مقتول طفیل کاڈراپ سین 
انصاف کے دامن پہ نیا خون لگاہے

۱۱؍جون ۲۰۱۰ء جمعہ کو ۱۷؍برس کی کم سن عمر کا طفیل احمدمتو گھر شہر خاص سری نگر میں واقع اپنے گھر سے ٹیوشن پڑھنے نکل پڑتا ہے ، اپنے ماںباب کے اس اکلوتے بیٹے کے خواب وخیال میں بھی نہیں ہو تا کہ اس کا آخری سفر شروع ہوا چاہتاہے ، اس کے کتابوں کا بستہ اب خون اور خاک میں غلطاں وپیچاںہو جاتاہے ،ا س کا گولیوں سے چھلنی بدن پھر کبھی واپس نہیں لوٹتا ہے اور سرشام طفیل کے ستم زدہ والدین کو اپنے لاڈلے اکلوتے بیٹے کی بے گور وکفن لاش مل جاتی ہے۔ ۔۔یہ جمعۃ المبارک تھا، طفیل اپنے دیگر ساتھیوں سمیت ٹیویشن کے بعد گھر واپس لوٹ رہے تھے، راجوری کدل کے غنی میموریل اسٹیڈیم کے نزدیک اپنی اسکولی یونیفارم میں ملبوس طلبہ کی یہ ٹولی معصوم بے فکری کے عالم میںاپنے مستقبل سنوارنے کے سپنوں کے ساتھ گھر کی جانب رواں دواں تھی کہ اس دوران مبینہ طورپولیس کی ایک پارٹی وہاں نمودار ہوئی۔پولیس نفری دیکھ کر طفیل اور اُس کے ساتھی گھبرا گئے اور وہ اسٹیڈیم کے اندر داخل ہو گئے، پولیس نے گھبرائے ہوئے ان معصوم طلبہ کا تعاقب کیا اور اُن پر شلنگ کرنے لگے، ٹیئرگیس کا ایک راست شل معصوم طفیل کے سر پر جا لگا جس سے اُس کے دماغ کا ایک حصہ دو جاکر گر پڑا۔ طفیل آن واحد میں وہیں پر ڈھیر ہوگیا اور پولیس والوں نے طفیل کو گرتے ہوئے دیکھ کر وہاں سے راہِ فرار اختیار کر لی۔ خبروں کے مطابق اسی دوران وہاں سے ایک ماروتی سوارکا گزرہوتا ہے، اُس نے خون میں لت پت طفیل کو دیکھتے ہی ہسپتال پہنچایا ، جہاں ڈاکٹروں نے اُسے مردہ قرار دیا۔اس واقعے کے اگلے ہی روز اُن دنوں مقامی اخبارات میں ایک عینی شاہد کا چشم دید بیان شائع ہوا جس میں انہوں نے پولیس کے ہاتھوں معصوم طفیل کی بے دردی کے ساتھ موت کا احوال بیان کرتے ہوئے میڈیا نمائندوں سے کہا:ـ’’جب طفیل کا بیجا دور جا کر گر پڑا ،تو چند پولیس والے اُس کے پاس آگئے ،اس بے حس وحرکت جان کو لات ماردی، جب اُنہیں یقین ہو گیا کہ یہ زندہ نہیں رہاتو پھر موقع ٔ واردات سے بھاگ کھڑے ہوئے۔‘‘ طفیل متو اسکولی یونیفارم میں ملبوس تھا ، موت کا جام پیتے ہوئے بھی اسکولی کتابوں سے لدا ہوا بیگ اُس کے کندھوں پر لٹکا ہوا تھا اور معصوم ہاتھوں میں پانچ روپے کا نوٹ تھا۔ ۔۔۔ظلم ، جبر اور بربریت کا یہ بدترین واقعہ یوں سیاہ تاریخ کاایک اور باب بن گیا۔ ایسے الم ناک واقعات اس ستم زدہ ریاست میں تواتر کے ساتھ انجام دئے جارہے ہیں، چاہے حکومتوں کا ادل بدل بھی ہو۔ مقتول طفیل کے قتل عمد کے بارے میں پولیس نے اپنے آپ کو بری ا لذمہ قرارادینے کے لئے اپنی ابتدائی رپورٹ میں کہہ دیاتھا کہ وہاں پرمقامی نوجوان پتھراؤ کر رہے تھے، جس کی زد میں یہ طالب علم بھی آگیا اور طفیل کے سر میں پتھر لگنے سے موت واقع ہوئی ۔ ابتدائی بیانات میںپولیس نے یہاں تک کہہ دیاتھا کہ طفیل کی موت مشکوک حالات میں ہوئی، بلکہ اُس ماروتی ڈرائیور کو ہی مورد الزام ٹھہرانے کی بھی ناکام کوشش کی تھی جس نے طفیل کو نیم مردہ حالت میں ہسپتال میں پہنچایا تھا، لیکن جب پوسٹ مارٹم رپورٹ آئی اور یہ بھید کھل گیا کہ طفیل کی موت آتش گیر شل لگنے سے ہوئی ہے تو پولیس بیانات کا بھانڈا بیچ چوراہے پھوٹ گیا، اُن کے تمام مفروضے ہوا میںتحلیل ہوگئے اور واضح ہو اکہ شک کی سوئی کس جانب گھوم جاتی ہے۔اس وحشیانہ ہلاکت کے خلاف پورے شہر میں احتجاج کرنے کے لیے لوگ سڑکوں پر نکل آئے ، پولیس اور پرا ملٹری فورسز نے مظاہر ین پر راست کارروائی کر کے درجنوں افراد کو زخمی کر دیا۔ ادھرطفیل متو جیسے معصوم بچے کو جرم بے گناہی میں جان بحق کردینے کے ردعمل میں وادیٔ کشمیر میں عوامی احتجاجوں کا سلسلہ چل پڑا اور وردی پوشوں نے احتجاجیوں سے نمٹنے کے لئے طاقت کا بے تحاشا استعمال کرکے پانچ ماہ طویل احتجاج میں ۱۲۰؍سے زاید نوجوانوں کو جان سے مار دیا۔ یہ عمر عدباللہ کا دور حکومت کا سب سے بڑا داغ دھبہ ہے ۔ ۲۰۱۰ ء میں وردی پوشوں نے انسانی حقوق کی بد ترین خلاف ورزیوں کا ریکارڈ وادی بھر کی سڑکوں ، گلیوں کوچوں میں قائم کرکے ہی اپنی دھاک بٹھا لی۔ پولیس اور نیم فوجی دستوں کی گولیوںشکار بننے والے ہر نوجوان کی کہانی ظلم و جبر اور بربریت پر مبنی ہے جس پر آج بھی باضمیروں کے آنسو بہہ نکلتے ہیں۔ پُر امن عوامی ایجی ٹیشن کو دبانے کی خاطر جس سفاکیت کے ساتھ طاقت کا وحشیانہ استعمال کیا گیا، اُس پر عالمی انسانی حقوق کی تنظیمیں چیخ پڑیں۔ہندوستانی پارلیمنٹ میں اُس وقت کی حکمران جماعت کانگریس کے اہم لیڈران نے ظلم و جبر اور زیادتیوں کا اعتراف کرکے ریاست میں پارلیمنٹ ممبروں پر مبنی ایک وفد بھی کشمیر روانہ کردیاتھا اور وفد نے اہل وطن کو یقین دلایا کہ انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں میں ملوث اہلکاروں کو قرار واقعی سزا دی جائے گی،مگر تاحال نہ ہی کسی کو سزا ملی اور نہ ہی کوئی ایسی خبر منظر عام پر آگئی ہے جس سے یہ لگے کہ قانون کا لبادہ اُوڑھنے والے مجرموں میں سے کسی کے گریبان پر ہاتھ ڈالا گیا ہو۔البتہ طفیل احمد متو کے والد محمد اشرف متو نے عدالت کی چوکھٹ پر حوصلہ شکنیوں کے باجود دستکیں دیں اور انصاف کے اعلیٰ ایوانوں سے عدل مانگا۔ حالات کی نزاکت دیکھ کرمجبوراً پولیس نے اس سانحے کے سلسلے میں دفعہ 302 کے تحت ایف آئی آرزیر نمبر45/2010درج کرلیا۔پولیس کی جانب سے تحقیقات میں دیر لگانے اور ملوث اہلکاروں کو گرفتار نہ کرنے پر عدالت عالیہ نے معاملے کی تہ تک پہنچنے کے لیے کیس انکوائری کی غرض سے کرائم برانچ کو سونپ دیا۔ کرائم برانچ نے اپنی’’ تحقیقات‘‘ میں ۱۵؍مہینے کا وقت لے کر بالآخراس تحقیقات کوUn Traced قرار دے کرکیس کو ہی بند کردیا۔یوں انصاف کی پتلی حالت اور امن وقانون کے محافظ اداروں کی اصل تصویر ظاہر ہوگئی اور مظلومین جو ’’جمہوریت‘‘ کے دعویٰ داروں سے انصاف پانے کی آس لگائے بیٹھے تھے، اُن کی اُمیدوں اور آرزوں کا چراغ ہی بجھ بجھ گیا۔ویسے بھی افسپا کی موجودگی میں طفیل احمد متو کے ٹوٹے ہوئے والد صاحب محمد اشرف متو اپنے بیٹے کی محبت یا پدارنہ شفقت سے مجبوراً تپتے صحراؤں میں آبِ حیات کی تلاش میں نکلے تھے، حالانکہ ہم سب کے سامنے سینکڑوں ناقابل بیان سانحات اور واقعات کی وہ طویل سرگزشت موجود ہے جس سے مترشح ہوتا ہے کہ حقوق البشر کو لتاڑتے ہوئے کس کس عنوان سے ہزاروں بے گناہوں کا خون ناحق کردیا گیا ،وردی پوشوں نے دن دھاڑے کن گھناؤنے جرائم کا ارتکاب کیا ، کس طرح مال واسباب لوٹے گئے اور عزتوں کو مٹی میں ملادیا گیا۔ انہیں دیکھ کر چنگیزیت بھی شرماجاتی ہے۔ یہ سب آرمڈفورسز اسپیشل پاورز ایکٹ کی وجہ سے یک طرفہ ہو تا چلا آرہاہے اور لگتا ہے کہ انسانیت کا گلا دبانے والوں اورا نصاف کا صریح قتل کر نے والے تمام اداروں اورا یجنسیوں کا کم ا زکم مشتر کہ پروگرام یہی ہے کہ ہر گلی نکڑ پر طفیل جیسے معصوموں اور آسیہ ونیلوفر جیسی ملت کی بیٹیوں کا لہو گرے، ظلم و زیادتیوں کا سلسلہ جاری رکھا جائے اور کسی مظلوم کو انصاف کی ہوا بھی لگنے نہ پائے ، اور اگر کبھی’’ تحقیقات‘‘ کا روکھا و بے مقصد اعلان بھی ہو تو یہ وقت گزاری اور کذب بیانی کا ڈھکوسلہ ثابت ہو ۔ ایسے میں طفیل متو اور اُن جیسے ہزاروں معصوموں کے والدین کو کہاں انصاف مل سکتا ہے؟؟؟ سال۱۰ ۲۰ ء ر یاست جموں و کشمیر کی تاریخ میں ۲۰۰۸ء کی طرح اس لئے خون بار سال کہلایا کہ اس برس وادی میں قتل وغارت گری کے خلاف پُر امن عوامی احتجاجوںکا سلسلہ چل پڑا۔ حقوق کی باز یابی کے لیے یہاں کے عوام نے اُس راستہ کا انتخاب کیا تھا جس کا حق نہ صرف عالمی قوانین اُنہیں فراہم کرتے ہیں بلکہ ہندوستانی آئین میں بھی ہر فرد کو اپنے جائزمطالبات کی مانگ کرنے کے سلسلے میںپُرامن احتجاج کا بنیادی حق آرٹیکل انیس کے تحت دیا گیا ہے مگر المیہ یہ ہے کہ کشمیر میں اصول، آدرش ، قواعد و ضوابط کی یہ خوشنما باتیں کتابوں میں ہی درج ہیں یا کہنے سننے تک محدود ہیں ۔ عملی دنیا میں اس کے بالکل متضاد رویہ اختیار کیا جاتا ہے۔ مذکورہ سال کے ماہ جون میں پولیس اور نیم فوجی دستوں نے عوامی ایجی ٹیشن کو کچلنے کی خاطر لوگوں پر راست گولیاں چلا ئیں اور ریاست کے کونے کونے کو خون آلودہ کردیا۔ معصوم ، نہتے اور کم عمر نوجوانوں کو گولیوں سے بھون ڈالا گیا ، گویا قومِ کشمیر کی نسل کشی کی گئی ۔ جب مار دھاڑ کے باوجود حالات میں کوئی بدلاؤ نہ آیا تونہایت ہی شاطرانہ طرز عمل اختیار کرکے خون ناحق میں ملو ث مجرموں کے خلاف سخت کارروائی کی یقین دہانی کروائی گئی،پانچ سال گزرنے کے باوجود کسی ایک کیس میں بھی انصاف فراہم نہیں کیا گیا بلکہ نہایت ہی بددیانتی کے ساتھ مقتول نوجوانوں کوہی قصور وار ٹھہرا کر الٹااُنہیںہی مجرم گردانا گیا، حتیٰ کہ اِن معصوموں کے بارے میںپولیس رپوٹس میں یہ شرمناک بات تک کہہ دی گئی کہ مقتول نوجوان منشیات کے عادی تھے۔ا س سے یہی اخذ کیاجاسکتا ہے کہ وردی پوشوں کے یہاں اخلاقی حدود کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ہے۔مولانا عامر عثمانیؒ کے یہ شعر صورتحال کی مناسبت سے برجستہ یہاں کی صورتحال پر صادق آتے ہیں ؎ کیوں ہوئے قتل، ہم پر یہ الزام ہے قتل جس نے کیا، ہے وہی مدعی قاضیٔ شہر نے فیصلہ دے دیا لاش کو نذر زندان کیا جائے گا اب عدالت میں یہ بحث چھڑنے کو ہے یہ جو قاتل کو تھوڑی سی زحمت ہوئی، یہ جو خنجر میں ہلکا سا خم آگیا، اس کا تاوان کس سے لیا جائے گا انسانی حقوق کے اعتبار سے ریاست جموں وکشمیر ایک نرالی دنیا ہے۔ ہر سال ریاست جموں وکشمیر کے بارے میں دنیا بھر کے نامی گرامی انسانی حقوق کے ادارے دل دہلانے والی رپورٹیں شائع کرتے ہیں۔ اس کے باوجود اس سرزمین پر خوف ناک اور تڑ پا دینے والی داستانیں رقم کی جاتی ہیں۔ اتنا ہی نہیں بلکہ انصاف کا معیار دوہرا ہے۔ کسی جگہ قتل جیسا جرم عام انسان سے سرزد ہوجائے ، پولیس اور دیگر ادارے ریکارڈ وقت میں اصل مجرم کو سامنے لاکھڑا کردیتے ہیں۔ عدالتیںمیں بھی اُن کی سزا تجویز ہونے میں کوئی دیری نہیں لگائی جاتی ہے ، معصومہ ومقتولہ تابندہ غنی کو تاخیر کے ساتھ ہی سہی انصاف ملا کیونکہ مجرم سول افراد تھے، ممکن طور مقتولہ رومانہ جاوید کو بھی انصاف دیا جائے گا لیکن جب سنگین جرائم کا ارتکاب وردی پوش سر انجام دیتے ہیں تو قانون کے پاؤں موچ آجاتی ہے کہ ’’ تحقیقات‘‘ کا سفر چند قدم بھی نہیں چل پاتا اور کبھی بھی دن کے اُجالوں میںاور ہزاروں لوگوں کی موجودگی میں جرم کا ارتکاب کرنے والے’’وردی پوش‘‘ کی نشاندہی نہیں ہو پاتی ہے ، انصاف طلبی کی فائل گر دوغبار میںا ٹک کر رہ جاتی ہے اور جان بوجھ کر اور دیدہ دلیری کے ساتھ انسانیت کو شرمسار کردینے والے واقعات میں ملوث وردی پوشوں کو تحفظ فراہم کیا جاتا ہے۔ابھی حال ہی میں نارہ بل میںپولیس اہلکاروں نے ایک معصوم طالب علم سہیل احمد صوفی کو گولی مار کر ابدی نیند سلا دیا ۔ پولیس کے ایک اعلیٰ افسر نے میڈیا کے ذریعے پولیس کی غلطی کو تسلیم کرلیا۔ملوث اہلکاروں کا نام تک اخبارات میں آگیا۔’’تحقیقات ‘‘کی یقین دہانی کرائی گئی اور ملوثین کو سزا دلوانے کے بلند بانگ دعوے بھی کئے گئے لیکن جب عوامی موڈ ٹھنڈا پڑ گیا تو واقعے کے حوالے سے جو ایف آئی آر درج کیا گیا اُس میں ملوث اہلکاروں کا نام ہی درج نہ کیاگیا، یعنی گمنام کی فہرست میں اس قتل کو ڈالا گیا۔ چند مہینوں کا وقت لینے کے بعد اس کیس کا حشر بھی طفیل متو والے کیس جیسا ہوگا۔ واضح رہے مقتول طفیل کیس میں ایک پولیس سب ا نسپکٹر کو معطل کر نے کادعویٰ بھی کیا گیا تھا۔ اکیسویں صدی میں بھی ریاست جموں وکشمیر کی مسلم اکثریت کو پتھر کے زمانے کی طرح ٹریٹ کیا جارہاہے ، ہر آن خوف مال وجانا ور عزت وآبرو کا خطرہ اسے لگارہتا ہے، اسے دوسرے درجے کا شہری تصور کیا جاتاہے۔یہ کس درندہ صفت ذہنیت کی فتنہ سامانی ہے ؟ وہ سمجھنا ایک معمہ اور گتھی ہے ۔ حال ہی میں امریکہ نے بھی ملک میں عدم مساوات کا تذکرہ کرکے اس روش کو ناپسند کیا ۔ یہ اسی روش کی صدائے بازگشت ہے کہ ریاست جموں وکشمیر میں گزشتہ دودہائیوں سے انسانی حقوق کو پاؤں تلے روند کرسیاہ کارنامے انجام دئے جارہے ہیں،یہاں کے حکمران ، سیاست دان ، پولیس ،فورسزاور تحقیقاتی ایجنسیاں سرکاری جرائم کی پردہ پوشی کرنے میں ایک دوسرے کے ساجھے دار بن رہی ہیں۔ گزشتہ پچیس برس کے تواتر کو اس بار طفیل متو کیس کے منطقی انجام سے قائم رکھا گیا ، جس سے یہ بات اظہر من الشمس ہوگئی کہ ریاستی مسلمانوں کو حکومتی سطح پر انصاف ملنے کی کوئی اُمید نہیں ہے۔ بایں ہمہ عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں کے لیے طفیل متو کیس کا ڈراپ سین چشم کشا ہونا چاہیے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی انسانی حقوق کی تنظیمیں عالم گیر سطح پر رائے عامہ ہموار کر کے دنیا کی بڑی طاقتوں پر دباؤ ڈالیں کہ حکومت ہند کشمیر میں افسپا کا لعدم کر کے زیروٹالرنس نافذالعمل کر کے مظلومین کو فوری انصاف دلائے ۔ رابطہ:essahmadpirzada@gmail.com

Comments

Popular posts from this blog

لندن کی کشمیر کانفرنس۔۔۔ ایس احمد پیرزادہ

پبلک سیفٹی ایکٹ اور نیشنل کانفرنس....ایس احمد پیرزادہ