خالد وسہیل کی ہلاکت مسرت کی حراست

ہے صید کا قفس جہاں صیاد کا قصروہیں 

مسرت عالم کی رہائی پر غم اور غصے کی آتشیں لپٹیں اٹھیں اور دس بارہ ورز بعد بغیر کسی تحقیقات یا جواز کے ا نہیں دوبارہ گرفتار کیا گیا تو شادیانے بجے اور واہ واہ کی آوازیں بلند کی گئیں جیسے کسی بڑے معر کے کو سر کیا گیا ہو ۔ ریاست جموں وکشمیر کا سیاسی منظر نامہ کسی نہ کسی بہانے ہمیشہ ہنگامہ خیز رہتا ہے، یہاں کی دنیا ہی الگ ہے، یہاں حکومتیں تو ضرور ہوتی ہیں لیکن اُن کے اکثر اور اہم فیصلے ریاست سے چھ سات سو کلو میٹر دور حکومت ہند کی منشا ء اور مرضی سے ہوتے ہیں۔ یہاں کہنے کو قانونی ادارے اور قانون نافذ کر نے والے صیغے بھی قائم ہیں مگر ہمیشہ قانون کے تقاضوں کو بالائے طاق رکھ کر انصاف کی دیوی کا جامہ تار تار کیا جانا ان کے لئے بائیں ہاتھ کاکھیل ہے۔ فی ا لوقت کملابوچھو ترال کا خالدمظفر وانی اور نارہ بل کا سہیل احمد صوفی ان پہلوانوں کی بندوقوں کا خوارک بن کر قبروں کی زینت بن چکے ہیں اور پورا کشمیر حسب دستور سر اپا احتجاج ہے مگر چشم فلک منتظر ہے کب کوئی دوسر اخالد اور سہیل بندوقوں کے آتش وآہن کی بھوک مٹائے اور نئے احتجاج کا الم ناک منظر منصہ ٔ شہود پرآئے ۔ یہی ان افسپا کے پرستاروں کی’’ حسن کارکردگی‘‘ کا مارکس شیٹ ہے۔ یہاںکے لوگوں کے لیے عدالتیں بیرون کشمیر کی متعصب میڈیا چینلوں کے نیوز روم میں سجتی ہیں جن سے مظلومین کے خلاف فتوے صادر ہوتے ہیںاور جو’’دیش بھکتی‘‘ کے جذبے سے سر شار ہوکر ’’اجتماعی ضمیر ‘‘کی تشفی کے لئے ہر بے گناہ خالد اور سہیل کے گلے میںہی ’’جرم‘‘ کا پٹہ ڈال کر کشمیریوں کی بے بسی و بے نوائی کا مذاق ہی بنا تیں بلکہ پیشہ ٔ صحافت کی دھجیاں بھی اڑاتی ہیں ۔ ان معنوں میں وادیٔ کشمیر کو اگر دنیا کی نرالی اور انوکھی جگہ کا نام دیا جائے تو بے جانہ ہوگا۔ نرالی اور انوکھی اس لئے کہ مہذب دنیا میں انسانی جذبات کا احترام کیا جاتا ہے لیکن یہاں کسی کے جذبات کا احترام گناہ کے زمر ے میں آتا ہے ۔ اس پر طرہ یہ کہ دنیا ئے انسانیت کو جو لوگ انسانی حقوق کے تحفظ وتقدیس کا درس دیتے ہیں اور عالم گیر سطح پر شرف ِ آدمیت کی قدر و قیمت سمجھا تے سمجھاتے تھکنے کا نام نہیں لیتے لیکن ریاست جموں وکشمیر میں انسانی حقوق کو پاؤں تلے روندھ کر بھی ان کے ماتھے پر کوئی شکن نہیں پڑتی ۔انصاف کی علمبردار ی کا پوری دنیا ان کو دعویٰ ہے مگر یہاں کی بات آتی ہے تو آنکھیں بند اور زبانیں گنگ ہوجاتی ہیں ، کیونکہ ان کے انصاف کے معاملے میں معیار دوہرا ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں سے کشمیری پنڈتوں کے کل ملاکر دو سو سے کچھ زائد لوگ نامساعد حالات کا شکار ہوکر جان بحق ہوئے، (اگرچہ ایک واحد انسانی جان کی حرمت بھی مسلمہ ہے اور کسی بھی بردادی یا جاتی یا مذہب کے ہلاک شدگان پر کف ِ افسوس مل کر ہی ہم انسان ہونے کا دعویٰ کر سکتے ہیں)لیکن اس پر یورپ سے لے کر جنیواتک اور ہندوستان سے لے کر امر یکہ تک شور شرابہ ہی نہیں بلکہ ہزاروں سمینارز منعقد کرائے گئے کہ اکثریتی طبقے یعنی مسلمانوں نے کشمیری پنڈتوں کی’’ نسل کشی‘‘ کی ہے۔پورا غیر کشمیری متعصب میڈیا کشمیری پنڈتوں کے حقوق کا ڈھول اس انداز سے پیٹ رہا ہے کہ تارک وطن پنڈت ’’ بے چارے‘‘ کہلائے جارہے ہیںاور ایک لاکھ سے زیادہ جانیں گنوانے والے ’’ظالم وقاتل‘‘۔ حالانکہ یہاں کے اکثریتی طبقے کے کتنے ہی خالدوں اور سہیلوں کو حالات کی سولی پر چڑھا یا جاتاہے کہ ا ب تک سوا ایک لاکھ کشمیری کو جرم بے گناہی میں ابدی نیند سلا دئے گئے ہیں۔ نوے سے آگے یہاں پانچ سو نئے قبرستان آباد کئے گئے، یہاں ظلم و ستم کے کون کون سے پہاڑ توڑے گئے اس کا اندازہ حالات کے مارے کشمیری مسلمانوں کے علاوہ کسی کو نہیں ہوگا لیکن اس کے باوجود یک چشمی میڈیا یہاں کے اکثریتی طبقے کی اس انداز سے صورت گری کررہا ہے کہ لگتاہے کہ دنیا کے نقشے پر اگر کہیں کوئی ’’خونخوار‘‘ قوم موجود ہے وہ خالص کشمیری مسلمان ہیں۔یہاں پُر امن جلوس نکالنا تو ودر ہلاک شدگان کا ماتم منانے اور تعزیت پُرسی پر بھی پابندی عائد ہے اور خلاف ورزی کی صورت میں گولیاں اور لاٹھیاں برسائی جاتی ہیں ، نہتوں کا خون بہایا جاتا ہے اور صدائے احتجاج بلند کرنے والوں کے خلاف نہ جانے کون کون سے ایکٹ لگاکر اُنہیں پابند سلاسل بنادیا جاتا ہے اور جب حالات بے قابو ہوجائیں تو انکوائری کا لالی پپ مظلوموں کے ہاتھوں میں تھما کر وقت گزاری کی جاتی ہے ۔ اوپر سے دلی کی متعصب میڈیا چینلوں کا ٹرائیل شروع ہوجاتا ہے اور اس انداز سے صورتحال کو پیش کی جاتی ہے کہ تمام کشمیریوں کو جیسے ’’جان سے ماردینے‘‘ کے علاوہ کوئی چارہ ہی باقی نہیں بچا ہو۔ جب پنڈت برادری یا پنن کشمیر وغیرہ نامی گرامی فرقہ پرست عناصر جموں یا دلی میں ہنگامہ آرائی کرتے ہیں یا جموں کشمیر سٹیٹ کے آئین کو نذر آتش کر تے ہیں تو سیاست دانوں سے لے کر میڈیا چینلوں تک ہر کوئی اُن کی پشت پر کھڑا ہوجاتا ہے اور ان کی غیرقانونی حرکات پر چپ سادھ لیتے ہیں۔ پولیس کواُن سے میلوں دور رکھا جاتا ہے اور ان کے احتجاج کو اُن کا حق قرا ردیا جاتا ہے۔یہ سوچ ملک کو کس جانب لے جارہی ہے ؟اس تعصب ونفرت کے کھیل سے ہندوستان کس راہ پر گامزن ہورہاہے؟ یہ ثابت کررہاہے کہ اکثریتی قوم یہاں مسلمانوں کا جینا حرام کرنے کے ایجنڈے پر برا بر گامزن ہے اور یہ کہ دوقومی نظریہ برحق ہے۔ بہرصورت زور زبردستی ، دھونس دباؤ اور پروپیگنڈوں سے اگر تحریکات کا خاتمہ ممکن ہوتا تو شاید نوے کی دہائی کے بالکل ابتداء میں ہی کشمیریوں کی سیاسی جدوجہد نے دم توڑ دیا ہوتا۔ اُن دنوں تو یہ جد وجہد ایک چنگاری تھی مگر اب یہ شعلہ بن چکی ہے۔ تصویر کا یہ رُخ بھی دیکھئے ۔پی ڈی پی نے انتخابات میں جو کامیابی حاصل کی ہے وہ اس بنیاد پر نہیں کہ یہ کوئی مسیحائی جماعت ہے اور اقتدار میں آنے کے بعد کوئی چمتکار دکھاپائے گی بلکہ اس جماعت کو یہاں کے لوگوں نے صرف اس لئے جتوایا کیونکہ وہ نیشنل کانفرنس کی سرکار ہر معاملہ میں ہدایات دلی سے لیتی تھی۔ نیشنل کانفرنس نے اور باتوں کے علاوہ مزاحمتی جماعتوں کی سیاسی سرگرمیوں پر پوری طرح سے قدغن لگا ئے رکھی تھی۔ عمر عبداللہ کے دور اقتدار میں معصوم نوجوانوں کی گرفتاریاں عمل میں لاکر اُن کے خلاف الل ٹپ کیس درج کئے جانے کا رواج بلکہ آندھی ہی چل پڑی تھی جس پر نہ صرف مزاحمتی جماعتیں نالاں تھیںبلکہ پی ڈی پی کا روز کوئی نہ کوئی بیان ایسا آتا جس میں معصوم نوجوانوں کی گرفتاریوں کے علاوہ مزاحمتی جماعتوں کی سیاسی سرگرمیوں پر پابندی اور گرفتاریوں کی مذمت کی جاتی ۔ پی ڈپی پی نے اپنے انتخابی منشور میں بھی اس بات کو شامل کررکھا اور اس کا خوب پروپیگنڈا بھی کیا کہ اقتدار میں آنے کے بعد وہ تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی عمل میں لائے گی اور نوجوانوں کی ہراسانی کو بند کرے گی۔عام لوگوں نے ان بیان بازیوں سے یہ ثاثر لیا کہ شایدیہ جماعت یہاں سیاسی ماحول کو پروان چڑھانے میں مخلص ہے ، انسانی حقوق کی عمل آوری پر پورا اترے گی اور مزاحمتی خیمے کو بھی اپنی بات پُر امن طریقے سے عوام کے سامنے رکھنے کی اسپیس فراہم کرے گی۔ المیہ یہ ہے کہ عام کشمیریو ں کی خوش فہمی زیادہ دیر قائم نہیں رہی بلکہ شروع میں ہی پی ڈی پی نے ہندوتوا کی علمبردار بی جے پی کے ساتھ اتحاد کرکے ثابت کردیا کہ اس کے کہنے او رکرنے میں آسمان و زمین کا فرق ہے۔ بہر کیف سینکڑوں سیاسی قیدی ریاست اور ریاست سے باہر کی جیلوں میں نظر بند ہیں، پندرہ پندرہ اور بیس بیس سال سے جیلوں میں سڑ رہے ہیں، ان میں سے بعضوں کو ملی سزائیں بھی مکمل کر لیں ،اس کے باوجود مفتی حکومت نے اقتدار سنبھالنے کے بعد اُن میں سے کسی کو رہا نہیں کیا بلکہ مزاحمتی لیڈر مسرت عالم بٹ کو جنہیں ۲۰۱۰ئ؁ میں گرفتار کرلیا گیا تھا اور اُن پر۲۷؍فرضی کیس درج کئے گئے تھے، وہ اس انداز سے رہاکئے گئے جیسے پی ڈی پی گورنمنٹ نے کشمیر کو’’ آزاد‘‘ کرلیا ہو۔ حالانکہ مسرت عالم کو عدالت نے اُن پر عائد تمام کیسوں سے باعزت بری کردیا تھا اور کورٹ نے حکومت کو بار بار تنبیہ کی کہ وہ ماورائے عدالت ان کو جیل میں بند نہ رکھیں۔ چنانچہ پہلے سے تیار شدہ پلان کے مطابق عالم کو رہا کردیا گیا تو متعصب میڈیا پر بے جا تنقیدیں اور واویلا کرنے کے دورے پڑگئے کہ پورے ہندوستان میں ایسی ذہنی فضا قائم کی گئی جیسے کسی سیاسی قیدی کونہیں بلکہ مصلوب افضل گورو میں نئی زندگی پھونک دی گئی ہو۔ اس یک طرفہ پروپیگنڈا کچھ اس انداز سے کیا گیا کہ پی ڈی پی کو یہ تک کہنے کی جرأت نہیں کی مسرت عالم بٹ پر کوئی جرم ثابت نہ ہوا، اُنہیں حکومت کو عدالتی احکامات کے تحت رہا کرنا ہی کرتا تھا۔ اپنی سنسنی خیز خبریں چلاکر پیٹ پالنے والے متعصب میڈیا نے مسرت عالم بٹ کی ایسی پہچان بنائی اُسامہ بن لادن اُن کا چیلہ تھا۔ اس سے اُن کی جان کو بھی خطرہ لاحق ہوگیا ۔ اتنا ہی نہیں بلکہ متعصب میڈیا اور زعفرانی سوچ کی کارستانی سے محض ایک قیدی کی رہائی پر پی ڈپی پی کی حالت غیر ہوگئی، اسے پاکستان نواز تک کالقب دیا گیا۔ مفتی محمد سعید نے اس کا نفسیاتی اثر قبول کرکے جو نرم لہجہ اور وطیرہ اختیار کیا اُس سے ثابت ہوا کہ انہیں بشمول اپنی ٹیم اپنے چھوٹے پن کی وہی حیثیت اختیار کر ناہوگی جو کسی زمانے میں شیخ محمد عبداللہ کو بہ حیثیت وزیراعلیٰ کو قبول کرنا پڑی جب آرمی نے کسی بات سے خفا ہوکر بادامی باغ سے بحالت طیش نکلے اور لل دید ہسپتال سری نگر کے پاس ہاکیوں سے مار مارکرعام لوگوں کی سر راہ دھلائی کی اورڈی آئی جی علی محمد وٹالی کے دانت تک توڑ کر وقت کی حکومتی قیادت کو اپنی اوقات یاد دلائیں، حالانکہ اس وقت کوئی افسپا نافذ نہ تھا ۔ چنانچہ اسی تاریخ کا اعادہ کچھ دوسرے اسلوب میںہوا اور مسرت عالم کو بہانہ بنا کر واپس گھر سے جیل میں ٹھونس دیا گیا۔ اب شاید ہی پی ڈی پی اُن سینکڑوں اسیرانِ زندان کی رہائی کے بارے میں کوئی بات کر ے گی جن کی رہائی کا وعدہ اقتدار کی کرسی پر براجمان ہو نے سے پہلے کیا گیا تھا۔ حریت گ سربراہ سیّد علی گیلانی سابقہ حکومت کی قریب قریب پوری مدت کے دوران اپنے گھر کے اندر نظر بند رکھے گئے۔ اُنہیں اپنی سیاسی سرگرمیوں کی کبھی نہ اجازت دی گئی اور نہ ہی اُن کی یقین دہائیوں کے باوجود کہ اُن کی تمام سرگرمیاں پُر امن ہوں گی، اُنہیں گھر سے باہر نکلنے دیا گیا، جمعہ نماز تک پر پابندی عائد کی گئی ، اُن کے سائیوں پر بھی پہرے بٹھا دئے گئے، ان کو اپنے کسی رشتہ داروغیرہ کی شادی غمی میں شرکت کا موقع بھی نہ دیا گیا۔ پی ڈی پی اُن کی نظر بندی پر نیشنل کانفرنس حکومت کو آڑے ہاتھوں لے رہی تھی اور اُنہیں دلّی کے اشاروں پر ایسا کرنے کا الزام دیتی تھی۔اب جب کہ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی خود اقتدار میں ہے ، صورتحال کیا ہے؟ حال ہی میں جب سیّد علی گیلانی واپس وادی وارد ہوئے تو اُن کا پُر جوش استقبال کیا گیا۔ استقبال میں حریت کانفرنس (گ) کی تمام اکائیاں بھی شامل تھیں۔،مسلم لیگ بھی ایک اکائی ہونے کے ناطے مسرت عالم بٹ بھی اُن کے استقبال کے لئے حیدر پورہ پہنچ جاتے ہیں۔ یہاں ہندوستانی میڈیا کو کچھ نظر نہ آیا بجز اس کے کہ تمام کیمرے اُن سبز ہلالی پرچموں کو فوکس کررہے تھے جو جم غفیر میں نظر آرہے تھے۔ اس پر خوب واویلا کیا گیا کہ وادی میں پاکستانی پرچم لہرائے گئے۔ یہ جھنڈے کس نے لہرائے ، کیوں لہرائے ، یہ محبت کا ظہار تھا یا کوئی منصوبہ بند شرارت؟ اس کی تہ میں جائے بغیر میڈیا نے اسے مرچ مسالہ لگاکر خوب اچھالا۔ یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ وادی میں ۱۹۴۷ء سے ہی سبز ہلالی پرچم موقع بے موقع لہرائے جاتے رہے ہیں۔ اس بات کا اعتراف سابق کانگریس حکومت کے وزیر خزانہ پی چدمبرم نے پارلیمنٹ میں بھی کیا کہ پرچم لہرانے کا یہ عمل کشمیرکی مساجد میں ۴۷ ء سے جاری ہے۔ یہاں جو لوگ عمر عبداللہ اور مفتی محمد سعید وغیرہ کو بھی ووٹ دیتے ہیں وہ بھی ترانگا نہیں لہراتے۔ یہاں ۲۶؍جنوری اور ۱۵؍اگست کے دنوں پر کرفیو نافذ رہتا ہے ۔ یہاں ان دونوںدنوں پر تقریبات عوامی سطح کی نہیں بلکہ سیکورٹی کے حصار میں سرکاری عہدہ داران منعقد کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ تعصب زدہ میڈیا کو یہ سبز جھنڈا آج ہی کیو ں نظر آیا ؟ سبز ہلالی پرچم لہرانا اگر واقعی میں اتنا سنگین جرم ہے تو پھر پوری کشمیری قوم کو جیل کے اندر ٹھونس دینا چاہیے کیونکہ یہ ’’گناہ ‘‘تو پوری قوم کر تی رہی ہے۔ بعض کشمیری پنڈتوں نے حال ہی میں جنتر منتر دلی میں ایک احتجاج کے دوران ریاست کا’’ آئین‘‘ ہی نذر آتش کردیاتھا۔ یہ بھی تو ایک سنگین جرم ہے ،ا س سے ریاست جموں وکشمیر کا ’’آئین ‘‘ نذر آتش کرنے سے ریاست کی توہین بھی تو ہوئی ہے مگر کوئی واویلا نہیں ہوا۔۔۔ کیوں؟ کسی کو گرفتار کیوں نہیں کیا گیا؟ دلی نے نہ سہی پی ڈی پی والوں نے یہ شرارت کر نے کے خلاف یہاں کوئی ایف آئی آر درج کیوں نہ کیا؟ یہ دوعملی کسی بھی صورت میں پی ڈی پی کے لئے نفع بخش ثابت نہیں ہوگی ۔حیدر پورہ جلسے میں حریت (گ) کی تمام اکائیاں شامل تھیں۔ تمام جماعتوں کے سپورٹر وہاں استقبالیہ جلسے کا حصہ بنے ہوئے تھے لیکن کیا وجہ ہے کہ کیمرہ صرف مسرت عالم بٹ کو فوکس کئے ہوئے تھے؟ دراصل ناگپور نے مسرت عالم بٹ کی رہائی ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیںکی اور وہ ان کو فوراً گرفتا ر کرنے کے لئے مسلسل ریاستی سرکار پر دباؤ بنائے بیٹھا تھا۔ حیدر پورہ جلسے کو بہانہ بنایا گیا مسرت عالم بٹ کو دوبارہ گرفتار کرنے کے لیے اور پی ڈی پی نے اپنے تمام دعوؤں سے دستبرداری کرتے ہوئے بی جے پی کی فکری سرپرستی کو قبول کرکے مسرت عالم بٹ کو دوبارہ گرفتار کرلیا۔یہ تو ہونا ہی تھا مگر ایک بات واضح ہوگئی کہ پی ڈی پی نے وہ سب کچھ پہلے ہی مرحلے میں کیا جو نیشنل کانفرنس سرکار نے چھ برسوں کے دوران بتدریج کیا۔ یہاں کی تمام حکومتیں کٹھ پتلی ہوتی ہیں۔ یہاں کے چیف منسٹر کی حیثیت اس سے زیادہ نہیں کہ وہ ہوم منسٹری کے ابروئے چشم کا تابع فرمان ہوتا ہے۔ خالد اور سہیل کی وردی پوشوں کی ہلاکت اور مسرت عالم بٹ کی گرفتاری سے یہی کچھ سامنے آیا۔ essahmadpirzada@gmail.com

Comments

Popular posts from this blog

لندن کی کشمیر کانفرنس۔۔۔ ایس احمد پیرزادہ

پبلک سیفٹی ایکٹ اور نیشنل کانفرنس....ایس احمد پیرزادہ