احتجاج مظلوم کا حق!


احتجاج مظلوم کا حق!

ظلم بے ثبات ہے عدل میں حیات ہے


جمہوری دنیا میں احتجاج قوموں کا حق ہوتا ہے۔ احتجاج ہی موجودہ زمانے کا وہ ہتھیار ہے جس کے ذریعے سے اپنی آواز کو بلند کیا جاسکتا ہے۔ یہ حق انسانیت کو اقوام متحدہ کے چارٹر نے بھی فراہم کیا ہے اور مختلف ممالک کے آئین میں بھی عوام کا یہ حق محفوظ ہے کہ وہ اپنی ناراضگی کا اظہار احتجاج کے ذریعے سے کرسکتے ہیں۔ترقی یافتہ اور مہذب ممالک میں آج بھی اگر چند لوگ ہی سڑکوں پر خاموش احتجاج ہی کرنے نکلیں تو وہاں کی سرکار ہل جاتی ہے۔میڈیا کی پوری کوریج اُن کو دی جاتی ہے۔ اسمبلیوں اور پارلیمنٹ میں اِن چند نفوس کا احتجاج موضوع بحث بن جاتا ہے۔ موجودہ زمانے کی تاریخ میں ایسی بھی مثالیں ہیں کہ عوام کی معمولی ناراضگی کے نتیجے میں حکومتیں گر گئیں۔ غرض آج کے زمانے میںقوموں کے لیے اپنی بات منوانے کے لیے احتجاج کا ہی واحد راستہ رکھا گیا ہے۔ جو ممالک اور اقوام عوام کو اپنے حقوق کی بازیابی اور زیادتیوں کے خلاف احتجاج کرنے سے روکتے ہیں ،طاقت کی زبان سے عوام کی آواز کو دباتے ہیں، ایسے ممالک بھلے ہی جمہوریت کا چوغا زیب تن کرکے دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہوں تو ہوں مگرحقیقت میں وہا ں آمریت کا راج تاج ہوتاہے، وہ ممالک چنگیزیت اور بربریت کے علمبردار ہوتے ہیں۔ ریاست جموں وکشمیر کے عوام کو  ڈیموکر یٹک وسیکولربھارت کی شکل میں اسی طاقت سے پالا پڑا ہواہے۔اس طاقت نے متنازعہ ریاست جموں وکشمیر میں کروڑوں لوگوں کی سانسوں پر پہرے بیٹھا رکھے ہیں ۔ کرہ ارض کے اس چھوٹے مگر خوبصورت خطہ کو دنیا کا سب سے زیادہ فوجی جماؤ والا حصہ بنادیا گیاہے۔ ہند وستان نے اپنی افواج کا بیشتر حصہ یہاں تعینات کررکھا ہے ۔ فوج کی بھاری تعداد میں موجودگی کی وجہ سے ہی ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ریاست جموں و کشمیر کو دنیا کی سب سے بڑی جیل قرار دے چکی ہے۔ یہاں ہندوستان کی ہی مختلف فورسز ایجنسیوں کے مطابق صرف ڈیڑھ سو کے قریب عسکریت پسند سرگرم عمل ہیں ، اُن ڈیڑھ سو ہتھیار بند لوگوں کے مقابلے میں ایک ملین سے زیادہ فوج اور نیم فوجی دستوں کو تعینات کرنے کا مطلب یہ ہے کہ عسکریت پسندوں کی آڑ میں بھارت یہاں مقامی آبادی سے برسر جنگ ہے۔ اس بات کی تصدیق عوامی احتجاجی لہر کے دوران بخوبی ہوجاتا ہے جب وردی پوش عام لوگوں کے ساتھ اِس انداز سے نبرد آزما ہوجاتے ہیں جیسے کسی منظم فوج کے ساتھ دوبدو لڑائی لڑی جانی ہو۔اِن فوجیوں کو ’’قومی مفاد‘‘ کے نام پر یہاں کچھ بھی کرنے کے لیے پٹھان کوٹ سے کنیا کماری تک عوامی حمایت حاصل ہے، انہیں قانونی تحفظ فراہم کرنے کے لیے افسپا جیسی ’’مقدس کتاب‘‘ ہاتھ میں سونپ دی گئی ہے، انہیں یہاں نسل کشی کرنے کی آزادی ملی ہے اور دیش واسیوں میں اگر کسی نے اُن کے اس اقدام پر ناراضگی جتائی تو اُسے کشمیری’’دہشت گرد‘‘ قوم کا حمایتی قرار دے کر غداری کے زمرے میںڈال دیا جاتا ہے۔فرقہ پرستوں کی الٹی کھوپڑیاں منفی پروپیگنڈے سے اس طرح گھمادی گئیں ہیں کہ انہیں ہر کشمیری پاکستانی دکھائی دیتا ہے، وہ کشمیریوں کی خون ریزی کو جائز مان لیتے ہیں، اُنہیں اپنے فوجیوں کی بزدلانہ حرکت میں’’جانبازی‘‘ کے گر نظر آتے ہیں۔ جو ملک عوام کے مقابلے میں فوج اُتار دے، جس ملک کا وزیر دفاع یہ کہے کہ فوج لاٹھی چارج کے لیے تیار نہیں کی جاتی ہے بلکہ (عوام پر) بندوق کے دہانے کھولنے کے لیے اُن کی تربیت کی جاتی ہے، اُس ملک کی حکومت، فوج اور عام لوگوں کی ذہنی ساخت کیا ہوگئی؟ اس کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے۔ تو کیا اس کے  جمہوریت کے سبھی دعوے محض فریب ہیں؟ جمہوریت کا مکھوٹا چہرے پر ڈال دینے سے غیر جمہوری کارناموں پر زیادہ دیر تک پردہ نہیں ڈالا جاسکتا ہے۔ دیر سویر حقیقت سامنے آہی جاتی ہے۔ مکروفریب نہ ہی انفرادی سطح پر کسی کوترقی کی راہ میں ڈال دیتا ہے اور نہ ہی اجتماعی سطح پر قوموں کو عروج حاصل ہوجاتا ہے۔ کشمیر کے حدود میں انسانیت اور جمہوریت کا سر جھکانے والی طاقت کا نشہ بھی ایک نہ ایک دن کافورہوجائے گابشرطیکہ کشمیری لوگ اپنے احتجاج کو دنیا کے ہر خطے میں اور ہر سطح پر درج کرنے کے ساتھ ساتھ سیاسی جدوجہد کے تئیں جان سے بھی زیادہ وفاداری اور ثابت قدمی کا مظاہرہ کریں۔ 
کشمیر میں عالمی قوانین کے ہی معانیٰ بدل جاتے ہیں۔ جہاں دنیا بھر میںاحتجاج کو ناراضگی کا اظہار کرنے کا واحد طریقہ اور ذریعہ تصور کیا جاتا ہے، وہیں کشمیر کے حدود و قیود میں احتجاج کو مخالف سمت پر کھڑے لوگ اُپنے خلاف اعلان جنگ تصورکرتے ہیں۔ پھراحتجاج کرنے کے جرم میںسڑکوں اور گلیوںکو احتجاجیوں کے لہو سے لال کیا جاتا ہے۔ جیل کی کال کوٹھریوں میں نوجوانوں کو اس انداز سے ٹھونس دیا جاتا ہے کہ جیسے وہ انسان نہیں بلکہ جانور ہیں۔۸؍جولائی ۲۰۱۶ء کو ریاست گیر احتجاجی لہر نے حکومت ہند کو بے چینی اور اضطراب کے ساتھ ساتھ فرسٹیٹ کردیا ہے۔ اُنہیں شاید توقع ہی نہیں تھی کہ کشمیر میں اس نوعیت کی عوامی تحریک برپا ہوجائے گی۔ حالات کا جائزہ لے کر حقیقت پسندبن کر سچائی کا اعتراف کرنے کے بجائے فوج اور نیم فوجی دستوں کے ساتھ ساتھ مقامی پولیس کو عوامی احتجاجی لہر کچلنے کے لیے تمام تر وسائل بروئے کار لانے کے احکامات صادر کیے گئے۔ دلی سے کبھی ہندوستان کے وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ کی حربی ہدایات موصول ہوتی رہیں تو کبھی وزیر دفاع منوہر پاریکرپاکستان ڈرنے کی آڑ میں بظاہر کشمیریوں کو یہ احساس دلانے کی کوشش کرتے تھے کہ جو ملک نیوکلیر ملک پاکستان کو دھمکا سکتا ہے اُس کے سامنے نہتے کشمیریوں کی کیا وقعت ہے۔ یہاں پُر امن احتجاج کرنا ہی جرم جاناجاتا ہے۔ پولیس تھانوں میںاحتجاجی نوجوانوں کے خلاف کیس درج ہوتے ہیں، پھر اُنہیں چھڑانے کے لیے بولی لگ جاتی ہے۔ مول تول کیا جاتا ہے، جلسوں او رجلوسوں پر گولیاں چلتی ہیں۔ نوجوانوں، بزرگوں، خواتین اور بچوں تک کے سینے چھلنی کردئے جاتے ہیں۔ پیلٹ گن جس کی ایجاد جنگلی جانوروں کو قابو میں لانے کے لیے کیا گیا تھا ،کو یہاں عام لوگوں کے خلاف استعمال میں لایا جاتا ہے۔ جس انداز سے رواں ایجی ٹیشن کے دوران سینکڑوں نوجوانوں کو پیلٹ کا شکار بناکر اُن کے آنکھوں کی بینائی چھین لی گئی، اُس سے یہ خدشات صحیح ثابت ہوئے ہیں کہ ہندوستان ریاست جموں وکشمیر میں اسرائیلی طرز عمل اپنارہا ہے۔ جس طرح اسرائیل فلسطین کے نوجوانوں کو جسمانی طور ناخیر بناکر اپاہچ بنارہا ہے، اُسی طرح یہاں بلاجواز اور بغیر کسی اشتعال کے وردی پوش نونہالوں کو زندگی بھر کے لیے اپاہچ بنا رہے ہیں۔ پُر امن ، نہتے اور عام لوگوں پر دنیا کے کسی خطے میں گولیاں نہیں چلتی ہیں، پیلٹ سے اُن کی صورت بگاڑی نہیں جاتی ہے۔ یہ کشمیر ہی ہے جہاں وردی پوشوں نے افسپا کے بل پر جنگل راج قائم کررکھا ہے۔ جو جی میں آئے کر گزرتے ہیں، جسے چاہیں مار سکتے ہیں، جس کے گھر میں چاہیں گھس کر توڑ پھوڑ کرسکتے ہیں۔جسے چاہیں بیچ راہ پکڑ کر اُس کے سینے میں گولی پیوست کرسکتے ہیں، راہ چلتی عزت مآب خواتین کے ساتھ دست درازی کرسکتے ہیں،چھوٹے چھوٹے بچوں کی آنکھوں کو نشانہ بناکر اُنہیں زندگی بھر کے لیے بصارت سے محروم کرسکتے ہیں۔نراج  کے پرستاروں نے یہاں راؤن کاراج عملاً قائم کررکھا ہے۔ 
 عام لوگ مانتے ہیں کہ اہل کشمیر کو بچانے کی بجائے ریاستی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی ڈراما بازیاں کررہی ہیں۔ جاں بحق ہوئے لوگوں کے لواحقین میں چند ایک کی خواتین کو زبردستی لاکر ڈاک بنگلوں میں اُن کے ساتھ فوٹو سیشن کرکے مگرمچھ کے آنسو بہاکر اب شاید ہی کشمیری قوم کو جُل دیا جا سکتا ہے۔ایک جانب اُن کی حکومت میں پولیس ، سی آر پی ایف اور فوج کشمیریوں کی  بال روک ٹوک نسل کشی کر تی جارہی ہے ، دوسری جانب وہ  مارے گئے لوگوں کے لواحقین کو ’’دلاسہ‘‘ دینے کے لیے میڈیا کے ذریعے سے عوام میں اپنی  تیزی سے گر تی ہوئی ساکھ بچا نا چاہتی ہیں۔ بی جے پی اور آر ایس ایس کے منصوبوں میں کشمیریوں کی نسل بھی شامل ہے اور اِن دونوں جماعتوں کیایجنڈے کی آبیاری اس وقت پی ڈی پی اور محبوبہ مفتی کررہی ہیں۔ ’’امن و شانتی ‘‘ کا درس دینے والی محبوبہ مفتی سے پوچھا جاسکتا ہے کہ کشمیری قوم کو امن بمعنی سرینڈر کا کیا کرنا ہے جس میں اُن کی آزادی ، تہذیب، تمدن اور شناخت گم ہو؟ وہ ’’امن کی دیوی ‘‘ کس کام کی جس کی وجہ سے ہماری ماؤں اور بہنوں کی عصمت محفوظ نہ ہو؟ جس کی پوجامیں ہماری نوجوان نسل کو تہ تیغ کیا جارہا ہو؟جس کا مقصد کشمیر کا حل نہیں بلکہ قبرستان کی خاموشی قائم کرنا ہو؟ اُس میںتو ہماری فنائیت کا راز ہی پوشیدہ ہے۔ وردی پوشوں کی جانب سے شہر و دیہات میں دل دہلادینے والی کارروائیوں پرہند نوازوں کی اشک شوئی کرنا فریب ہے۔ یہ یہاں لوگوں سے اُن کے جینے کا حق چھینا چاہتے ہیں۔ ہماری پاس کوئی طاقت نہیں ہے، کوئی حرب و ضرب کا سامان نہیں ہے۔  کوئی میڈیائی چنل نہیں،ہم اپنے اوپر ہونے والے ان مظالم پر صرف احتجاج کرسکتے ہیں، لیکن ہماری آہ وزاری بھی انہیں برداشت نہیں ہوتا۔ ہماری پُرامن احتجاجی جلسوں اور جلوسوں کو کچلنے کے لیے آگ و آہن کی بارش کی جاتی ہے، پیلٹ کا بے تحاشا استعمال کیا جاتا ہے، گرفتاریوں کے ذریعے سے ہماری عزائم اور آواز کو کمزور کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیںاور یہ جھوٹا پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ فورسز اہل کار اپنے وفاع میں گولیاں چلاتے ہیں۔ خود محبوبہ مفتی نے بھی کہیں مرتبہ گھما پھرا کریہی الزام متاثرہ لوگوں کے سر د عائد کیا ہے ۔ ہماری پُرامن عوامی تحریک کو تخریب کاری کا نام دیا جارہا ہے اور پھر اِسی آڑ میں کشمیریوں کی نسل کشی کی جارہی ہے۔ہمارے یہاں ایک غلط روایت پائی جاتی ہے کہ ہم یہ کہنے سے ہچکچاتے ہیں کہ احتجاج ہمارا سیاسی وجمہوری حق ہے۔ ہمیں دنیا کو سمجھانا ہوگا کہ حکومت ہند اپنی فوجی طاقت اور کالے قوانین کے ذریعے اس قوم کو پُرامن راستے سے ہٹا کر دوسرے ذرائع اختیار کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ ہمیں عالم اقوام کو بتانا ہوگا کہ اگر اس مظلوم قوم کے لیے اپنے حقوق کی بازیابی کی مانگ کرنے کے تمام راستے مسدود کردئے جائیں گے، اگر ہمیں اُف بھی نہ کرنے دیا جائے گا تو تاریخ سے ثابت ہے کہ کمزور کا ردّعمل طاقت ور سے زیادہ شدید اور خطرناک ہوتا ہے۔اس قوم کو تنگ آمد بہ جنگ آمد کے مصداق جانیں نچھاور کرنے پر مجبور نہ کیا جائے۔ لہٰذاسرینگر سے دلی تک حکمران طبقے کو نوشتہ دیوار پڑھ لینا چاہیے ،اُنہیں جلتی پر پٹرول چھڑکنے کے بجائے عوامی جذبات کا احترام کرنا چاہیے۔ کشمیری عوام کو دبانے سے برصغیر میں ایک زبردست ناسور پیدا ہوجائے گا جس کی لپیٹ میں پورا بر صغیر آسکتا ہے۔دنیا کو بھی مجرمانہ خاموشی اختیار نہیں کرنی چاہیے۔ بڑی بڑی طاقتیںملکی مفادات کے تحت کشمیر جیسے سنگین مسئلے سے نظریں چرا رہی ہیں۔بے شک کشمیری کمزور ہیں لیکن کشمیریوں کی مزاحمت کمزور نہیں ہے۔ کشمیری قوم نے لاکھ کمزوریوں کے باوجود ہندوستانی پالیسی سازوں کی نیندیں حرام کررکھی ہیں ۔ ایک ایک دن میں پانچ پانچ سو افراد کو گولیوں سے چھلنی کرکے اُنہیں جسمانی طور معذور کرکے کوئی کشمیریوں سے یہ تواقع نہ رکھے کہ انہیں نام نہاد امن کا پاٹھ پڑھا جائے تو وہ بیٹھ جائیں گے۔ امن کی قدر و قیمت سب سے زیادہ کشمیری سمجھتے ہیں لیکن امن عزت، آبرو اور آزادی کی قیمت پر قائم ہوجائے ، یہ کسی بھی صورت میں کشمیری قوم کے لیے قابل قبول نہیں ہوگا۔ یہاں ہمیں بھی بحیثیت مجموعی اپنے اعصاب کو برقرار رکھناہوگا اور سوچ سمجھ کر دوستوں اور دشمنوں میں فرق کرنا ہوگاکیونکہ ایسے حالات میں تحریک حق خودارادیت کی دشمن طاقتوں نے بھیس بدل کر قوم کی اجتماعیت، نظم و ضبط اور اخلاقی حدود پر وار کرنے کے لیے میدان میں قدم رکھا ہے۔ 
احتجاج قوم کا حق ہے، اس لیے کشمیری مظلوم قوم کا پُر امن احتجاج جاری رہنے کا امکان برابر روشن ہے ۔ تاہم بھارت سمیت تمام مقتدر لوگوں بہتری اور بر تری اسی میں ہے کہ حکومت ہند کروڑوںں ہندوستانیوں کو غربت، افلاس اور پریشانیوں سے آزاد کرنے کے لیے کشمیریوں کا پیدائشی حق کو تسلیم کرے اور اُنہیں اُن کا سلب شدہ حق خود ارادی  بحال کرکے پورے جنوبی ایشیاء کو امن وشانتی کا حقیقی گہوارہ بنائے ۔

Comments

Popular posts from this blog

لندن کی کشمیر کانفرنس۔۔۔ ایس احمد پیرزادہ

پبلک سیفٹی ایکٹ اور نیشنل کانفرنس....ایس احمد پیرزادہ