سارا کشمیر انسانی ڈھال

 ساراکشمیر انسانی ڈھال

سچ نے پھاڑا جھوٹ کا 

ایس احمد پیرزادہ
 کشمیری قوم کن بلاؤں ، ابتلاؤں، مظالم اور مصائب کی ماری ہوئی ہے ،اسے کس طرح غاصب قوتیں بڑی دھٹائی سے پامال کر رہی ہیں ، انسانی حقوق کا گلا گھونٹھنے میں یہاں کیا کیا جدت طرازیاںاختیار کی جارہی ہیں، قوم کا مزاحمتی جذبہ کچلنے کے لئے فوج اور پولیس کیا کیا ہیبت ناک نسخے بروئے کار لائے جارہی ہے ، اس کی ایک معمولی جھلک ان دو منہ بولتے ویڈیو زنے دنیا کو گز شتہ دن دکھادی جن سے پوری دنیا میں کشمیر یوں کی زبوں حالی ہی نہیں بلکہ بھارتی جمہوریت کا اصل چہرہ بھی منعکس ہوتا ہے۔ ایک ویڈیو تصویروں کی زبانی بتاتا ہے کہ بیروہ کشمیر کے رہائشی ایک نوجوان فاروق احمد ڈار کو فوجیوں نے اپنی جیپ سے باندھ کر اسے ا یک انسانی ڈھال کی صورت میں گاؤں گاؤں گھمایا گیا اور عوام کو پبلک ایڈرس سسٹم کے ذریعے دھمکیاں دی گئیں کہ اگر کسی نے وردی پوشوں پر ایک بھی پتھر مارا تو اس کا حشر اس نوجوان جیسا ہوگا ۔ ایک اور ویڈیو یہ دکھاتا ہے کہ ضمنی انتخاب کے موقع پر کس طرح ایک نیم فوجی اہل کار مظاہرہ کر رہے ایک کشمیری نوجوان کی چھاتی میں گولی پیوست کر رہاہے ۔ سچ یہ ہے کہ یہ دو ویڈیوز ا س زمینی حقیقت کا عشر عشیر بھی نہیں دکھاتے جس کا سامنا بے نوا کشمیری قوم بہ حیثیت مجموعی کر رہی ہے ۔ یہ دنیا کے لئے انہونی چیز ہوسکتی ہے مگر کشمیر میں یہ پچھلے ستائیس برس سے ہوتا چلا آرہاہے ۔ 
 یہ ا یک کھلا راز ہے کہ۹؍اپریل کو وسط کشمیر کی پارلیمانی نشست کے ضمنی انتخابات کے بعد پھر سے واضح ہوگیا کہ جمہوریت کا جو مکھوٹا دنیا کی سب سے بڑے ’’جمہوری ملک‘‘ نے پہن رکھا ہے، وہ کشمیر میں اندر سے نہ صرف کھوکھلا ہے بلکہ نام نہاد جمہوریت کی یہ ساری عمارت یہاں صیہونیت اور ہٹلریت ،جھوٹ، فریب اور منفی پروپیگنڈے سمیت ظلم و جبر کے بد ترین ہتھکنڈوں پر استوار ہے۔ عالم دنیا یہ بھی جانتی ہے کہ ۰۱۶ ۲ء میں وادی کے شہر و دیہات میں برہان مظفر وانی کے جان بحق ہونے پر سوگوار وں نے واویلا کیا توسورماؤں نے چنگیزیت اوربربریت کے ریکارڈ توڑکرقوم کے ایک سو سے زائد نوجوانوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ابدی نیند سلا دیا، پندرہ ہزار کے قریب لوگوں کو گولیوں اور پیلٹ چھروں سے چھلنی کردیا ،غم زدہ خطے میں سولہ ہزار کے قریب نوجوانوں، بزرگوں اور بچوں کو جیلوں کے اندر ٹھونس دیا ۔۔۔ اور یہ کوئی باؤلا ہی ہوگا جو ظلم وجبر کی ا ٓندھیوں میں مست ملک سے ، اس کے حکومتی کر تا دھرتاؤں سے، اس کے نابینا میڈیا سے ، اس کے ا داکاروں ، کھلاڑیوں یا دیگر مشہور شخصیتوں سے یہ اُمید رکھے کہ وہ کشمیر کے بارے میں سچ سننے یا سچ کہنے کی اخلاقی جرأت کا مظاہرہ کریں گے ۔ ایسے میں یہ بھی احمقانہ خیال ہوگا کہ مجروح دل کشمیر یوں کوکسی نام نہاد جمہوری عمل سے بہلاپھسلا کر اپنے قاتلوں کو ووٹ دے کر اپنا گلا کاٹنے کا اختیار انہیںدینے پر مائل کیا جاسکے گا،کشمیری اپنی تمام قربانیاں رائیگان ہونے دیں گے، اور وہ یہ بھی جانتے ہوں کے کرسی کے پجاریوں نے الیکشن کا اعلان کرواکے گویا کشمیری قوم کے ہرے زخموں پر نمک پاشی کرنے کی دانستہ کوشش کی ہے۔ بہر صورت بھارتی ہوم منسٹری، الیکشن کمیشن اور ریاستی حکومت گزشتہ برس کے عوامی احتجاج کے ردعمل میں ضمنی انتخابات منعقد کرواکے پلٹ وار کرنا چاہتے تھے تاکہ لوگوں کو بہلا پھسلاکر تحریک حق خودارادیت کو نہ صرف بدنام کیا جائے بلکہ اس کے لیے قربانیاں دینے والی قوم کا مورال بھی کم کیا جاسکے لیکن اِنہیں معلوم نہیں تھا، یہ ۲۰۰۸ء اور ۰۱۴ ۲کا زمانہ نہیں ہے۔ گزشتہ کئی برسوںسے جہلم میں پانی کے ساتھ ساتھ بہت سارا خون بھی بہا ہے۔ حالات نے کشمیری عوام کی ذہنوں میں یکسوئی اور دور اندیشی پیدا کی ہے۔سرکاری ایجنسیوں کے تمام تر اندازے اور تخمینے ہوا میں تحلیل ہوئے جب الیکشن کے دوران سرینگر سے گاندربل او ربڈگام تک لوگوں نے زبردست انداز میں اپنے غم و غصے کا اظہار کیا۔ پولنگ بوتوں کے سامنے احتجاجی مظاہرے کیے۔ ایک ہی دن میںحواس باختہ وردی پوشوں نے بوکھلاہٹ میں اپنی بندوقوں کے دھانے کھول کر 8 ؍معصوم نوجوانوں کو جان بحق کردیا جب کہ 200 کو زخمی کردیا گیا۔ 24 نوجوانوں کی پیلٹ کے چھروں سے بینائی ہی متاثر ہوئی ہے۔چند دنوں کے بعد دلہن بننے والی گاندربل کی ایک لڑکی کو اُس کے گھر میں گھس کر وردی پوشوں نے گولی مار کرشدید زخمی کردیااور اُن کے والدین کے ارمانوں پر پانی پھیر دیا۔ظلم و جبر اور زیادتیوں کے باوجود ووٹوں کی شرح چھ فیصد سے زیادہ نہیں بڑھ سکی۔اپنی خفت مٹانے کے لیے وقت کے حکمرانوں نے جنوبی کشمیر کے انتخابات ملتوی کردئے جبکہ بڈگام کے 38 پولنگ مراکز پر 13 اپریل کو از سر نو انتخابات کرائے گئے۔دوبارہ کیے جانے والی پولنگ میں شرح دو فیصد رہی ہے ۔ کشمیر میں ہونے والے انتخابات کی تاریخ میں یہ سب سے کم شرح ہے۔ ضمنی انتخابات میں گراونڈ زیروپر کیا کچھ ہورہا ہے اس بات سے دنیا کو بے خبر رکھنے کے لیے انٹرنٹ کو بند کردیا گیا۔لیکن کشمیر کی نسل نو سائنس اور ٹیکنالوجی کو استعمال میں لاکر پل پل کی صورتحال کو اپنے موبائل کیمروں میں قید کرتی رہی اور جوں ہی انٹرنٹ پر سے پابندی ہٹائی گئی الیکشن والے علاقوں میں نوجوانوں نے 9 ؍اپریل کی صورتحال پر مبنی فوٹوز اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر شیئر کردئے۔ ان ویڈوزکے ذریعہ جہاں الیکشن کے خلاف عوامی غم غصہ دنیا پر ظاہر ہوا وہیں مختلف علاقوں میں فورسز کی ظلم و زیادتیوں سے بھی عالم انسانیت کو آشنائی ہوئی۔
شوشل میڈیا کی زینت بننے والے درجنوں ویڈوز میں سے بھارتی میڈیا نے ایک ویڈو کا انتخاب کرکے اُس میں اپنے حساب سے ایڈیٹنگ کرکے جس زہر اور نفرت کو پھیلانے کی دانستہ کوشش کی اُسے دیکھ کر یہی کہا جاسکتا ہے کہ آج کے دور میں فرقہ پرستی، نفرت ، عناد اور بغض و حسد کی ذہنیت سے لیس افراد کے ہاتھوں میں ہی بھارت کی باگ ڈور آچکی ہے اور یہ ملک شدت پسندی کے تمام تر ریکارڈ ٹوڑنے کی جانب بڑھ رہا ہے۔جس ویڈیو کے ذریعے بھارتی میڈیااور حکومتی اداروں کے ساتھ ساتھ چند کرکٹ کھیلاڑیوں اور فلمی مسخروں نے واویلا کر کے کشمیریوں کا قتل عام کرنے کی باتیں کی ہیں اُس ویڈیو کو اگر یہ لوگ نفرت کی عینک اُتار کر دیکھ لیتے تو اُس میں بھی نفرت سے زیادہ کشمیریوں کی انسان دوستی ہی جھلکتی نظر آتی ہے۔ چند ایک نوجوانوں کو چھوڑ کر اکثر نوجوان سی آر پی ایف کے اُن اہلکاروں کو بڑے ہی مہذب طریقے سے راستہ دکھا رہے تھے۔ ذمہ دار نوجوان جوشیلانوجوانوں کو ٹوکتے ہوئے دیکھائی دے رہے تھے ۔ اس کے برعکس بھارتی میڈیا کو وہ بہت سارے ویڈیوز نظر کیوں نہیں آئے ہیں جن میں ’’مہان دیش‘‘ کی ’’مہذب‘‘ فوج ایک راہ گیر نوجوان کو گاڑی کے ساتھ باندھ کر اُسے انسانی ڈھال بناتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ میڈیا اور بھارتی تجزیہ نگاروں اور ٹوٹیر نوٹنکیوں کو وہ ویڈیو کیوں دکھائی نہیں دیا جس میں ایک سی آر پی ایف اہلکار محض پانچ یا چھ گز کی دوری سے ایک کمسن نوجوان کو راست سر پر گولی مار کر جان بحق کردیتا ہے۔بھارتی پروپیگنڈا مشینری کے کل پرزوں اور اُن کے مقامی چمچوں کی آنکھوں کو وہ ویڈیوز نظروں سے کیوں نہیں گزرے جن میں ایک آٹھویں جماعت کے طالب علم کو دس پندرہ فورسز اہلکار پکڑ کر ڈنڈوں او ربندوق بٹھوں سے زد کوب کررہے تھے۔المیہ یہ ہے وزیر اعلیٰ سے لے کر پولیس کے اعلیٰ آفسران تک فورسز اہلکاروں کی حقوق بشری کی شرمناک خلاف ورزیوں پر اُنہیں اپنے بیانات سے شاباشی دیتے ہیں۔ دلی کے ایک اخبار نے وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی کا یہ بیان اپنی ایک رپورٹ میں شائع کردیا ہے کہ’’ فوجیوں کا نوجوان کو گاڑی سے باندھ کر ہیومن شیلڈ بنانا صحیح عمل تھا ۔‘‘اس ویڈیو پر عمر عبداللہ کے ٹویٹ پر دہشت گرد انہ ذہنیت رکھنے والے ہندوستان کے بڑے میڈیا ہاوسز سے وابستہ نامی گرامی صحافیوں نے کہا کہ کشمیریوں کو ہیومن شیلڈ بنانے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔حالانکہ مہذب دنیا کے قوانین میں انسان کو ڈھال بنانا سنگین ترین جنگی جرائم میں شامل ہے او ریہ وحشیانہ جرم یہاں نوے کی دہائی سے ہی وردی پوشوں کا معمول رہا ہے۔ دلی کے حکمرانوں ،محبوبہ مفتی  اور ان کے پیش روؤںکی جانب سے انسانیت ، جمہوریت اور کشمیریت جیسی بے مطلب اصطلاحات کی تکرار کر نے سے عملی دنیا میں انسانیت اور جمہوریت کی مثالیں قائم نہیں ہوتی ہیں جب کہ یہ لوگ نہتے کشمیریوں کو انسانی ڈھال بابنانے پر اپنے مہربانوں کی شاباشی دیتے ہوں ۔ اس طرح کے دوغلے پن سے ان کی اصلیت ہر آنے والے دن کے ساتھ پوری دنیا کے سامنے عیاں ہوجاتی ہے، اب کابہروپ ظاہر ہوجاتا ہے۔ مگر مچھ کے آنسو بہانے اور ڈرامہ بازیاں کرنے سے زیادہ دیر تک ایک مظلوم قوم کو فریب نہیں دیا جاسکتا ہے۔
 کشمیر میںزمینی حالات اور حقائق سے کوئی سبق سیکھ لینے کے بجائے بھارتی حکمرانوں کا گھمنڈ اور طاقت کا نشہ اُنہیں حقیقت حال کا ادراک ہونے نہیں دیتا ہے۔ بھارتی ہوم منسٹر راجناتھ سنگھ سینہ ٹھونک کرکہتے ہیں کہ وہ ایک سال کے اندر کشمیر کے حالات کو معمول پر لائیں گے۔ یہ معمہ کس طرح کریں گے، اس کا اندازہ اسی بیان کے اگلے حصے سے بخوبی ہوجاتا ہے جس میں وہ فوجی سربراہ بپن راوت کے بیان کی تائیدکرتے ہیں کہ سنگ بازی اور نعرہ بازی کرنے اور سبزہلالی پرچم لہرانے والوں کو جنگجو تصور کیا جائے گا یعنی اُن کا مقابلہ بالکل اُسی طرح کیا جائے گا جس طرح ہتھیاروں سے لیس عسکریت پسندوںکے ساتھ کیا جاتا ہے۔ جنرل بپن راوت کے اشتعال انگیزبیان کے بعد سے تاحال دو درجن کے قریب عام اور نہتے نوجوانوں کو گولی مار کر ابدی نیند سلا دیا جاچکاہے۔ غالباًیہی وہ جادوئی فارمولہ ہے جس کے ذریعے سے ستر سال سے حل طلب چلے آرہے مسئلے کو وزیر داخلہ  ایک سال حل میں ہو نے کی پیش گوئی فرمارہے ہیں کہ اس دوران پوری کشمیری قوم کوہیومن شیلڈ بناکر قبرستان کی سی خاموشی قائم کی جائے گی۔ حد یہ ہے کہ کشمیر کے بارے میں جھوٹی دیش بھگتی دکھانا بھی ایک نفع بخش دھندا بنا ہو اہے۔ یہ وجہ ہے کہ گوتم گھمبیر جیسے کند ذہن کرکٹ کھیلاڑی بھی اپنی حکومت کو مشورہ دے رہے ہیں کہ کشمیر میں آزادی مانگنے والوں کا قتل عام کیا جائے۔بھارتی میڈیا بھی اس کے لیے ماحول سازگار اور زمیں ہموار کررہی ہے۔ شاید کشمیریوں کو طاقت کے ذریعے سے دبانے والے لوگوں کو اس بات کا اندازہ نہیں ہے کہ کشمیری قوم کا تعلق کس ملت سے ہے، اُن کا عقیدہ کیا ہے ۔ اُمت مسلمہ سے تعلق رکھنے والی اس قوم کا ریکارڈ دنیا کی تاریخی کتب میں موجود ہے کہ یہ ہر زمانے میں گر کر سنبھلنے والی قوم ہے، یہ راکھ میں سے چنگاری بن کر کھڑا ہونے والے لوگ ہیں، یہ قربانیوں سے اپنے وطن کی سرزمینوں کو اس انداز سے سیراب کرتے ہیں کہ اُن سے جنم لینے والی نسلوں میں پھر طارق بن زیاد اور محمد بن قاسم جیسے لوگ پیدا ہوجاتے ہیں۔مسلم ملت کو مٹانے کا خواب دیکھنے والوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ یہ ملت مٹنے کے لیے نہیں بلکہ دنیا میں اپنی بقاء کی جنگ جیتنے کے لیے وجود میں آئی ہے۔ گوتم گھمبیر اور انوپم کھیر جیسی پست سوچ رکھنے والے فرقہ پرست لوگوں کوسستی شہرت پانے کے لیے اُنہیںکسی مظلوم قوم کی توہین کرنے کا کوئی حق نہیں ہے ۔ ہمیں ہمارے وطن سے چلے جانے کا مشورہ دینے والے ان عقل کے اندھوں کو آج تک کسی نے تاریخ کا صحیح سبق شاید پڑھایاہی نہیں ہے۔ اُنہیں معلوم ہی نہیں ہے کہ کشمیر پر ہندوستان نے اپنا تسلط قائم کیا ہوا ہے۔ یہ متنازعہ خطہ ہے اور اس پر یہاںکے باشندوں کا حق ہے۔ یہ جو یہاں آپ کے ملک کی دس لاکھ فوج ہے اور اس پر مستزاد لاکھوں غیرریاستی مزدور اور بھکاریوں کے علاوہ ہر سال آنے والے لاکھوں یاتری ہمارے حقوق کو سلب کررہے ہیں۔ اُنہیں یہاں سے جانا چاہیے نہ کہ یہاں کے مقامی باشندوں کو کوئی جانے کے لیے کہے۔
دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ عوام کے ساتھ برسر جنگ افواج نے کبھی فتح نہیں پائی ہے۔ وقتی طور عوام کو سامان ِ حرب و ضرب سے دبایا جاسکتا ہے، اُنہیں ہراساں کیا جاسکتا ہے، اُن کے خلاف طاقت کا استعمال کیا جاسکتا ہے، حقائق سے متعلق دنیا کو گمراہ بھی کیا جاسکتا ہے مگر بالآخر عوام او ررائے عامہ کی ہی فتح ہوجاتی ہے۔دلی میں مودی سرکار ، راجناتھ سنگھ جیسے اُن کے وزیر، جھوٹ کاپر ستار ہندوستانی میڈیا مل کر کشمیریوں کو بدنام کرنے کے لاکھ جتن کریں، گوتم گھمبیر اور سستی شہرت کے حریص لوگ حق خود ارادیت کی مانگ کرنے والوں کے خلاف کتنے ہی اشتعال انگیز بیان کیوں نہ کریں، صداقت یہی ہے کہ کشمیر میں وردی پوش فورسز اہلکار جنگی جرائم میں ملوث ہیں۔ بے پناہ اختیارات کے حامل فوجی یہاں لوگوں کو مارنا اپنا حق سمجھتے ہیں، یہاں کے حکمرانوں اور دلی میں بیٹھے اُن کے ماسٹرز کشمیری عوام کو بھیڑ بکریوں سے زیادہ وقعت نہیں دے رہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جو کچھ ہندوستان کی سرکاریں سوچیں ، اُن کی فوج اور میڈیا کرے، یہاں کام کرنے والے اُن کے کٹھ پتلی سوچیں او رکر،یںوہی زمینی سچ کہلائے گا، نہیں ایسا ممکن ہی نہیں ۔ سچائی کیا ہے وہ کشمیری قوم نے ضمنی الیکشن کے فقید المثال بائیکاٹ سے سامنے آجاتی ہے، سچائی سینوں پر گولیاں کھانے والے جوانوں کی قربانیوں سے واضح ہوجاتی ہے۔ دیر سویر طاقت کے نشہ میں بدمست لوگوں کے بشمول عالم انسانیت کو بھی حقیقت پسند بن کرکشمیری عوام کو اپنے سلب شدہ بنیادی حقوق دینے پڑیں گے۔میڈیا پر پروپیگنڈا اور واویلا کرنے والے اس خیال خام اور زعم میں مبتلا نہ رہیں کہ اُن کے چیخنے چلانے سے برسر جدوجہد قوم خوف زدہ ہوجائے گی یا دب جائے گی، حق یہ ہے نہتے انسانوں کو اسرائیلی طرز پر انسانی ڈھا  بنانے کی اسی بزدلانہ پالیسی سے کشمیر کے حوالے سے انڈیا کی بوکھلاہٹ دنیا پر آشکارا ہو جائے گی جو کشمیر کازکی تائید و حمایت کو عالمی برادری میں مزید تقویت کی موجب بنے گی۔

Comments

Popular posts from this blog

لندن کی کشمیر کانفرنس۔۔۔ ایس احمد پیرزادہ

پبلک سیفٹی ایکٹ اور نیشنل کانفرنس....ایس احمد پیرزادہ