پاکستان ہمارا محسن ہے لیکن

پاکستان ہمارا محسن ہے لیکن!

 ایس احمد پیرزادہ

پاکستان بلاشبہ کشمیریوں کا محسن ہے، اس نے اپنے قیام کے پہلے روز سے ہی کشمیریوں کو غلامی کے چنگل سے چھڑانے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔ پاکستان کشمیریوں کی تحریک آزادی کی ہر سطح پر سیاسی، سفارتی اور اخلاقی مدد کرتا رہا ہے۔ قائداعظم محمد علی جناح دور اندیش اور بالغ النظر انسان تھے۔ اُن کا یہ کہنا کہ ’’کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے‘‘ محض سیاسی نعرہ نہیں تھا بلکہ اس بات کو سمجھنے کے لیے کشمیری اور پاکستانی عوام کے جذباتی رشتے کو دیکھنا لازمی ہے۔ کشمیر کی تاریخ گواہ ہے کہ یہاں کسی بھی دور میں لوگوں نے بھارت کی چنگل میں ہونے کے باوجود ہندوستان کو اپنا ملک اور محسن نہیں سمجھا ہے بلکہ ہر زمانے میں لوگوں نے پاکستان کے ساتھ نہ صرف اپنی جذباتی وابستگی کا کھلم کھلا اظہار کیا ہے بلکہ اپنے اس اظہار کے لیے خندہ پیشانی کے ساتھ قیمت بھی ادا کرتے رہے ہیں۔ پاکستان کے ساتھ کشمیریوں کی والہانہ وابستگی کو دیکھتے ہوئے یہاں کے شاطر ہندنواز سیاست دانوں نے بھی ہر دور میں پاکستان کا نام لے کر کشمیریوں کا استحصال کیا۔ کبھی سبز رومال دکھا کر تو کبھی پاکستانی نمک دکھا کر لوگوں سے ووٹ بٹورتے رہے، سادہ لوح عوام بھی اس خیال سے کہ سبز رنگ اور پاکستانی نمک ہاتھ میں لیے یہ لوگ شاید ہمیں اپنے محسن ملک کے ساتھ جوڑنے میں مدد کریں گے، اُنہیں ووٹ دیتے تھے۔ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کرکٹ میچ میں کھل کر پاکستان کی حمایت کا مسئلہ ہو یا پھر عیدین کے موقع پر چاند دیکھنے کا مسئلہ ہو، پاکستان کے استحکام پر بغلیں بجانے کی بات ہو یا پھر پاکستان کے ہر چیز کی تعریفوں میں رطب اللسان ہونے کا چلن ہو، کشمیریوں کے سامنے جب بھی پاکستان کا نام آتا ہے، وہ اس کے بارے میں کوئی بھی ادنیٰ سی برائی بھی سننا گورا نہیں کرتے ہیں، وہ ہر اُس خبر اور تجزیہ کو جھوٹا اور پروپیگنڈا قرار دیتے ہیں جس میں پاکستان کے بارے میں کوئی منفی بات لکھی ہوئی ہو۔ کشمیری قوم کبھی یہ ماننے کے لیے تیار ہی نہیں ہے کہ پاکستان کی فوجی طاقت انڈیا سے کم ہے، اُن کی افرادی قوت ہندوستان سے کم ہے، اُن کے وسائل اور ترقی کی رفتار دیگر کسی بھی ملک سے کم ہے۔گویا پاکستان سے عقیدت اور محبت کا حال یہ ہے کہ کشمیری عوام بعض روز روشن کی طرح عیاں حقائق پر بھی اپنی آنکھیں بند کردیتے ہیں۔ اس قوم کی پاکستان نوازی کا حال یہ ہے کہ اِن کے نزدیک پاکستان دنیا کے نقشے پر ایک ایسی ریاست ہے جو ناقابل شکست ہے، جس کی ترقی و ذہانت کا کوئی دوسرا ثانی دنیا میں نہیں ہوگا۔
کشمیری قوم گزشتہ 70؍برسوں سے ظلم وجبر اور بھارتی دہشت گردی میں پستی جا رہی ہے۔ یہاں پانچ سو کے قریب قبرستان گزشتہ 30؍برسوں میں آباد ہوئے ہیں، یہاں ہر تیس چالیس کلومیٹر پر آپ کو ایک ایک یتیم خانہ دیکھنے کو ملے گا، یہاں بیواؤں کی تعداد میں ہوش ربا اضافہ ہوتا جا رہا ہے، یہاں روز کہیں نہ کہیں کسی ماں کا لخت جگر گولیوں سے بھون دیا جاتا ہے، کسی معصوم کو آنکھوں کی بینائی سے محروم کیا جارہا ہے، کسی کم عمر کو جیل کی کال کوٹھریوں میں ڈال دیا جاتا ہے، کشمیری قوم یہ سب خندہ پیشانی سے برداشت کر رہے ہیں اور اپنی جدوجہد میں کسی بھی سطح پر کمزوری آنے نہیں دیتے ہیں۔ اِس اُمید کے ساتھ اپنی جدوجہد جاری و ساری رکھے ہوئے ہیں کہ ہماری پشت پر ہمارا محسن ملک پاکستان ہے، جو کبھی بھی اورکسی بھی صورت میں ہماری مدد سے ہاتھ نہیں کھینچے گا۔ کشمیری قوم کو یہ بھی گورا نہیں ہوتا ہے کہ پاکستان کے استحکام اور سلامتی کو کوئی خطرہ درپیش ہو، پاکستان کی سالمیت پر کوئی آنچ آجائے اور اس ملک پر کبھی کوئی آفت آجائے۔ کشمیری اپنی آزادی کے لیے مزید سو سال تک انتظار کر سکتے ہیں لیکن پاکستان کو کوئی معمولی سا نقصان بھی پہنچے، یہ کسی بھی صورت میں قبول نہیں۔
پاکستان کی موجودہ صورتحال سے جس طرح کشمیریوں کے دل مجروح ہو رہے ہیں، اس کا اندازہ خود پاکستانی باشندے بھی نہیں لگا سکتے ہیں۔ اسی لیے بزرگ حریت لیڈر سید علی گیلانی نے بھی پاکستان اور افغانستان کے درمیان بڑھتی ہوئی سرحدی کشیدگی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس صورتحال سے ہمارے دل خون کے آنسو رو رہے ہیں۔ پاکستان نے افغانستان کے لیے اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیا ہے، اس ملک کے لاکھوں مہاجرین کے لیے اپنے در کھولے اور پاکستانی عوام نے افغان مہاجرین کے لیے قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں کی یاد تازہ کرتے ہوئے اُن کے لیے اپنے گھروں او ر دلوں کے دروازے وا کیے۔ آج افغانستان میں بھارت کا اثر و رسوخ بڑھ رہا ہے، وہی لوگ جن کی پاکستان نے ہر سطح پر مدد کی، پاکستانی دشمنوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں، پاکستان میں موت کا ناچ جاری ہے، یہ صورت حال تکلیف دہ ہے اور اس طرح کے حالات سے کشمیری لوگوں کے دلوں میں بے حد دکھ اور بے چینی پیدا ہوجاتی ہے۔ یہاں یہ بات شدت کے ساتھ محسوس ہو رہی ہے کہ کہیں نہ کہیں پاکستانی حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کے یہ نتائج برآمد ہو رہے ہیں، اُن کی جانب سے اپنے ذاتی اغراض و مقاصد کے لیے ملکی سلامتی کو داؤ پر لگانے کی کئی ایسی ظاہری مثالیں موجود ہیں جہاں کہا جاسکتا ہے کہ اندرون ملک دشمنوں کی سازشوں کا کامیاب ہونے دینے میں ملکی حکمرانوں کی نااہلی کا کردار بھرپور رہا ہے۔
افغانستان کے حوالے سے غلط پالیسیاں اختیار کرنے سے پاکستانی حکمرانوں کی آنکھیں کھل جانی چاہییں، پاکستانی اداروں کو بھی اپنی پالیسیوں کا جائزہ لینا چاہیے، کہیں ایسا نہ ہو کہ افغانستان والی صورتحال کشمیر کے حوالے سے بھی پیدا ہو جائے۔ پاکستان کی کشمیر پالیسی میں وقعتا فوقتاً ہو رہی تبدیلیوں کے نتیجے میں بھارتی پروپیگنڈا مشینری کشمیریوں کے اندر غلط فہمیاں پیدا کرنے میں کامیاب ہوسکتی ہے۔ یہاں یہ تاثر پیدا کیا جا رہا ہے کہ پاکستان کسی بھی وقت کشمیریوں کے ساتھ دغا کر سکتا ہے۔ پروپیگنڈا جب حکومتی سطح پر کیا جا رہا ہے، اس کے لیے جب زرخرید ایجنٹوں سے کام لیا جارہا ہے، یہ باتیں جب بعض ایسے لوگوں سے کروائی جاتی ہوں جو بظاہر پاکستان سے قریب تر ہوں تو آہستہ آہستہ اپنا اثر ضرور دکھائیں گی۔اس لیے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ پاکستانی حکومت اور وہاں کے ادارے کشمیر کے حوالے سے حساسیت کا مظاہرہ نہیں کر رہے ہیں۔
میڈیا بالخصوص سوشل میڈیا میں ایک طبقہ لبرل پاکستانیوں کے نام سے کافی سرگرم ہے۔ بھلے ہی یہ تعداد میں قلیل ہوں لیکن اُن کی آواز کو اس قدر بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے کہ جیسے یہی پاکستانی عوام کے نمائندے ہیں۔ یہ لوگ کھلے عام پرچار کر رہے ہیں کہ کشمیرکے لیے پاکستان کو بھارت کے ساتھ تعلقات خراب نہیں کرنے چاہیے، یہ لوگ شاید بھارت کی فلم نگری کی چکاچوند زندگی کے زیر اثر آچکے ہیں اور اُنہیں لگ رہا ہے کہ کشمیریوں کی حمایت نہ کرنے سے اُنہیں ہندوستان آنکھوں پر بٹھائے گا حالانکہ اگر یہ ہندوستانی فطرت سے بخوبی واقف ہوتے تو لاکھ مرتبہ پاکستانی ہونے پر اللہ کا شکر ادا کرتے۔ پاکستانی میڈیا میں بھارتی فلموں کے حوالے آدھے آدھے گھنٹوں کے پروگرام روز چلتے ہیں لیکن کشمیر میں ہو رہی ظلم و زیادتیوں پر دو یا تین منٹ کی بات کرنے پر اکتفا کیا جاتا ہے، حالانکہ سوشل میڈیا کے اس زمانے میں گراؤنڈ زیرو سے انفارمیشن حاصل کرنے کوئی مسئلہ نہیں رہا ہے۔
المیہ یہ ہے کہ پاکستانی عوام کے ساتھ ساتھ پاکستانی قلم کار بھی کشمیرکی زمینی صورتحال سے بے خبر دکھائی دے رہے ہیں۔ قلمکار اپنے تبصروں اور خبروں میں حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں جن سے صاف ظاہر ہوجاتا ہے کہ اُنہیں اصل صورتحال معلوم ہی نہیں ہے۔ حالانکہ صحیح صورتحال جاننا آج کے دور میں مشکل نہیں ہے۔ کشمیر کی پوری نوجوان نسل سوشل میڈیا کے ساتھ جڑی ہوئی ہے، یہاں کب کہاں کیا ہوتا ہے، پل پل کی خبر سوشل میڈیا پر نوجوان شیئر کرتے رہتے ہیں۔ پاکستانی میڈیا سے وابستہ لوگ سوشل میڈیا کا خوب استعمال کرتے ہیں، البتہ کشمیریوں سے رابطہ میں رہنا اور اُن کے ذریعے سے زمینی صورتحال جاننے میں شاید اُنہیں دلچسپی نہیں ہے۔ وہ جب کشمیر پر لکھتے ہیں تو اُن کی سطحی انفارمیشن سے کشمیر کاز کو فائدہ پہنچنے کے بجائے نقصان ہی ہوتا ہے۔
پاکستانی عوام کے دل کشمیریوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں، ہم جانتے ہیں کہ پاکستانی عوام اس مظلوم قوم کے لیے تڑپ رہے ہیں، البتہ پاکستانی حکومت اور وہاں کے ادارے اور میڈیا مختلف سطحوں پر کمزوری کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ برہان مظفر وانی کی شہادت کے بعد جب پاکستانی حکومت نے سینٹ کے ارکان کی نشست بلائی تو یہ کشمیریوں کے دل اُس وقت سخت مجروح ہئے جب وہاں کشمیر اور کشمیرمیں ہو رہی زیادتیوں پر بات کرنے کے بجائے پاکستان کی مختلف سیاسی جماعتوں کے لیڈران آپس میں الجھ پڑے۔ ایک دوسرے پر الزامات لگاتے رہے۔ خصوصاً عمران خان صاحب اور پیپلز پارٹی کے اعتزاز احسن صاحب کے رویے اور باتوں نے کشمیریوں کو مایوس کیا۔
سبز ہلالی پرچم کی ہر پاکستانی عزت و احترام کرتا ہے لیکن اس سبز ہلالی پرچم کی عظمت اور بلندی کی لاج کشمیرکی گلیاروں میں رکھی جا رہی ہے۔ ہندوستانی فوجی سربراہ کھلم کھلا دھمکی دے رہے ہیں کہ اب اگر کسی نے کشمیر میں پاکستان کا پرچم لہرانے کی کوشش کی تو اُسے گولی مار دی جائے گی، اُن کی دھمکی کو نظرانداز کرکے عوامی ریلیوں میں نہتے نوجوانوں سینکڑوں سبز ہلالی پرچم لہراتے ہیں۔ یہ نوجوان جانتے ہیں کہ اُن کی اس حرکت سے اُنہیں جان بھی دینی پڑے گی اور دے بھی رہے ہیں لیکن اس پرچم سے محبت کا جنون اُنہیں جان کی پرواہ سے بھی لاپرواہ کردیتا ہے۔ ہم اپنے نونہالوں کو سبز ہلالی پرچم میں روز دفناتے ہیں، یہ ثبوت ہے کہ مملکت خداداد اور کشمیر کے درمیان خونی اور ملّی رشتہ ہے۔ ہم یہاں پاکستانیوں سے زیادہ پاکستانی ہیں، اس رشتے کی ڈور کو کمزور کرنے کے لیے ہندوستان کام پر لگا ہوا ہے، البتہ پاکستان کے اندر بھی بےشمار طاقتیں دانستہ طور پر بھی اور نادانستہ بھی پاکستان اورکشمیر کے بندھن کوکمزور کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان کی حکومت، ادارے اور دیگر تمام سیاسی جماعتوں کے علاوہ عوام بھی کشمیر کے حوالے سے کوئی کمپرومائز یا کمزوری نہ دکھائیں۔ ہم یہاں صرف توقع کرسکتے ہیں بلکہ مملکت خداداد کے عوام اور حکمرانوں کے ہاتھ میں ہے کہ وہ کس طرح اپنی راہ کی صحیح ڈگر پر رکھیں گے۔

Comments

Popular posts from this blog

لندن کی کشمیر کانفرنس۔۔۔ ایس احمد پیرزادہ

پبلک سیفٹی ایکٹ اور نیشنل کانفرنس....ایس احمد پیرزادہ