بھارتی میڈیا.... بھینگی آنکھ ترچھی نظر

بھارتی میڈیا.... بھینگی آنکھ ترچھی نظر

٭....ایس احمد پیرزادہ
بھارتی کارپوریٹ میڈیا ہر ہمیشہ کشمیریوں کی جدوجہد کو بدنام کرنے کے لیے منفی پروپیگنڈا کرتا رہتا ہے، گزشتہ کچھ ماہ سے دلی کی میڈیا چینلوں نے اپنی اس گھناو ¿نی مہم میں تیزی لائی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ کشمیریوں کی مبنی برحق تحریک کو پاکستان کے ساتھ جوڑ کر یہ ثابت کرنے کی لگاتار کوشش کی جا رہی ہے کہ پڑوسی ملک اور مسئلہ کشمیر کا اہم فریق پاکستان کشمیرمیںافراتفری پھیلانے کے لیے مبینہ طور پر فنڈنگ کررہا ہے۔ روزشام کے اوقات میں پرایم ٹائم ( جسے کرائم ٹائم کہنا موزوں ہے) میں بھارتی چینلوں پر ہندوتوا کے علمبردار سابق فوجی جنرل ، بی جے پی اور آر ایس ایس کی فکر سے وابستہ لیڈران اور صحافی کشمیریوں کے خلاف الفاظ کی بھر پور جنگ چھیڑ دیتے ہیں۔ان چینلوں کے اس منفی پروپیگنڈے کے اثرات زمینی سطح پر واضح طور پر دکھائی دیتے ہیں۔ ہندوستان کی ہر ریاست میں عوامی سطح پر کشمیریوں کے خلاف نفرت پھیل رہی ہے، ہر جگہ کشمیریوں کو شک کی نظر سے دیکھا جارہاہے اور انہیں ہراساں اور پریشان کرنے کو دیش بھگتی کہا جارہا ہے۔ بیرون ریاست کشمیری اپنے آپ کو غیر محفوظ تصور کررہے ہیں۔ ان چینلوں کا اول روز سے ہی وطیرہ رہا ہے کہ یہ کشمیر دشمنی میں ایک دوسرے پر سبقت لینے میں تمام اخلاقی حدود پار کرلیتے ہیں۔جھوٹی رپوٹیں نشر کرنا، خبروں کو توڑ مروڑ کرپیش کرنا، اسٹیٹ کی اجارہ داری زبردستی سروں پرقائم کرنا اور کشمیریوں کو ”دہشت گرد“ اور”وحشی “بنا کر پیش کرنا،ان کرم فرماچینلوں کا مرکزی ایجنڈا ہے۔ ایک دہائی قبل جب ترال پلوامہ میں لوگوں نے ایک آدم خور بھالو کو جان سے مار دیا تھا تو دلی میں پورے ہفتے ٹی وی چینلوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ”خونخوار“ کشمیریوں نے ایک ”معصوم“ بھالو کا قتل کرکے اپنی ”درندگی“ کا مظاہرہ کیا، لیکن جب اسی کشمیر میں بھارتی فورسزکے ہاتھوں عام اور نہتے کشمیریوں کو خون میں نہلایا جاتا ہے، یاجب تین نوجوانوں کو کام دینے کے نام پر فوج مژھل پہنچا کر وہاں ا ±ن کا فرضی انکاونٹر کرگئے،جب تجرسوپور میں ایک دن کے دلہے کو آرمی جنگل میں لے جاکر وہاں ا ±س کے جسم سے بارود باندھ کر پورے جسم کے چتھڑے ہوا میںا ±ڑا دئے گئے، جب کنن پوش پورہ کی مظلوم خواتین اور شوپیان کی آسیہ اور نیلوفر کی عصمت تار تار کی گئی اورملت کی ا ±ن بیٹیوں کو خون میں نہلایا گیا،جب بٹہ مالو کے چھ سال کے سمیر راہ کے سینے پر دو دو سی آر پی ایف اہلکار چڑھ کر پیروں تلے ا ±س معصوم بچے کی جان نکال گئے ، اُ س وقت بھارت کے اس” مہربان میڈیا “کو کچھ دکھائی ہی نہیں دیا اور نہ اب ایسے مظالم اور قہر مانیاںاس کے لئے کوئی ویلیو رکھتی ہیں کہ یہ ا ±ن کے یہاں کے مباحثوں اور بشری حقوق کے حوالے سے بلند بانگ دعوو ¿ں کی زبان کو گنگ کریں۔بڑی ہی ڈھٹائی اور غیر پیشہ ورانہ انداز کے ساتھ یک طرفہ رپورٹنگ کرکے یہ میڈیا اور صحافت جیسے مقدس پیشے کو بلا روک ٹوک بدنام کرتا جارہا ہے۔یہ وہی میڈیا ہے جس نے۴۱۰۲ئکے سیلاب میں دو دن تک لگاتارایک ایک گھنٹے کے پروگرام چلائے کہ بقول ان کے حریت کانفرنس کے بزرگ سربراہ سیّد علی گیلانی کے گھر میں جب سیلاب کا پانی داخل ہوا تو ا ±نہوں نے بھارتی فوج سے مدد کے لیے اپیل کی ، جس پر بھارتی فوج نے ا ±نہیںسیلابی پانی سے گھری ہوئی رہائش گاہ سے باہر نکال کر محفوظ مقام تک پہنچایا۔ اس سفید جھوٹ پر بھارتی فوج کی تعریفوں کے پل ا ±سی طرح باندھے گئے جس طرح گزشتہ سال پراسرار سرجیکل اسٹرائیک کو لے کر ڈرامے بازی کر کے ان کی مدح سرائی کی گئی۔ حالانکہ یہاں کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ سید علی گیلانی جہاں اقامت پذیر ہیں وہاں ایک قطرہ پانی نہ تھا مگر عادت سے مجبور جھوٹ کے پروردہ دلی کے میڈیا ہاوس اربوں ہندوستانیوں کو من گھڑت کہانیوں سے بے قوف بنا تے رہے۔ یہ لوگ اب بھی ہندوستان کے شہریوں کو جھوٹ اور افسانہ طرازی کے سہارے طفل تسلیاں دے رہے ہیں کہ ا ±ن کا ملک ، ا ±ن کی حکومت اور ا ±ن کی فوج دیش واسیوں کے ٹیکس سے ہونے والی آمدنی سے ملک کااحسن طریقے سے دفاع کررہے ہیں۔حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ میڈیا حق بیانی کی بجائے ہندوستانیوں کو فرضی داستانیں سنا کر غفلت کی نیند سلاتا جارہا ہے۔
گزشتہ دنوں پروپیگنڈا مشینری کی ایک اہم ٹی وی چینل نے ایک مزاحمتی چہرے کا اسٹنگ آپریشن کرکے ا ±ن سے مبینہ طور کچھ ایسی باتیں ”ا ±گلوائی “ہیں جن سے یہ میڈیا چینلیں ثابت کرنا چاہتی تھی کہ کشمیر میں کوئی سیاسی مسئلہ نہیں بلکہ کشمیریوں کی ہند سے ناراضگی اور احسا سِ بے گانگی ایک فرضی قصہ ہے اور یہ کہ یہاں عوامی تحریک بیرونی فنڈنگ کی وجہ سے چل رہی ہے۔ عوام کو متحرک کرنے کے لیے کروڑوں روپے استعمال کئے جاتے ہیں، سنگ بازی کے لیے دولٹ لٹائی جاتی ہے۔اس معاملے کو لے کر ایسا ہنگامہ کھڑا کیا گیا کہ جیسے” انڈیا ٹوڈے “نے بھارتی ایجنسیوں کے ہاتھ میں کشمیریوں کی تحریک کی کوئی ایسی کڑی تھما دی کہ جس کو پکڑ کر سات دہائیوں سے چلنے والی جدوجہد کو سات دنوں میں ختم کیا جاسکتا ہے۔ اس واقعے کے اگلے ہی روز جے کے ایل ایف کے چیئرمین کے بیڈ روم میں مذکورہ ٹی وی چینل سے وابستہ خاتون رپورٹر بغیر اجازت مبینہ طورداخل ہوجاتی ہیں اور موبائیل فون سے ا ±ن کی ویڈیو بنانی شروع کر دی۔ جے کے ایل ایف چیئرمین کے اعتراض پر مذکورہ رپورٹر اور ا ±ن کی چینل نے طرح طرح کے گھناو ¿نے الزامات عائد کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ جیسے یاسین ملک نے اپنی نجی زندگی میں مداخلت کرنے پر اعتراض کرکے کسی بہت بڑے جرم کا ارتکاب کیا ہو۔ حالانکہ مذکورہ خاتون صحافی کے بارے میں یاسین ملک کا الزام ہے کہ وہ ان کی ہمشیرہ سے غلط بیانی کر کے زبردستی ا ±ن کے بیڈ روم میں داخل ہوئی تھیں، نہ اس کے لئے کوئی پیشگی اجازت لی تھی اور نہ ہی اپنے آنے کی کوئی اطلاع دی تھی۔اسٹنگ آپریشن میں بیٹھے لیڈروں نے کیا کہا؟کن حالات میں کہا؟وہ کیوں ان چینلوں کے دامِ فریب میں آگئے تھے؟ ا ±نہوں نے کیوں اتنی لاپرواہی کا مظاہرہ کیا ہے؟ یہ سوالات اپنی جگہ پر ضرور تحقیق طلب ہیں اور ان کے اطمینان بخش جوابات قوم کے سامنے ضرور آنے چاہیے لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ مذکورہ چینلوں کی ہرزاہ سرائی کو ہی خدائی الہام کی طرح سچ مانا جائے،کیونکہ جن اداروں کی بنیاد ہی جھوٹ پر کھڑی ہو، ا ±ن کی بات کو سچ ماننے میں جلد بازی نہیں کرنی چاہیے۔حریت کانفرنس نے محمد نعیم خان کی رکنیت معطل کرکے اس تمام واقعے کی اصلیت جاننے کی یقین دہانی کرائی ہے ، ا ±مید یہی ہے کہ اصل حقائق بہت جلد سامنے آجائیں گے۔ البتہ تحریک حق خود ارادیت کے لیے اسی بہانے سے جو منفی پروپیگنڈا کیا جارہا ہے، وہ کسی بھی صورت میں کشمیری قوم کے لیے قابل قبول نہیں ہوسکتا۔ 
کشمیریوں کی جدوجہد مبنی برحق ہے، یہاں لوگ اخلاص اور خلوص کے ساتھ اس تحریک کے ساتھ وابستہ ہیں۔ بیش بہا قربانیاں پیش کرکے کشمیریوں نے پوری دنیا کے سامنے ثابت کردیا کہ یہ جھکنے اور بکنے والی قوم نہیں ہے۔بھارتی چینلیں دعویٰ کرتی ہیں کہ سنگ بازی کے عوض یہاں لڑکوں اور لڑکیوں کو ایک سو سے لے پانچ سو روپے دئے جاتے ہیں، ا ±نہیں یہ جان لینا چاہیے کہ کشمیری قوم یوپی، بہار اور جھارکھنڈ یا دوسری غریب و کنگال ریاستی باشندے نہیں جہاں غربت نے لوگوں کوحواس باختہ کررکھا ہو، جہاں دس روپے کے لیے کسی انسان کا قتل تک کیا جاتا ہے، جہاں عصمت اور عزت کا کوئی مول نہیں۔ یہ ریاست جموں وکشمیر ہے، یہاں جس دوشیزہ نے پرانے شہر میں وردی پوشوں پر پہلا پتھر پھینکا ا ±س سے جب ایک صحافی نے پوچھاکہ آپ کو پتھر پھینکنے کے لیے کس نے پانچ سو روپے دئے ہیں تو ا ±س لڑکی نے اپنے بیگ سے 70 ہزار کا آئی فون نکال کر ا ±س صحافی سے پوچھا کہ مجھے اللہ کے فضل سے زندگی میں یہ سہولیات دستیاب ہیں، کیا میں پانچ سو کے لیے ظلم کے خلاف پتھر اٹھاو ¿ںگی؟ میں نے اپنی عزت اور آبرو کے لیے ، اپنی قوم کے سلب شدہ حقوق کی خاطر احتجاج کر تی ہوں اور وردی پوشوں پر پتھر پھینک کر اپنے دبے کچلے جذبات کا اظہار کر تی ہوں۔یہاں جو نونہال وردی پوشوں اور عسکریت پسندوں کے درمیان جھڑپوں کے موقع پر سینہ تانے گولیوں کے سامنے کھڑا ہوجاتے ہیں، ا ±ن کی ”دیوانگی “کو کیا عنوان دیا جائے؟ کیا کوئی ایک ہزار یا ایک لاکھ میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے کے لیے تیار ہوجائے گا؟ ہرگز نہیں…چاڈورہ میں جس ڈاکٹر کے کروڑوں روپے مالیت کے بنگلے کو جھڑپ کے دوران فوج نے بارود سے ا ±ڑا دیا ، کیاانہوں نے چند ہزار میں اپنی شان و شوکت اور آرام دہ زندگی کو داو ¿ پر لگا دیا ؟جب کریک ڈاون کے دوران فوج اور پولیس آپریشن توڑ پھوڑ کے ذریعے گھروں میں گھس کر لاکھوں روپے مالیت کا نقصان کرتے ہیں، تو اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی کو یوں تباہ ہوتا دیکھ کر بھی لوگ حوصلہ نہیں ہارجاتے اور فخر سے کہتے ہیں کہ ا ±ن کی یہ قربانیاں اپنے حقوق کے لیے ہے اور ا ±نہیں اپنی قربانی پر کوئی افسوس نہیں ہے۔ کیا ا ±س وقت ان میڈیا چینلوں کی سمجھ میں یہ بات نہیں آجاتی ہے کہ مال دولت، جائیداد اور سب کچھ کوئی چند ہزار کے لیے داو ¿ پر نہیں لگا سکتا۔جو نوجوان گزشتہ برس کی عوامی تحریک کے دوران اپنی جان نچھاور کرچکے ہیں، جن ہزاروں نوجوانوں کو زندگی بھر کے لیے اپاہچ بنایا گیا ہے، جن سینکڑوں افراد سے آنکھوں کی بصارت چھین لی گئی ہے ا ±نہوں نے یہ قربانیاں کسی بیرونی فنڈنگ کے عوض نہیں دی ہے، نہ ہی انہوں نے کسی کے اشاروں پر ایسا کیا۔ خدانخواستہ کل کو اگر ساری حریت کانفرنس اور کشمیریوں کی سیاسی قیادت تھک ہار کر گھر میں بھی بیٹھ جائے تب بھی کشمیریوں کی جدوجہد پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، کیونکہ کوئی اگر یہاں لیڈر ہے تو وہ اسی تحریک کی وجہ سے ہے، اور جس کسی نے آج تک حق وصداقت کی اس تحریک سے کنارہ کشی اختیار کرلی ، قیادت اور عوامی اعتمادکا تاج بھی ا ±س کے سر سے ا ±سی وقت ا ±تر گیا اور وہ گمنامی کے گھپ اندھیروں میں کھو گیا۔
اگر ہندوستان ایک منتازعہ خطہ پر اپنا تسلط جمانے کی خاطر فو جی قوت کے ساتھ ساتھ دولت کا سہارا لے سکتا ہے، اگر وہ عام انسان کے دلوں کو جیتنے کے لیے سدبھاو ¿نا ، وطن کی سیراور اس طرح کے دوسرے پروگرامز پر کھربوں روپے خرچ کرسکتا ہے، اگر دلی یہاں اپنے آلہ کاروں کی وفاداریاں خریدنے اور جوڑ توڑ کر نے کے لیے پانی کی طرح پیسہ بہا سکتی ہے، اگر بی جے پی اور آر ایس ایس یہاں پیسے سے بکاو ¿ مال کی خدمات حاصل کرسکتے ہیں تو بھلا دوسرے ممالک میں مقیم کشمیری اپنی تحریک کے لیے مالی ایثار سے کیوں ہاتھ کھینچ سکتے ہیں۔ لاکھوں کشمیری دوسرے درجنوں ممالک میں کام کرتے ہیں، ا ±ن کا وہاں اچھا خاصا بزنس چل رہا ہے، وہ وہاں اونچے اونچے مناصب پر کام کرتے ہیں، وہ تحریک حق خودارادیت کے لیے اگر اخلاقی ا ورقانونی حدود میں رہ کر مالی امداد کرتے ہیں تو یہ کون سا جرم ہوا؟آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے ہمارے بھائی اگر کشمیریوں کی کسی سطح پر مدد کرتے ہیں تو یہ اُن کی منصبی ذمہ داری بھی ہے اور حق بھی.... اُن کا ایسا کرنا کوئی جرم نہیں ہے۔ اگر کوئی فنڈنگ جرم کہلاتی ہے تو وہ دلی کی ایجنسیوں کے ذریعے سے کی جانے والی وہ فنڈنگ ہے جو یہاں جرائم پیشہ افراد کو فراہم کی جاتی ہے، جس کے بل پر یہاں منحرف بندوق برداروں اور ا ±ن کے سیاسی سرپرستوں کو نہتے لوگوں کا قتل عام کرنے کے لیے رقومات فراہم کی گئی تھیں۔ یہ رقومات آج بھی کشمیری سماج کو بانٹنے اور کاٹنے پر خرچ کی جارہی ہیں، مسلکی اختلافات کو ہوا دینے کے نام پر آتی ہے، ڈوول ڈاکٹراین کو حقیقت کے روپ میں ڈھالنے کے لیے خرچ کی جاتی ہیں۔ ا ±س پر بھی چینلوں کے پروگرام چلنے چاہیے، اس پر سٹنگ آوپریشن ہونے چاہیے ، ہندوستان کی جانب سے کی جانی والی اس غیر قانونی فنڈنگ اور اس کے جگر سوز مقاصد پر بھی انکشافات کا بہی کھاتہ کھولا جانا چاہیے کیونکہ یہ رقمیںایک محکوم قوم کی مارکاٹ اور تقسیم درتقسیم کر نے پر ضائع کی جاتی ہیں تاکہ اہل کشمیر سچائی پر مبنی سیاسی موقف سے دستبردار ہوجائے۔ 
یہاں امن و قانون کی صورتحال کے پیش نظر حکومت نے سوشل میڈیا پر پابندی عائد کرکے اکیسویں صدی میں انسانیت کو بنیادی ضرورت سے محروم رکھا۔ اس پر اقوام متحدہ تک نے فکر وتشویش کا اظہار کیا، یہاں نامساعد حالات کا بہانہ بناکر پاکستان کی نیوز چینلوں کو بین کردیا گیا، یہاں اسلامی چینلوں کو یہ کہہ کر بند کرد یا گیا کہ ا ±ن کی وجہ سے نام نہاد شدت پسندی پروان چڑھ رہی ہے، لیکن وادی کی مجموعی صورت حال کے لیے جو اصل خطرہ ہے وہ دلی سے چلنے والی نیوز چینلز ہیں، یہ نفرتیںپھیلاتی ہیں، یہ ایک پوری قوم کے خلاف نسلی تعصبات کا لاو ¿ سلگاتی ہیں، یہ ہندوستان کی رائے عامہ کو منتشر کرنے کا کام کرتی ہیں، یہ حقائق کی پردہ پوشی کرکے جھوٹ اور مکاری کا پرچار کرتی ہیں، یہ وشال دیش کے سامنے صلح سمجھوتہ، افہام وتفہیم اور عقل دانش کی بجائے جذباتی ہونے کا پرچار کر تی ہیں۔ ان چینلوں پر اگر پابندی عائد ہوتی ہے تو یہ خود ہندوستان کے وسیع تر مفاد میں ہوگا لیکن ایسا کبھی نہ ہوگا کیونکہ انہیں خود اسٹیٹ نے خرید کریہ کام سونپ دیاہے۔ گرچہ حریت خیمے سے وابستہ لیڈروں اور جماعتوں کو پہلے دن سے ان چینلوں کا بائیکاٹ کرنا چاہیے تھامگر المیہ یہ ہے کہ بعض ہمارے حضرات ممکنہ طور ذاتی تشہیر کے لئے بلا کسی ادنیٰ سوچ سمجھ کے ان چینلوں کے کیمروں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں اور کاز کو نقصان پہنچاکر سوائے پچھتاوے کے کوئی اور تیر نہیں مار تے۔ قائدین ان چینلوںکے نمائندوں کو سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں۔ بہرصورت جن لیڈران کا اسٹنگ آپریشن ہوا ہے ا ±ن کو شک کا فائد دیتے ہوئے اس بات کی جواب طلبی ہونی چاہیے کہ آخر یہ سب ماجرا کیا ہے۔ نیز جہاں مخالف کیمپ کی شاطرانہ چالوں سے ہوشیار رہنا چاہیے ،وہیں ہمیں اپنی صفوں میں دیکھ لینا چاہیے کہ کہیں کوئی آستین کا سانپ تو نہیں جو کشمیریوں کی مقدس جدوجہد کو اپنے حقیر مفادات کئے لئے استعمال کرتا رہاہے۔ یہ احتسابی اور تطہیری عمل متحدہ قیادت کی اہم ذمہ داری ہے جس سے یہ کی صورت فرار اختیار نہیں کرسکتے ،ا نہیں چاہیے کہ زیر بحث تنازعے کے حوالے سے ٹھوس حقائق سامنے لاکر دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کریں۔یہاں پاکستان کی ذمہ داریاں بھی بنتی ہیں۔ یہ مسئلہ کشمیر کا ایک اہم فریق ہے اور فریق ہونے کی حیثیت سے پاکستانی میڈیا .... ہندوستانی میڈیا کے منفی پروپیگنڈے کا بخوبی توڑ کرسکتا ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ پاکستان میڈیا میں کشمیر کو وہ کوریج نہیں ملتی جس کا وہ حقدار ہے۔ کشمیر میں پاکستانی چینلوں کو بین کرنے کے جواب میں پاکستان میں بھی بھارتی چینلوں پر پابندی عائد ہونی چاہیے تاکہ بھارت پر دباو ¿ بڑھایا جاسکے کہ وہ کشمیر میں پاکستانی چینلوں کی نشریات بحال کرے۔

Comments

Popular posts from this blog

لندن کی کشمیر کانفرنس۔۔۔ ایس احمد پیرزادہ

پبلک سیفٹی ایکٹ اور نیشنل کانفرنس....ایس احمد پیرزادہ