کشمیر نسل کشی جاری ہے

 کشمیر ۔ ۔۔ نسل کشی جاری ہے

زمین رو رہی ہے فلک رورہاہے


ایس احمد پیرزادہ

۱۲؍فروری کو جنوبی کشمیر فرصل کولگام میں فورسز اہل کاروں اور عسکریت پسندوں کے درمیان ایک خون ریز جھڑپ ہوتی ہے، جس میں چار عسکریت پسنداور دو سویلین جان بحق ہوجاتے ہیں ، اس معرکہ آرائی میںتین فوجی ہلاک جب کہ دیگر کئی زخمی ہوجاتے ہیں۔ فورسز اور عسکریت پسندوں کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ یہاں گزشتہ تین دہائیوں کا معمول ہے۔ البتہ فرصل کی معرکہ آرائی کے دوران فورسز اہلکاروں کی ناکہ بندی کو مقامی لوگوں بالخصوص نوجوانوں نے ناکام بنانے کی بھرپور انداز سے کوشش کی اور اس دوران ہٹی گام سری گفوارہ کے مشتاق ابراہیم لٹو ولد محمد ابراہیم لٹو کو فورسز اہلکاروں نے راست گولیوں کا نشانہ کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ابدی نیند سلا دیا، فورسز اور پولیس کی گولیوں اور ٹیئرگیس شلنگ کے علاوہ پیلٹ گن کے چھروں سے دو درجن کے قریب نوجوان زخمی ہوگئے۔اس معرکہ آرائی کے دوران ایک اور سویلین ۳۷؍برس کا اشفاق مجید ریشی ولد عبدالمجید ریشی ساکن فرصل کو بھی گولی مار کر ابدی نیند سلا دیا گیا۔ اشفاق مجید کے گھر میں ہی عسکریت پسند مبینہ طور پناہ لیے ہوئے تھے۔ اُن کے گھروالوں نے فورسز پر الزام لگایا کہ اُن کے بیٹے کو گرفتار کرنے کے بعد دوران حراست پہلے تشدد کا نشانہ بنایا گیا پھر اُن پر نزدیک سے گولی چلاکر اُنہیں جان بحق کردیا گیا۔، یہاں کے عوام اب اس صورت حال کے عادی ہوچکے ہیں، اپنے نوجوانوں کی خون میں لت پت لاشیں دیکھنا یہاں روز کا معمول ہے، یہاں کی مائیں اور بہنیں نوحہ کناں ا ورماتم زدہ ہیں ، بھلے ہی فرصل انکاونٹر کے نتیجے میں اپنی قوم کے چھ نوجوانوں کے چھن جانے کے دُکھ نے ہرفرد کے دل کو چھلنی کردیا ہو البتہ ایک عظیم مقصد کی راہ میں ایسی بیش بہا قربانیاں ناقابل فہم نہیں ، اس مناسبت سے فرصل معرکہ آرائی کے نتیجے میں پیدا شدہ صورتحال انوکھی نہیں ،مگر فرصل معرکہ آرائی اس اعتبار سے اہمیت کا حامل بن گئی کہ اس کے بعد بھارت کے آرمی چیف بپن راوت نے کھلم کھلا عام کشمیریوں کو دھمکی دی کہ اب فورسز کارروائیوں کے دوران سنگ بازی، جلسے جلوس ،ا حتجاج اور سبز پرچم لہرائے جانے کو ’’دیش‘‘ کے ساتھ بغاوت تصور کیا جائے گا اور ایسا کرنے والے لوگوں کو عسکریت پسندوں میں شمار کیا جائے گا۔ دنیا کے کسی فوجی سربراہ کا جذبات سے مغلوب عام اور نہتے لوگوں کے خلاف کھلے عام اس طرح کی دھمکی مہذب دنیا کی پہلی مثال ہے۔ اس طرح کی کھلی دھمکیاں نازی ، صلیبی اور صہیونی فوجی جرنیلوں کے شایان ِ شان ہوں تو ہوں مگر ایک جمہوری کہلانے والے ملک کے عسکری سربراہ سے اس کی توقع نہیں کی جاسکتی۔المیہ یہ ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوری کہلانے والی اور دنیا کی تیسری بڑی فوج کے سربراہ کے اس بحث طلب بیان کی نکتہ چینی یا تنقید بھارت میں انگلیوں پر گنے جانے والے چند باہوش لوگوں نے ہی کی ہے ، باقی بی جے پی حکومت کے تمام لیڈران کے ساتھ ساتھ میڈیا نے بھی اُن کی ہاں میں ہاں ملائی،گویا عام اور نہتے کشمیریوں کے خلاف اعلان جنگ کردیاگیا ہے۔ کسی ملک کافوجی سپہ سالار عوام کے خلاف دھمکی آمیز الفاظ استعمال کر ے، سیاسی قیادت خاموشی ا ختیار کر کے اس کا سپورٹ کرے ، میڈیا خونی کھیل کے لیے رائے عامہ ہموار کر ے ، تو پھراس کم نصیب قوم کی نسل کشی اور قتل و غارت گری طے ہے اور اس صورت حال میں فتح کا جھنڈا صرف بشری حقوق کی پامالیوں پر لہرایا جاتاہے۔

آرمی چیف کے زیر بحث بیان کے بعد بے یارو مددگار کشمیری عوام نے بخوبی اندازہ لگا لیا ہے کہ یہاں کس طرح کا ماحول خون آشام تیار کیا جارہا ہے اور وادی کے شہر و دیہات میں قتل وخون کے کیا منصوبے روبہ عمل لائے جارہے ہیں۔فوجی جنرل کا یہ بیان ممکنہ حالات کے پس منظر میں چشم کشا بھی ہے ۔ ظاہر ہے ایسی گفتنی کو جنگی حالات میں پرورش پانے والے کشمیری نوجوان چلینج کے طور پر لے رہے ہیں۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہ بیان آنے کے بعد جتنی بھی جگہوں پر فوج نے گھر گھر تلاشیوں کے آزمودہ فارمولے کے تحت بستیوں کو محاصرہ لینے کی کوششیں کیں یا چھاپے ڈالے وغیرہم ،وہاں کی مقامی آبادی نے گھروں سے باہر آکر بھرپور انداز میں ان کی مزاحمت کی کہ کئی جگہوں پر فوج اور پولیس کو راہ فرار بھی اختیار کرنا پڑی۔فوجی سربراہ کے اس اہم بیان کو لے کر ریاست کی سیاسی گلیاروں میں ابھی بھی تبصرے اور تجزئیے چل رہے ہیں ۔ یہ خدشہ شدت کے ساتھ محسوس کیا جارہا ہے کہیں دلّی از سر نو یہاں نوے کی دہائی کی طرح قتل عام کے واقعات کو دہرانے کے لئے پر تو نہیںتول رہی ہے ۔ نوے کی دہائی کے ابتداء میں جب لاکھوں لوگ حق خود ارادیت کی مانگ کو لے کر سڑکوں پر نکل آنے شروع ہوگئے تو اُس وقت عسکریت پسندی کی آڑ میں فوج اور نیم فوجی دستور نے ہندواڑہ، کپواڑہ، بجبہاڑہ، گاؤ کدل، سوپور، ٹینگہ پورہ،زکورہ وغیرہ میں جلوسوں پر راست فائرنگ کرکے سینکڑوں نہتے کشمیریوں کو ابدی نیند سلا دیااور عام کشمیریوں کو اس حد تک خوف زدہ کردیا کہ پھر دوبارہ اُس پیمانے کے جلسے جلوس برآمد کرنے کی اُن میںہمت ہی نہیں ہوئی۔ ۲۰۰۸ء سے از سر نوکشمیری عوام لاکھوں کی تعداد میں سڑکوں میں نکل آنا شروع ہوگئے ہیں جس سے دلی کے پالیسی ساز اور سیکورٹی ایجنسیاں پر یشانی کا شکار دکھائی دے رہی ہیں۔ چونکہ نوے کی دہائی میں عسکریت کی آڑ میں اُنہوں نے جابجا قتل عام کروایا ،اس بار نوے کی دہائی کے پیمانے کی عسکریت نہیں ہے ،اس لیے بھارتی سیکورٹی ایجنسیوں کے لیے کوئی بہانہ ہاتھ نہیں آجاتا ۔ فوجی سربراہ، میڈیا اور انتہا پسند سیاست دان کشمیر کے حوالے سے اشتعال انگیز اور تیز طرار بیانات دے دے کر بیرونی دنیا میں یہ ثاثرپیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں جیسے پوری کشمیری آبادی نے ہاتھوں میں ہتھیار اُٹھا رکھے ہیں اور اُنہیں دبانا عالمی امن کے لیے لازمی بن چکا ہے۔ حکومت اور حکومتی اداروں کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ مشکل سے مشکل حالات میں بھی عوام کو دلاسہ دیں کہ حالات اُن کے قابو میں ہیں، یہاں تو اس کے بالکل ہی الٹا کیا جارہا ہے۔ گزشتہ سال کی وسیع الاثرعوامی ایجی ٹیشن کے بعد سے ہی حکومتی اور مختلف فورسز ایجنسیوں کے ذمہ دار یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ اگلے موسم بہار میں حالات سنگین نوعیت کے ہوسکتے ہیں، اس لیے فورسز ایجنسیاں تیاری کی حالت میں کھڑی ہیں۔ جو لوگ حالات پر گہری نظررکھتے ہیں اُن کا ماننا ہے کہ یہ ماحول کو گرم رکھنے کے لئے ہتھکنڈے ہیں جن کی آڑ میں بعد میں فورسز ایجنسیوں کو یہاں خونی کھیل کھیلنے کا موقع مل جائے گا۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا نوے کی دہائی کی طرح عوامی جلسے جلوسوں پر راست فائرنگ کرکے اُن دنوں کی طرح آج بھی لوگ واقعی خوف زدہ ہوجائیں گے؟ کیا وردی پوشوں کے خوف سے جلسے جلوس بندہوجائیں گے ؟ آثار و قرائین ہی نہیں بلکہ ان بیانات کے آنے  کے بعدسے جس طرح کا عوامی ردعمل سامنے آیا ہے، اس سے لگتا ہے کہ  کشمیری قوم کرو یا مرو کی راہ پر گامزن ہیں۔ پدگام پورہ پلوامہ میں پچھلے دنوں وردی پوشو ںکی کارروائی کے خلاف ایک پندرہ سالہ نوعمر بچے عامر نذیر کا جان بحق ہو نااور متعدد کا گولیوں اور پیلٹ کا شکار ہو نا اسی حقیقت کی نشاندہی کرتاہے ۔ سچ یہ ہے کہ آج جو نسل سڑکوں پر آرہی ہے وہ جنگی حالات اور جنگی ماحو ل میں پیدا ہوئی اور اس نے پرورش بھی اسی غیر یقینی فضا میں پائی ،یہ موت کے خوف سے بالکل عاری ہے۔ چنانچہ یہ نئی نسل ۲۰۰۸ء میں خوف زدہ ہوئی نہ ۲۰۱۰ء کا قتل عام اسے ڈرا سکا اور ۲۰۱۶ء کی گولیوں اور پیلٹ کے چھرے بھی اس کی حدت کو سرد نہ کرسکی۔ لہٰذاجنرل روات کے فارمولہ پر عمل آوری سے زمینی حقائق بدل تونہ سکیں گے بلکہ اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے اوروادیٔ کشمیر ایک نہ رکنے والی خون ریزی کی جانب رواں دواں ہوجائے گی۔المیہ یہ ہے کہ یہ ساری نامراد کاوشیں عوامی نمائندگی کا دعویٰ کرنے والے لوگوں کی سیاسی حمایت کے زیر سایہ کی جارہی ہیں۔ یہاں جو لوگ برسراقتدار ہیں یا جو اُن کے مدمقابل اسمبلی میں اپوزیشن کی نشستوں پر بیٹھے ہوئے ہیں یہ سب گویااس خونی کھیل کے ساجھے دار بنے ہیں۔ان کو ذرا بھی احساس نہیں کہ یہ ان کے اپنے ہی عوام ہیں جن کا قتل عام ہو رہا رہے ۔ یہ ا صل میں روز اول سے دلی کے واسطے آکی پیشن منجیمنٹ کے وہ کردار ہیں جو قلیل مدتی آسائشوں اور زاتی عیاشیوں کے لئے اپنی آنے والی نسلوں کو بیچ کھاتے ہیں۔رہا سوال اہل کشمیرکا وہ یہ جانتے ہیں کہ ہر مشکل وقت گزر ہی جاتا ہے اور مشکل وقت میں راہ ِ ایثار پر رہنے والے لوگ ہی کامیابی ہو جاتے ہیں۔ اربابِ اقتدار کو ہوش کے ناخن لے کر سمجھنا ہوگا کہ نوے کا قتل عام کشمیریوں کو نہ دبا سکا، جیل اور قبرستان آباد ہوجانے سے ان کے جذبہ ٔ مزاحمت میں کوئی کمی واقع نہ ہوئی،اس لیے ظلم وجور کی نئی آندھیاں ان کے عزم و ہمت اور حوصلوں کو پست نہیں کرسکتی ۔

 حریت (ع ) کے سر براہ میرواعظ عمر فاروق نے بجا کہا کہ بھارتی فوجی سربراہ کی دھمکی نے اپنا رنگ آہستہ آہستہ دکھانا شروع کردیا ہے۔ ۵؍مارچ کو نازنین پورہ ترال میں ہوئی جھڑپ کے دوران فورسز اہلکاروں نے احتجاجی نوجوانوں پر راست فائرنگ کرکے ایک درجن کے قریب نوجوانوں کو زخمی کردیا، جن میں ۸؍نوجوان ایسے ہی جن کی آنکھوں میں پیلٹ کے چھرے لگے ہیں۔ یہاں مقامی آبادی نے الزام عائد کیا کہ جھڑپ کے دوران فورسز نے آس پاس کے مکانوں سے نقدی، زیوارات اور دیگر قیمتی اشیاء چرائی ہیں۔اسی طرح ۹؍مارچ کو پدگام پورہ پلوامہ میں ہوئی معرکہ آرائی کے دوران احتجاجی نوجوانوں پر راست فائرنگ کرکے ایک معصوم نوجوانوں ۱۵؍برس کا عامر نذیر ولد نذیر احمد ساکن بیگم باغ جان بحق ہوگیا، ایک اور نوجوان جلال الدین گنائی ساکن ٹہاب پلوامہ فورسز کی زبردست شلنگ کی وجہ سے دم گھٹنے سے جان بحق ہوگیا۔ یہاں فورسز کی راست فائرنگ سے ۲۵؍افراد زخمی ہوگئے جن میں ۶؍نوجوانوں کی آنکھوں میں پیلٹ کے چھر ے لگے ہیں۔یہ واقعات اس بات کی عکاسی کررہے ہیں کہ فوج جھڑپوں کے دوران عوام کے خلاف جنگی طریقہ کار اختیار کرکے اُن پر بنا کسی جھجھک کے گولیاں برساتی ہے۔گویا عوام کودشمن قرا ردے کر اُنہیں اپنے مدمقابل کی فوج قرار دیاجارہا ہے۔ اس طرح کا رویہ اختیار کرکے ایک ایسی آگ کو ہوا دی جارہی ہے جو پھیل کر ہر چیز کو بھسم کر سکتی ہے ۔

ابھی چند ہی دن قبل یوتھ پی ڈی پی کے ایک مجموعے میں محبوبہ مفتی نے کشمیری نوجوانوں سے اپیل کی کہ وہ اُنہیں پرامن ماحول فراہم کریں، بدلے میں وزیر اعلیٰ صاحبہ اُنہیں نوکریاں فراہم کریںگی۔ اس بیان کو محولہ بالا دو واقعات کے خراد پر چڑھایئے تو لگے گا کہ یہ الفاظ کے گورکھ دھندے ہیں، جن میں عام اور معصوم لوگوں کو اُلجھایا جاتا ہے۔امن و امان کی صورتحال خراب کرنا نہتے لوگوں کا کام نہیں ہوتا ، امن کا اصل دشمن طاقت ور فریق ہوتاہے۔ یہاں نہتے لوگوں کو فورسز اہلکار گولیاں مار کر ابدی نیند سلادیں،  پیلٹ کا قہر جاری رکھیں، ہزاروں پیلٹ گن اسرائیل سے خریدے جا ئیں، رات کی تاریکی میں پولیس گھروں میں گھس کر نوجوانوں کو گرفتار کرکے اُنہیں تعذیب خانوں میں ٹھونس  دے اور پھر مظلومین سے کہا جائے ہمیں امن دو ہم نوکریاں دیں گے۔یہ شاطرانہ طرز سیاست ہے جس سے عوام کو بیوقوف نہیں بنایا جاسکتا ۔جب لوگوں کی جان کے لالے پڑے ہوں، جب روز نہتے اور معصوم نوجوانوں کو خون میں نہلایا جارہا ہو، جب نئی نسل کی آنکھوں سے بینائی چھینی جارہی ہو ،تو خدارا بتایئے وہ خیالی نوکریاں کس کام کی جن کا لالچ کشمیر ی قوم کو دی جارہی ہے، اُس قیاسی ترقی کا کیا مطلب جو قوم کے حق ِ حیات اور حق آزادی کو نکارتے ہوئے نسلی کشی پر منتج ہو ۔

حالات کو جان بوجھ کر سنگین بنایا جارہا ہے، وردی پوشوں کی پُر تشدد کارروائیوں کو جواز فراہم کرنے کے لیے ماحول ساز گار کیا جارہا ہے۔ یہ صورتحال ایک نئے طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے۔ ایسے میں کشمیریوں کی جملہ مزاحمتی قیادت ، یہاں کے دانشوروں ، علماء اور ذی حسن انسانوں کو اتحاد اور یکجہتی کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اُنہیں سر جوڑ کر بیٹھ کر منصوبہ بندی کرکے متوقع ریاستی دہشت گردی کو ناکام بنانے کی سبیلیں ڈھونڈ نکالنی چاہیے۔ عام کشمیری ایک مقدس کاز کے لیے قربانیاں دے رہے ہیں اس لیے جتنے بھی لوگ یہاں ہند نواز ٹولے میں شامل ہیں اور جو ایک یا دوسرے طریقے سے کشمیریوں کے خلاف جاری جنگ میں فریق مخالف کا بھرپور ساتھ دے رہے ہیں اُنہیں یہ بات ذہن نشین ہونی چاہیے کہ جس جدوجہد کا مرکز ی محور رضائے الٰہی ہو، جہاں کے معصوم دین کی سربلندی کے لیے اپنی جانیںلٹا رہے ہیں وہاں پہاڑ جیسی سازشیں بھی ناکام و نامراد ہوجائیں گی۔ہزار مشکلات سے گزر جانے کے بعد بالآخر کامیابی اس قوم کا مقدر ہے، اس پر ہمارا ایمان ہے۔ 

Comments

Popular posts from this blog

لندن کی کشمیر کانفرنس۔۔۔ ایس احمد پیرزادہ

پبلک سیفٹی ایکٹ اور نیشنل کانفرنس....ایس احمد پیرزادہ