یمن کا امن غارت کیوں ؟
اے ملتِ اسلام !وائےتیری خیر نہیں 

عرب بہار کا ایک اور مہیب شکل اب جنگ ِ یمن بن کر نمودار ہوچکی ہے ۔ بظاہرحوثی باغی یمن کو ایک خون آشام رزم گاہ بنا نے پر تلے ہوئے ہیں مگر یہ ان کی لڑائی نہیں بلکہ ان کی آڑ میں دنیائے کفر کی تمام ترتوانی بر سر پیکار ہے ۔ باطل کی یہ خواہش ہو ہی نہیں سکتی کہ حوثی باغی جنگ جیت جائے یا صدر عبد ربہ کی وفادار فوجیں ہار جائیں ، بلکہ وہ اس جنگ میں اپنے گھٹیا مفاد کے لئے ان کی پشتیبانی کر رہا ہے تاکہ مسلمان چاہے کسی بھی مسلک ومشرب سے وابستہ ہو وہ داخلی طور انتشار وافتراق کے شکار ہوں تاکہ خارجی محاذ پر ان کے حقیقی دشمن ان کا بینڈ بجائیں تاکہ تہذیبوں کے تصادم کا سفر جاری رہے ۔ اصل مقصد یہ بھی ہے کہ مسلمان آپس میں لڑ بھڑکر اتنے منتشر اور کمزور ہوجائیں کہ ان کو زمین پناہ دے نہ آسمان ان پہ روئے ۔ مسلمانان ِ عالم کے لئے اس سے بڑا المیہ کیا ہوگا کہ جو ملت اتحاد کی داعی اورصلح جوئی کے لئے منصب امامت پر فائز کی گئی ، وہ یمن ، مصر ، لیبیا ، عراق ، پاکستان وغیرہ ممالک میں ایک دوسرے کے خلاف دست وگریباں ہوں ۔ ا س حقیقت کو سمجھنے کے لئے ہم تاریخ کا صرف ایک وراق پلٹیں ۔ خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق ؒ زیرک اور دور اندیش مسلم حکمران گزرے ہیں ۔ موصوف نے بجا فرمایا کہ’’مجھے اُس دن سے خوف آتا ہے جب کفار اپنے باطل پر ہونے میں فخر محسوس کرنے لگیں اور مسلمان اپنے ایمان پر شرم محسوس کرنے لگیں‘‘ آج جب اُمت مسلمہ کی ابتر اور رُولا دینے والی سیاسی، معاشی ، علمی اور عملی حالات کا جائزہ لیا جاتا ہے تو یہ بات اظہر من الشمس ہوجاتی ہے کہ اُمت مسلمہ احساس کمتری کا شکار ہوچکی ہے اور اسلام دشمن طاقتیں ڈنکے کی چوٹ پر اپنی مسلم دشمنی پر فخر محسوس کرکے اسلام کے نام لیواؤں کو تہ تیغ کررہے ہیں۔ایک وقت وہ تھا جب مغرب اور اُس کی حلیف اسلام دشمن طاقتیں مسلمانوں کے ساتھ براہ راست جنگ چھیڑ کر معرکہ آرائی پر اُتر آتے تھے ۔ ایسی جنگ ہم نے عراق اور افغانستان میں دیکھی ہے ۔ یہ جنگ تو پھر بھی بہتر تھی کیونکہ اُمت مسلمہ اپنے واضح اور ظاہر و باہر دشمن کو پہچاتی تھی اور اپنی مملکتوں کی حفاظت کے خاطر کھل کر مغرب کی جارحیت کا مقابلہ کیا جاتا تھا لیکن اب انکل سام اور اُس کے صلیبی وغیر صلیبی حواریوں نے ایسے شاطرانہ داؤ کھیلنے شروع کیے ہیں کہ جس میں اُس کا کچھ نہیں بگڑتا ہے، نہ اُس کے وسائل پر کوئی آنچ آتی ہے اور نہ ہی اُس کی افرادی قوت ضائع ہوجاتی ہے بلکہ بڑی ہی مکاری اور چالاکی کے ساتھ عالم اسلام کو مختلف خانوں میں بانٹ کر اُنہیں آپس میں دست و گریبان کیا جارہا ہے۔ مشرق سے مغرب تک مسلم قوم کو قومیت، وطنیت ، مسلک اور نام نہاد ملکی مفادات کے نام پر ایک ایسی جنگ میں جھونک دیا گیاجس کا ماحصل سوائے مسلمانوں کی تباہی اور بربادی کے کچھ بھی نہیں ہے۔ عراق میں امریکہ بہادر نے خانہ جنگی کی ایسی آگ لگا دی ہے کہ جس میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لاکھوں اُمتی ابھی تک جھلس چکے ہیں اور خون مسلم کی اس قدر ارزانی کے باوجود یہ آگ ٹھنڈاہونے کا نام نہیں لیتی ہے۔ خوشحال ممالک کی فہرست میں مصرایک تھا وہاں مسلم وردی میں ملبوس امریکہ نواز جنرلوں کے ذریعے سے ہزاروں جمہوریت پسند مسلمانوں پر ٹینک چلائے گئے اور منتخب صدر اور اُس کی پوری ٹیم کو زندان خانوں کی نذر کردیا گیا۔وجہ صرف یہ تھی کہ اس جمہوری حکومت نے امریکہ اور اسرائیلی مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کے بجائے عرب ورلڈ کے مفادات کی بات کرکے کئی ایسے اقدام کیے تھے جن سے براہ راست امریکہ اور اُس کی ناجائز اولاد اسرائیل کے مفادات پر چھوٹ پہنچتی تھی۔ کیمپ ڈیوڈ معاہدہ جس کی روسے اسرائیل عرب دنیا کے قدرتی وسائل کو کوڑیوں کے دام لے جاتا تھا اُس کو ختم کرنے اور ایران، شام اور مصر پر مبنی ایک اکنامک زون قائم کرنے جیسے اقدام سے مغرب حواس باختہ ہوگیا اور اُس نے اس جمہوری حکومت کو اپنے ڈلروں کی طاقت سے ختم کروا دیا۔ المیہ تو یہ ہے کہ اس کے لیے مسلم دنیا بالخصوص عرب دنیا کے حکمرانوں کو استعمال کیا گیا۔ لیبیا میں خانہ جنگی برپا کروائی گئی اور معمر کرنل قذافی کو عبرت ناک موت سے دوچار کرکے اس ملک کے وسائل پر قبضہ کرکے وہاں اپنی من پسند حکومت کو وجود میں لایا گیا۔ شام میں شورش برپا کروائی گئی اور ملک شام کی اس لڑائی میں تاحال لاکھوں مسلمان موت کو بشار الاسد گھاٹ اُتار چکاہے۔ سعودی عرب اور ایران کے درمیان ایک ایسی سرد جنگ بڑی ہی مکارانہ حکمت کے ساتھ شروع کی گئی ہے جس کی زد میں پوری مسلم ورلڈ آرہی ہے۔ بلواسطہ یا بلاواسطہ اُمت دونوں ملکوں کی اس سرد جنگ کا حصہ بنتی جارہی ہے ۔ نتیجہ اس کا صرف اور صرف یہ ہوگاکہ نہ صرف دنیا بھرمیں مسلمانوں کا قتل عام ہوتارہے گا بلکہ اُمت مسلمہ کمزور ہوکر اپنی زمینوں اور اپنے قدرتی وسائل سے بھی محروم ہوجائے گی۔ قاتل سمجھے گا میں نے ’’ظالم ‘‘کو دبایا اور مقتول چیخے گا میرے کلمہ خواں بھائی میں نے تمہارا کیا بگاڑا تھا ؟ مسلم دنیا کو اللہ تعالیٰ نے قدرتی وسائل سے مالامال کررکھا ہے اور مغرب کی نظریں اِن بے شمار خزانوں پر ہے جو سرزمین مسلم کی پیٹ میں چھپے ہوئے ہیں۔ستم ظریفی تو یہ ہے کہ عام مسلمان سے لے کر بادشاہوں او رحکمرانوں تک ہر ایک کو معلوم ہے کہ مغرب اور غیر مسلم اقوام اور حکومتیں مختلف بہانوں سے مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹنے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں۔ یہ طاقتیں اُمت مسلمہ کو زیر کرنے کے لیے سرجوڑ کر بیٹھے ہوئے ہیں اور ایسی حکمت عملیاں ترتیب دے رہے ہیں کہ جن کے ذریعے سے مسلمان کو مسلمان کے خون کا پیاسا بنایا جاتا ہے لیکن یہ سب جاننے اور سمجھنے کے باوجود ہم کھلی آنکھوں کے ذریعے سے ان سازشوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ابھی حال ہی میں سعودی عرب نے یمن پر ہوائی حملے شروع کردئے ہیں ، جواز یہ فراہم کیا گیاکہ وہاں حوثی قبائل نے شورش برپا کرکے ملک کے منتخب حکومت کے خلاف بغاوت کی ہے۔ سعودی عرب نے کھلے عام کہا ہے کہ بقول اس کے ان حوثی قبائل کی پشت پناہی ایران کررہا ہے۔ گزشتہ دس گیارہ برس سے یمن میں حوثی قبائل اور حکومت کے درمیان وقفے وقفے سے جھڑپیں جاری ہیں۔ سابق یمنی صدر علی عبداللہ صالح کو عوامی ایجی ٹیشن کی وجہ سے چند برس قبل اقتدار سے علاحدہ ہونا پڑا۔ اس شخص نے اپنے بادشاہت چھن جانے کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کیا اور ملک کو توڑنے کے لیے حوثی قبائل کے ساتھ ساز باز کرکے منصور ہادی کی حکومت کے خلاف اُنہیں استعمال کرنے لگا۔ شمالی یمن میں 1962ء کے انقلاب سے پہلے ایک ہزار سال تک یہاں زیدی اماموں کی حکومت رہی۔ زیدی ایک مخصوص مسلم مسلک کی ایک شاخ ہے۔اْن کا کہنا یہ ہے کہ جب سے اقتدار ہمارے ہاتھ سے نکلا تب سے یہاں کی حکومت نے شمال میں سعادہ کے علاقے کوبہت زیادہ نظر انداز کیا۔حوثی قبائل زیدی فرقے کے ترجمان کے طور پر ابھرکر سامنے آئے ہیں۔حقوق کی پامالیوں کو بنیاد بناکر اس فرقے نے جنگ چھیڑ کر ملک کے بیشتر حصہ پر قبضہ کر لیا۔بعض کلیدی اہمیت کے علاقوں اور ہوائی اڈوں پر حوثی قبائل کے قبضے کے بعد صدر ہادی جان بچا کر پہلے عدن پہنچے اور پھر وہاں سے وہ سعودی عرب چلے گئے اور اب وہیں پر ریاض میںپناہ گزین ہیں۔سعودی عرب کا دعویٰ ہے کہ وہ یمن کے لوگوںکی حفاظت اور صدر ہادی کی جمہوری حکومت بچانے کے لیے دیگر خلیجی ممالک کے ساتھ مل کر یمن میں حوثیوں کے ٹھکانوں پر بمباری کررہے ہیں۔یہاں اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر واقعی جمہوری حکومتوں کو بچانے کے خاطر دوسرے ملک پر فوج کشی کرنی جائز ہے تو پھر اصولوں کا تقاضا یہ تھا کہ مصر میں محمد مرسی کی جمہوری حکومت کو بچانے کے لیے خلیجی ممالک کو مصر پر بھی بمباری کرکے محمد مرسی کی عوامی حکومت کو بچانا چاہیے تھامگر ایسا نہیں کیا گیا بلکہ بعض خلیجی ممالک نے ٹینکوں اور توپوں سے مصر کی عوامی حکومت کو کچلنے کے لیے جنرل السیسی کی غیر قانونی حکومت کی بھرپور مدد کی اور اُسے اپنے ملک میں جمہوریت کا گلہ گھونٹ دینے کے لیے ۱۲؍ ملین ڈالر کی امداد فراہم کی۔ یمن کی جنگ میں یکایک پوری اسلامی دنیا ملوث ہوتی جارہی ہے۔ سعودی عرب اپنا اثرورسوخ استعمال کرکے بیشتر مسلم ممالک کو اس بات پر راضی کرچکا ہے کہ وہ یمن میں اُس کی مدد کریں۔ مطلب یہ کہ مغرب اپنے دیرینہ حکمت عملی کو کامیابی کے ساتھ اپنا رہا ہے اور وہ اپنی سازشوں اور چالاکیوں کے ذریعے سے مسلمانوں کو آپس میں دست و گریبان کرنے میں کامیاب ہوگیا ہے۔ یمن میں جمہوریت کو بچانے اور وہاں کے لوگوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے ہوائی بمباری میں دیر نہیں لگائی گئی لیکن جب فلسطین میں نہتے مسلمانوں کاقتل عام کیا جاتاہے تو ہمارے یہ مسلم حکمران ایک عدد بیان دینا بھی گوارا نہیں کرتے ۔ مسلم حکمرانوں کی بے حسی اور خاموشی کا ہی یہ نتیجہ ہے کہ اُمت مسلمہ کے دیرینہ مسائل دہائیاں گزرجانے کے باوجود حل نہیں ہوتے ہیں۔ مسئلہ فلسطین ہو یا پھر مسئلہ کشمیر، چیچنیا کے مسلمان ہوں یا بھر برما کے کسی مسلمان ملک کو یہ توفیق نہیں ہوتی کہ وہ اپنے تمام تر وسائل کے ساتھ ملّت کے اِن اہم مسائل کو حل کرانے کے سلسلے میں سامنے آجائیں، لیکن جب کہیں پر اپنے ہی مسلم برادر ملک پر آگ و آہن برسانا ہوتا ہے تو حرب و ضرب کے ساتھ چڑائی کرنے میں دیر نہیں لگائی جاتی ہے۔ پاکستان میں تحریک طالبان پاکستانی فوج کے خلاف نعرہ تکبیر بلند کرکے لڑ رہی ہے اور فوج ضرب عضب کے ذریعے سے پلٹ وار کرتی ہے۔ گولی چلانے والا بھی مسلمان اور گولی کھانے والا بھی مسلمان، نہ چلانے والے کو پتہ ہے کہ وہ سامنے والے کو کیوں مار رہا ہے اور نہ ہی مرنے والا جانتا ہے کہ وہ کس مقصد کو پانے کے لیے اپنا سینہ چھلنی کروا رہا ہے۔یہ افراتفری کا عالم اُمت مسلمہ کے سواد عظم کے لیے لمحہ فکریہ کا سبب بنتا جارہاہے۔مسلم حکمرانوں کو ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے ، وہ اپنے ہی ہاتھوں سے اپنی ملت کا شیرازہ بکھیرنے کا سبب بن رہے ہیں۔ وہ مسلمانوں کو اپنے حقیر مقاصد کو لے کر مغرب کی ایما ء پر تقسیم کرنے کا گھناؤنا جرم کررہے ہیں۔ اگر یہی صورتحال رہی تو وہ وقت عنقریب دیکھنے کو ملے گا جب پھر سے اللہ نہ کرے سقوط بغداد کی طرح سقوطِ قاہرہ ہوگا، سقوط ریاض ہوگا، سقوط تہران ہوگا، سقوط اسلام آباد ہوگا وغیرہ وغیرہ اور تاریخ پھر سے ماضی کو دوہرائے گی اور پھر سے بوریوں میں بند مسلم حکمرانوں کے اوپر گھوڑوں کی جگہ اسلام دشمنوں کی ٹینکیں چڑھ دوڑتی ہوئی نظر آئیں گی۔ سعودی عرب صرف عربوں کا نہیں ہے، یہ دنائے اسلام کا سایہ اور دھڑکن ہے۔ اس مقدس سرزمین کے ساتھ عالم اسلام کے مسلمانوں کا ایمان وابستہ ہے۔یہاں پر اللہ کا گھر بیت اللہ ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا روضہ اقدس ہے۔ اس کی حفاظت کے لیے اللہ کی ذات کافی ہے۔ اگر خدا نخواستہ کبھی اس سرزمین کی جانب کسی نے میلی آنکھ اُٹھائی تو ڈیڑھ ارب سے زیادہ مسلم پل بھر میں اپنی گردنیں کٹانیں کے لیے میدان کار زار میں کود جائیں گے۔ عرب حکمرانوں کو سعودی عرب کے سرزمین اور مقدس مقامات کے بارے میں کسی تشویش میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے تھا۔ اُمت مسلمہ کی بھلائی کے لیے اگرمسلم حکمران کچھ کرنا چاہتے ہیں تو وہ صرف یہ ہے کہ وہ اسلام اور مسلم دشمنوں کی سازشوں کا شکار نہ ہوجائیں۔ وہ مسلکی، مکتبی اور ملکی تعصب میں اُمت کو مبتلا نہ کریں۔ وہ امریکہ کی جنگ اپنے گھر میں نہ لائیں، وہ امریکی اور اسرائیلی مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے اُمت کے وسائل کو داؤ پر نہ لگائیں۔ یمن کے مسئلہ کو پُر امن طریقے سے مل بیٹھ کر عرب لیگ کے ذریعے سے یا پھر او آئی سی کے اجلاس میں حل کیا جاسکتا ہے ۔ اسی طرح شام کے مسئلے کا حل بھی نکالا جاسکتا ہے۔ عراق کو بھی خانہ جنگی سے بچایا جاسکتا ہے۔ افغانستان اور پاکستان میں بھی مسلمانوں کو ایک دوسرے کے جان و مال پر دست درازی کرنے سے روکا جاسکتا ہے۔مصر میں بھی ظلم اور بربریت کا سلسلہ بندکروایا جاسکتا ہے، بشرطیکہ اُمت مسلمہ کی جملہ قیادت مغرب کی غلامی سے نکل کر خالص اُمت اور اسلام کی سربلندی کے خاطر سوچنا شروع کردے۔جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں ہوتا ہے بلکہ جنگ صرف تباہی او ربربادی ہی لا سکتا ہے اور اس کے ذریعے سے صرف وسائل ہی برباد ہوجائیں گے۔ اس لیے سمجھداری اِسی میں ہے کہ مسلمان مل جل کر اپنے مسائل کا حل ڈھونڈنے کے لیے سر جوڑ کوششیں کریں۔ یہی اُمت مسلمہ کے لیے بھی بہتر ہے اور اسی میں مسلم حکمرانوں کی بھی بھلائی ہے۔ essahmadpirzada@gmail.com

Comments

Popular posts from this blog

لندن کی کشمیر کانفرنس۔۔۔ ایس احمد پیرزادہ

پبلک سیفٹی ایکٹ اور نیشنل کانفرنس....ایس احمد پیرزادہ