تابندہ کے بعد کنن پوش پورہ?
زخموں کا شمار کرنے پہ خنجر بھی شرمسار

؍اپریل کو شمالی کشمیر کے ہنگامہ خیز ضلع کپواڑہ کی ایک عدالت نے ۸؍سال قبل ۲۰۰۷ء میں تابندہ غنی عصمت ریزی اور قتل کے کیس میں تاریخی فیصلہ سناتے ہوئیاس میں ملوث چاروں ملزمان کو سزائے موت سنائی۔پرنسپل سیشن جج محمد ابراہیم وانی نے کیس کی سماعت کے طویل سلسلہ کے بعدان چار ملزمان کو سزائے موت کا مستوجب قرار دیا۔ عدلیہ کے اس فیصلے پر نہ صرف مقتولہ کے اہل خانہ نے راحت کی سانس لی بلکہ پورے کشمیر میں انسانیت کے درد خواہوں کو لگا کہ گھٹا ٹوپ اندھیرے میں بھی عدل کا میزان کام کرنے کی صلاحیت اور قوت رکھتاہے۔ معصومہ تابندہ غنی کو ۷ برس قبل چار درندہ صفت مجرموں نے اُس وقت اپنی ہوس کا شکار بنالیا جب وہ ۱۳؍برس کی کم سن بچی اسکول سے واپس اپنے گھر بٹہ پورہ لنگیٹ آرہی تھی۔ انسانیت کے ان بدترین دشمنوں نے اس بچی کے ساتھ جنسی زیادتی ہی نہ کی بلکہ اپنا جرم چھپانے کے لئے اس کا قتل بھی کیا ۔ یہ دلدوز منظر دیکھ کر آسمان بھی رو پڑا ہوگا۔ پولیس نے فوراً حرکت میں آکر مجرموں کو سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا۔ ان پر عدالت میں مقدمہ چلا اور ۷؍سال طویل عدالتی کارروائی کے بعد چاروں ملزمان جن میں دوغیر ریاستی بدمعاش بھی شامل ہیں ،کو قصور وار ٹھہراکر اُن کے حق میں سزائے موت سنائی گئی۔ دامنی کے مجرموں کو قانون کے کٹہرے میں جس طرح فوراًپھانسی کی سز دی گئی ، ا س کے مقابلے میںیہ کہا جاسکتاہے کہ سات سال طویل عدالتی کارروائی کچھوے کی چال چلنے کی مانند تھی مگر پھر بھی دیر آید درست آید کے مصداق اس کا خیر مقدم کیاجا نا چاہیے ۔ البتہ اس طویل مدت کے شب و روز کس قدر تابندہ غنی کے والدین پر گراں گزر گئے؟اُن پر کیا بیتی ؟ انہیں اپنی لاڈلی بیٹی کی عصمت کے لٹیروں اور قاتلوں کو بار بار عدالت میں دیکھ کر کتنی تکلیف اور ذہنی تعذیب برداشت کر نا پڑی ؟ اس کا اندازہ ایک عام انسان کو نہیں ہوسکتا ۔تابندہ غنی ایک پھول چہرہ معصوم بچی جسے ابھی یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ جن راہوں پر وہ بے خوب و خطر اپنے طفلانہ سوچ کے ساتھ گھر سے اسکول اور اسکول سے گھر آیا جایا کرتی تھی ، وہ راہیں حضرت عمر فاروقؓ کی مملکت کی شاہراہ نہیں کہ کوئی جنگلی درندہ بھی انسان کو گزند پہنچانے کی جرأت نہ کرے بلکہ یہاں وہ خار دار پگڈنڈیاں ہیں جہاں ہر قدم پر رہزنوں ، لٹیروں اور انسانیت کے بدنما دھبوں کا خطرہ لگا رہتا ہے، جہاں سایوں پر بھی کسی بدقماش کی حیوانی ہوس کی آفتیں گرسکتی ہیں، جہاں انسانی قلوب کے اندر لاقانوینت نے ایسی وحشت اور درندگی کا میل جمایاہواہے کہ سامنے بہن ہو بیٹی یا ماں، شیطنیت انہیں اندھا اور گندا کر کے ہی چھوڑتی ہے۔ تانبدہ غنی کیس میںعدالت کا چاروں بدمعاشوں کو سزائے موت سنانا واقعی میں ایک تاریخی فیصلہ ہے، وہ بھی ایک ایسی سرزمین پر جہاں قاتل اور عصمتوں کے لٹیروں کو کھلے عام گھومنے کی اجازت ہے،جہاں انصاف ملنا خواب وسراب تصور بنا ہوا ہے،جہاں اصول اور انصاف کی باتیں کتابوں تک ہی محدود ہیں۔ ایسے میں کپواڑہ کی عدالت کا یہ تاریخ ساز فیصلہ صادر کرنے والا جج صاحب ، عدالتی کارروائی میں ہاتھ بٹانے والے متعلقہ عملہ، پولیس ،جسٹس فار تابندہ غنی فورم نامی اتحاداور دیگر متعلقین مبارک بادی کے مستحق ہیںمگر دیکھنا یہ ہے کہ آیا پھانسی کی سزا پر عمل درآمد ہو گا؟یا پھر ہندوستان بھر میں پھانسی کی سزا پانے والے ہزاروںمجرموں کی طرح ان چار ملزمان کا کیس بھی اب اعلیٰ عدالتوں کا چکر کاٹنے جائے گا؟ وہاں بھی بالفرض سزا برقرار رکھی گئی تو کیا رحم کی اپیل صدر ہند سے کی جائے گی ؟کہیں معاملہ اتنا طول نہ کھینچ جائے کہ چاروں ملزمان کی طبی موت واقع ہوجانے کے بعدبھی صدر ہند کے دفتر میں اُن کی فائل کبھی اٹھائی ہی نہ جائے؟ کہیں سزائے موت کے مخالفین بیچ میں کھڑے ہوکر معاملے کو اُلٹ دیں تو کیا کہ انصاف تابندہ غنی سے بدستوردور نہ رہے گا ؟ کیا کشمیر کے ااجتماعی ضمیر کی تشفی کا سامان کرنا اربابِ ہند کی ترجیح ہوگی بھی ؟ بالفرض اگر صدرہند نے رنگا ور بلا معاملے کی طرح اس گھناؤنے جرم کو دیکھ کر رحم کی اپیل مسترد بھی کردی تو کیا کسی دوسری عدالت کا حکم امتناعی سزا پر عمل در آمد ہونے میں رکاوٹ نہیں بنے گا۔؟ یہ سب سوالات اپنی جگہ قائم ہیں ۔ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہاں کا عدالتی نظام اور انصاف کے تقاضے اس انداز سے چلتے ہیں کہ حقیقی معنوں میں جو مجرم ہوتا ہے اُس کے لیے اگر سزائے موت بھی سنائی جائے لیکن انصاف کے اسی سسٹم نے مجرم کوسزا سے بچنے کے لیے اتنے سارے راستے بھی فراہم کئے ہیں کہ انصاف ایک مذاق بن کر رہتاہے۔ اس عموم کے برعکس اگر سیاسی مقاصد کی خاطر کسی کی ’’بلّی‘‘ چڑھانی مطلوب ہو تو پھر اس پورے نظام اور اِن پورے تقاضوں کو بالائے طاق رکھ کر ویسی ہی راہیں نکالی جاتی ہیں جیسے افضل گورو کے سلسلے میں کیا گیا۔ قوم کے’’ اجتماعی ضمیر‘‘ کو مطمئن کرنے کے خاطر افضل گورو کو جس طرح پھانسی پر لٹکایا گیا اُس سے انصاف کے دوہرے معیار کی پول کھل جاتی ہے۔ تابندہ غنی کے قاتل کوئی افضل گورونہیں کہ اُنہیں سیاسی اغراض مقاصد پانے کے خاطر تختہ دار پر چڑھایا جائے گا۔ البتہ ان درندوں کے لئے آنے والے وقت میں نہ جانے کتنے اذیت پسند انسانی حقوق کے نام نہاد علمبردار سامنے آئیں گے اور جرم عظیم کے لیے سزائے موت کو ’’ظلم عظیم‘‘ کہہ کراُنہیں بچانے کا شور شرابہ کریں گے۔ہم بجا طور پراس عدالتی فیصلے کو تاریخ ساز کہہ سکتے ہیں لیکن دور دراز ضلع کی عدالت سے پھانسی کے پھندے تک مجرموں کو پہنچانے میںابھی شاید بہت سارے کٹھن مراحل طے ہونے باقی ہوں گے،ا بھی محاورے کپ اور لپ کے درمیان بہت سارے سلپس حائل ہیں ۔ لہٰذا یہ کہنے میں لوگ حق بجانب ہیں کہ دلی ہنوز دور است کے مصداق یہاں آرڈر اور عمل آوری کے بیچ اتنی زیادہ مسافت ہے کہ کئی زندگیاں گزر جانے کے باوجود عصمت دری اور قتل جیسے جرم کا ارتکاب کرنے والوں کو سزا پانے کے آثار دکھائی نہیں دیں گے۔ بصورت دیگر اگر کوئی چمتکار ہوا تو بات الگ ہے ۔البتہ سیاسی حقوق کی بازیابی کے لیے جدوجہدکرنے والے بے گناہ’’مجرمین‘‘ کے لئے براہ راست سزا کی راہ ہموار کرنے میں یہاں کے قانونی ادارے اور سیاست دان ایک دوسرے سے شانے کے ساتھ شانہ ملاکر سرعت سے تعاون کرنے میں کافی ماہر ہیں، چنانچہ یہ ان ہی کی دین ہے کہ سیاسی انتقام گیری کا سلسلہ چلانے کے لئے قانون کو بلا تکلف بالائے طاق رکھ کر عمر قید کو تاعمر قید میں بدل دیا گیا ہے ۔ تصویر کا یہ رُخ بھی دیکھتے چلیں کہ۲۷؍اپریل کو کپواڑہ کے صدر ضلعی مقام پر جس جگہ جج صاحب تابندہ غنی کیس میں مجرموں کے خلاف فیصلہ سنا رہے تھے، اُس جگہ سے محض پانچ کلو میٹر کی دوری پر کنن پوش پورہ واقع ہے۔۲۳؍فروری۱۹۹۱ء کی رات دیر گئے اس بستی پر اُس وقت قیامت برپا ہوگئی جب ’’ویر سیناؤں‘‘ نے بستی کو گھر گھر تلاشی کے بہانے گھیرے میں لے لیا۔ گاؤں کے تمام مردوں کو ایک جگہ جمع کرکے اُن کی مارپیٹ کی گئی جب کہ وردی پوش گھروں میں داخل ہوئے اور وہاں پر موجود خواتین کے ساتھ منہ کالا کیا۔ یوںظلم و ستم اور بے آبروئی کی ایک روح فرسا داستان رقم کی گئی اور رات بھر چلنے والی اس’’ فوجی کارروائی ‘‘کے دوران ۵۳؍عزت مآب خواتین کی اجتماعی عصمت ریزی کی گئی۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیم’’ہیومن رائٹس واچ‘‘ کے مطابق ایک سو سے زیادہ خواتین کی عزت تارتار کی گئی۔ اس رات کی وحشت آج بھی اُن مظلوم و مجبور خواتین کے چہروں سے ٹپک رہی ہے۔ اس معالے میں قانون نے صرف اتنا احسان کیا کہ اس کو فسانہ تراشی نہ کہا بلکہ وردی پوشوں کو موردِ الزام ٹھہرایا، آج ۲۳؍سال گزر جانے کے باوجود انسانیت کو شرمسار کرنے والے اُن وردی پوش مجرمین کے خلاف کوئی قانونی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی، حالانکہ وہ عبرتناک سزا کے مستحق ہیں ۔ پہلے پہل اُن کے اس گھناؤنے جرم کو چھپانے کی بھی لاکھ کوششیں کی گئیں اور جرم عظیم میںملوث فوجی اہلکاروں کو سرکاری اور قانونی تحفظ بھی فراہم کیا گیا، مگرعالمی انسانی حقوق کی تنظیموں نے کنن پوش پورہ واقعے کا سنجیدگی کے ساتھ نوٹس لیا ہے اور حکومت ہند پر دباؤ بڑھایا گیا کہ وہ مجرمین کے خلاف سخت کارروائی عمل میںلائے لیکن بدقسمتی کا مقام یہ ہے کہا بھی تک انصاف کی دیوی منتظر ہے کہ کب وہ گھڑی آئے جب کنن پوش پورہ کی مظلومین کو عدل کا سہارا ملے۔تابندہ غنی کیس کے مجرمین واقعی عبرتناک سزا کے مستحق ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ کنن پوش پورہ سانحے میں ملوث فوجی اہلکاروں کو بھی انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرکے اُنہیں اپنے منطقی انجام تک پہنچانا لازمی ہے، کیونکہ قانون کے لباس میں اگر وردی پوشوں کو درندگی کا مظاہرہ کرنے کی اجازت اسی طرح دی گئی تو تاریخ اس پر سدا آنسو بہاکر جمہوریت ا ور حقوق البشر کو شرم سار کر تی رہے گی۔ یہ یاد رکھئے کہ جرم کی لت لگ جانے کے باوجود اگرقانون بھیگی بلی بنا رہے اور مجرم کے شانے تھپتھپانے بیٹھے تو وہ لازماً اپنوں او رپرائیوں میں تمیزکرنابھول کر نئے نئے گل سکتاہے ۔ اُس کے اندر کا شیطان پھرعادی مجرم کا روپ دھارن کرسکتاہے جیساکہ اخوان کی شکل میں ہم سب نے دیکھا کہ پہلے انہوں نے تحریک نوازوں کا جینا حرام کیا اور اس کے ساتھ ہی ساتھ بلاتفریق عام لوگوں کے لئے بھی موت اور خوف کا سامان بن گئے۔ انصاف کا خون شوپیان میں بھی کیا گیا ، جہاں ملّت کی دو بیٹیوں آسیہ اور نیلوفر کی پراسرار طور پر غائب ہوجانے اور بعد میں اُن کی خون آلودہ لاشیں ایک خشک نالے سے برآمد ہونے پر عوامی ایجی ٹیشن برپا ہوئی۔ مقامی ہسپتال میں ڈاکٹروں نے جب پوسٹ مارٹم کیا تو قتل سے قبل دو نوں کی عصمت ریزی کی تصدیق ہوگئی، جس جگہ دونوں کی لاشیں برآمد کی گئیں، اس جگہ کے اطراف و اکناف میں وردی پوشوں کے کیمپ موجود تھے۔ لوگوں نے مجرمین کو جلد از جلد گرفتار کرکے اُنہیں قرار واقعی سزا دینے کا مطالبہ کیا اور جب لوگوں کا احتجاج زوروں پر پہنچ گیا تو وقت کے وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے انہیں اپنی بہن کہہ کر انصاف کی یقین دہانی کرائی مگر آہستہ آہستہ کرسی کی محبت ضمیر پر بھاری ہوئی اور جھوٹ کے پلندے گھڑکر کیس سی بی آئی کو سونپ دیاگیا ۔ ہندوستان کے اس نامی گرامی تحقیقاتی ادارے نے جس مشکوک اورجانبدارانہ طریقے سے اس پورے معاملے کو گول کردیاکہ مجرمین بچ نکلے، اُس سے کیا ظاہر ہوتا ہے، وہ عیاں راچہ بیان ہے ۔ اس معاملے میں اصل مجرمین کو سامنے لانے کے بجائے پوسٹ مارٹم کرنے والے ڈاکٹروںکو مجرم بنادیا گیااور مجرمین کو پکڑنے اور اُنہیں قرار واقعی سزا دلوانے کے لئے عوامی تحریک برپا کرنے والے افراد کو قصور وار ٹھہرایا گیا جس میں نیلوفر کا غم سے ٹوٹا شوہر بھی شامل تھا ۔ گویا انصاف کی بات کرنا اور انصاف کا تقاضا کرنے والے ہی مجرم گردانے گئے۔ ۲۰۰۹ء سے آج تک آسیہ اور نیلوفر کے قاتلوں اور اُن کی عصتموں کے لٹیروں کو نہ ہی سزا دی گئی اور نہ ہی اس سلسلے میں کسی کا نام ظاہر کیا گیا۔ایک سو کلومیٹر کے حدود میں ایک ہی طرح کے ان واقعات میں انصاف کے پیمانے ہی الگ الگ ہیں۔جہاں مجرم عام لوگ ہوں وہاں اُنہیں گرفتار کرکے اُن کے خلاف چالان پیش کرنے اور عدالت میں اُن کے کیس لے جانے میں دیر نہیں کی جاتی ہے اوراس طرح کے اقدامات قابل تعریف بھی ہیں، وہیں دوسری جانب جہاں ملوث وردی پوش یا جنسی اسکنڈل کی طرح حکومتی ادارے یا اسمبلی کا کوئی نام نہاد’’اعلیٰ وبالا‘‘ ہوتو وہاںانصاف کا خون کرنے کے لئے ہر طرح کے اوچھے ہتھکنڈے استعمال میںلائے جاتے ہیں۔ یہ کشمیر میں عدل کا حال احوال۔ بہرصورت کشمیری قوم کے اجتماعی ضمیر کا مطالبہ یہ ہے کہ تابندہ غنی کے قتل اور عصمت دری میں ملوث مجرمین کو جلد از جلد تختہ دار پر چڑھایا جانا چاہیے تاکہ سماج میںپنپنے والے جرائم کا قلع قمع کرنے میں مدد مل جائے اور ایسی تمام عناصر کے لیے یہ سزا عبرت کا مقام بن جائے جو انسانیت کو شرمسار کردینے والی سوچ کے ساتھ ہر آن اپنی ہوس کی آگ بجھانے کے لئے دوسروں کی زندگیاں اجیرن کر نے میں سرگردان رہتے ہیں۔ مجرمین کو کیفرکردار تک پہنچانے سے اگر چہ تابندہ غنی کے والدین اور عزیز و اقارت کے ساتھ ساتھ پوری قوم کے دُکھ درد کم نہیں ہوں گے لیکن والدین ، رشتہ داروں اور قوم کے باضمیر شہریوں کو کسی حد تک راحت پہنچ جائے گی کہ جن ظالم درندوں نے اپنی درندگی سے اُس معصوم کلی کو مسل ڈالا ، کم زاکم وہ اپنے صحیح انجام کو پہنچ گئے۔اِسی طرح کنن پوش پورہ میںبھی قوم کی عزت و عصمت کے ساتھ کھلواڑ کیا گیا اور یہ واقعہ کشمیریوں کے دل و دماغ پر کیل کی ٹھونسا ہوا ہے۔ اس اور اس جیسے دیگر واقعات میں جتنے بھی وردی پوش یا غیر وردی پوش حکام ملوث ہیں ، کشمیر کے اجتماعی شعور کا یہ مطالبہ ہے کہ اُنہیں بھی قانون کے شکنجے میں لایا جائے۔ یاد رکھناچاہیے کہ انصاف نہ ملنے کی صورت میں مظلومین میں نسل درنسل انتقامی گیری کا جذبہ پیدا ہوجاتا ہے جو بہرحال انسانیت کے لئے کوئی نیک شگون نہیں۔ رابطہ: essahmadpirzada@gmail.com

Comments

Popular posts from this blog

لندن کی کشمیر کانفرنس۔۔۔ ایس احمد پیرزادہ

پبلک سیفٹی ایکٹ اور نیشنل کانفرنس....ایس احمد پیرزادہ