وہ چاہتے ہیں کہ میں اپنے آپ میں نہ رہوں

تحریک اسلامی جموں وکشمیر

وہ چاہتے ہیں کہ میں اپنے آپ میں نہ رہوں

٭.... ایس احمد پیرزادہ
بیسویں صدی کی عظیم تحریکات میں جماعت اسلامی کا نام سرفہرست آتا ہے۔ اس تحریک نے تعمیری منصوبہ بندی کرکے ملت اسلامیہ میں پایا جانے والا انتشاربڑی حد تک کم کرنے کے ساتھ ساتھ بیسویں صدی کے وسط میں اُمت مسلمہ کو نااُمیدیوں اور مایوسیوں کے دلدل سے نکال کر اُنہیں اُن کا منصب یاد دلایا۔ اُمت مسلمہ جو ایک زمانے میں دیگر اقوام کے سامنے قریب قریب ہاتھ کھڑی کرچکی تھیں ، تحریکات اسلامی نے اُن میں نیا جوش اور ولولہ پیدا کرنے کا کارِ عظیم انجام دیا۔ ایک دور میں بالخصوص صلیبی جنگوں کے بعد مسلم دشمن طاقتیں یہ یقین کرچکے تھے کہ مسلمان انفرادی حیثیت میں اگر چہ دنیا میں موجود ہیں البتہ مسلمان نام کی کوئی اُمت دنیا میں اب موجود نہیں رہی ہے لیکن اُن کے یقین کو تحریکات اسلامی نے بیسویں صدی کے وسط میں اس وقت نام کردیا جب برصغیر میں جماعت اسلامی اور عرب دنیا میں اخوان المسلمون نے اُمت مسلمہ کے بکھرے پڑے دانوں کو نئے سرے سے ایک لڑی میں پروکر اُسے ایک طاقت کے طور پر دنیا کے سامنے لاکھڑا کردیا۔اسلام دشمن طاقتوں نے از سر نو صف بندی کرکے تحریکات کے خلاف پہلے پہل سرد جنگ شروع کردی، نظریاتی طور پر اُن پر قابو پانے کے لیے طرح طرح کے نئے نظریات کا خوف پرچار کیاگیا جو ہنوز جاری ہے۔ جب یہاں بھی منھ کی کھانی پڑی تو براہ راست جمہوری طریقوں پر کام کرنے والی تحریکات پر ہاتھ ڈالا گیا۔ عرب دنیا کی اخوان المسلمون ہو یا پھر برصغیر کی جماعت اسلامی ، ان دونوں عظیم تحریکات کی تاریخ عزیمت ، آزمائشوں اور مشکلات سے بھری پڑی ہوئی ہیں۔تحریکات کے خلاف عالمی سطح کا یہ کریک ڈاون تاحال برابر جاری ہے۔مصر میں اخوان المسلمون اور بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی آزمائش کے مشکل ترین دور سے گزررہی ہیں۔ دونوں جماعتوں کے افراد کو چن چن کر نشانہ بنایا جارہا ہے۔ جرم بے گناہی میں اُن کے ذمہ داروں کو تختہ دار پر لٹکایا جارہا ہے۔ جیلوں میں ہزاروں تحریکی کارکن سڑ رہے ہیں، اُنہیں قانونی امداد تک فراہم نہیں کی جاتی ہے بلکہ قانون کی سر عام دھجیاں اُڑا کر فرضی الزامات کے تحت تحریکی بزرگوں کو شہادت کے منصب پر فائز کیا جارہا ہے۔چونکہ تحریکوں کے خلاف منفی پروپیگنڈ ااور اُنہیں تحریکی اور تعمیری خدمات انجام دینے سے باز رکھنے کے لیے عالمی پیمانے پر سازشیں ہورہی ہیں۔ ان سازشوں میں کہیں براہ راست اسلام دشمن ملوث ہورہے ہیں تو کہیں ضمیر فروش مسلم حکمرانوں اور فوجی آمروں کی مدد سے اسلام کے نام لیواو ¿ں کا قافیہ حیات تنگ کیا جارہا ہے۔
کشمیر ایک متنازعہ مسئلہ ہے، اس حقیقت کو کشمیر کے کروڑوں عوام مان رہے ہیں، اس حقیقت کو اقوام متحدہ کے ذریعے سے پوری دنیا تسلیم کرچکی ہے، اقوام متحدہ میں لے جا کر خود بھارت اور پاکستان بھی اس کی متنازعہ حیثیت کو مان چکے ہیں۔ تحریک اسلامی جموں وکشمیر کا اپنے قیام کے اول روز سے ہی یہ مو ¿قف رہا ہے کہ ریاست جموں وکشمیر ایک متنازعہ خطہ ہے اور تاحال اس ریاست کے مستقبل کا فیصلہ نہیں ہوا ہے۔جماعت ہر ہمیشہ یہ مطالبہ کرتی آئی ہے کہ اس مسئلہ کو اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق یا پھر سہ فریقی مذاکرات کے ذریعے سے حل کیا جائے اور مسئلہ کا ایسا حل نکالا جائے کو مسئلہ کے بنیادی اور اہم ترین فریق یعنی کشمیریوں کے لیے قابل قبول ہو۔جماعت کا یہ مو ¿قف روز اول سے ہی رہا ہے ۔ جماعت اسلامی ایک دستوری جماعت ہے، اس کا اپنا ایک عظیم نصب العین ہے۔ دستور کی پاسداری کو یہاں اولین ترجیح رہتی ہے اور کسی بھی حال میں دستور کے حدود وقیود کو پھلانگنے کی یہاں اجازت نہیں ہے بلکہ دستور شکنی کو عظیم جرم تصور کیا جاتا ہے۔ جو بھی بندہ دستور کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوجاتا ہے اُسے جماعت کی صفوں میں ایک پل کے لیے بھی برداشت نہیں کیا جاتا ہے۔جماعت کے دستور میں کہیں بھی اس بات کی اجازت نہیں ہے کہ وابستگان جماعت کسی بھی مقصد او رکام کو انجام دینے کے لیے کوئی غیر دستوری طریقہ اختیار کریں۔ہم زور زبردستی کے قائل نہیں ، ہم عدم برداشت کے روا دار نہیں ہیں بلکہ تعلیم و دعوت کے ذریعے سے عوام الناس کے ذہنوں کو اپیل کرنا ہمارا طریقہ کارہے۔ ہم عام لوگوں کے پاس جاکر اُنہیں صحیح اور غلط کی تفریق کی تعلیم دیتے ہیں، اُنہیں دین اسلام کی جانب دعوت دیتے ہیں۔اُن کے سامنے اپنا تعمیری پروگرام رکھتے ہیں، جو لوگ اتفاق کرتے ہیں اُنہیں اپنے کارروان میں شامل کرلیتے ہیں او رجو لوگ اتفاق نہیں کرتے ہیں اُن کی غلط فہمیوں کو دور کرنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔ہم رائے عامہ کو ذہن سازی کے ذریعے ہموار کرکے اُنہیں صالح انسانی معاشرہ تعمیرکرنے میں اپنا کردار نبھانے کے لیے آمادہ کرتے ہیں۔ہم فکری اور ذہنی سطح پر تبدیلی لانا چاہتے ہیں۔ ہم اللہ کی حکمرانی کا نفاذ بزور بازو نہیں بلکہ عوام الناس کی مرضی سے کرنا چاہتے ہیں۔انسان دوستی میں یقین رکھنے والی تحریک اسلامی محض دعویٰ ہی نہیں کرتی ہے بلکہ یہاںبلالحاظ مذہب، رنگ و نسل کے انسانیت کی خدمت کو اولین ترجیح دی جاتی ہے۔ حالات کی ابتری میں بدحال عوام ہو یا سیلاب متاثرین ہر موقع پر جماعت خدمت خلق کے جذبے کے تحت اپنے عوام کی مدد کے لیے پیش پیش رہی ہے۔ شہر سرینگر کے جواہر نگر، راج باغ اور کرن نگر علاقوں میں آج بھی وہ درجنوں غیر مسلم گھرانے اس بات کی گواہی دیں گے کہ جب ۴۱۰۲ئ کے بھیانک سیلاب میں اُن کی مدد کے لیے کوئی نہیں آیا تھا تو جماعت کے رضاکاروں نے پہلی ترجیح کے تحت اپنے اِن غیر مسلم بھائیوں تک راحت رسانی کا سامان پہنچایا، اُن کے مکانات کی صفائی کرکے اُنہیں دوبارہ استعمال کے قابل بنایا۔جماعت اسلامی کا ماضی شاندار ہے، حال جماعت کی انسانی دوستی کی گواہ دے رہا ہے اور مستقبل میں بھی رضائے الٰہی کے لیے انسان دوستی کا عملی مظاہرہ کیا جاتا رہے گا۔ان شاءاللہ۔
۶۱۰۲ئ کی عوامی ایجی ٹیشن کے بارے میں سبھی جانتے ہیں کہ یہ کسی مخصوص جماعت، تنظیم ، تحریک ، افراد یا اداروں کی برپا کردہ نہیں تھی بلکہ عوامی سطح کی اس تحریک میں کشمیر کا عام انسان ملوث رہا ہے۔ مرد، جواں، بچے ، بزرگ حتیٰ کہ عورتیں بھی اپنی مرضی سے اس کا حصہ بنی ہیں۔ اس بات سے زمینی سطح پرکام کرنے والی ہندوستان کی تمام ایجنسیاں بھی واقف ہیں۔البتہ اب جبکہ اپنی خفت مٹانے اور حقائق سے چشم پوشی کرنے کے لیے کسی نہ کسی کو موردِ الزام ٹھہراکر اپنا اُلو سیدھا کرنا ہی ہے تو کیوں نہ ہرمسئلہ کی جڑ جماعت اسلامی کو ہی قرار دیا جائے۔ ایسا آج کل ہورہا ہے۔ یہاں سے ہندنواز جماعتوں کے چند لوگ دلی جاکر وہاں ایک میٹنگ جس میں ہندوستانی مسلمانوں کے نمائندے بھی شامل تھے میں دلی کو مشورے دیتے ہیں کہ کشمیرکے حالات میں تبھی سدھار پیدا ہوجائے گا جب وہاں جماعت اسلامی کی جڑوں کو اُکھاڑ کر پھینک دیا جائے گا، کشمیری پنڈتوں کا ایک وفد راجناتھ سنگھ کو تحریری میمورنڈم پیش کرکے اُنہیں جماعت سے وابستہ افراد اور جماعتی قیادت کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی تجویز دے دیتا ہے۔ہندوتوا طاقتوں کے اشاروں اور فنڈنگ پر چلنے والی کچھ چینلیں مسلسل جماعت کے خلاف پروپیگنڈا کررہی ہیں۔نیوز ایکس اورسی این این نیوز پر ۸۱فروری کو ہندوستانی فوج کا ایک سابق بریگیڈئیر آر وی مہالنگم نے بڑی ہی ڈھٹائی کے ساتھ جماعت اسلامی کے اوپر الزام پر الزام لگا یا کہ کشمیرمیں جو کچھ ہورہا ہے اس کے پیچھے جماعت اسلامی کا ہاتھ ہے۔ حتیٰ کہ ۶۱۰۲ئ کی پوری عوامی ایجی ٹیشن کے لیے بھی حالات و واقعات سے بے خبر یہ بریگیڈئیر تحریک اسلامی کو ہی ذمہ دار قرار دیتا ہے۔کئی اخباروں نے بھی اپنے کالموں اور نیوز رپوٹوں میں جماعت کے شبیہ مسخ کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔اِن نادانوں کو کوئی یہ نہیں کہتا ہے کہ مسئلہ کشمیر جماعت اسلامی کا پیدا کردہ نہیں ہے، اقوام متحدہ میں اس مسئلے کو لے کر جماعت اسلامی نہیں گئی ہے۔ یہ آپ کا اپنا پیدا کردہ مسئلہ ہے۔ اس میں دنیا کو گواہ بناکر وعدے آپ نے از خو د کشمیری عوام سے کیے ہیں۔اب جبکہ کشمیری لوگ اپنے وعدوں کا ایفاءکرنے کے کہتے ہیں تو آپ ہولو کاسٹ کی طرح مسئلہ کشمیر پر لوگوں کی زباں بند کیسے کرسکتے ہیں۔کیا جماعت کو نشانہ بنانے سے حقائق تبدیل ہوسکتے ہیں؟ نہیں ہرگز نہیں کیونکہ یہاں اپنے حقوق کی بازیابی کے لیے عوام سراپا احتجاج ہے اور عوام میں سے ایک مخصوص جماعت کودبانے سے آپ عام لوگوں کو خاموش نہیں کرسکتے ہیں۔ 
مسئلہ کشمیر سے فرار حاصل کرنے کے لیے بھارت پاکستان پر الزام عائد کرتا رہتا ہے ، کہ یہ ملک کشمیر میں تشدد کو ہوا دے رہا ہے۔ اب جبکہ پاکستان بڑی حد تک عالمی طاقتوں کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہوچکا ہے کہ کشمیریوں کی جدوجہد اُن کی اپنی ہے اور اِس میں کشمیری لوگ از خو د ملوث ہیںتو ہندوستانی چینلیں اور چند ادارے جماعت اور دیگر دینی حلقوں کے خلاف ماحول تیار کررہے ہیں کہ یہی لوگ کشمیر میں حالات کو بگاڑنے کے لیے ذمہ دار ہیں۔یہ ایک بڑی سازش ہے جس کو بے نقاب اور ناکام کرنے کے لئے عام کشمیریوں کو سامنے آنا پڑے گا۔ جماعت کے وابستگان کی اس میں ذمہ داریاں دوبالا ہوجاتی ہیں۔ ایک طرف اُنہیں ہر قیمت پر اپنے نصب العین کی آبیاری کرنے کا کام جاری وساری رکھنا ہوگا ، دوسری جانب دستور کی ہر سطح پر پاسداری کرنا اُن کا عظیم ترین فرض بن جاتا ہے۔تحریک اسلامی کا دوسرا نام عزیمت ہے۔ اپنے دستور کی پاسداری کے لیے او راپنی دعوتی سرگرمیوں کے لیے چاہیے ہمیں جیل بھیجا جائے یا پھانسی چڑھایا جائے ، اِن دونوں چیزوں سے ہم کسی بھی طرح سے نہ ہی کبھی مرعوب ہوئے ہیں اور نہ آئندہ کبھی خوف زدہ ہوجائیں گے۔ البتہ تحریک اسلامی پر بھونڈے قسم کے الزامات لگاکر ایک انقلابی اور اصلاحی تحریک کو پشت بہ دیوار کرکے اُمت مسلمہ کو کمزور کرنے کی سازشیں کی جارہی ہیں جنہیں ہم بحیثیت ملت کسی بھی صورت میں کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ بہتر یہ ہوتا کہ تحریک اسلامی کے خلاف منفی پروپیگنڈا کرنے کے بجائے حقائق کو تسلیم کرلیا جائے۔ فوجی جبر و زیادتیوں کے بجائے بات چیت کا راستہ اختیار کیا جائے، انسانی جانوں سے کھیلنے کے بجائے تعمیری انداز سے سوچا جائے، اِسی میں سب کی بھلائی ہے۔ مگر کیا کریں طاقت کا نشہ دلی کے پالیسی سازوں کو وہ سب کچھ کرنے پر مجبور کررہا ہے جو وقت کے نمرود وں اور فرعونوں کا وطیرہ رہا ہے۔حالانکہ تاریخ گواہ ہے کہ نمرووں کا فرعونوں کا انجام ہر دور میں برا ہی رہا ہے۔تحریک اسلامی کے خلاف سازشیں کے جال بنّے والے اصل میں خوف زدہ ہیں۔ جماعت کے اصلاحی کام سے، جماعت کی دعوت حق سے، جماعت کی انسان دوستی سے اور وہ چاہتے ہیں کہ یہ جماعت وہ کام نہ کرپائے جو انسانوں میں شعور بیدار کرے، جو آدمی کو حق اور باطل کی تمیز سکھائے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ عناصر دن رات تحریک اسلامی پر نشانہ سادھ کر اپنے مکروہ عزائم کو پایہ تکمیل تک پہنچانا چاہتے ہیں۔

Comments

Popular posts from this blog

لندن کی کشمیر کانفرنس۔۔۔ ایس احمد پیرزادہ

پبلک سیفٹی ایکٹ اور نیشنل کانفرنس....ایس احمد پیرزادہ