رواں عوامی ایجی ٹیشن.... ہم نے کیا پایا؟

٭.... ایس احمد پیرزادہ
وادی میں کشت و خون ، ظلم وبربریت، جبر و استبداد، مار دھاڑکاسلسلہ ہنوز جاری ہے ۔ صورتحال دن بدن ابتر ہوتی جارہی ہے۔ پولیس، سی آر پی ایف اور آرمی کے ہاتھوں شہر و دیہات میں جگہ جگہ لوگوں کو ہراساں کرنے کی خبریں روز اخبارات کی زینت بنتی ہیں۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا چلن ہر سو عام ہے۔ لوگوں کا غم و غصہ ہر اعتبار سے جائز ہے اور المیہ یہ ہے کہ یہاں کی حکومت ایک ہی لہجے میں یہ بھی تسلیم کرتی ہے کہ ظلم و زیادتیاں ہوئیں ہیں ، پھر اُسی سانس میں یہ بھی قبول کرتی ہے کہ وردی پوش زیادہ سے زیادہ صبر کا مظاہرہ کررہے ہیں ۔ احتجاجی نوجوانوں پر حکام اور وردی پوشوں کی جانب سے یہ الزام لگایا جاتارہا ہے کہ وہ پولیس اور سی آر پی ایف پر حملہ آور ہوجاتے ہیں پھر مجبوراً وردی پوشوں کو طاقت کا استعمال کرنا پڑتا ہے۔ یہ پروپیگنڈا سرینگر سے دلی تک حکومتی لوگوں ، فورسز ایجنسیوں اور مخصوص ایجنڈا رکھنے والے دلی کے میڈیا نے اس قدر عام کردیا ہے کہ اب ہندوستانی شہریوں کی اکثریت کے یہاں یہ تصور پیدا ہوگیا ہے کہ کشمیری قوم ”دہشت گرد“ ہے اور اُن کے ساتھ جو کچھ بھارتی ”سورما“ وردی پوش کررہے ہیں اس کے وہ حقدار ہیں۔ ہمارے لیے بحیثیت قوم ایک ہی محاذ پر چلینج درپیش نہیں ہے بلکہ ہر سطح پر کشمیریوں کی مبنی برحق جدوجہد کو ناکام کرنے اور دبانے کے لیے طرح طرح کے ہتھکنڈے اختیار کرلیے جاتے ہیں۔۸جولائی ۶۱۰۲ئ سے اچانک برپا ہونے والی عوامی ایجی ٹیشن کے نتیجے میں تادم تحریر پچاس سے زائد عام کشمیری نوجوان وردی پوشوں کی گولیوں کا شکار ہوکر ابدی نیند سُلا دئے جاچکے ہیں۔چار ہزار کے آس پاس لوگ زخمی ہوچکے ہیں۔ زخمیوں میں کم سن بچے، نوجوان، بوڑھے ، خواتین سب شامل ہیں۔ ظلم و ستم اور جبر و زیادتیوں کی رونگھٹے کھڑا کردینے والی داستانیں ہر سو سننے کو ملتی ہیں۔ کرفیو کے دوران وردی پوش لوگوں کے گھروں میں گھس کر مارپیٹ اور توڑ پھوڑکرکے جس وحشی پن کا مظاہرہ کرتے ہیں اُس کو دیکھ کر کوئی بھی کہہ سکتا ہے کہ وردی پوشوں کے بھیس میں یہاں کی آبادی کو درندگی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔اس ساری صورتحال کا سامنا کشمیری قوم کو ایک خاص مقصد کے لیے کرنا پڑتا ہے۔ ہمارے ساتھ ساتھ دنیا بھی یہ جانتی ہے کہ کشمیری قوم حق خود ارادیت کی تحریک کے لیے گزشتہ سات دہائیوں سے قربانیاں دیتی آئی ہے۔ اس تحریک کو دبانے کے لیے حکومت ہند اوریہاں اُن کے مقامی کارندے ہر طرح کا طریقہ اختیار کرتے آئے ہیں۔ ہماری نسلوں کی نسلیں صرف اس وجہ سے ختم کردی گئیں ہیں کیونکہ اُنہوں نے اپنے سیاسی حقوق طلب کیے تھے، آج جو کچھ ہمارے ساتھ ہورہا ہے یہ بھی اِسی تحریک کا نتیجہ ہے۔ اپنی جدوجہد کے لیے اس قوم کی نوجوان نسل نے جو تازہ ایجی ٹیشن شروع کی ہے اُس کا جائزہ لینے اور اُس کے نتیجے میں ہم نے کیا حاصل کیا ہے؟یہ جاننا اور اس کا تجزیہ کرنا نہایت ہی ضروری ہے۔ اپنی اس مقدس تحریک کا جائزہ لینے کی صورت میں ایک تو ہمیں خود احتسابی کا موقع ملتا ہے اور جہاں جہاں غلطیاں سرزد ہوگئیں ہوں ، وہاں وہاں سدھار کا موقع مل جائے گا ، دوسرا ہمیں یہ بھی پتہ چل جاتا ہے کہ قربانیوں اور احتجاج کے نتیجے میں قوم نے کیا کچھ پایا ہے؟ہماری ہمیشہ سے بدقسمتی رہی ہے کہ تحریک کے ہر مرحلے پر ہم اپنی قوم میں کامیابی کا احساس پیدا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔۸۰۰۲ئ کی امرناتھ اراضی تنازعہ کے نتیجے میں برپا ہونے والی ایجی ٹیشن کا معاملہ ہویا پھر ۰۱۰۲ئ کی طویل ترین عوامی تحریک کی بات ہو، اختتام پر دلّی کی ایجنسیوں سے زیادہ اپنوں نے ہی قوم میں مایوسی پیدا کی ہے۔ حالانکہ ۸۰۰۲ئ کی عوامی ایجی ٹیشن کے نتیجے میں ہی۰۱۰۲ئ کی عوامی تحریک برپا ہوئی ہے اور آج جو ہم شہر و دیہات لوگوں کے جوش اور جذبے کو دیکھتے ہیں اور آج کی ایجی ٹیشن میں جوبالغ نظری پائی جاتی ہے یہ سبق ۰۱۰۲ئ سے ہی اس قوم نے سیکھا ہے۔
جولائی۶۱۰۲ئ کی اس رواں عوامی ایجی ٹیشن کے بیسویں روز تک ہماری تحریک کو جو کچھ حاصل ہوا ہے ، عام حالات میں وہ حاصل ہونے میں ہمیں کم از کم دس برس کا عرصہ درکار ہوتا۔ وہ بھی اُس صورت میں جب پوری آزادی پسند قیادت دن رات ایک کرکے سخت محنت کرتے اور میدان عمل میں حق خود ارادیت کی جدوجہد کے لیے کام کرنے والے لوگ انتھک محنت کرتے۔ بین الاقوامی سطح پر اس وقت اضطرابی کیفیت پائی جاتی ہے۔ ہر ملک اپنے اپنے مسائل میں الجھا ہوا ہے۔ بڑی بڑی طاقتیں اپنے ملکی مفادات کودیکھ کرہی عالمی سطح کے مسائل پر پالیسیاں بناتے ہیں۔ عالمی سطح کے جنگ و جدل اور بے چینی کے ماحول سے قریب قریب دنیا کی توجہ مسئلہ کشمیر سے ہٹ چکی تھی۔ برہان اور اُن کے ساتھیوں کی شہادت کے بعد درجنوں افرا د کی قربانی اور عوامی احتجاج کے بعد چند دنوں میں ہی مسئلہ کشمیر کی گونج پوری دنیا میں سنائی دینے لگی۔ امریکہ، برطانیہ، فرانس، جاپان، سری لنکا، کینڈا، اسٹریلیا اور نہ جانے کہاں کہاں کشمیریوں کی حمایت میں ریلیاں برآمد ہوئیں ہیں۔ امریکہ ، اقوام متحدہ، چین ، ایران، او آئی سی، سری لنکااو ردیگر ممالک نے مسئلہ کشمیرکے حل پر زور دیا ہے۔ ورلڈ میڈیا پر کشمیرمیں ہورہی زیادتیوں پر خصوصی پروگرام نشر کیے گئے ہیں۔ CNN اور BBC World جیسی چینلوں نے کشمیر میں ہورہی زیادتیوں کو اُجاگر کیا ہے۔ عالمی سطح پر معروف اخبار”نیویارک ٹائمز“ نے کشمیر کی صورتحال پر اداریہ تک تحریر کیا ہے۔گویا پوری دنیا میں کشمیریوں کی آواز سنائی دینے لگی ہے۔ اس صورتحال نے بھارت کی برسوں کی محنت پر پانی پھیر دیا ہے۔ عالمی سطح پر انڈیا نے کشمیر کے مسئلہ کو دبانے کے لیے جو سخت محنت کی تھی ، اُسے ہماری قوم نے بڑی حد تک کمزور کردیا ہے۔یہ ہماری سب سے اہم کامیابی ہے۔
مسئلہ کشمیر کے تئیں پاکستان کی جانب سے حکومتی سطح پر پرویز مشرف کے دور سے سرد مہری دیکھائی دے رہی تھی۔ پاکستانی حکومتیں مسئلہ کشمیر کے تئیں کافی حد تک اپنا رویہ نرم کرچکی تھیں، لیکن اس مرتبہ برہان مظفر وانی کی شہادت کے پہلے روز سے ہی پاکستان نے کافی جارحانہ مو ¿قف اختیار کرکے صحیح معنوں میں کشمیریوں کے جذبات کی ترجمانی کی ہے۔ حکومتی سطح پر سخت بیانات، وفاقی کابینہ کا خصوصی اجلاس، اور دنیا بھر میں مقیم اپنے سفراءکو طلب کرکے اُنہیں کشمیریوں پر ہورہے مظالم اور مسئلہ کشمیر کو اجاگر کے لیے اپنی صلاحتیں بروئے کار لانے کی تلقین کرنے کے علاوہ دیگر بہت سارے اقدامات سے واضح ہوتا ہے کہ ہماری آج کی اس ایجی ٹیشن نے کشمیریوں کے پشت پر کھڑے اور اُن کے محسن ملک پاکستان کے حکمرانوں میں کشمیرکے تئیں اُن کی ذمہ داریوں کا احساس بڑی ہی شدت کے ساتھ پیدا کیا ہے۔مسئلہ کشمیر کے تئیں پاکستان کی ان تازہ کوششوںسے دلی میں بوکھلاہٹ پیدا ہوئی ہے۔ پاکستانی اخبار ”دی نیوز“ نے اپنے ایک حالیہ مضمون میں یہ انکشاف کیا ہے کہ ٹریک ٹو ڈپلومیسی کے ذریعے سے بھارت نے پاکستان سے رابطہ کرکے اُنہیں عالمی سطح پر مسئلہ کشمیر کو اُجاگر نہ کرنے کے لیے کہا ہے۔ گویا بھارت پاکستان کی ان تازہ کوششوں سے تلملا اُٹھا ہے۔یہ مظلوم کشمیریوں کی بڑی اور اہم کامیابی ہے۔ کیونکہ پاک چین اقتصادی راہداری کے نتیجے میں دنیا بھر کی تجارتی منڈیوں میں پاکستان کی اہمیت دوبالا ہوجائے گی اور آنے والے وقت میں اب پاکستان کی مو ¿قف کی تائید کی جائے گی اوربڑے بڑے ممالک اپنے مفادات کی خاطر پاکستان کا ساتھ بھی دیں گے اس لیے پاکستان کا کشمیریوں کی جدوجہد کا ساتھ دینا نہ صرف نہایت ہی اہم ہے بلکہ اُن کے سپورٹ اور عالمی سطح پر رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے اُن کی کوششوں کے بغیر ہماری تحریک گمنامی کے اندھیروں میں گم ہوجائے گی۔پاکستان کی جانب سے ٹھیک وقت پر سخت مو ¿قف اختیار کرلینے سے کشمیریوں کی جدوجہد کو اچھا خاصا فائدہ حاصل ہوجائے گا۔
دلّی کے پالیسی سازوں نے ”دیش بھگتی“ اور ”قومی مفاد“ جیسے الفاظ کو بڑی ہی مہارت کے ساتھ کشمیر کے ساتھ نتھی کردیا ہے۔ ہندوستانی عوام کے سامنے کشمیر اور کشمیریوں کی بڑی ہی بھیانک تصویر پیش کی گئی ہے۔ برہان مظفر وانی نے اپنے عسکری دور میں سوشل میڈیا کے ذریعے سے جہاں کشمیری نوجوانوں تک رسائی حاصل کرلی تھی وہیں اُنہوں نے بھارتی عوام میں بھی ایک اچھے خاصے حصے کو اپنے نرالے انداز سے متاثر کررکھا تھا۔ موجودہ ایجی ٹیشن کے بعد بھارت کے مختلف خطوں میں لوگ کھل کر کشمیریوں کی حمایت میں سامنے آنے لگے ہیں۔دلی، کولکتہ ، مدراس، تامل نانڈو، پنجاب اور کیرالہ میں کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کے لیے بڑے بڑے جلوس برآمد ہوئے ہیں۔ دلی سے شائع ہونے والے اخبارات اور مختلف ٹی وی چینلوں پر سیاسی تجزیہ نگاروں اور ماہرین نے کھل کر کشمیریوں کے مو ¿قف کی حمایت کی ہے۔ گرچہ بڑے پیمانے پر ہندوستانی لوگ کشمیریوں کے جذبات کی قدر نہیں کرتے ہیں لیکن شروعات ہوچکی ہے۔ جو بی جے پی اقتدار کے نشے میںمست ہوکر ہر ہمیشہ کشمیری قیادت اور تحریک پسند عوام کو صرف دھمکیاں ہی دیتی رہتی تھی ، آج اُن کے ”فائربرانڈ“ لیڈروں کا لب و لہجہ کشمیریوں کے جوش و جذبے کے سامنے ٹھنڈا پڑچکا ہے۔یہ صورتحال کامیابی کی جانب ہمارے بڑھتے ہوئے قدم ہیں۔ریاستی سرکار کے لیڈروںسے لے کر ہندوستانی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ تک ، ہر ایک کے بیانات سے یہ بات بخوبی اخذ ہوجاتی ہے کہ یہ لوگ بھی اب تسلیم کررہے ہیں کہ ریاست جموں وکشمیر میں اُن کی تمام مشینری فیل ہوچکی ہے۔ اب کشمیریوں سے حالات میں سدھار پیدا کرنے کے لیے بھیک مانگی جارہی ہے۔ 
یہاں کام کرنے والی مختلف ایجنسیاں ، دلی میں پروپیگنڈا کرنے والی مختلف چینلوں، ہندوستان کے دفاعی تجزیہ نگاروں نے گزشتہ چار پانچ سال سے ایک مفروضہ قائم کرنے کی کوشش کی ہے کہ کشمیر یوں کی تحریک اب صرف چند قصبوں تک محدود ہے۔ کئی قلمکاربہت پہلے سے لکھ رہے تھے کہ سرینگر کے پانچ تھانوں کے علاوہ سوپور، بارہمولہ، پلہالن اور پلوامہ میں ہی اب لوگ مزاحمتی لیڈران کی اپیل پر احتجاج کے لیے نکلتے ہیں۔ باقی وادی رواں جدوجہد سے بالکل ہی لاتعلق ہے ۔ آج یہ مفروضہ بھی ٹوٹ چکا ہے۔ کوئی گاو ¿ں اور محلہ ایسا نہیں ہے جہاں کے نوجوانوں نے مثالی احتجاج نہ کیا ہو۔ کوئی سڑک ،گلی اور نکڑ ایسی نہیں ہے جہاں ہڑتال نہ کی جارہی ہو۔ آج صوبہ جموں کے کشتواڑ، ڈوڈہ، راجوری اور رام بن کے لوگ بھی کشمیریوں کی ہاں میں ہاں ملانے لگے ہیں۔ لداخ اور دراس میں بھی ہڑتال اور احتجاجی جلوس برآمد ہوئے ہیں۔۰۱۰۲ئ جیسی صورتحال پھر سے پیش نہ آئے اس کے لیے اُس وقت کی حکومت اور فورسز ایجنسیوں نے مختلف دفاعی اقدامات کیے تھے۔ سنگ بازوں کو سینکڑوں کی تعداد میں پولیس نوکریاں فراہم کرنا،گرفتاریاں،جوڑ توڑ کرنے کے ساتھ ساتھ اخبارات وغیرہ پر بھی کڑی نظریں رکھ کر یہاں کی سرکار کو اطمینان حاصل تھا کہ اب ۰۱۰۲ئ جیسی صورتحال پیدا نہیں ہوجائے گا۔ سنگ بازی نہیں ہوگی۔ لیکن آج شہر و دیہات کی عوامی ایجی ٹیشن نے ثابت کردیا کہ یہ کچھ بھی کریں اُن کے تمام تر کوششیں رائیگان ہی ہوتی رہیں گی۔اب یہ پھر سے کتنے نوجوانوں کو پولیس کی نوکریاں فراہم کریں گے، کتنے لوگوں کو گرفتار کریں گے اور کتنے لوگوں کو موت کی نیند سلا دیں گے۔ یہاں جو بھی پیدا ہوگا اُس کی سانسوں میں اپنے جائزسیاسی حقوق کی باز یابی کا کلمہ ہوگا۔ 
۰۱۰۲ئ کی ایجی ٹیشن کا موازنہ اگر آج کی ایجی ٹیشن سے کیا جائے گا تو ایک واضح فرق یہ بھی دکھائی دیتی ہے کہ ۰۱۰۲ئ کے مقابلے میں آج کی ایجی ٹیشن کا نظم و نسق اور ڈسپلن اعلیٰ نوعیت کا رہا ہے۔ احتجاجی نوجوانوں نے عام گاڑیوں کی توڑپھوڑ نہیں کی۔ راہ چلتے لوگوں کو بلاوجہ تنگ نہیں کیا گیابلکہ اُن کی مشکلات او رمجبوریوں کو دیکھ کر نوجوانوں نے اُن کی مدد ہی کی۔ ایک دوسرے کی مدد کرنا لوگوں نے اپنا مشن بنالیا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ آج کی نسل کو یہ بات بخوبی معلوم ہے کہ جنگی حالات میںا ُنہیں کیا کرنا چاہیے اور اُن کی ذمہ داریاں کیا ہیں۔قوم میں دور اندیشی اور بالغ نظری پیدا ہونا نیک شگون ہے۔ عوامی سطح کی اس تبدیلی سے واضح ہوجاتا ہے کہ کشمیری قوم میں وہ صفات آہستہ آہستہ پیدا ہو رہے ہیں جو کامیابی کے لیے بنیادی شرائط کے حامل ہوتے ہیں۔
 یہ چند موٹی موٹی کامیابیاں ہیں جو ہمیں رواں جدوجہد کے نتیجے میں حاصل ہوئی ہیں۔ قیادت سے لے کر عام انسان تک ہر ایک کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اِن کامیابیوں کا احساس لوگوں میں پیدا کریں۔ اُنہیں بتادیں کہ اُن کی جدوجہد نے پھل دینا شروع کردیا ہے۔ جو نشانے ہمیں اس ایجی ٹیشن سے حاصل ہونے تھے وہ ہوگئے۔ ہمیں اس بات کا بھی ادراک ہونا چاہیے کہ ابھی تحریک آزادی کا حتمی مرحلہ نہیں آیا ہے۔ بین الاقوامی حالات ، پاکستان کے اندرونی و بیرونی مسائل اور ہمارے اپنے یہاں کے حالات بھی ابھی اُس مقام پر نہیں پہنچے ہیں جہاں ہم کہہ سکتے ہیں کہ دو یا تین ماہ بعد ہمیں ہماری منزل حاصل ہوجائے گا۔ اس قوم کی جدوجہد کو ایک طویل ترین مرحلے سے گزرنا باقی ہے۔ ہماری حکمت عملی اُس نوعیت کی ہونی چاہیے کہ قوم ذہنی ، جسمانی اور اخلاقی طور پر اُس طویل ترین مرحلے کو پار کرنے کے لیے تیار ہو۔ مختصر مدت کی عوامی ایجی ٹیشن تحریک میں جان ڈال دیتی ہے اور ہماری ایجی ٹیشن نے اپنا کام کردیا ہے۔ اب اس سے جدوجہد کو صحیح نہج دینا قیادت کاکام ہے۔ قائدین کو سوچ سمجھ کر ہر پہلو پر غور کرکے ہی مستقبل کے کا لائحہ عمل مرتب کرنا چاہیے۔ قیادت کے لیے ضروری ہے کہ وہ ہر طرح کے دباو سے آزاد ہوکر خالص ملی مفاد کا سوچیں۔ وقت کے تقاضوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔معاملہ فہمی اور سوج بوجھ سے ہی صحیح فیصلے لیے جاسکتے ہیں۔ اس وقت سب سے بڑا امتحان قیادت کا ہی ہے۔ قوم اُن کے ہر کال پر لبیک کہتی ہے ۔ اُن کا فرض یہ ہے کہ وہ ترجیحات کو سمجھ کر صحیح وقت پر صحیح فیصلہ کریں۔ وہ وقت دور نہیں جب اس قوم کی بیش بہا قربانیاں ضرور رنگ لائیں گی۔
رابطہ:9797761908

Comments

Popular posts from this blog

لندن کی کشمیر کانفرنس۔۔۔ ایس احمد پیرزادہ

پبلک سیفٹی ایکٹ اور نیشنل کانفرنس....ایس احمد پیرزادہ