حکمران جماعت کونسی ہے ؟

امیدیںدلاسے بھروسے تمام

پی ڈی پی ، بی جے پی کولیش سرکار کو ابھی برسراقتدار آئے ہوئے دو ہی مہینے ہوگئے ، لیکن اس مدت کے دوران سرکاری اقدامات ،اعلانات، بیانات سے ہونہار برو اکے چکنے چکنے پات کے مصداق یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ دونوں جماعتوں کے مشترکہ ایجنڈے کے کچھ نہ کچھ خفیہ گوشے ہیں اور ان سے ممکنہ طور کون کون سے اہداف طرفین کے درمیان قدر مشترکہ ہوسکتے ہیں۔ دونوں جماعتوں کو سرکار تشکیل دینے میں قریباً دو مہینے کا وقت لگا۔ اس دوران دونوں جماعتوں نے سرتوڑ مذاکرات کئے اور پھر جب اشتراک عمل کے نقش راہ پر سنگھ پریوار کی مہر ثبت ہوئی تو اس کے بعد اقتدار کی بندر بانٹ ہوئی۔ ظاہر ہے پردے کے پیچھے مشترکہ ایجنڈا سے جڑے ہر پہلو پر بات کی گئی ہوگی۔ سسپنس کے ان ایام کے دوران اندازہ لگایا جارہا تھا کہ پی ڈی پی نے نیشنل کانفرنس اور کانگریس کے سپورٹ کے باوجود بی جے پی کا انتخاب اس لیے کیا ہے تاکہ ریاست جموں وکشمیر کو زیادہ سے زیادہ مالی فائدہ پہنچایا جاسکے کیونکہ سیلاب کی ستم رانیاں ابھی ذہنوں میں تروتازہ تھیں۔سیاسی ماہرین کا یہ بھی سوچنا تھا کہ چونکہ مفتی محمد سعید زندگی کی اُس منزل پر کھڑے ہیں کہ جہاں اغلب یہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ اگلے پانچ چھ سال تک ہی وہ عملی سیاست میں رہ سکتے ہیں ،اس لئے مفتی صاحب شایداپنی سیاسی زندگی کی آخری باری اس پختہ کاری سے ا ور جہاں دیدگی سے کھیلیں گے جسے کشمیر کی تاریخ میں اُن کا نام رقم دوسرے حکمرانوں سے منفرداورجدا ہوگا ۔جہاں تک بی جے پی کا تعلق ہے اس جماعت کی زیادہ توجہ اس بات پر ہونا فطری ہے کہ ریاست میں جو بھی سرکار وجود میں آئے بی جے پی اُس میں شریک ہو۔ ریاست جموں وکشمیر میں پہلی بار سرکار کا حصہ بننا اُن کا پہلا نشانہ تھا، اس لیے یہ بھی کہا جارہا تھا کہ مفتی محمد سعید بی جے پی کی اس کمزوری کا زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھانے کی کوشش کریں گے۔ ناقدین یہ بھی اٹکلیں لگا رہے تھے کہ پی ڈی پی چونکہ اس بات سے واقف ہے کہ اُنہیں جو منڈیٹ ملا ہے وہ نیشنل کانفرنس کا زیادہ سے زیادہ دلّی کا وفادار بننے کی سزا کے نتیجے میں ملا ہے ،ا س لئے اب پی ڈی پی ایسی راہ اپنائے گی جس کا مرکز و محور دلّی کے بجائے سرینگرہوگا۔ اب ہر گزرتے لمحے کے ساتھ سیاسی تجزیہ نگاروں، ماہرین اور قیاس آرائیوں میں یقین رکھنے والے تمام لوگوں کے تجزئیے، تبصرے اور قیاس آرائیاں غلط ثابت ہوتی جارہی ہیں۔ آثار و قرائین سے دکھ یہ رہا ہے کہ جس راہ پر مفتی محمد سعید جارہی ہے ہیںاُس کی منزل پی ڈی پی کی سیاسی خود کشی ہے کیونکہ پی ڈی پی حکومت برائے حکومت کے سہارے چل رہی ہے۔ مفتی سعید کو خالی وزارت اعلیٰ کی کرسی پر بیٹھا دیا گیا ہے اور حکومت کے جتنے بھی اہم فیصلے ہوتے ہیں ،ا ن پر بی جے پی کی چھاپ ہو تی ہے اور ان فیصلوں کا وزیرداخلہ راجناتھ سنگھ اور رام مادھو کے ٹیبل سے ہوتے ہوئے جموں کی مہر تصدیق لازم وملزوم ہے۔ نیز صحیح پس منظر میں دیکھاچا جائے تو مفتی محمد سعیداورفاروق عبداللہ کی مرکز کے تئیں وفاداری پہلی ترجیح ہے،ا س لئے گجرات کے قتل عام کے موقع پر این سی کی خاموشی اور گھر واپسی سے لے کر مسلم اقلیت مخالف دوسرے متنازعہ ایشوز پر پی ڈی پی کی خاموشی ایک ورق کی ودسطریں ہیں ۔ بی جے پی اور اس کی جنم داتا آر ایس ایس ہندتوا ایجنڈا اپنانے کی اپنی راہ پر گامزن ہیں اور اُن کے تمام ارادے جلدعیاں وبیاں ہیں۔ اس کے برعکس مفتی محمد سعید کی سیاست بھول بھی ہے اور جھول بھی ۔ اس بات کا ثبوت ابھی چند ہی دن پہلے ہندوستان کے ایک معروف اخبارAsian Age میں سابق ریاستی گورنر (ر) جنرل ایس کے سنہا کے مضمون سے بھی ملتا ہے۔ ایس کے سنہا مسٹر جگموہن کی مانند آرایس ایس کے خیالات ونظریات کے موئد رہے ہیں ۔ ۲۰۰۸ ء میں امرناتھ اراضی تنازعہ میں ان کا کردار نمایاں رہا۔ موصوف نے اپنے مضمون میں لکھا کہ’’ جس وقت۲۰۰۲ء میں مفتی سعید پہلی مرتبہ ریاست کے وزیر اعلیٰ بنے ، میں ریاست کا گورنر تھا اور ہم دونوں جموں اور ادھم پور میں قیام پذیر کشمیری پنڈتوں کے کیمپوں میں گئے جہاں ہم نے دیکھا کہ کشمیری پنڈت کافی کسمپرسی کی حالت میں گز ربسر کرر ہے تھے۔ دو کمروں میں بڑی بڑی فیملیاں رہتی تھیں اور اوپر سے ٹین کی چھت ، گرمیوں میںجھلسا دینے والی گرمی سے اُن کا کیا حشر ہورہا ہوگا ،اس کا انداز لگانے سے ہی انسان تڑپ اُٹھتا ۔ اس قابل رحم حا لت کو دیکھ کر میں نے مفتی صاحب سے کہا کہ ان بیچاروں کی حالت سدھارنے کے لیے لازمی اقدامات کیجئے، ان کے لیے اچھی کالونیاں بنانے کے خاطر ٹھوس لائحہ عمل ترتیب دیجئے۔ مفتی محمد سعید نے جواباً کہا کہ نہیں ان کی حالت سدھارنے کی کوئی ضرورت نہیں،انہیں اس حالت میں تڑپنے دیجئے کیونکہ کل جب ہم انہیں کشمیر واپس آنے کے لیے کہیں گے تو یہ دوڑ کر آئیں گے۔ اگر انہیں یہاں تمام سہولیات دستیاب رکھی گئیں تو یہ کل وادی لوٹ آنے سے انکار کریں گے۔‘‘گویا انسانیت کوئی مسئلہ نہیں ہے بلکہ سیاسی مقاصد انسانیت سے بھی بڑھ کر ہیں۔ آج پھر یہ کس منہ سے کہا جارہا ہے کہ پنڈتوں کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پروادی میں بسایا جائے گااور اس ایشو کو انسانی مسئلہ قرار دیا جارہا ہے۔ ایس کے سنہا کی اس بات سے ہی واضح ہوجاتا ہے کہ وزیراعلیٰ کس سیاسی سوچ کے مالک ہیں۔ اس لیے ہم یہ نہیں کہہ سکتے ہیں کہ بی جے پی سے کولیشن سرکار بناکر بی جے پی نے اُنہیں اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا بلکہ زیادہ صحیح بات یہ ہوگی کہ بی جے پی اور پیڈی پی کی فکر اور سوچ میں زیادہ نمایاں فرق نہیں ۔ یہی و جہ ہے کہ ا س وقت سابق حکومت کی مانند لووگں کی جان لے لالے پڑگئے ہیں، پکڑدھکڑ جاری ہے ، کشمیر میںعوامی مسائل کے تئیں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی جارہی ہے بلکہ ان حوالوں سے حالات عمر عبداللہ کی سرکارسے بھی بدتر نظر آرہے ہیں ۔ کولیشن سرکار میںشامل دونوں جماعتوں کا مشترکہ ایجنڈے پر کس طرح عمل آوری ہورہی ہے ، اس سلسلے میں کیا کیاطے پایاہے اور کس طرح دونوں جماعتوں کے پالیسی میکرز اپنے اپنے مفادات کو تقویت پہنچارہے ہیں، ان باتوں سے الگ ہوکر عام لوگ اپنا پیمانہ ظاہری طرز عمل سے ہی لگانے کے عادی ہوتے ہیں اور ظاہری صورتحال یہ ہے کہ جہاں بی جے پی اپنے الیکشن ایجنڈے کو من و عن عملانے میں لگی ہے، وہاں پی ڈی پی نے گڈ گوررننس اور تبدیلی کے جس خوشنما منشور کو لے کر الیکشن لڑا، اس کو پورا کرنے میں یہ جماعت ابھی تک توجہ بھی نہیں دے رہی ہے۔ بی جے پی نے کھلے عام کہا کہ یہ جماعت کشمیری پنڈتوں کو وادی واپس لاکر اُنہیں ٹاؤن شپوں میں بسائے گی، دفعہ۳۷۰؍کو ختم کرے گی اور مغربی پاکستان کے شرنارتھیوں کو مستقل بنیادوں بسانے کے لئے پہلے معاشی حقو ق اور اس کے ساتھ ساتھ ان کویہاں شہریت دے گی۔ اگر ان کو معاشی حقو ق دئے گئے تو سیاسی حقوق دینے تک پھر فاصلہ ہی کتنارہتاہے ؟ بنگلہ دیش نے بہاری مسلمانوں کی شہریت سنہ ۷۱ء کے موقوف کردی ہے اور معاشی حقو ق سے بھی انہیں محروم کر کے رکھ دیاہے تاکہ وہ اسٹیٹ کے لئے اجنبی بن کرہی ہمیشہ جئیں۔ ایک بار کسی کو آپ کسی کو روزی روٹی ، گھر کی چھت اور رشتے ناطے بنانے کی چھوٹ دیتے ہیں تو پھر اس کو آپ دس سال بعد کیسے اجاڑ دیں گے ؟ بہرصورت حکومت بننے کے ساتھ ہی بی جے پی نے اپنے خاکوں میں رنگ بھرنے کا آغاز کیا ۔ کشمیری پنڈتوں کو وادی واپس لانے کے لیے اول روز سے ہی کولیشن سرکار بھاجپا موافق بیانات یتی چلی آ رہی ہے۔ اس حوالے سے مر کزی وزیراداخلہ راجناتھ سنگھ کے بیانات مفتی محمد سعید کی رضا مندی اور ارادوں کو ظاہر و باہر کررہے ہیں۔ پچاس ایکڑ زمین فراہم کرنے کی یقین دہانی دلّی سرکار کو کی گئی ہے اور حال ہی میں سرکار نے کابینہ منسٹروں پر مشتمل ایک ورکنگ گروپ تشکیل دینے کی بات بھی کی گئی ہے جودلّی میں جاکرکشمیری پنڈتوں کی مجوزہ باز آبا کاری یعنی اُن کے کمپازٹ ٹاؤن شپ کے لیے خاکہ مرتب کرے گی۔ گویا بی جے پی نے اپنے الیکشن ایجنڈے کا پہلا کام کردکھایا ہے۔ دوسرا سب سے بڑا نعرہ بی جے پی کا یہ تھا کہ شرنارتھیوں کو یہاں بسایا جائے گا۔ اس سلسلے میں بھی کام ہورہا ہے۔ حال ہی میں وزیر مملکت برائے ریونیو نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ سرکار اب اسکولی سطح سے ہی بچوں میں مستقل باشندہ سند PRC عطا کرے گی اور اس کا آغاز جموں سے کیا جائے گا۔ اس بیان پر وزیر تعلیم نعیم اختر نے کہا کہ PRC اجراء کرنے کے عمل میں کوئی تبدیلی نہیں کی جارہی ہے لیکن اگلے ہی دن نعیم اختر کے بیان کی پول اُس وقت کھل گئی جب وزیر مملکت برائے مال نے صوبہ جموں میں ایک تقریب کے دوران پانچ سو PRC's اجراء کی اور اب پی ڈی پی کہہ رہی ہے یہ ضابطوں کے مطابق ایشو کئے گئے ۔اسکولی سطح پر جموں میں PRC اجرا ء کرنے کا بنیادی مقصد اس کے سوا کیا ہو سکتا ہے کہ شرنارتھیوں کو یہاں کی مستقل شہریت عطا کی جائے ؟ ظاہر ہے اس عمل میں پی ڈی پی کی ہاں کے سوا پتہ بھی نہیں ہل سکتا۔ اگر قانون کے اصل پرسیوجر کو چھوڑ کے ایسے سوانگ رچانے کی حامی بھر لی جائے جائیں تو قانون وقواعد کی حیثیت کیا رہ جاتی ہے ؟ ہو نا تو یہ چاہیے تھا کہ اسکولی سطح پر اجراء کی گئی پشتینی باشندوں کی ا سناد کو فوراً کالعدم قراردیاجاتا تاکہ شکوک وشبہات کاا زالہ ہو مگر زبابی جمع خرچ پر معاملہ ٹرخایا گیا ۔ واضح رہے شرنارتھیوں کو ریاست کی شہریت عطا کرنے کا مطلب دفعہ۳۷۰؍کاعملًا خاتمہ ہے۔ بی جے پی گورنمنٹ نے دلی میں اراضی منتقلی بل منظور کی ہے اور حال ہی میں شیوسینا نے مطالبہ کیا کہ اس بل کا آغاز جموں وکشمیر سے کیا جانا چاہیے۔یہ سارے اقدامات چیخ چیخ کربتا رہے ہیں کہ بی جے پی کامشن کشمیر پی ڈی پی کے شانوں پر پایہ ٔتکمیل کو پہنچایا جارہاہے ، شاید وجہ ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی نے مفتی صاحب کے ساتھ مصا فحوں اور معانقوں کا ریکارڈ توڑ رہے ہیں ۔ بی جے پی کے بجائے پی ڈی پی کے الیکشن منشور میں جو باتیں شامل تھی او رجس منشور کو دیکھ کر لوگوں نے اس جماعت کو ووٹ دئے ہیں، اُس میں سیلف رول، سیاسی قیدیوں کی رہائی، سیلاب متاثرین کی باز آباد کاری، ہیومن رائٹس کے بارے میں زیرو ٹالرنس، ظلم و زیادتیوں کا خاتمہ اور این ایچ پی سی سے پاور پروجیکٹوں کی واپس قابل ذکر ہیں۔سیلف رول تو محض نعرہ تھا، مخلوط حکومت کے کم از کم مشترکہ پروگرام میں اس کا کہیں کوئی ذکر نہیں یعنی عملی طور پر پی ڈی پی اپنے اس نعرہ سے دستبردار ہوگئی۔سیاسی قیدیوں کی رہائی کے نعرے کا حشر مزاحمتی لیڈر مسرت عالم کی رہائی کے بعد پورے دنیا نے دیکھ لیا۔ رہائی کو لے کر جس طرح مفتی محمد سعید پر دباؤ ڈالا گیا اور دباؤ بھی اتنا شدید کہ مسرت عالم دو مہینے بھی باہر نہیں رہ پائے اور اگلے دو سال کے لیے پھر سے نظر بند کردئے گئے۔ اس ایک تجربے سے ہی پی ڈی پی نے کان پکڑ لئے ۔ اب سیاسی قیدیوں کی رہائی کی بات پی ڈی پی لیڈران خواب میں نہیں کرتے ہیں۔ سیلاب متاثرین روز احتجاج کرتے ہیں، لیکن تاحال اُنہیں کوئی ریلیف نہیں مل رہی ہے اور نہ ہی دلّی سرکار سے اُن کے لیے کوئی خصوصی پیکیج واگزار کیا گیا۔زیر وٹالرنس اور ظلم و زیادتیوں کا خاتمہ کم از کم اُس وقت تک ممکن نہیں جب تک نہ کشمیر حل کے لئے آگے بڑھا جائے ۔ پی ڈی پی سرکار کے دورِ اقتدار میںترال میں ایک معصوم و بے گناہ نوجوان کا فرضی انکاونٹر اور نارہ بل بڈگام میں نویں جماعت کے ایک کمسن طالب علم کو وردی پوشوں کی جانب سے ابدی نیند سلا دینا، یہی بتاتاہے کہ بدلا کچھ صرف ہاتھ بدل گئے کام وہی ہے۔شہر و دیہات میں گرفتاریوں کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ نوجوانوں کو تنگ طلب کرنا روز کا معمول ہے۔ مطلب ظلم و زیادتیوں کا خاتمہ پی ڈی پی اُس وقت تک نہیں کرسکے گی جب تک یہاں فوجی جماؤ اور افسپا نافذالعمل ہیں۔ رہا سوال این ایچ پی سی سے پاور پروجیکٹ واپس لانے کا تو یہ حکومت میں شامل لوگوں کو بھی معلوم ہے کہ ایسا وہ نہیں کرسکیں گے کیونکہ یہ سونے کی چڑیا ہے ، بھلا مرکز ہمیں کیونکر خوامخواہ واپس کرنے لگے۔ مختصراً ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ پی ڈی پی کا الیکشن منشور کاغذی تھا اور عملی طور پر بھلے ہی پی ڈی پی اس وقت اقتدار میں ہے، بھلے ہی وزیر اعلیٰ کی کرسی پی ڈی پی کے پاس ہے لیکن عملی اقدامات کو دیکھتے ہوئے ناقدین یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ پی ڈی پی حکمران جماعت ہے حاکم نہیں جب کہ اقتداردلّی کے فرمان روا کی ماتحتی میں ہے۔ رابطہ:essahmadpirzada@gmail.com

Comments

Popular posts from this blog

لندن کی کشمیر کانفرنس۔۔۔ ایس احمد پیرزادہ

پبلک سیفٹی ایکٹ اور نیشنل کانفرنس....ایس احمد پیرزادہ