پنڈتوں کو خوش آمدید مگر۔۔۔
ہماری دوستی کب دشمنوں کوراس آئے گی 

٭....ایس احمد پیرزادہ

ریاست جموں وکشمیر ایک متنازعہ خطہ ہے اس لیے سیاسی سطح پر ہر دور میں یہاں کوئی نہ کوئی تنازعہ کھڑا ہوتا رہتا ہے۔ بالخصوص جب بھی کشمیر میں ٹورسٹ سیزن میں جان پڑ نا شروع ہوتی ہے ، کوئی نہ کوئی پنگہ کھڑا کر کے سیاحوں کو باضابطہ طور کشمیر نہ آنے کی گو یا چتاو ¿نی دی جاتی ہے۔ اس بار بھی یہی عمل باضا بطہ طور دہرایا جارہاہے۔ پنڈتوں کی گھر واپسی ایک نان ایشوہے ، اسے جان بوجھ کر ایشو کیوں بنایا جارہاہے اور سیاسی شطرنج کچھ اس طرح سے کیوں بچھایا جارہی ہے کہ یہ تاثر ملے جیسے کشمیر آنے سے پنڈتوں کو روکنے کے لئے یہاں کا بچہ بچہ ہاتھوں میں تلوار لئے کھڑا ہو۔یہ ایک معمہ اورا یک شر انگیزی ہے۔گزشتہ دنوں مفتی محمد سعید کی وزیراداخلہ راج ناتھ سے ملاقات کے فوراًبعد اس بارے میں دھرم یدھ کی سی صورت حال پیدا کی گئی جس میں ہند نواز سیاسی ٹولے اور مزاحمتی گروپ پنڈتوں کی موضوع پربیان بازیایوں میں مصروف ہیں ، بلکہ بعض لوگ خود کو ماڈریٹ اور جمہوریت پسند دکھلانے کی دوڑ میں ایک دوسرے پر سبقت بھی لے رہے ہیں۔ حالانکہ گزشتہ کئی برسوں سے پنڈت برادری بالکل اطمینان سے یہاں آتی جاتی ہے، تلہ مولہ میں میلہ کھیر بھوانی میں پوجا پاٹھ کرتی ہے ، جنم اشٹمی کے جلوس بلا روک ٹوک گھنٹہ گھر لال چوک سے نکال لیتی ہے اور آج تک کسی ایک بھی کشمیر ی مسلمان نے انہیں نہ یہاں آنے سے روکا نہ جانے سے روکااور نہ ہی اُن کی کسی دھارمک سبھا میں کوئی خلل ڈالی۔ قابل غور ہے کہ سالہاسال سے نومحرم ا لحرام کو اسی لال چوک اورآبی گزر سے محرم کاجلوس نکالے جانے پر پابندی عائد کی جاتی ہے کہ نوبت پتھراو ¿، لاٹھی چارج اور گرفتاریوں پر آجاتی ہے۔ بہرصورت جب سے پی ڈی پی نے عنان حکومت سنبھالی ہے، کبھی دفعہ ۰۷۳، کبھی شرنارتھی ، کبھی مسرت عالم کی رہائی اور اب پنڈتوں کی وطن واپسی پر دیدہ ودانستہ ہنگامے کھڑے کئے جاتے ہیں جیسے اس کے پا س اور کوئی کام رہا ہی نہیں ہے سوائے کشمیری مسلمانوں کے نازک جذبات کو چھیڑ کر ا ±نہیں د ±کھ پہنچانے اور ان کی شبیہ کو مشکوک بنانے کے۔ مخلوط حکومت کے سربراہ مفتی محمد سعید نے کشمیری النسل فلمی اداکار انوپم کھیر کو کشمیر بلایا تاکہ وہ کوئی فلمی انداز کا چمتکارکر دکھائیں ، انہوں نے کشمیر کے بارے میں دلی جاکر حکومت ہند کوصلاح دی کہ پنڈتوں کے لئےexclusive ٹاو ¿ن شپ کو عملائے کیونکہ تین فی صد اقلیتی آبادی ستانوے فی صد اکثریت کے ساتھ نہیں رہ سکتی، دفعہ ۰۷۳کو ہٹایاجائے اوریہ کہ کشمیر کے عام لوگ نہیں بلکہ چند لوگ ہیں جو شرارتیں کر رہے ہیں۔ ان سے عرض ہے کہ اگر بات صرف ”چند لوگوں“ کی ہے تو کھیر کو حکومت ہند کو مشورہ دینا چاہے کہ ریاست میں وہ ایک ہی بار رائے شماری کراکے ان ”چند لوگوں“کو کراری شکست دے۔ دلّی نے روز اول سے کشمیرکاز کو کچلنے کے لئے اور کشمیری عوام کی ہمت توڑنے کے لیے رات دن حکمت عملیاں ترتیب دیں اور ایسی ایسی پالیسیاں وضع کیں جو کشمیر میں امن کو درہم برہم کرنے کے ساتھ ساتھ سماج کومنقسم کرنے پر منتج ہوتی ہیں۔نوے کی دہائی میں عسکریت شروع ہوتے ہی کشمیری سماج کو تقسیم کرنے کی پالیسی اختیار کی گئی جو تا حال جاری ہے۔ ا ±س وقت کے گورنر جگ موہن نے فرقہ پرستانہ سوچ اپناکر کشمیری پنڈتوں کو سبز باغ دکھاکریہاں سے رخصت رعایتی پرجانے کی سہولیات فراہم کیں تاکہ اکثریتی طبقے کے ساتھ ظلم وجبر روا رکھ کر اس سے گھٹنے ٹیک دینے پر مجبور کیا جائے۔اس الم ناک تاریخ کے سفر سے ہم سب واقف ہیں۔ اب جب کہ حالات قدرے بہتر ہوئے، کشمیریوں نے سیاسی جدوجہد کے ذریعے سے اپنے جائز حقوق کی مانگ کرنا شروع کیا ، تو اس کا توڑ کر نے کے لئے ریاست کی آبادیاتی ساکھ توڑنے کے لئے کبھی شرنارتھی اور کبھی پنڈت ہوم لینڈ کاکارڈ کھیلاجارہا ہے۔ پریوار کا ابتداءسے ہی یہ ایجنڈا بنارہا ہے کہ کشمیری پنڈتوں کو وادی کے اندر الگ ہوم لینڈ فراہم کرنے کے علاوہ ریاست میں مغربی پاکستان کے رفوجیوں کو بھی مستقبل بنیادوں پر شہر یت دے کر آباد کیا جائے، بالفاظ دیگر ریاست کی مذہبی بنیادوں پر حصے بخرے کر نے کے درپے ہے۔ فرقہ پرست طاقتیں یہ بھی کہتی چلی آرہی ہیں کہ کشمیریوں کی جدوجہد کا ختم کرنے کے لئے وادی کے اندر سابق فوجیوں کو بسایا جائے۔ پنن کشمیر جیسے فرقہ پرست عناصر کشمیری پنڈتوں کو انہی معنوں میں دلی کا شو پیس بنا کر اپنا کھیل کھیل رہاہے۔ پہلے یہاں سے پنڈتوں کوصرف اس لئے بھگا یا گیا تاکہ دنیا میں یہ شوشہ عام کیاجائے کہ کشمیر میں کوئی جنیون کا زیا تحریک نہیں جس کی پشت پر یو این قراردادیں ہیں اورا س سے یہ تاثر دینا بھی مطلوب تھا کہ یہاں مذہبی جنونیت چل رہی ہے جس کو کچلنے کے لئے افسپا کی چھتر چھایا لازم وملزوم ہے۔ ایسا کر کے بآسانی کشمیریوں کی نسل کشی کر نے کا ہدف بھی پورا ہو رہاتھا۔ اس اسکیم کا باضابطہ آغاز ا ±س وقت کے گورنر جگ موہن نے کیا بھی تھا۔ بنا بریں پنڈتوں کو دلی سے لے کر جنیوا تک مظلوم کشمیری مسلمانوں کے خلاف پروپگنڈا ٹول بنایا گیا اور بیرونی دنیا میںجھوٹ موٹ کی کہانیاں گھڑ کر کہا گیا کہ ان ”بے چاروں“ پر وادی کے اکثریتی طبقے نے کیا کیا”ظلم“ڈھائے اور انہیں ” بنیاد پرستوں“ نے وہاں سے نقل مکانی پر کیونکرمجبور کردیا تھا۔ اگر چہ پنڈت کمیونٹی کا گھربار چھوٹ گیا مگر متعددحکومتی مراعات سے ا ±ن کے وارے نیارے بھی ہوگئے۔ ایک تو ا ±نہیں بیرون ریاست ہر طرح کی سہولیات میسر رکھی گئیں،امداد دی گئی ، بچوں کو مفت تعلیم فراہم کی گئی ، نوکریاںدی گئیں۔ چنانچہ آج کی تاریخ میںکشمیری پنڈت ہندوستان کے مختلف شہروں اور ریاستوں کے علاوہ بیرون ممالک میں آباد ہیں۔ اس کے برعکس یہاں وادی اور جموں کے مسلم بیلٹ پر کیا کیا مصیبتیں ڈھائی گئیں، ا ±ن کے تصور سے ہی روح کانپنے لگتی ہے۔ ہمارے نوجوانوں سے قبرستان آباد کیے گئے۔،ہماری املاک لوٹی گئیں، مکانات اور دیگر تعمیرات نذر آتش کی گئی،ہماری روز تذلیل کی گئی ، ہماری ثقافت پر ڈاکے ڈالے گئے ، ہمارے عقائد کو ہم سے چھین لینے کی سازشیں رچائی گئیں، آزاد فضاو ¿ں میں جینا ہی ہم پرحرام کردیا گیا اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔ ہماری ہر سانس پر پہرے بٹھائے گئے ہیں ، ہمارے تعلیمی سسٹم کو مکمل طور پر خستہ بنادیا گیا۔ یہ الگ بات ہے کہ کشمیریوں نے طوفانوں میں بھی ہمت نہیں ہاری اور یہ اپنی نسل نو کو تعلیم کے نور سے منور کرتے رہے اور نئی پود اِن پڑھ گنوار اور جاہل نہ رہی۔ 
ریاست میں پہلی بار بی جے پی یہاں کی علاقائی جماعت پی ڈی پی کے ساتھ مخلوط حکومت میں سیاسی بندھن میں ہیں ،دونوں جماعتوں نے مختلف ایشوز کے حوالے سے ایک دوسرے کے ساتھ مفاہمت کی ہوئی ہے۔ درپردہ کن معاملات پر مفاہمت پائی جاتی ہے ، ا س سے قطع نظر بی جے پی یہاں کشمیری پنڈتوں کے لیے الگ ہوم لینڈ کا مطالبہ کرتی آرہی ہے اور اس حوالے سے دلّی حکومت نے ایک خاکہ بھی ترتیب دیا ہے۔ حال ہی میں ہندوستانی ہوم منسٹر راج ناتھ سنگھ نے ایک خط کے ذریعے سے ریاستی حکومت پر زور دیا کہ وہ جلد از جلد زمین کی نشاندہی کرے جہاںکشمیری پنڈتوں کے لیے علاحدہ کالونیاں تعمیر کی جاسکیں۔اس حوالے سے ریاستی وزیر اعلیٰ مفتی محمد سعید نے بعد میں راجناتھ سنگھ سے ملاقات بھی کی اور ا ±نہیں یقین دلایا کہ وہ جلد از جلد زمین فراہم کرنے کے علاوہ ضروری اقدامات کریں گے۔اسمبلی میں اپوزیشن ممبران اور مزاحمتی خیمے کی جانب سے علاحدہ کالونیاںتعمیر کرنے کی شدید مخالفت کے بعد وزیر اعلیٰ نے اپنی صفائی میں ایوان میںجو بیان دیا جو شکوک کے ازالے سے زیادہ لفظوں کا ہیر پھیر تھا۔مفتی سعید کے بیان پر بی جے پی کے ریاستی جنرل سیکریٹری اشوک کول نے بتایا کہ”مفتی سعید کیا کہتے ہیں یہ ہمارے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہے بلکہ ہم جانتے ہیں کہ ہم کیا چاہتے ہیں اور ہمیں کیا کرنا ہے۔وہ (مفتی سعید) ہمیں کشمیری پنڈتوں کے لیے علاحدہ ہوم لینڈ قائم کرنے سے نہیں روک سکتے ہیں۔“ 
سب سے پہلے یہ بات کشمیری پنڈتوں کے ساتھ ساتھ پورے ہندوستان کو ذہن نشین ہونی چاہیے کہ ریاست جموں وکشمیر مسلم اکثریتی علاقہ ہے۔ یہاں مسلمانوں میں مذہبی رحجان زیادہ پایا جاتا ہے۔ اسلامی تعلیمات کو ماننے اور ا ±ن پر عمل پیرا ہونے کے سبب ہی کشمیر مذہبی رواداری کے لیے صدیوں سے مانا جاتا ہے۔ جس طرح ہندوستان کی دوسری ریاستوں میں مسلمانوں کے خلاف فرقہ وارانہ فسادات برپا کیے جاتے ہیں اور ا ±ن کی جائیداد و املاک کے ساتھ ساتھ ا ±نہیں جانی نقصان سے بھی دوچار کردیاجاتا ہے ،ایسا کشمیر میں نہ کبھی ہوا ہے اور نہ آئندہ کبھی ایسا ہوگا۔ پنڈت کشمیر سے خودنقل مکانی کر گئے ، ا ±نہوں نے خود اپنی جائیداد یہاں کے مسلمانوں کو بیچ دی ہیں، اس کے باوجود یہاں کے مسلمان ا ±ن کی واپسی پر ا ±نہیں خوش آمدید کہنے کے لیے تیار ہیں۔اس کے برعکس گجرات ، آسام ، مہاراشٹر اور اب حال ہی میں مظفر نگر میں مسلمانوں کو ڈرا دھمکا کر اپنے اپنے علاقوں سے بھاگنے پر مجبور کیا گیا۔ ا ±ن کا مال اور جائیداد لوٹ لیا گیا۔ ہزاروں مسلمان موت کی گھاٹ ا ±تار دئے گئے اور تاحال یہ سننے میں کبھی نہیں آیا کہ مذکورہ جگہوں پر ”بھائی چارہ“ میں یقین رکھنے والے ہندو ¿ں نے ا ±ن ہزاروں بے گھر مسلمانوں کو واپس اپنے علاقوں میں آنے کی دعوت دی ہو۔ممبئی، گجرات اور مدھیہ پردیش میں بہت سارے علاقے ایسے ہیں جہاں مسلمان کوئی پراپرٹی نہیں خرید سکتے ہیں۔ نامی گرامی مسلمانوں جن میں فلم دنیا کے جاوید اختر اور شبانہ ا عظمی جیسے سیکولر مسلمان شامل ہیں ، ان کو بھی ممبئی کے پوش علاقوں میں گھر خریدنے کی اجازت نہ ملی۔ المیہ تو یہ ہے کہ نفرت اور فرقہ پرست سوچ رکھنے والا یہی سماج کشمیریوں کو انسانیت کا درس دیتا ہے۔ کشمیریوں کی مہمان نوازی اور رواداری تو دنیا بھر میں مشہور ہے۔ بھینگی آنکھ والے میڈیا کوا ±س وقت شرم سے ڈوب مرنا چاہیے جب وہ کشمیر اور کشمیری مسلمانوں کو یہ طعنہ دے دیتے ہیں کہ انہوں نے کشمیری پنڈتوں کو یہاں سے بھگایا اورا ب واپس نہیں آنے دیتے۔اسلام نے مسلمانوں پر یہ فرض عائد کیا ہے کہ وہ اپنے اندر غیر مسلموں کے حقوق کو من وعن تحفظ فراہم کریں۔ ا ±ن کی حفاظت اور ا ±ن کی ضروریات کا خیال رکھیں۔ اسلام نے عام مسلمانوں کو بھی ہمسائیوں کے حقوق ادا کرنے کی جو تلقین کی ہے وہ کسی اور مذہب میں نہیں ہے۔ اگر پڑوسی غیر مسلم ہوں تو ذمہ داری دوہری ہوجاتی ہے۔ ایسے میں آپسی بھائی چارے کا سبق کوئی کشمیریوں کو سکھائے تو ا ±س کی عقل پر حیرانی ہی ہوجاتی ہے۔ اب جہاں تک کشمیری پنڈتوں کی وطن واپسی کے حوالے سے خواہ مخواہ کی جو سیاست گرمائی جارہی ہے، ا ±س سے واضح ہورہا ہے کہ یہ یہاں آبادی کے تناسب کو بگاڑنے کی کوئی گہری سازش ہے جس کے مہرے پنڈت بن رہے ہیں یا بنا ئے جارہے ہیں۔ یہ گھناو ¿نا کھیل اب منظم انداز سے کھیلا جارہا ہے اور اس کے لیے کشمیری پنڈتوں کی بعض تنخواہ دار تنظیموںکا سہارا لیا جارہا ہے۔ حساس اور باشعور کشمیری پنڈتوں کو چاہیے کہ وہ فرقہ پرست ذہنیت رکھنے والے آستین کے سانپوںکی سازشوں کا شکار نہ ہوں بلکہ کشمیری مسلمانوں کے ساتھ صدیوں پرانے بھائی چارے کے میٹھے رشتوں کو ہر چیز پراولیت دیں۔ وہ سیاسی سوداگروں کے شور کی بھینٹ نہ چڑھے۔ جہاں چاہیں وہاں حکومتی حصار وں سے باہر مسلمانوںکے شانہ بشانہ زندگی گزارنے کا عزم بالجزم کریں۔ اسی طرح کشمیری پنڈتوں اور مسلمانوںمیں باہمی اعتماد بحال ہوسکتاہے اور کشمیر پھر ایک بار برصغیر کے لئے امیدوں کا گہوارہ بن سکتاہے۔۔ پنڈتوں کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ فوج اور نیم فوجی دستے ہمیشہ ا ±ن کے ساتھ نہیں رہیں گے، حکومت کی امداد ا ±نہیں ہر حال میں مہیا نہیں رہنے والی ہے ،بالآخر انہیں یہاں کے مسلمانوں کے ساتھ ہی جینا اور اٹھنا بیٹھنا ہے اور ا ±ن ہی میں اپنے شب و روز گزارنے ہوں گے۔ ایسے میں وہ وقتی فائدوں کو سمیٹنے کے لیے سازشوں کا حصہ نہ بنیں کیونکہ یہ کسی بھی صورت میںاُن کے لئے نفع بخش نہیں۔ 
یہاں یہ بات حوصلہ افزا ہے کہ اس اشو کے حوالے سے کشمیری مزاحمتی اور دینی جماعتیں ایک ہی صف میں کھڑی ہیں اور اس سے بھی زیادہ حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ بعض پنڈت جماعتیں اور لوگ کھل کر حکومت کی سازشوں کے خلاف سامنے آگئے ہیں اور انہوں نے ایسی کسی بھی سازش کا حصہ نہ بننے کا فیصلہ کرلیا ہے۔تحریکی جماعتوں اور باشعورلوگوں کے ساتھ ساتھ یہاں کے دانشوروں اور سول سوسائٹی کو بھی اسرائیلی طرز کی اس حکمت عملی کو پ ±ر زور انداز میں مسترد کرنا چاہیے اور پی ڈی پی حکومت پر واضح کیا جانا چاہیے کہ وہ کسی بھی صورت میں بی جے پی اتحاد ی ہونے کے ناطے کشمیریوں کے حقوق پر شب خون مارنے کی مجاز نہیں اور مفتی محمد سعید کو جو منڈیٹ ملاہے وہ ایک اور غلام محمد صادق بننے کے لئے نہیں ملاہے۔ان کی ا س وقت اولین ترجیح سیلاب متاثرین کی باز آبادکاری ا ور کشمیر کی تعمیر نو ہونی چاہیے نہ کہ کشمیری پنڈتوں کے نام پر بھاجپا کی جی حضوری کرنا۔۔ کچھ اشوز ایسے ہوتے ہیں جہاں جماعتی اور ذاتی فائدوں سے اوپر ا ±ٹھ کر ملی اور قومی مسائل کی جانب توجہ دینی لازمی بن جاتی ہے۔ اگر اس موقعے پر حکمران پی ڈی پی سے کوئی بھول ہوئی تو آنے والی نسلیںا سے معاف نہیںکریں گی۔
 essahmadpirzada@gmail.com

Comments

Popular posts from this blog

لندن کی کشمیر کانفرنس۔۔۔ ایس احمد پیرزادہ

پبلک سیفٹی ایکٹ اور نیشنل کانفرنس....ایس احمد پیرزادہ