انسانی ڈھال بنانے پر بھی ستائش 

ستم پہ ستم ہے ظلم پہ ظلم

ایس احمد پیرزادہ
 اپریل کے مہینے میں وسطی کشمیر کی پارلیمانی نشست پرضمنی انتخابات کے موقعے پر بیروہ میں انسانی ڈھال بنانے کی جو رسوا ئے زمانہ ویڈیو دنیا بھر میں وائرل ہوئی ہے، اُس سے ایک طرف یہ حقیقت ِکشمیر منظرعام پرآگئی کہ یہاں انسانیت کی تذلیل میں کیا کیا جدت طرازیاں حلال کی جارہی ہیں اور دوسری طرف اس جرم میں ملوث فوجی میجرگوگوئی کو بھارتی فوج کے سربراہ جنرل راوت نے’’ اعلیٰ خدمات‘‘ کے صلے میں میڈل سے نواز کر اہل عالم پر واضح کردیا کہ بشری حقو ق کی بدترین پامالیوں پر کس طرح فوج کی حوصلہ افزائیاں کی جارہی ہیں۔ 22 ؍مئی کو نئی دلی میں فوج کے ترجمان امن آنند نے پریس بریفنگ کے دوران اس بات اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ میجرگوگوئی کو فوجی سربراہ کی جانب سے تعریفی کارڈ دیا گیا ہے اور یہ فیصلہ حال ہی میں فوجی سربراہ کے سرینگر دورے کے دوران کیا گیا۔بھارتی فوجی سربراہ وزیر دفاع اُرون جیٹلی کے ہمراہ سرحدی کشیدگی کا جائزہ لینے کے لیے 17 ؍مئی کو ریاستی دورے پر آئے ہوئے تھے۔ میجرگوگوئی ایک ماہ قبل اُس وقت خبروں میں آئے جب اُنہوں نے سری نگر بڈگام کی پارلیمانی نشست پر ہورہے ضمنی چناؤ کے دوران بیروہ کشمیر میں مبینہ طور احتجاجی نوجوانوں کی سنگ بازی سے بچنے کے خاطر بیروہ میں ایک نوجوان ووٹر فاروق احمدڈار کو گاڑی کے سامنے بانٹ کے ساتھ باندھ کر اُنہیں دن بھر درجن بھر دیہات میں گھمایا۔ گاڑی کے ساتھ باندھنے سے قبل مذکورہ میجر نے فاروق احمدڈار کی شدید مار پیٹ بھی کی تھی۔اس ذہنی و جسمانی ٹارچر کی وجہ سے ایک ماہ گزر جانے کے باوجود فاروق احمد ڈار ذہنی تناؤ سے باہر نہیں آرہے ہیں، اُن کے دل و دماغ پر ایسا خوف طاری ہوا ہے کہ وہ روز مرہ کی زندگی میں واپس لوٹ ہی نہیں پاتے ہیں۔انسان ڈھال بنانے کے اس سنگین جنگی جرم کی ویڈیو مقامی نوجوانوں نے بناکر فیس بُک پر ڈال دی جو چند ہی گھنٹوں میں دنیا بھر میں وائرل ہوگئی اور اس طرح کے بشری حقوق کی خلاف ورزیوں پر دلی کو دنیا میں رسوائی کا سامنا کرنا پڑا۔ مقامی نوجوانوں کی جانب سے تیار کردہ ایسے ہی ویڈیوز کو شیئر کرنے اور اس کے نتیجے میں ہورہی بدنامی سے بچنے کے لیے ہی وادیٔ کشمیر میں سوشل میڈیا پر پابندی عائد کردی گئی، حالانکہ حکومت نے پابندی عائد کرنے کے کچھ اور ہی وجوہات بتائی ہیں لیکن حالات و واقعات پر گہری نظر رکھنے والا کوئی بھی شخص یہ بات بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ سوشل میڈیا پر پابندی یہاں ہورہی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر پردہ پوشی کرنے کی خاطر لگائی گئی ہے۔انسانی ڈھال کے معاملے پر عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے دباؤ بڑھ جانے پرملوث میجرکے خلاف کورٹ آف انکوائری کا بھی حکم دیا گیا، جو فوجی ترجمان کے مطابق تاحال چل رہی ہے اور اس کی رپورٹ آنی ابھی باقی ہے۔ حالانکہ فوجی ذرائع سے اخبارات میں جو رپورٹیں شائع ہورہی ہیں اُن میں بتایا جارہا ہے کہ اس انکوائری کی جو رپورٹ تیار کی گئی ہے اُس میں میجر گوگوئی کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی کی کوئی سفارش نہیں کی گئی بلکہ رپورٹ میں اس فوجی افسر کی ’’حاضر دماغی‘‘ کی تعریف کی گئی ہے۔انکوائرئی ٹیم نے اپنی شفارشات میں لکھا ہے کہ میجر کی جانب سے انسانی ڈھال بنانے کی کارروائی حاضر دماغی کا ثبوت ہے اور اس کی ’’فہم و فراست اور حاضر دماغی ‘‘ کی تعریف ہونی چاہیے اور اُنہیں ایسی ’’حاضر دماغی‘‘ پر مبارک بادی ملنے چاہیے۔
میجر گوگوئی کو ایوارڈ سے نوازنے کے بعد جب جموں وکشمیر پولیس کی جانب سے یہ بیان سامنے آیا کہ ایوارڈ مل جانے کے باوجود میجر گوگوئی کے خلاف درج ایف آئی آر واپس نہیں لی جائے گی اور اُن کے خلاف تحقیقات ہوکررہے گی تو اگلے ہی دن بھارتی فوج کے سربراہ بپن روات نے واضح طور پر کہا کہ انسانی ڈھال بنانے کے معاملے میں گوگوئی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوگی۔ وزیردفاع ارون جیٹلی نے بھی اس مسئلے کو لے کر ایک بیان داغ دیا جس میں انہوں نے کہا کہ ریاست جموں وکشمیر میں فوج فیصلے لینے کے لیے ’’آزاد ‘‘ہے۔ اُن کے بقول جنگ زدہ خطہ میں فوج کو فیصلے لینے کی کھلی آزادی ہونی چاہیے۔گویا حکومت ہند اور بھارتی فوج کی اعلیٰ کمان میجر گوگوئی اور اُن کی جیسی ذہنیت رکھنے والے فوجی اہلکاروں کی حوصلہ افزائی کررہے ہیں اور وہ جنگی جرائم کو بھی جائز ٹھہرا رہے ہیں۔
میجرگوگوئی کی جانب سے انسانی ڈھال بنانے کی کارروائی پر نہ صرف دنیائے انسانیت نے سخت ناراضگی کا اظہار کیا اور اس طرح کی کارروائیوں کو انسانیت کے خلاف جرائم سے تعبیر کیا گیا بلکہ بھارتی فوج کے ایک سابق اعلیٰ عہدے دارنے بھی اس طرح کی کارروائیوں کو بدقسمتی سے تعبیر کیا اور کہا کہ یہ ویڈیو بہت دیر تک بھارتی فوج کو ڈراتی رہے گی۔ جنگ زدہ خطوں میں مسلح فوجیوں کی جانب سے عام انسانوں کو ڈھال بنانے کی کارروائیاں عالمی قوانین کے مطابق جنگی جرائم تصور کی جاتی ہیں۔ کشمیر میں یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے ، نوے کی دہائی کے ابتداء سے ہی عسکریت پسندوں کے خلاف عام لوگوں کو ڈھال بنایا جاتا تھا۔ سڑکوں سے بارودی سرنگوں کو تلاش کرنے کا کام ہو یا پھر عسکریت پسندوں کی گولیوں کے سامنے عام لوگوں کا کھڑا کرنے کا معاملہ ، کریک ڈاؤنوں کے دوران گھر گھر تلاشی کے دوران نوجوانوں کو ڈھال بنانے کی بات ہو یا پھر فوجی کانوائی کی حفاظت پر عام اور نہتے لوگوں کو تعینات کرنے کا مسئلہ، یہاں بار بار مسلح فوجیوں نے نہتے انسانوں کو اپنی ڈھال بنانے کا جرم کیا ہے۔ فوج کی اس طرح کی گھناؤنی کارروائیوں کے دوران گزشتہ تین دہائیوں میں سینکڑوں لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ بیروہ میں فاروق احمد ڈار کو انسانی ڈھال بنانے کاریاست میں یہ کوئی پہلا سانحہ نہیں ہے بلکہ یہاں ہر گاؤں اور دیہات سے کوئی نہ کوئی اس طرح کی ڈراؤنی کہانی جڑی ہوئی ہے۔دنیا کا قانون انسانی ڈھال کو جنگی جرائم تصور کرتا ہے، مہذب دنیا کی کوئی بھی فوج ایسے گری ہوئی حرکات کا تصور بھی نہیں کرسکتی ہے، لیکن کشمیر میں تعینات بھارتی فوج پرنہ صرف جنگی جرائم کے ارتکاب الزام لتے رہے ہیں مگر فوج ہمیشہ اپنی قابل اعتراض حرکات کا بڑی ہی بے باکی کے ساتھ دفاع بھی کرتی رہی ہے۔ بات کنن پوشپورہ میں اجتماعی عزت ریزی کی ہو ، بشری حقوق کے معروف علمبردار ایڈوکیٹ جلیل انداربی کی راشٹریہ رائفلزکے میجر اوتار سنگھ کے ہاتھ خون ناحق کی ہو ، مژھل اور  پتھری بل جیسی فرضی جھڑپوں کی ہو یا بدنام زمان جنسی اسکنڈل میں ملوث فوجی گلاب سنگھ پریہار کا شرم ناک قصے ہوں یا دیگرہزارہا قانون شکنیوں کی ہو ،ان جرائم میں ملوث فوجیوںکوہمیشہ قانونی مواخذے سے بچایا گیا۔اس ضمن میں تازہ اضافہ آر آر کے میجر گوگوئی کو ایوارڈ سے نوازنا اور اُن کے جرم کو ’’حاضر دماغی‘‘  تصور کرنا ہے ۔ میجر موصوف کے نام سند ستائش جاری کیا جانا یہ سمجھنے کے لیے کافی ہے کہ اقوام متحدہ کا ممبرملک ہونے کے باوجود بھارت کشمیر میں عالمی قوانین کی ڈھجیاں اُڑاتا پھرتا ہے  جب کہ دنیا اس ملک کے ساتھ کاروباری مفادات وابستہ ہونے کی وجہ سے مجرمانہ خاموشی اختیار کئے جاتی ہے۔
یہ نہایت ہی بدقسمتی کی بات ہے کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر دلی سے سرینگر تک حکومتی ایوانوں میں بیٹھے لوگوں ،فوجی اداروں ، میڈیا ہاوسوں اور بھارتی دانشوروں کو کوئی افسوس نہیں ہورہا ہے۔ ’’دیش بھگتی ‘‘ اور ’’ ملکی مفاد‘‘ کے نام پر جرائم کی سرپرستی ہورہی ہے اور انسانیت کا سر جھکانے والے جرائم کا ارتکاب کرنے والے وردی پوشوں کی پیٹھ تھپتھپائی جاتی ہے۔سیاست دان اور میڈیا اشتعال انگیزی پھیلاکر وردی پوشوں کی حوصلہ افزائی کرکے اُنہیں اس بات کے لیے دلیر بنارہے ہیں کہ وہ انسانی حقوق کی بھلے ہی کتنی بھی خلاف ورزیاں کریں ، دیش اُن کے ساتھ ہے۔فوج کی جانب سے اپنے ایک ایسے متنازعہ اہلکار کو توصیفی سند سے نوازنا جو جنگی جرائم میں ملوث ہو ، اُس ذہنیت کوظاہر کرتا ہے جو یہاں عوام کے خلاف کام کررہی ہے۔کشمیر میں انسانیت کے خلاف جرائم میں ملوث وردی پوشوں کو اعزازات سے نواز نا اور اُنہیں ہیرو بنانا ریاست میں تعینات فوجیوں کو مزید گھناؤنے جرائم میں ملوث ہونے پر آمادہ کرسکتا ہے۔فرقہ پرست طاقتوں کی ذہنیت بھی ایسا ہی چاہتی ہے، وہ کشمیریوں کو خاموش کرانے کے لیے اور اُن کی آواز کو دبانے کی خاطر کشمیر میں وردی پوشوں کو کھلی چھوٹ دینے کے نہ صرف حق میں ہیں بلکہ اس کا حکم کب کے دے چکے ہیں۔بھارتی حکومت کی ہٹ دھرمی اور اُن کی سخت گیر پالیسیوں سے واضح ہوجاتا ہے کہ کشمیر میں آنے والے وقت میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا ارتکاب کیا جاسکتا ہے اور اس طرح کی انسان دشمن کارروائیوں کی سرپرستی باضابطہ طور پر دلی اور سرینگر میں براجمان اقتداری ٹولہ کرے گا۔
فرقہ پرست طاقتیں اور ہندوتوا کا ایجنڈا رکھنے والی دلی کی سرکارکشمیر میں موجود ہندوستانی فوج کے لیے ایک سیاسی مسئلے کو مذہبی بنارہے ہیں۔ پوری پروپیگنڈا مشینری کو اس کام پر لگا دیا گیا ہے کہ وہ مسلح وردی پوشوں کے ذہن میں یہ بات بٹھا دیں کہ وہ کشمیر میں محض ڈیوٹی نہیں کررہے ہیں بلکہ ہندوؤں کادھرم یدھ لڑ رہے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ اُن کی اس ہندوتوا والی جنگ میں کشمیر قوم کو بدترین دشمن سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ تبھی وردی پوشوں کی جانب سے عوام کے خلاف کی جانے والی انسان دشمن کارروائیوں کی حوصلہ افزائی ہر سطح پر کی جارہی ہے۔ کشمیر اُمور کے حوالے سے دلی کے اقتداری گلیاروں میں’’ ماہرونباض ‘‘ سمجھے جانے والے نامور صحافی پروین سوامی نے گزشتہ دنوں اپنی ایک ٹوئٹ کے ذریعے بھارتی حکومت کو مشورہ دیا کہ وہ کشمیر کے دیہات پر کارپٹ بمباری کرکے ایک ہی مرتبہ سارا مسئلہ ٹھنڈا کرے۔اس طرح کے سوچ اور اپروچ سے مسلح فورسز اہلکاروں میں نفرت پیدا ہوجاتی ہے اور وہ ایک پوری قوم کے خلاف جنگ چھڑ کر ہر اُس جرم کا ارتکاب کرتی رہتی ہے جو بشری حقوق کی خلاف ورزیوں میں سنگین بھی ہوتا ہے اور سرفہرست بھی۔
جب اس طرح کی سخت گیرانہ پالیسیاں اپنائی جارہی ہوں، جب فوج اور دیگر وردی پوشوں کو ’’جرائم‘‘ کا ارتکاب کرنے پر ایوارڈوں سے نوازا جاتا ہے تو بھلا حالات معمول پر کیسے آ سکتے ہیں۔ طاقت سے بھلے ہی کچھ مدت کے لیے قبرستان کی خاموشی قائم کی جائے لیکن ایسی خاموشی جب ٹوٹ جاتی ہے تو اس کے نتیجے میں لازمی طور پر ۲۰۱۰ء؁ اور ۲۰۱۶ء؁ جیسے حالات پیدا ہوجاتے ہیں۔لوگوں کی مجموعی آواز کو سننا وقت کے حکمرانوں کی ذمہ داری ہوتی ہے، عام لوگ ہی اپنے حال اور مستقبل کا فیصلہ کرنے کے مجال ہوتے ہیں۔ عوام کو اپنی رائے کا اظہار کرنے سے روکنے کے لیے اگراُن کی سانسوں پر پہرے بٹھائے جائیں گے تو شدید ردعمل سامنے آنا لازمی بات ہے۔سخت گیرانہ پالیسی اپنانے سے قیام امن کا خواب دیکھنا اور کروڑوں عوام کو اپنے ساتھ زبردستی وابستہ رکھنا احمقوں کی دنیا میں جینے کے مترادف ہے۔بہتر یہ ہے کہ دلی اور اُن کے مقامی گماشتے ہوش کے ناخن لیں اور زمینی حالات کو سمجھ کر عوامی خواہشات کا احترام کرنا سیکھیں۔کشمیری کوئی بھیڑ بکریوں جیسی قوم نہیں ہے جنہیں بھارت جس طرح چاہیں ہانکتا چلا جائے وہ چلتے رہیں گے۔ یہ خام خیالی ہے۔کشمیری ہوش مند، باجرأت اور اپنے حقوق کے تئیں حساس قوم ہے، یہ اگر دنیائے انسانیت میں رائج اصولوں کے مطابق اور عالم اقوام کی جانب سے تسلیم شدہ حقوق کی بحالی کا مطالبہ کریں تو اُن کے خلاف طاقت کا استعمال جائز نہیں ٹھہرتا ہے۔جنگی جرائم میں ملوث فوجی کو تمغوں اور شاباشیوں سے نوازنا اُس طوفانِ بدتمیزی کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتاہے جو یہاں عوام کے خلاف اپنایا جارہا ہے اور آئندہ اپنایا جاسکتا ہے۔انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کو اس بات کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لینا چاہئے اور عالمی سطح پر مہم چلاکر دنیا کو اس بات کے لیے تیار کرنا چاہیے کہ وہ بھارت پر اپنا اثرو رسوخ استعمال کرکے اُنہیں کشمیری عوام کے خلاف کی جانے والی بشری حقوق کی خلاف ورزیوں پر بلا تاخیر ٹوکیں۔ اگر دنیا ئے انسانیت نے اپنا کردار ادا نہیں کیا تو ایک پوری قوم گاجر مولی کی طرح کاٹی جائے گی اور یہاں ممکنہ طور جرائم کی ایسی داستانیں رقم ہوں گی جو چنگیزیت اور بربریت کو بھی شرمسار کریں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ کشمیری عوام بھی اتحاد اور اتفاق کا مظاہرہ کریں اور اللہ سے رجوع کرکے مصائب ومشکلات سے نکلنے کی اُس سے درخواست کریں ، کیونکہ ایک اللہ کی ہی ذات ہے جو ہمیں مصائب کے اس دلدل سے باعزت نکال سکتی ہے۔

Comments

Popular posts from this blog

لندن کی کشمیر کانفرنس۔۔۔ ایس احمد پیرزادہ

پبلک سیفٹی ایکٹ اور نیشنل کانفرنس....ایس احمد پیرزادہ