضمنی انتخابات مئی کے آ واخر تک ملتوی کردئے ہیں۔ ایک ماہ تک ضمنی انتخاب مؤخر کرنے کا مقصد بظاہریہ تھا کہ جس طرح وسطی کشمیر میں الیکشن کے روز نوجوانوں نے زبردست احتجاج کرکے ریاستی حکومت اور الیکشن کمیشن آف انڈیا کی حکمت عملی پر پانی پھیر دیا، کہیں اُسی طرح کی گھمبیر صورت حال جنوبی کشمیر میں پیدا نہ ہوجائے ، اس لیے ایک ماہ سے زیادہ عرصے تک وہاں کے ضمنی انتخابات ملتوی کردئے گئے اور اس دوران وہاں پر حالات کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے مختلف hawkishاقدامات عملائے جارہے ہیں ۔ اسی تناظر میں جنوبی کشمیر میں اول بڑے پیمانے پر گرفتاریاں عمل میں لائی گئیں اور پکڑ دھکڑ کے اس سلسلے میں مزید شدت لائی جارہی ہے ۔ اس کی ایک کڑی کے طور پلوامہ کے ڈگری کالج میں زیر تعلیم کئی طلبہ کو گرفتار کرنے کے لیے پولیس ، سی آرپی ایف اورآرمی نے 15 ؍اپریل کو کالج پر دھاوا بول دیا۔ وردی پوشوں نے تمام قواعد و ضوابط کو بالائے طاق رکھتے ہوئے دن دہاڑے کالج پر چڑھائی کی ۔ عینی شایدین کا کہنا ہے کہ کالج پرنسپل نے پولیس افسروں کی کافی منت سماجت کی کہ وہ کالج میں داخل نہ ہوجائیں لیکن پولیس نے اُن کی ایک نہ مانی اور وہ کالج میں بزور بازوداخل ہوگئے۔ کالج میں تین ہزار کے قریب طلبہ و طالبات زیر تعلیم ہیں۔ اُنہوں نے پولیس کارروائی کے خلاف اسی دم احتجاج شروع کیا تو پھر وردی پوش حسب عادت آپے سے باہر ہوگئے اور کالج احاطے کے اندر اندھا دھند شلنگ کرکے درجنوں طلباء و طالبات کو زخمی کردیا۔ پولیس کارروائی کی افسوس ناک خبر وادی کشمیر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور عوام میں بڑے پیمانے پر غم و غصہ پھیل گیا۔ کشمیر یونیورسٹی اسٹوڈنٹ یونین(KUSU) اور اسلامی جمعیت طلبہ نے طلباء کے خلاف پولیس کی اس کارروائی کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اِس اقدام کو طلبہ مخالف قرار دیا۔ کشمیر یونیورسٹی اسٹوڈنٹس یونین نے 17 ؍اپریل کو تمام کالجوں اور یونیورسٹیز میں اس بربریت کے خلاف پُر امن احتجاج تک کی کال دے دی۔ کال پر عمل پیرا ہوکر کپواڑہ سے رام بن تک تمام یونیورسٹیوں ، کالجوں ، ہائراسکینڈری اور کہیں کہیں ہائی اور مڈل ا سکول طلباء  وطالبات نے جا بجا احتجاجی جلوس نکالے۔ حسب عادت پولیس طلباء کے ساتھ اُلجھ گئی اور اُن پر شلنگ کی گئی جس کے نتیجے میں ایک سو کے قریب طالب علم شدید زخمی ہوگئے۔ وردی پوشوں نے طالبات کو بھی نہیں بخشا اور اُن پر اندھا دھند انداز سے شلنگ کی گئی۔ کولگام ڈگری کالج میں کلاس رومز کے اندر شلنگ کی گئی جس سے متعدد طالبات کو بے ہوشی کی حالت میں ہسپتالوں میں داخل کرایا گیا۔ شہر خاص سرینگر نواکدل کالج کی ایک طالبہ اقراء بشیر کے سرپر سی آرپی ایف اہلکار کی جانب سے مارے گئے ایک پتھر نے اُن کے سر کی ہڈی کو ہی ٹوڑ دیا اور وہ معصوم سی طالبہ ایس ایم ایچ میں زیر علاج ہیں۔ ایک اور طالبہ پر کنچہ چلا کرا سے لہولہاں کیا گیا۔
 اس میں دورائے نہیں کہ طلباء سے قوموں کا مستقبل وابستہ ہوتا ہے۔ ان ہی کی آنکھوں سے قومیں اپنے روشن مستقبل کا خواب دیکھتی ہیں۔ نوجوان اور طلباء کسی بھی سماج میں قیمتی سرمایے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ہر کسی با شعور سماج میں نو خیز کلیوں پر مشتمل یہ کا رکشا طبقہ لاڈلا اور راج دُلاراہوتا ہے ۔جس طرح والدین اپنے نوجوان بچوں کے تمام ناز نخروں کو برداشت کرتے ہیں اِسی طرح قومیں بھی اپنی نسل نو کی بہت ساری کوتاہیوں اور خامیوں کو نظر انداز کرکے اُنہیں کھل کر جینے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔دنیا کی تمام قوموں اور قبیلوںمیں نوجوانوں کی ہر چھوٹی بڑی خواہش کا احترام کیا جاتا ہے، اُنہیں اپنے حساب سے جینے کے لیے موقع فراہم کیا جاتا ہے، اُن کے حقوق کی سختی کے ساتھ پاسداری کی جاتی ہے۔ البتہ دنیا کے نقشے پرکشمیری نام کی ایک ایسی بدنصیب قوم ہے جس کے نوجوان نسل کو گاجر مولی کی طرح کاٹا جارہا ہے، اُن کی زندگی اجیرن بنادی جارہی ہے اور اُن کے حقوق پر ہر مرحلے پر شب خون مارا جاتا ہے۔اُنہیں کھلی فضا میں سانس لینے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے، اُنہیں بالغ نظر ہونے سے پہلے ہی قومی مصائب کے ازالے میں اپنا رول نبھانے کے لیے مجبور کیا جارہا ہے۔ ان حقائق کی روشنی میں دیکھئے توکالج اور اسکولی طلبہ پر 17؍ اپریل کی پولیس کارروائی مہذب دنیا کی ’’جمہوری قدروں‘‘ پر بدنما داغ ہے۔ ایک جانب جمہوری دنیا نہتے اور امن پسند عوام کو اپنی بات منوانے کے لیے احتجاج کا حق دیتی ہے، دوسری جانب جمہوریت کا دعویٰ دار ملک بھارت کشمیر میں پُر امن احتجاجی جلسوں اور جلوسوں پر طاقت کا بے جا استعمال کرکے جمہوریت کی مٹی پلید کررہا ہے۔ بشری حقوق کی ان سنگین خلاف ورزیوں پر نہ ہی یہاں وردی پوشوں کو کوئی روکنے والا ہے اور نہ ہی ٹوکنے والا۔المیہ یہ کہ کشمیر کی تباہی پر سرینگر سے دلی تک پھیلا حکمران ٹولہ ٹس سے مس نہیں ہورہا ہے۔ اسے کشمیری نوجوان نسل کے خلاف شروع کیے گئے قتل و غارت گری سے کوئی فرق نہیں پڑتا بلکہ بی جے پی کے کئی لیڈران برملا اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ کشمیری نوجوانوں کا علاج صرف گولیاں ہیں۔ سبرامنیم سوامی جیسے بیمار ذہن انسان تو کشمیریوں کو ریاست بدر کرکے ٹامل ناڈو کے رفیوجی کیمپوں میں رکھنے تک کے صلاح مشورے دے رہے ہیں۔بی جے پی کا ایک وزیر گنگا جی کہتا ہے کہ ’’لاتوں کے بھوت باتوں سے کہاں ماننے والے ہیں اس لیے ان کا علاج گولیوں سے ہی کیا جاسکتا ہے۔‘‘ بی جے پی کے قومی جنرل سیکریٹری رام مادھو ’’محبت او رجنگ‘‘ میں سب کچھ جائز ہونے کی آڑ میں کشمیریوں کی نسل کشی کو جائز ٹھہرا رہے ہیں۔جب اعلیٰ سیاسی سطح پرسوچ ایک پوری قوم کا صفایا کرنے کی ہو، جب دنیا کی دوسری بڑی فوج ایک چھوٹی قوم کے خلاف اعلان جنگ کرچکی ہو، جب سیاست دان اور فوجی جرنیلوں کے ساتھ ساتھ ملک کا اکثریتی طبقہ کشمیریوں کے خلاف جاری ظلم و ستم کی حمایت میں ایک ہی صفحے پر جمع ہوں ،تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سڑکوں پر’’ خدائی صحیفہ والے اختیارات‘‘ کے حامل وردی پوشوں کا رویہ عام انسان کے ساتھ کیسا ہوگا ؟؟؟
 وادی بھر میںاسٹوڈنٹ کمیونٹی کے خلاف پولیس کارروائی کا غم ناک پہلو یہ رہاکہ طلباء کے ساتھ ساتھ طالبات کے خلاف بھی وردی پوشوں نے شدت پسندانہ (یابزدلانہ)رویہ  اختیار کیا ہے۔ زنانہ کالج سرینگر کے اندر ٹیئر گیس شلنگ کرنے کا معاملہ ہو یا پھر نواکدل میں معصوم طالبہ کے سر پر پتھر مارنے کی کارروائی یا پھر کولگام اورسرینگر کے مختلف علاقوں میں معصوم طالبات پر طاقت کا بے جا استعمال ، ہر جگہ یہی محسوس کیا گیا کہ یہاں اب پورا اسٹیٹ اسٹرکچر تکلف بر طرف کر کے عدم برداشت کی آمر یت پر گامزن ہے۔ وردی پوش معمولی احتجاج پر بھی آگ بگولہ ہوجاتے ہیں ، ان کا رویہ ایسا ہوتا ہے جیسے اُنہیں لوگوں کو مارنے، نابینا کر نے ، جسمانی طور معذور کر نے، جلیوں میں بھر نے اور اُن کی تذلیلیں کرنے کا ٹھیکہ ملا ہوا ہے۔کوئی بھی قوم سب کچھ برداشت کرسکتی ہے لیکن اپنی ماؤں او ربہنوں کی تذلیل اور مار پیٹ ناقابل برداشت ہوتی ہے۔ بات جب مسلم قوم کی ہو تو پھر عزت مآب خواتین کی آبرو جان سے بھی زیادہ مقدس قرار پاتی ہے۔ یہ ہماری دُکھتی رگ ہے اور جان بوجھ کر مرکزی و ریاستی حکومت کے مسلح کارندے ہماری اس اِسی رگ حمیت کو چھیڑ رہے ہیں۔ایسا محسو س ہورہا ہے کہ ہماری نوجوان نسلوں کو جان بوجھ کر یہ احساس دلایا جارہا ہے کہ وہ غلامی کی زنجیروں میں مقید ہیں ۔ اس طرح کا گھناؤنا کھیلنے والوں کو اس بات کا احساس نہیں ہے کہ وہ اپنے جارحانہ طرز عمل سے پوری کشمیری قوم کومشتعل کرکے اسے ایک ایسے مقام پر لاکھڑا کر ر ہے ہیں جہاں اس کے برداشت کی سر حد ختم ہوجاتی ہے اور پھر توقع یہ رکھی جاتی ہے کہ یہاں کی مجموعی آبادی شانت رہے گی ۔ کب تلک کشمیری قوم آنکھوں سے محروم ہورہی انشاء جیسی بیٹیوں کو دیکھتی رہے گی ؟ کب تک اقراء صدیق کی مظلومیت پر مشتعل لوگ خاموشی اختیار کریں گے ؟ کب تک زخم رسیدہ لوگ معصوم خوشبو کے ماتھے سے ٹپکنے والے خون کے جھر نے کو نظر انداز کرتے رہیں گے؟ آخر قومی و ملی غیرت نام کی کوئی چیز بھی ہوتی ہے! کبھی نہ کبھی ضمیر انسان کو ضرور جھنجھوڑ کررکھ دیتا ہے اور مخالف سمیت کے پالیسی سازوں کو شاید معلوم نہیں کہ کشمیر کی مجموعی آبادی کا ضمیر زندہ ہے۔بھلے ہی ہمارے پاس طاقت نہ ہو، ہماری پشت پر کوئی بڑی فوج نہ ہو، ہمارے پاس و سائل نہ ہو، عالمی ادارے اور عالمی طاقتیں ہماری آہ وفغان کی معاشی وجوہ سے اَن سنی کریں لیکن اس قوم کے سر پر خدائے ذوالجلال کا سایہ توہے، یہ قوم حق کے سائڈ پر کھڑی ہے ، ستائیس سال سے خاک اور خون میں لتھڑی قوم کے عزائم بلند ہیں اور ہمارا اس بات پر غیر متزلزل یقین ہے کہ ایک نہ ایک دن ضرور ہماری قربانیاں رنگ لائیں گی اور کامیابی کا سورج کشمیر میں طلوع ہو کر رہے گا۔پی ڈی پی اور این سی نے مل کر لاکھ کوششیں کیں کہ اپنے ذاتی اغراض و مقاصد اور حقیر مفادات کے لیے کشمیر کازکو نیلام کریں مگر وہ زیادہ دیر تک عوام کو دبانہ سکے اور وہ وقت دور نہیں جب ان کا سیاسی کھل ختم ہوگا۔ حالیہ الیکشن نے یہ نوشتہ ٔ دیوار ان پر واضح کردیا۔
اربابِ اقتدار یہاں اپنا ہر داؤ کھیل چکی ہے، لالچیں دے کر انسانوں کو خریدنے کی چال بھی وہ چلے ، بہلانے پھسلانے کا طریقہ بھی اختیار کرگئے، سبز باغ بھی دکھا چکے ہیں اور آخری چارۂ کار کے طور فوجی طاقت وبربریت بھی پوری شدت کے ساتھ استعمال کرگئے لیکن نتائج کیا برآمد ہوئے؟ اب یہاں اُن کے لیے بچا ہی کیا ہے۔ فوج کے ذریعے سے زمین پر کنٹرول اور عالمی طاقتوں کی مصلحت پسندی کے تحت اپنا وزن دلی کے پلڑے میں ڈال دینے سے ہی کشمیر میں دلی اور اُن کے یومیہ مزدور یہاں راج تاج کررہے ہیں۔ جس دن مطلبی دنیا نے ان سے آنکھیں پھیر لیں ، اُس دن سمجھ لیجئے کشمیریوں کی فتح کا جھنڈا لہرایا جائے گا اور ہاں وقت بدلنے میں کوئی دیر نہیں لگتی۔ جو بڑی بڑی طاقتیں آج کشمیر میں جبری تشددپر خاموشی اختیار کئے ہوئی ہیں جب اُن کے مفادات دلی سے ختم ہوجائیں گے تووہیں طاقتیں مخالفت میں پیش پیش ہوں گی۔ ویسے بھی بھارتی حکومت کا شدت پسندانہ طرز عمل یہاںاُلٹا اثر دکھارہا ہے، یہاں زندگی کے مختلف شعبوں سے وابستہ لوگ اپنے آپ کو غیر محفوظ تصور کررہے ہیں اور کل تک جو تحریک حق خود ارادیت کے حوالے سے تذبذب کاشکار تھے، آج وہ جدوجہد کو ہی نجات کی واحد راہ سمجھتے ہیں۔منفی پروپیگنڈا کرنے سے، جیلیں بھرنے سے، سوشل میڈیا پر قدغن عائد کرنے سے، گولیوں  اورپیلٹ چھروں سے دلوں پر قبضہ نہیں کیا جاسکتا ہے بلکہ اس طرز عمل سے اس بات پر یقین اور ایمان کامل ہوجاتا ہے کہ وہ اور ہم ایک قوم نہیں ہیں، ایک ملک کے باشندے نہیں ہیں، ہم الگ ہیں اور وہ الگ ہیں، اُن کی تہذیب الگ ہے ہماری تہذیب الگ ہے، اُن کی شناخت الگ ہے اور ہماری شناخت الگ ہے۔ اُن کی ہمارے ساتھ کوئی مشابہت نہیں ہے اور ہماری اُن کے ساتھ کوئی یکسانیت نہیں ہے۔ یہ یقین اور ایمان ہی ہمیں اپنے منزل مقصود تک پہنچانے تک ثابت قدمی کے ساتھ جمے رہنے کا حوصلہ عطا کرتا رہے گا۔
موجودہ غم ناک صورت حال کو دیکھتے ہوئے ہماری نوجوان نسل بالخصوص طلباء و طالبات پر دوہری ذمہ داریاں عائد ہوجاتی ہیں۔ ایک وہ کسی سازش کا حصہ نہ بنیں اور اغیار کے ڈھنڈورچیو ں کے جھانسے میں نہ آئیں ، دوم وہ اپنی تعلیم کیرئیر کو اونچائی پر لے جانے کے لیے سخت محنت کریں، کیونکہ اعلیٰ تعلیم بھی ایک راستہ ہے جو کشمیر کاز کو بہترین انداز سے آگے بڑھانے میں معاون و مددگار ثابت ہورہی ہے۔آج کشمیریوں کی تحریک حق خود ارادیت کی گونج جس طرح چاروں اطراف میں سنی جارہی ہے، اُس میں قربانیوں کے ساتھ ساتھ ذہنی بلوغیت کے حوالے سے قوم میں تعلیمی شرح کا بڑھ جانا بھی ایک اہم فیکٹر ہے۔اس لیے ہماری نوجوان نسل کو اپنی سخت محنت کے ذریعے سے ثابت کرنا ہے کہ وہ اپنے قومی کاز کے سلسلے میں نہ صرف سنجیدہ ہے بلکہ اس کے لیے سخت محنت کر نا بھی جانتی ہے۔
رابطہ9797761908

Comments

Popular posts from this blog

لندن کی کشمیر کانفرنس۔۔۔ ایس احمد پیرزادہ

پبلک سیفٹی ایکٹ اور نیشنل کانفرنس....ایس احمد پیرزادہ