گھر یلو تشدد…حقیقت کیا ہے؟
رحم کے ترانے سناتے چلو

آج کل بنت حوا کے حوالے سے گھریلو تشدد کاموضوع بحث عالمی توجہ کا مر کز بناہوا ہے۔ سماجی مسائل کی فہرست میں یہ ایک حل طلب معمہ ہے ۔ ا س کا تدارک کر نے سے کسی باضمیر کو انکار کی مجال نہیں ہوسکتی مگر یہ مسئلہ الل ٹپ پیدا نہ ہوا بلکہ اس کی تخم ریزی، پرورش اور پروان چڑحانے میں ایک وسیع تر تہذیبی ،سماجی، سیاسی اورنفسیاتی پس منظر دخیل ہے۔ اس حقیقت کو نظرا نداز کر کے محض قانون کی ضخامت بڑھانے، حکومتی اداروں کو بیچ میں لانے ، فیمن ازم کا جھنڈا لہرانے، عورت کو مرد کے مدمقابل حریف کھڑا کرنے، نشستند گفتند برخواستند کی محفلیں جمانے اور اسی آڑ میں مردا ورعورت کے درمیان دوریاں اور نفرتیں پیدا کرنے سے یہ مسئلہ حل ہونے والا ہے نہ اس سے جڑی اُلجھن سلجھنے والی ہے ۔ اس مسئلے سے گلو خلاصی کے لئے پہلا قدم یہ ہے کہ فرد سے سماج تک ہر کوئی اپنی روش اور اپنا مزاج بدلے، مرد اپنی سنگدلی سے باز آئیں اور عورت اپنی نسوانیت کا دفاع کر نے کے پاک ومطہرہنر و جذبے سے باخبر رہے ،اس کام میں ا خلاقی، سیاسی وانتظامی فضا ہر دو اصناف کے لئے ساز گار بنی رہے۔ جب تک یہ سب نہ ہو مسئلہ جوں کا توں برقرار رہنا طے ہے ۔ ہمارے یہاں اس مسئلے کو اُجاگر کر نے کے لئے حال ہی میں سری نگر میںایک این جی او نے اپنی مجلس کا انعقاد کیا ، ڈاکٹرز ایسوسی ایشن آف کشمیرکے ایک دھڑے نے بیانات جاری کر کے اس جانب عوام کی توجہ مرکوز کی۔ دنیا بھر میں گھریلو تشدد کے روح فرسا واقعات کو ذہن میں رکھ کر کشمیر پر ایک اچکتی نگاہ ڈالیں توبعض کم نصیب خواتین پر تشدد یا چند ایک مستورات کا مردوں کے تئیںغیر ذمہ دارانہ رویے کو چھوڑ کر ابھی تک کمیت کے اعتبارسے یہ مسئلہ یہاں آٹے میں نمک کے برابر ہے ۔ ہمارے یہاں اس مسئلے کو گھریلو تشددسے زیادہ سماجی تشدد کہنا مناسب ہوگا۔ بلاشبہ جہیزی اموات، ساس بہو کے لڑائی جھگڑے اور دیور نند کی چخ چخ سے اس مسئلے کی گونج کم وبیش یہاں ضرور سنائی دیتی ہے۔ عام مشاہدہ یہ ہے کہ جب ازدواجی زندگی میں تلخیاں پیدا ہونا شروع ہوتی ہیں تو اکثر وبیشتر الگ گھر بسائے جاتے ہیںاور اسی کے ساتھ معاملہ رفع دفع ہو جاتاہے ۔اصل بات یہ ہے کہ ہماری صدیوں پرانی اجتماعی روایات تاریخ کشمیر میں سنہری حروف سے درج ہیں۔ چونکہ ہمار ا سماج بہ حیثیت مجموعی ہمیشہ مذہبی رہا ہے اور خرابی ٔ بسیار کے باجود اخلاقی تشخص ہی سماجی زندگی میں غالب رہا ہے۔اس حیثیت سے یہاں کے خاندانی نظام میں شرم و حیا، عزت و احترام اور خلوص و وفا کا مادّہ ہر دور میں موجود رہا ۔کشمیری سماج کی مہمان نوازی کی مثالیں دنیا بھر میں دی جاتی ہیں، یہاں بزرگوں کا عزت و احترام ، چھوٹوں سے شفقت، خواتین کا عزت و اکرام جیسی صحت مندروایات بنیادی سطح پر موجود تھیں اور اب بھی کماحقہ موجود ہیں۔ کشمیر کے لوگوں کے بارے میں مشہور تھا کہ یہ جھگڑالو قوم نہیں اور یہ مجموعی طور امن پسند، شریف النفس اور خیرخواہی کی موید ہے۔ یہ کشمیری سماج ہی تھا جہاں غربت اور افلاس کے باوجود لوگ سماجی کاموں میں دامے اور درمے بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے۔ دیہاتی لوگ سال بھر مختلف بہانوں سے اپنے پاس پڑوسیوں کو اپنے گھر بلاکر اُن کی خاطر تواضع کرتے ، کھلانے پلانے کی عادت امیر و غریب ہر ایک میں موجود رہی۔ دُکھ سکھ میں کام آنا اور دوسروں کی مصیبت کو اپنی مصیبت جان لینے کا جذبہ سماج میں ہمیشہ موجود رہا۔آج اکیسویں صدی میں بھی جب دنیا انسانیت کا سبق ہی سرے سے بھول چکی ہے، جب نفس اور ہوس پرستی کے جنون میں ابنائے آدم ایک دوسرے کا گلا کاٹنے سے بھی دریغ نہیں کرتے ، جب ایک دوسرے کے سکھ دکھ میں شریک ہونے کا جذبہ ماند پڑچکا ہے ،اور وںکے حقوق پر شپ خون مارنے کا رواج چل پڑا ہے، کشمیری سماج میں اُمید کی مضبوط کرنیں پھر بھی نظر آتی ہیں۔ یہ قوم صدیوں سے ظلم و جبر کی چکی میں پس جانے کے باوجود اپنے اخلاقی قدروں کو بڑی حد تک بچائے رکھی ہوئی ہے۔یہاں آج بھی مستحقین کی مالی امددا کا جذبہ لوگوں کی رَگ و پے میں موجود ہے۔ یہی وجہ ہے گزشتہ دودہائیوں پر محیط تاریک دور نے جو روح فرسا نقوش یہاں کی ہر گلی، کوچے اور نکڑ پر ثبت کئے اور اُن سے جو ہنگامی صورت حال پیدا ہوئی، اُس پر قابو پانے میں اس قوم نے از خود اپنی مدد آپ کی۔ یتیموں کی تیار ہونے والی فوج کا گھمبیر مسئلہ ہو یا پھر بیواؤں کی اُجڑی زندگیوں کا معاملہ ہو، بے سہارا بزرگ والدین ہوں یا پھر ٹارچر اور گولیوں سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپاہچ ہونے والے لوگ ،ریاست کے لوگوں نے جذبۂ انفاق کا اس حد تک عظیم مظاہرہ کیا کہ آج تک یہاں کوئی ایک بھی مثال موجود نہیں کہ کہیں کوئی اللہ کا بندہ فاقہ کشی کا شکار ہوا یا پھر کسی کے بدن پر کپڑے نہیں یا کوئی شخص بنیادی ضروریات کے فقدان پر خود کشی کی سر کشی پر اتر آیاہو۔گزشتہ سال کے بدترین سیلاب نے ریاستی معیشت کی بنیاد ہلاکر رکھ دی ، سرکاری ریلیف شور شرابے اور پروپیگنڈے کے سوا کچھ ثابت نہ ہوا، ایک نرالی ہنگامی صورتحال پلک جھپکتے ہی پیدا ہوئی، ہر سو ہا ہا کار مچ گئی، ان حالات میں یہ عام خام کشمیری ہی تھے جنہوں نے لاکھوں سیلاب متاثرین تک نہ صرف کھانا پہنچایا بلکہ اُن کے لیے بستر، دوائی اور دیگر ضروریات زندگی کا بھی اہتمام کیا جس کی سراہنا اور اعتراف فوجی جرنیلوں سے لے کر پردھان منتری مودی تک نے کی ۔ یہ سارا کچھ کشمیری سماج میں اخلاقی زندگی کی رمق موجود ہونے کی گواہی دیتا ہے۔ قومِ کشمیر بے شک مصائب و مشکلات کا شکار ہے، دہائیوں سے در در کی ٹھوکریں کھا رہی ہے ، باعزت زندگی گزارنے سے قاصر ہے لیکن اس سب کے باوجودیہاں دنیا کے دیگر اقوام کے مقابلے میں خیر کا پہلو غالب ہے۔ جب حقیقت حال یہ ہے تو اغیار کی تقلید میں گھریلو تشدد کی ہوا کھڑا کر نا حقیقت سے کوسوں دور ہے ۔ بے شک یہاں تابندہ غنیا ور رومانہ جاوید جیسے دلدوزواقعات وقوع پذیر ہوئے ، تیزابی حملوں کے سانحات بھی ہمارے ضمیروں پر طمانچہ مارگئے مگر انسنای آبادی کے مقابلے میںان کا تناسب کیا بنتاہے ی یہ بھی ذرا دھیان میںرکھئے۔ کہیں ایسا تونہیں کہ ہمارے کرم فرما ہر عورت کو سیتا ماں اور ہر مرد کو راؤن جیسا راکھشس جتلاکر اپنے مظالم کی پردہ پوشی نہیں کرہاہے ۔ نرم مزاجی اور شرافت نفسی کے لئے مشہور کشمیری سماج کے بارے میں گزشتہ کئی ماہ سے مسلسل اخبارات میں یہ خبریں شائع ہورہی ہیں کہ یہاں خواتین کے خلاف گھریلو تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔ آئے روز اخبارات میں کسی نہ کسی خاتون کی خود کشی یا خود سوزی کا واقعہ اخبارات کی زینت بن جاتا ہے۔ ایک تحقیقں طلب رپورٹ کے مطابق ریاست میں ۴۰؍فیصد خواتین کسی نہ کسی سطح پر گھریلو تشدد کا شکار بتا ئی گئیں۔ رپورٹ کے اعداد و شمار پر یقین کرلیا جائے تو ہر سال اسٹیٹ وومنز کمیشن میں ایک ہزار چھ سو (1600)سے ایک ہزار سات سو(1700) شکایات درج کی جاتی ہیں۔ رپورٹ میں گھریلو تشدد کے لیے جہیز کو بنیادی وجہ قرار دیا گیا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ حوا کی بیٹی تشدد کی شکار کہاں نہیں ہوجاتی ہے۔ دنیا کے کونے کونے میں، گھریلو تشدد کی اصطلاح ایجاد کرنے والے اور خواتین کے حقوق کی علمبرداری کا دعویٰ کرنے ممالک اور اقوام میں ہی بنت حوا ذلت و رسوائی کا شکار بنائی جارہی ہے۔ مغرب جہاں گھر گرہستی کا تصور ہی نہیں، جہاں خاندانی سسٹم کب کا بکھر چکا ہے، جہاں جانوروں کی طرح انسان بھی تعلقات قلیل وقت کے لئے قائم کرکے اپنی اپنی اپنی دنیا میں گم ہوکر نئے شکاروں کی تلاش میں رہتے ہیں، اُس معاشرے میں خواتین گھریلو تشدد کا ہی شکار نہیں ہیںبلکہ ہرجگہ ہراساں اور پریشان نظر آرہی ہے۔ جن حقوقِ نسواں کی پاسداری اور بحالی کا پاٹھ اہالیانِ مشرق اور اب کشمیری سماج کو مغرب( یااس کے مقلدین او ر آلۂ کاروں کی طر ف سے ) پڑھایا جارہا ہے ،ان ممالک اور قوموں کی اپنی کیا حالت ہے اس کا انداز وہاںکے سماج کا سر سری مطالعہ کرنے سے ہی ہوجاتا ہے۔ ریاست جموں وکشمیر مسلم اکثریتی علاقہ ہے۔ یہاں کے لوگ کمزور ہی سہی مگر مذہبی روایتیں اور قدریں موجود ہیں۔ خواتین کی یہاں عزت کی جاتی ہے، اُن کی عزت و آبرو کی حفاظت کے لئے لوگ کٹ مرنے پر تیار ہوجاتے ہیں۔ اگرچہ بعض وحشی درندے بھی ہمارے یہاں جنم لے چکے ہیں ۔ایسے سماج میں گھریلو تشدد کا گراف بڑھ جانے کے حوالے سے متعدد وجوہات کار فرماہوسکتی ہیں۔گزشتہ نامساعد حالات نے یہاں ذہنی بیماریوں میں حد درجہ اضافہ کیا ہے۔ لوگ ظلم و زیادتیوں اور مار دھاڑ کے سبب دماغی الجھنوں کا شکار ہوچکے ہیں۔International Journal of Health scinece کے ایک تحقیقی رسالے میں 2009 کی ایک سروے رپورٹ شائع ہوئی ہے جس میںکہا گیا کہ ریاست جموں وکشمیر میں گزشتہ نامساعد حالات کی وجہ سے55.72 فیصد لوگ ذہنی تناؤ کا شکار ہیں۔ 15 سے 25 سال کی عمر والے لوگوںکے درمیان ذہنی تناؤ کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ اس عمر کے نوجوانوں میں66.67 فیصد تناؤ کا شکار ہیں جب کہ26 سے35 سال کی عمر کے درمیان ذہنی تناؤ کے شکار لوگوں کی شرح65.33 فیصد ہے۔ ریورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ شہری علاقوں کے برعکس دیہات میں ذہنی تناؤ کا شکار لوگوں کی تعداد زیادہ ہے۔ دیہات میں یہ شرح84.73 فیصد جب کہ شہروں میں15.26 فیصد ہے۔دیہات میں مردوں کے مقابلے میں خواتین کی شرح زیادہ ہے۔ 93.10 فیصد دیہاتی خواتین ذہنی تناؤ کی شکار ہیں جبکہ گاؤں میں خواتین کے مقابلے مردوں کی شرح6.8 فیصد ہے۔ متذکرہ بالا اعداد شمار پر غور کیا جائے تو گھریلو تشدد کے محرکات از خود سامنے آجائیں گے۔ ریاست جموں وکشمیر میں جس پیمانے کا فوجی جماؤ قائم کیا گیا ہے، اس کے پیش نظر کرۂ ارض کے اس خطے کو دنیا کی سب سے بڑی جیل قرار دیا جارہا ہے۔ دیہی علاقوں میں افسپا کی آڑ میں ظلم و زیادتیوں کے ریکارڈ قائم کئے گئے ہیں، ماؤں سے اُن کی اولادیں چھین لی گئیں، کشمیری ماؤں نے بیٹوں کی گولیوں سے چھلنی لاشیں دیکھی ہیں، بہنوں سے اُن کے بھائی جدا کر لئے گئے، جسمانی تشدد اور قید و بند کے سلسلے نے خواتین میں ذہنی تناؤ کو شدید سے شدید کردیا ہے۔اس کے نتیجے میں خواتین اور مردوں میں قوتِ برداشت ہی ختم ہوگیا ہے اور کہیں کہیں اذیت پسندی کی منفی نفسیات پروان چڑھ گئی۔ معمولی باتوں پر توں توں میں میں ہونا عام ہورہا ہے اور یہی چھوٹی موٹی لڑائی جھگڑابن کر بڑے فساد کا سبب بن جاتی ہیں۔جو ماں اپنے بیٹے کی قبر روز دیکھتی ہوگئی، جس بہن کی آنکھوں کے سامنے اُس کے بھائی کو گولی مار دی جائے گی، جس بیوی کا شوہربرسوں سے جیل میں سڑ رہا ہوگا، ایسے لوگوں کا دماغی توازن بھلا کیسے ٹھیک رہے گا؟ مسئلہ کشمیر کی وجہ سے پیدا ہونے والی یہی ذہنی پریشانیاں کشمیری سماج میں تناؤ پیدا کرنے کا سبب بن رہی ہیں اور نتیجہ مختلف قسم کی اذیت پسندیوں کی شکل میں دیکھا جارہاہے۔ بدیں وجوہ افراد خانہ ، میاں بیوی ، ساس بہو وغیرہ میں بات بات پر ٹکراؤ ہوجاتا ہے،عدم برداشت کی وجہ سے ہر کوئی الجھنے لگتا ہے۔گویا گھریلو تشدد کی جو خبریں ہمیں آئے روز سننے کو ملتی ہیں وہ کہیںمسئلہ کشمیر کی براہ راست اور کہیں بلواسطہ دین ہے۔کشمیر کازکی پاداش میں تعذیب اور عذاب کے جس سلسلے سے ریاستی عوام کوروز گزرنا پڑتا رہا اُس وجہ سے یہاں گھریلو سطح پرتناؤ پیدا ہوجانا بھی فطری ہے۔ ان ناگفتہ بہ حالات کا سب سے زیادہ شکار یہاں کی خواتین ہوجاتی ہیں۔ریاست میں خواتین اس وجہ سے بھی ذہنی الجھنوں کا شکار ہوجاتی ہیں کیونکہ یہاں حوا کی بیٹی نے گھر کی چار دیواری سے نکل کر مردوں کے ساتھ شانہ بشانہ کام کرنے کا عزم کیا ہوا ہے۔ خواتین سرکاری نوکریاں بھی کرتی ہیں، پرائیوٹ اداروں میں دن بھر محنت مشقت بھی کررہی ہیں اس کے باوجود رات دیر گئے گھر پہنچ جانے پر اُنہیں گھریلو کام بھی کرنا پڑتا ہے۔ کام کے اس زیادہ دباؤ نے صنف نازک میں چڑچڑا پن پیدا کردیا اوریہی چڑ چڑا پن گھرمیں میاں بیوی ، ساس بہو کے درمیان تضاد کا سبب بن جاتا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ مرد اور خواتین اپنے اپنے کام کے دائروں کو سمجھیں۔ جہاں مرد کو یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ خواتین کے ساتھ حسن سلوک کرنا اُس کی دینی اور اخلاقی ذمہ داری ہے، وہی خواتین کو بھی اس بات کا فہم وادراک کر لینا چاہیے کہ مغرب کا تصور آزادی خواہ کتنا ہی خوش نما کیوں نہ ہو، یہ غیر فطری ہے اور کوئی بھی غیر فطری عمل اپنے برے اثرات کی وجہ سے فدر اور سماج کو کہیں کا نہیں چھوڑتا ۔ مسلمان ہونے کی حیثیت سے زندگی گزارنے کا ہمارا اپنا ایک منضبط نظام ِ رحمت ہے۔ اُس میں اپنے اپنے کام کے دائرہ کار کی منصفانہ بنیادوں پر نشاندہی کی گئی ہے ۔ اگرآسمانی طریقہ کار پر عمل پیراہوا جائے تو پھر گھریلو تشدد اور خواتین کے خلاف دیگر جرائم کا خاتمہ ہوجانے میں دیر نہیں لگے گیاور ہمین یہ حدیث رسول ﷺ بھی ہمیشہ زیر نظر رکھنا ہوگی کہ زمین والوں پر رحم کرو آسمان وال تم پر رحم فرمائے گا۔ نیز یہ قرآنی تعلیم ہماری نظروں میں رہے کہ مرداورعورت ایک دوسرے کے واسطے لبا س کے مانند ہیں ۔ جہاں یہ قرتیں اور ہم آہنگی ہو وہاں تشدد کا خواب وخیال میں بھی گمان نہیں ہوسکتا۔ essahmadpirzada@gmail.com 

http://www.kashmiruzma.net/full_story.asp?Date=20_5_2015&ItemID=47&cat=5#.VVvxy6kqbes

Comments

Popular posts from this blog

لندن کی کشمیر کانفرنس۔۔۔ ایس احمد پیرزادہ

پبلک سیفٹی ایکٹ اور نیشنل کانفرنس....ایس احمد پیرزادہ