ہند پاک تنازعہ.... سزا کشمیریوں کو مل رہی ہے

ہند پاک تنازعہ.... سزا کشمیریوں کو مل رہی ہے

٭.... ایس احمد پیرزادہ
ہندوستان اور پاکستان پر جب بھی مسئلہ کشمیر کے حوالے سے بیرون دباو ¿ بڑھنے لگتا ہے تو اندرون خانہ جان بوجھ کر حالات ایسے پیدا کیے جاتے ہیں جن سے دلی سرکار کے لیے مذاکراتی عمل سے فرار اختیار کرنے کا موقع ہاتھ آجاتا ہے۔کشمیری قوم کی بیش بہا قربانیوں کے نتیجے میں دنیا کی نظریں لازمی طور پر اس خطہ کی جانب مبذول ہوجاتی ہیں اور خطہ میں بڑھتے تناو ¿ کے پیش نظر دنیا کا فکر مند ہونا لازمی بات ہے کیونکہ دو جوہری طاقتوں کی تلخیاں کسی بھی وقت ایسا بھیانک رُخ اختیار کرسکتی ہےں جس سے کروڑوں لوگوں کی زندگیاں خطرے میں پڑنے کا قوی احتمال ہے۔حالیہ دنوں ایک مرتبہ پھر سرحدوں پر دونوں ممالک کی فوجیں آمنے سامنے آگئی ہیں اور ایک دوسرے پر الزامات عائد کئے جارہے ہیں۔بھارتی فوج نے پاکستانی فوج کے خصوصی دستے BAT پر الزام عائد کیا کہ اُنہوں نے پونچھ سیکٹر میں کنٹرول لائن کے اس جانب آکر بھارتی فوج کی گشتی پارٹی پر حملہ کرکے مبینہ طور پر دو فوجیوں کے سرکاٹ دئے ہیں۔ پاکستانی فوج کے ساتھ ساتھ وہاں کی حکومت نے بھی بھارتی الزامات کی تردید کی ہے۔ البتہ بھارتی میڈیا نے اس مسئلہ کو لے کر ماحول میں آگ لگانے کے لیے سنسنی خیز رپورٹیں پیش کرتے ہوئے پہلے سے ہی پاکستان مخالف بھارتی رائے عامہ کو آگ بگولہ کردیا۔ بھارتی فوج کے سربراہ بپن روات نے ہنگامی طورپر ریاست کا دورہ کرکے حالات کا جائزہ لیا اور اخباری نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے اشارہ دیا کہ اُن کی فوج بھی بدلے کی کارروائی کرے گی البتہ اُنہوں نے یہ نہیں کہا کہ یہ کارروائی کب او رکہاں ہوگی۔ حد تو یہ ہے کہ بھارتی میڈیا چینلوں نے اپنی فوج کی ”بہادری“ کے قصے بیان کرتے ہوئے پرائم ٹائم میں رپوٹیں نشر کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ بھارتی فوج نے پاکستانی چوکیوں پر حملہ کرکے اپنے فوجیوں کا بدلہ لیا۔ اِن رپوٹوں میں پاکستانی فوج کو بھاری جانی نقصان پہنچانے کا دعویٰ بھی کیا گیاہے۔ انٹرنیشنل میڈیا میں اس جھوٹے دعوے پر کرکری ہوتے دیکھ کر بھارتی فوج کے ترجمان نے ایسے کسی بھی قسم کے حملے کی تردید کردی۔دلی حکومت نے پاکستانی دفتر خارجہ میں مقیم پاکستانی سفیر کو طلب کر کے اپنا احتجاج درج کرلیا اور پاکستان سے بھارت تعلیمی دورے پرآئے طلبہ کی ایک ٹیم کو واپس بھیج دیا گیا۔ بدلے میں پاکستان نے بھی کراچی سے ممبئی آنے والی تمام پروازوں کو منسوخ کردیا۔اس طرح دونوں ممالک کے درمیان روایتی نوک جوک تلخیوں کو بدل گئی۔ حالانکہ تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ دونوں ممالک کے برسر اقتدار ٹولے کے آپس میں تعلقات اور رابطے موجود ہیں، جس کی مثال حال ہی میں بھارت کے نامور بزنس مین سجن جندل کا دورہ پاکستان اور وہاں اُن کا سرکاری مہمان کی حیثیت رہنا ہے۔
بھارتی حکومت خصوصاً بی جے پی کے دور اقتدار کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات ظاہر و باہر ہوجاتی ہے کہ مودی سرکار جان بوجھ کر جارحانہ روایہ اختیار کرکے ہندوستانی عوام کو”دیش بھگتی“ کے نام پر اپنے ساتھ جوڑے رکھنے کے لیے پاکستانی کارڈ کا استعمال کرتی رہتی ہے۔اس حکومت نے پاکستان او رمسلم دشمنی کے عوض بھاری اکثریت سے اقتدار حاصل کرلیا ہے، یوپی کے مسند اقتدار پر بی جے پی دہائیوں بعد قابض ہونے میں کامیاب ہوئی ہے۔ پاکستان دشمنی میں گزشتہ سال سرجیکل اسٹرائیک کا دعویٰ بھی بھارتی فوج اور حکومت نے کیا تھا لیکن حالات اور آثار وقرائن کو دیکھتے ہوئے عالمی سطح کے دفاعی وکشمیر اُمور کے ماہرین نے اُن سرجیکل اسٹرائیک کے حقائق پر سوالیہ نشان کھڑا کر دیا تھا۔ بھارت کے اندر بھی کئی سیاسی جماعتوں اور لیڈروں نے اپنی حکومت سے ثبوت مانگے تھے جو اُس وقت کے وزیر دفاع منوہر پاریکر دینے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔اب اس بار پھر بھارتی حکومت دعویٰ کررہی ہے کہ پاکستانی فوج کا خصوصی دستہ کنٹرول لائن عبور کرکے یہاں اُن کی فوج پر حملہ آور ہوا ہے، وہ نہ صرف تین فوجیوں کے ہلاک کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں بلکہ دو فوجیوں کی لاشوں کو مبینہ طور مسخ بھی کیاگیا اور پھر صحیح سلامت بھی واپس بھی چلے گئے۔پاکستان نے بڑے ہی ٹھنڈے اور مدبرانہ انداز میں اس مرتبہ بھی بھارتی الزامات کو مسترد کردیا ہے ۔ دیکھنے میں آرہا ہے کہ بھارتی سیاست دان بالخصوص بی جے پی سرکار کا جارحانہ رویہ بھارتی فوج کو مشکل میں ڈال رہا ہے۔بغیر کسی گراونڈ ورک کے سرجیکل اسٹرائیک کا دعویٰ کرنے کے بعد بھارتی فوج اور سیاست دانوں کی پوزیشن اس قدر مضحکہ خیز ہوئی ہے کہ عام لوگوں نے بھی اُن کے دعوے کا مذاق اُڑایا ہے کیونکہ پاکستان کی جانب زمینی سطح پر ایسے کوئی معمولی آثار بھی موجود نہیںتھا جس سے معلوم پڑ جاتا کہ بھارتی فوج نے کوئی خطرناک حملہ کیا تھا۔اس مرتبہ پھر اپنے فوجیوں کی لاشوں کو مسخ کرنے کا پاکستان پر الزام بھارتی فوج کے لیے گلی کی ہڈی بنتا جارہا ہے۔ دلی میں بیٹھی سیاسی قیادت نے اس کو پاکستان کے ساتھ مذاکرات سے بھاگ جانے کا سنہری موقع خیال کرتے ہوئے واویلا کرنا شروع کردیا ، سیاسی لیڈروں کے تُند و تیز بیانات نے عوامی سطح پر نفرت کو ہوا دی اور دباو ¿ بھارتی فوج پر آن پڑا کہ وہ پاکستان کے خلاف کارروائی کرکے بدلہ لیں۔اپوزیشن کانگریس بھی مودی سرکار سے مطالبہ کررہی ہے کہ وہ ایک کے بدلے دس کے سر بھارتی عوام کے سامنے لاکر پیش کریں۔اگر چہ بھارتی فوجی سربراہ نے اشاروں کنایوں میں کہا ہے کہ وہ بدلے کی کارروائی کریں گے لیکن حقیقت یہ ہے پاکستان کے اندر جاکر اُن کی چوکیوں پر حملہ آور ہونا کوئی بچوں کا کھیل نہیں ہے۔ یہ بھارتی فوج اور اُن کی خفیہ ایجنسیاں بخوبی جانتی ہیں اور اُنہیں ایسی کسی بھی کارروائی کے نتائج کا بخوبی اندازہ بھی ہوگا۔اب یہ فوجی حکام کے لیے درد سر والامعاملہ بن چکا ہے، کہ کس طرح وہ بھارتی سیاست دانوںاور عوام کے تواقعات کا بھرم رکھ پائیں گے۔سیاست دانوں کی جانب سے ماحول کو گرم رکھا جارہا ہے اور ہندوستانی فوج پر دباو ¿ بڑھتا جارہا ہے۔
عجب نہیں کہ آنے والے دنوں میں پاکستان کے اندر بم دھماکے ہوجائیں گے یا پھر کوئی بڑی دہشت گردانہ کارروائی ہوگی، کیونکہ Doval Doctrine کا یہی وہ طریقہ کار ہے جس کا بھارتی ایجنسیاں استعمال کرسکتی ہیں، براہ راست کوئی کارروائی کرنا بھارتی فوج کے لیے ممکن نہیں ہے۔ جمعہ کوطور خم بارڈر پر پاکستانی چوکی پر افغان فوجیوں کی جانب سے فائرنگ اور اس کے نتیجے میں جانی زیاں بھی اس سلسلے کی کڑی ہوسکتی ہے۔افغان حکومت اور ایجنسیوں میں اس وقت بھارت کا کافی اثر و رسوخ ہے اس لیے اُس جانب سے ہورہی کارروائیوں میں بھارتی کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔
اپنے پہاڑ جیسے دعوو ¿ں پر کھرا نہ اُترنے کا یقین ہوجانے کے بعد ہندوستانی سیاست دانوں اور ملٹری ایجنسیوں کے سامنے جو سب سے بڑا مسئلہ درپیش ہے وہ یہ کہ کس طرح عوامی توجہ کسی دوسرے ایشو کی جانب مبذول کی جائے۔اس کے لیے بہترین جگہ کشمیر ہے، یہاں کے عوام پر قہر ڈھاکر یا یہاں کوئی ایسی کارروائی کرکے ہی ”بھگتوں“ کی توجہ کنٹرول لائن کے واقعے سے ہٹائی جاسکتی ہے۔اس منصوبہ پر کام کا آغاز ہوچکا ہے۔۴جون کو بھارتی فوج کے قریباً ۰۳ہزار اہلکاروںنے شوپیان کے ایک درجن سے زائد دیہات کا محاصرہ کرکے جنگجوو ¿ں کے خلاف آپریشن کا اعلان کردیا۔ ۰۲برسوں کے بعد اپنی نوعیت کا یہ پہلا کریک ڈاون ہے، جس میں حرب و ضرب سے لیس فوج، پولیس اور سی آرپی ایف استعمال ہوئی ہے۔ اس آپریشن میں ڈرون اور فوجی ہیلی کاپٹر بھی استعمال کیے گئے ہیں۔ ہندوستانی میڈیا نے آپریشن کے دن صبح سے ہی اس فوجی کارروائی کے حوالے رپورٹیں نشر کرنا شروع کردی، اور سنسنی خیر انداز میں آپریشن کو اس طرح پیش کیا گیاکہ جیسے بھارتی فوج اپنے ہلاک شدہ فوجیوں کا بدلہ لینے کے لیے پاکستان کے خلاف میدان جنگ سجا چکی تھی۔شام ہوتے ہوتے آپریشن کے اختتام تک کھودا پہاڑ نکلا چوہا والا معاملہ ہوگیا۔درجن بھر ان دیہات کی جو کہانیاں میڈیا اور لوگوں کے ذریعے سے سامنے آگئی ہیں ، وہ دل دہلانے والی ہیں۔ فورسز اہلکاروں نے مکانات، فرنیچر اور درجنوں گاڑیوں کی توڑ پھوڑ کرکے کروڑوں روپے مالیت کا نقصان کرنے کے علاوہ نہتے اور عام شہریوں کی شدید مارپیٹ کی۔ اس ظلم و جبر کے خلاف جب عوام نے احتجاج کرنا چاہا تو اُن پر پیلٹ گن کے چھرے اور ٹیرگیس کے گولے داغے گئے۔ گویا یہ سارا آپریشن بھارتی عوام کے ضمیر کو مطمئن کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔دیکھنے میں یہ آرہا ہے کہ پاکستان کا غصہ کشمیریوں پر نکالا جاتا ہے، پاکستان کچھ کرے تو کشمیرمیں سول آبادی کے خلاف اعلان جنگ کیا جاتا ہے۔آج جس ”شدت پسندی“ کا رونا رویا جارہا ہے اُس کی وجوہات پر غور کیوں نہیں کیا جاتا ہے۔ جب ظلم وجبر کو بطور ہتھیار کے استعمال کیا جائے، جب لوگوں کو اپنے جذبات کا اظہار کرنے تک نہ دیا جائے، جب عام اور نہتے لوگوں کے خلاف جنگ کا اعلان کیا جائے، جب سنگ بازوں کے خلاف آرمی کو لایا جائے تو ردعمل ہونا لازمی امر ہے۔ 
 دو فوجیوں کی ہلاکت پر پورا بھارت جنگ پر آمادہ ہوچکا ہے۔ اُن کی فوج، سیاست دان اور عوام ایک ہی صفحے پر نظر آرہے ہیں۔ جنرل بپن روات نے سرحدی علاقوں کا دورہ تک کیا ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب کشمیری مارے جاتے ہیں تو کوئی واویلا کیوں نہیں ہوتا؟ جولائی ۶۱۰۲ئ سے آج تک ایک سو دس سے زائدکشمیری ابدی نیند سلا دئے گئے ہیں ، اُن کے جان لینے پر بھارت کے کسی لیڈر کا دل نہیں دُکھا ہے،کشمیری عسکریت پسندوں کی جان چلی جائے یا نہتے عام نوجوانوں کی، اُن کے لیے بھارت میںکوئی جنگ پر آمادہ نہیں ہوجاتا ہے۔ بھارت کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک کسی کی نیند حرام نہیں ہوجاتی ہے۔ حتیٰ کہ کشمیری پولیس والوں کی موت پر بھی دلی میں کسی کو افسوس نہیں ہوتا ہے، کیونکہ اُن کی نظر میں ہم سب کشمیری ہیں اور کشمیری ہونے کی حیثیت سے ہم دوسرے درجے کے شہری تصور کیے جاتے ہیں۔عسکریت پسند کی جان چلی جائے یا پولیس والے کی یا پھر عوام کشمیری کی، فائدہ دلی کا ہوتا ہے کیونکہ اُن کے نزدیک ہر کشمیری اُن کا دشمن ہے۔ یہاںہم میں سے ہر ایک کو اپنے گریباں میں جھانک لینا چاہیے، کیوں ہم اُن کا کام کریں جو ہمیں اپنا سمجھتے ہی نہیں؟ کیوں ہم کسی اور کے خاطر اپنے لوگوں کے ساتھ الجھ جائیں ، اُن کا دشمن بن جائیں ؟ وقت کا تقاضا یہ ہے کہ ہم ایک ہوجائے، ظلم و جبر کی اس سیاہ و تاریک رات سے نکلنے کے لیے ایک دوسرے کا سہارا بن جائیں،غیروں کی سازشوں کا شکار ہونے کے بجائے اپنوں کا دُکھ درد بانٹیں۔ تحریک حق خود ارادیت کے لیے کام کرنے والے ہر فرد کو اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہیے کہ اُن کے ذریعے سے کوئی ایسی حرکت سرزد نہ ہوجائے جس کی وجہ سے عوامی سطح پر سماج تقسیم ہوجائے۔
رابطہ:9797761908

Comments

Popular posts from this blog

لندن کی کشمیر کانفرنس۔۔۔ ایس احمد پیرزادہ

پبلک سیفٹی ایکٹ اور نیشنل کانفرنس....ایس احمد پیرزادہ