ہندی مسلمان ہوش کے ناخن لیں

ہندی مسلمان ہوش کے ناخن لیں!


حیات وبقاء کی کشاکش مسلسل



(  ایس احمد پیرزادہ)


ملت اسلامیہ کی تاریخ کے غم ناک المیوں اور سانحات میں ایک عظیم سانحہ اور المیہ سقوط اُندیس ہے۔سینکڑوں برسوں پر محیط حکمرانی کے بعد جب اُمت مسلمہ آپسی انتشار کا شکار ہوگئیں تو اندیس جو مسلم علوم و فنون کا مرکز اور گہوارہ بن چکا تھا اُن کے ہاتھ سے نہ صرف نکل گیا بلکہ مسلمانوں کی نااتفاقیوں، ریشہ دوانیوں کے نتیجے میں جہاں وہ فاتح بن کر گئے تھے وہاں آخر انہیں غلام بناکر زبردستی عیسائی بنایا گیا۔ مسلم خواتین کو عیسائی حکمرانوں نے اپنے محل میں لونڈیاں بناکر رکھ دیا۔مسلمانوں کو نماز ، اذان اور اسلامی فرائض کی بجا آوری سے مکمل طور پر روک دیا گیا۔ شکست خوردہ مسلمانوں کو اسلامی نام اور عربی میں بات چیت کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ تاریخ دانوںنے لکھا ہے کہ شکست کے بعد مسلمانوں کے سامنے دو ہی راستے رکھے گئے ، یا تو اُنہیں وہاں سے ہجرت کرنی تھی یا پھر مذہب تبدیل کرکے عیسائی بننا تھا۔ مسلمان جو ظلم وجبر سے تنگ آکر عیسائی مذہب اختیار کرتے، اُنہیں ہسپانیہ کے عیسائی’’ موریسکو‘‘ کے نام سے پکارتے تھے۔ 1499 ء میں غرناطہ کے لاٹ پادری نے مسلمانوں کو عیسائی بنانے کی عمل کو سست روی کا شکار قرار دے کر تیزی سے مسلمانوں کو زبردستی عیسائی بنانے کا آغاز کیا۔ جو عیسائی بننے سے انکار کرتے تھے اُنہیں باغی قرار دے کر زندہ آگ میں جلادیا جاتا تھا جو ڈر کر عیسائی ہوجاتاتھا اُسے سور کا گوشت کھلایا جاتا تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ واقعی اس نے دین اسلام کو چھوڑ دیا ہے۔ عیسائیت میں داخل ہونے والوں کے لیے لازم قرار دیا گیا کہ وہ گھروں کے باہر سور کے دُم اور ران لٹکا کر رکھیں۔ عیسائی اس بات سے آگاہ تھے کہ مسلمانوں کے یہاں سور کا گوشت حرام ہے، اسی لیے اُن کو زبردستی سور کا گوشت کھلاتے تھے۔ ایسے بھی مسلمان تھے جنہوں نے بظاہر عیسائیت قبول کرلی تھی لیکن گھروں میں وہ چھپ چھپ کرنماز وغیرہ پڑھتے تھے مگر اس طرح مسلمانوں کاانجام یہ ہوا کہ اُن کی آگے کی نسلیں آہستہ آہستہ دین سے بے گانی ہوگئیں اور پھر ایک ہی دہائی میں اُن کی نسلیں بھول چکی تھیں کہ کبھی وہ مسلمان ہوا کرتے تھے۔ اُندلس کے مشہور شاعر عبدون نے سقوط اُندلس کا رونا ایک مرثیہ میں اس طرح رویا:’’جہاں مساجد چرچوں میں تبدیل ہوچکی ہیں، ان میں ناقوسوں اور صلیبوں کے سوا کچھ نہیں۔ محرابین تک گریہ وزاری کرتی ہیں حالانکہ وہ ایک وجود جامد ہیں۔ منبر تک مرثیہ خواں ہیں حالانکہ وہ محض چوب خشک ہیں۔ مسلمان کل تک اپنے گھروں میں بادشاہ تھے اور آج وہ بلاد کفر میں غلام ہیں۔ جس وقت انہیں فروخت کیا جاتا ہے اُس وقت اگر تو ان کی آہ و بکاکو دیکھے تو یہ صورت حال تیرا دل ہلادے اور غم و اندوہ تیری ہوش اُڑا دیں۔‘‘

اپنے ماضی کے ان سانحات کی یاد گزشتہ دنوں بھارت کی ریاست یوپی کے انتخابی نتائج سامنے آنے کے بعد آگئی ہے۔ ہندی مسلمانوں کے لیے ٹھیک وہی صورتحال پیدا ہوچکی ہے جو اُندلس کے آخری مسلمان بادشاہ بیدل کی شکست کے بعد اسپین کے مسلمانوں کی تھی۔وہاں بھی مسلمانوں کو اپنی جان اورایمان میں سے صرف ایک کا انتخاب کرنا پڑا اور یہاں بھی حالات اسی قسم کے بن رہے ہیں کہ مسلمان یا تو اپنے ایمان اور عقیدے کو ترک کریں یا پھر عزت و آبرو سے جینے کی آس چھوڑ دیں۔ جو فرقہ پرستانہ اور فسطائی نظریہ بھارت میں سر چڑھ کے بولنے لگا ہے اُس کا نعرہ ہی یہ ہے کہ’’بھارت میں رہنا ہے تو ہندو بن کر جینا ہے‘‘۔ یوپی کے انتخابی نتائج سامنے آنے کے بعد ہندوستان کی پہلے سے ہی جنونی سیاست میں مزید جنون اور دیوانگی پیدا ہوچکی ہے۔ رام راج کے پرستار اپنے زور ِ بازو اور من مانیوں میں ڈھیٹ ہوتے جارہے ہیں۔ جیت کے نشے نے اُنہیں اس قدر بدمست کردیا کہ اگلے ہی دن بریلی جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں ، کی ہر گلی اور نکڑ پر پوسٹر چپکادئے گئے ہیں جن میں مسلمانوں کو یوپی سے ہجرت کرنے کے لیے کہا گیا تھا۔دینی علوم و فنون کے مرکز دیوبند میں جیتنے والے بی جے پی اُمیدوار نے جیت کے بعد جس پہلے کام کو کرنے کی بات کہی ہے وہ دیوبند کا نام تبدیل کرکے اس کو کسی ہندو دیوتا کے نام منسوب کرنا ہے۔یوپی کے مختلف شہروں میں بی جے پی ورکروں نے زبردستی مسجدوں پر اپنے جھنڈے لہرانے کی کوششیں بھی کی ہیں ، جس کی وجہ سے مسلمان کافی خوف کا شکا ر ہوگئے ہیں۔مظفر نگر میں جن بدنام زمانہ افراد نے مسلم کش فسادات کراکے مسلمانوں کا قتل عام کروایا، اُن کے گھر جلا دئے، اُن کی عزت مآب خواتین کی عصمت ریزی کروائی ، وہی لوگ الیکشن میں کامیاب قرار پائے۔ مطلب اکثریتی طبقے کے لوگوں نے انسانیت کے خلاف اُن کے گھناؤنے جرائم پر اُنہیں ووٹ سے نوازا ہے۔ یہ ظاہر کر رہا ہے کہ ہندوستانی عوام کی سوچ کس نوعیت کی بن رہی ہے۔ اپنے ہی ملک میں مسلمانوں کے لیے زمین تنگ کی جارہی ہے۔ جس ملک پر مسلمانوں نے آٹھ سو سال تک حکمرانی کی ہے، آج بھی اسلامی تہذیب اور تمدن کی گواہی ہندوستان کا ہر چھوتا بڑا شہر دے رہا ہے اُسی ملک میں مسلمان خستہ حالی کا شکار ہیں۔ اُنہیں گھرواپسی کے نام پر اپنا دین و ایمان چھوڑ دینے کے لیے کہا جارہا ہے۔اُن میں خوف اور دہشت کی فضا قائم کردی گئی ہے، حالانکہ اپنی آٹھ سو سالہ تاریخ میں اگر یہی کچھ مسلمانوں نے کیا ہوتا تو آج ہندوستان میں ہندو اکثریت کے بجائے اقلیت کیا بلکہ اُن کا نام تک موجود نہیں ہوتا۔مسلمان زور زبردستی کے روادار نہیں ہیں، اُنہوں نے ہر زمانے میںاپنی دور اقتدار میں اقلیتوں کو کھلی آزادی فراہم کر رکھی تھی۔

ہندوستانی مسلمانوں کی حالت کیوں اس قدر خستہ ہے؟ اس کی کیا وجوہات ہیں؟ اس سوال کا جواب ڈھونڈنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ برصغیر میں پاکستان کی صورت میں الگ ریاست وجود میں آجانے کے بعدجتنے بھی مسلمانوں نے پاکستان جانے کے بجائے ہندوستان میں ہی رہنے کو ترجیح دی ہے، اُنہیں طرح طرح سے یہاں ستانے کی کوشش کی گئی۔ کسی بھی زمانے میں اُن پر بھروسہ نہیں کیا گیا بلکہ اُنہیں مشکوک نظروں سے دیکھا گیا۔ اُن کے لیے ترقی کے تمام راستے مسدود کردئے گئے۔ اُنہیں تعلیم سے دور رکھا گیا۔ یہ بھلا ہوامدارس اسلامیہ کا جنہوں نے کسی حد تک ہندوستانی مسلمانوں کو دین اور تعلیم سے جوڑ رکھا ہے ورنہ آج ہندوستان میں شاید نام کے بھی مسلمان نہیں ہوتے۔ دینی مدارس نے کم از کم ہندوستان کے مسلمانوں کو دین کے ساتھ جوڑے رکھا، اپنے کم و قلیل وسائل کو بروئے کار لاکر اُنہوں نے مسلم بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دیا۔البتہ اعلیٰ عصری تعلیم کے شعبے میں مسلمان بچھڑ گئے اور آج کے مسابقتی دور میں وہ کہیں دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔ اُن کے ووٹ کا ہندوستان کی تمام سیاسی پارٹیوں نے استحصال کیا ہے ، اُنہیں فریب میں رکھا گیا ہے ، یہاں تک کہ وہ وہیں رہ گئے جہاں 1947 میں تھے اور اُن کے مقابلے میں اکثریتی طبقہ کے لوگ بہت آگے نکل گئے ۔پسماندگی اور ذہنی غلامی نے ہندوستانی مسلمانوں کی سوچ اور سمجھ کو بھی محدود کررکھا ہے۔ اُن کے ذی حسن لوگ جیسے سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں سے ہی محروم ہوچکے ہیں۔ حالانکہ وہ حالات کا صحیح طرح سے تجزیہ کرکے اپنی ملت کی بقا ء کے لیے منصوبہ بندی کرسکتے تھے لیکن وہ نہیں کرپاتے ہیں۔ ہار سے پہلے ہی ہارتسلیم کیے ہوئے ہندی مسلمان آپسی تفرقہ میں پڑ چکے ہیں،موت کی تلوار اُن کے سروں پر لٹک رہی ہے اور وہ پھر بھی مختلف خانوں میں بٹے ہوئے ہیں، ایک دوسرے کے خلاف سازشیں رچ رہے ہیں، مسلکی ، فروعی اور نسلی تعصب کا شکار ہوچکے ہیں، حالانکہ اُن کے لیے حالات ایسے ہیں کہ اُنہیں فروعی معاملات سے اوپر اُٹھ کراپنی بقاء کی فکر میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اپنے ساتھ جوڑنے کی کوششوں میں جٹ جانا چاہیے تھا۔

30 ؍فیصد ہندوستانی مسلمان مختلف دینی مدارس اور دینی تنظیموں کی وجہ سے اپنی تہذیب اور ثقافت کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ 70 ؍فیصد مسلمانوں کو صرف یہ معلوم ہے کہ وہ’’محمڈن‘‘ ہیں۔مختلف ریاستوں کے دور دراز علاقوں میں جاکر دیکھ لیجئے آپ کو مسلمان اور ہندو، مسلمان اور سکھ میں کوئی فرق دکھائی نہیں دے گی۔ سر پر پگڑھی، نام سکھوں  جیسا کے مسلمان ہونے کا صرف یہ ثبوت ہے کہ اُس نے اپنے نام کے پیچھے ’’خان‘‘ لگا رکھا ہوتا ہے۔ ایسی ہی ایک فیملی سے میری ملاقات ہوئی۔ سونو سنگھ خان نامی یہ مسلمان پیشے سے انجینئر ہے، آسٹریلیامیں بھی نوکری کرچکا ہے۔ اپنے آپ کو ’’محمڈن‘‘ کہتا ہے۔ زندگی میں صرف ایک ماہ میں نماز پڑھی ، وہ بھی تب جب اسڑیلیا میں چند پاکستانی لوگوں کے ساتھ رہائش پذیر رہا۔ باقی زندگی میں نہ ہی اُس نے اپنے والدین کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھاتھا نہ ہی کسی اور کو۔ قرآن بھی نہیں پڑھا، دین کے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔ ایسے مسلمانوں کی تعداد ہندوستان میں زیادہ ہے۔جو کام عیسائیوں نے اُندلس میں اعلاناً کیا تھا وہ ہندوستان میں کب کا شروع ہوچکا ہے۔ ہندوستانی مسلمانوں کو جمہوریت کا فریب دیا گیا ہے اُنہیں کہا گیا کہ آپ اپنے ووٹ سے اپنی تقدیر کو سنوار سکتے ہو، اس لیے وہاں کا ہر چھوٹا بڑا الیکشن کے انتظار میں رہتا تھا۔ حالانکہ ووٹ نے جب1947 ء سے اُن کا بھلا نہیں کیا اب کہاں کرے گا۔اُن کا ووٹ مسلم سماج کی طاقت نہیں بن رہا ہے بلکہ اُن کے ووٹ سے اُن کے دشمن ہی طاقت ور ہورہے ہیں۔ ووٹ کے بجائے طاقت حاصل کرنی ہے، تمام انتظامی شعبوں میں داخل ہونا ہے۔ بڑے بڑے اداروں میں اپنی موجودگی کو یقینی بنانا ہے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہندوستانی مسلمان ایسا نہیں کرپائے ہیں۔

ہندوستانی مسلمانوں کے لیے صرف دو ہی راستے ہیں جن پر چل کر وہ اپنی تقدیر کو سنوار سکتے ہیں: ایک اپنے دین پر سختی سے قائم رہتے ہوئے اعلیٰ تعلیم پانے کے لیے کوششیں کریں۔دوم مسلکی، مکتبی اور فروعی اختلافات سے اُنہیں نکلنا ہوگا۔ جب تک بھارت میں مسلمان اتحاد کا مظاہرہ نہیں کریں گے، ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کے مانند کھڑا نہ ہوجائیں گے اُن کی بدبختی اُن کا پیچھا نہیں چھوڑے گی۔ہندوستانی مسلمانوں نے جس طرح بڑے بڑے دینی ادارے قائم کیے ہیں اُسی طرح اُنہیں دنیوی علوم کی درسگاہیں بھی قائم کرنی ہوں گی۔ اس سے بڑھ کر المیہ کیا ہوگا کہ بھارت کی راج دھانی دلی میں جامع مسجد کا علاقہ مسلمانوں کا گڑ ھ مانا جاتا ہے، وہاں جامع مسجد کے آس پاس ہزاروں ایکڑ زمین جو جامع مسجد یا پھر وقف بورڈ کی ہے، پر خود مسلمانوں نے ہی ناجائز قبضہ قائم کرلیا ہے۔ لوگوں نے بڑے بڑے ہوٹل قائم کیے ہیں مگر اس علاقے میں مسلمانوں کا اپنا کوئی ایک بھی معیاری اسکول نہیں ہے۔حالانکہ وقف کی زمین پر وہ وہاں پر بہت بڑا دارہ قائم کرسکتے تھے۔ شاہی امام جنہیں ہائی پروٹوکال حاصل ہے، نے بھی وہاں پر اپنی خاندانی چودھراہٹ قائم رکھنے کے علاوہ آج تک کچھ نہیں کیا ہے۔یہ صرف ایک مثال ہے، حالانکہ ایسی سینکڑوں مثالیں دی جاسکتی ہیں۔

ہندوستانی مسلمان کے برعکس کشمیری مسلمان مبارک بادی کے مستحق ہیں۔ جنگ زدہ اور متنازعہ خطے میں ہو کر بھی اس قوم نے تعلیم کے ساتھ کمپرومائز نہیں کیا۔ دب کررہنے کے بجائے مزاحمت کو ترجیح دی۔ خاموشی سے ظلم سہنے اور اپنی موت کا انتظار کرنے کے بجائے اپنے حقو ق کی جنگ لڑنے لگے۔ ایک مسلمان کا یہی شیوا ہوتا ہے کہ وہ آخری سانس تک کوششیں کرتا رہتا ہے۔ ہمت ہار جانے کے بجائے کامیابی کے خواب دیکھنے لگتا ہے اور ہر مرتبہ گرنے کے بعد سنبھل جاتا ہے یہاں تک اپنے مقصد میں کامیاب ہوجاتا ہے۔کشمیری قوم کی جدوجہد کی مخالفت کرنے کے بجائے ہندوستانی مسلمانوں کو اس سے سیکھ لینا چاہیے، اُنہیں اپنے ہی ملک میں حقوق سے محروم رکھا جارہا ہے اور وہ اپنے حقو ق پانے کے لیے جمہوری طریقے پر یک جٹ ہوکر جدوجہد کرنے کے حق کا بھرپور انداز سے استعمال کرسکتے ہیں۔زعفرانی ایجنڈا کے علمبرداروں کے تیور صحیح نہیں ہیں۔ ہندوستانی عوام نے پارلیمنٹ میںآر ایس ایس کو بھاری اکثریت کے ساتھ پہنچا دیا ہے۔ اب ہندوستانی سیاسی مجسمے میں دماغ کا کام کرنے والی ریاست یوپی پر بھی رام راج قائم ہونے جارہا ہے۔ حکمران طبقہ تمام اداروں پر آر ایس ایس نظریہ رکھنے والوں کو بٹھا رہے ہیں۔’’ زعفرانزیشن‘‘ پر کام شدو مد سے جاری ہے۔ مسلمانوں کے لیے حالات کسی بھی صورت میں ٹھیک نہیں ہیں۔ ایسے میں ضروری ہے کہ ہندوستانی مسلمان شتر مرغ کی طرح آنکھیں بند کرکے خوش فہمیوں کا شکار نہ رہیں بلکہ حالات کا باریک بینی سے جائزہ لے کر اپنی بقاء کے خاطر اُٹھ کھڑا ہوجائیں۔بعد میں پچھتانے سے بہتر یہ ہے کہ پہلے ہی آگے کے سفر کی منصوبہ بندی کی جائے۔ اپنے حقوق کی جنگ لڑنے کے لیے بزدلی کے بجائے مردانہ وار کھڑا ہونے کی ضرورت ہے۔کہتے ہیں کہ جب غرناطہ سے شکست کھاکر ایک معاہدے کے تحت وہاں سے نکلنے والے آخری مسلمان بادشاہ بیدل نے ’’موروں کی آہ‘‘ نامی پہاڑ ی پر پہنچ کر غرناطہ پر نظر ڈالی تواُس نے سردآہیں بھرتے ہوئے رونا شروع کردیاتھا۔ بادشاہ کی ماں عائشہ بھی ساتھ تھی جو بیٹے کی آہ و زاری کرتے دیکھ کر بولی:’’ جس شہر کو تم مردوں کی طرح لڑ کر نہ بچا سکے اب اُس کے لیے عورتوں کی طرح کیوںروتے ہو؟‘‘… کہیں ایسا نہ ہو کہ مسلمان اپنی عزت، عصمت اورآبرو کی حفاظت کرنے کے لیے حکمت عملی کا مظاہرہ نہ کریں اور بعد میں اُنہیں صرف آہ و زاری ، مرثیہ خوانی اورسینہ کوبی کرنا پڑے گی جس طرح یوپی میں بی جے پی کی جیت کے بعد وہ کررہے ہیں۔حالانکہ اس شکست خوردہ آہ و زاری کا اب کوئی فائدہ نہیں ہے۔ یہاں زعفرانی بر گیڈ یہ بھی یاد رکھے کہ اس کی جیت اس کے نظریے کا غلبہ ہوسکتا ہے مگر جو قوم جیت کے نشے میں راست روی اور انسانیت سے تہی دامن ہوکر رہے وہ زیادہ دیر تک ہار سے دور نہیں رہ سکتی۔ وزیراعظم مودی کا یوپی جیت کے بعد یہ کہنا کہ جس پیڑ پہ میوے لگ جاتے ہیں وہ جھک جاتا ہے، ایک صحت مند بات  قرار پائے گی بشرطیکہ وہ اور ان کی فکری قائد آر ایس ا یس اس آفاقی اصول پر عمل پیرا  ہو ۔ اب تاریخ تاڑتی رہے گی کہ مسلمانوں کے انڈیا میںسیاسی ڈِس ایمپاورمنٹ اور سنگھ پریوار کے سیاسی دبدبہ کی تہ سے کیا اُچھلتا ہے ۔ 

Comments

Popular posts from this blog

لندن کی کشمیر کانفرنس۔۔۔ ایس احمد پیرزادہ

پبلک سیفٹی ایکٹ اور نیشنل کانفرنس....ایس احمد پیرزادہ