پلیٹ گن ۔۔۔ متروک نہ ممنوعہ
انساینت کی مانگ ہے یہ آگ بجھائیں 

یہ ایک تلخ ترین تاریخی حقیقت ہے کہ وادیٔ کشمیر میں 2008 ء اور 2010 ء میں زوردار عوامی احتجاج کچلتے ہوئے وردی پوشوں نے مظاہرین پر براہ راست گولیاں چلا ئیںاور دو سو سے زائد کشمیر ی نوجوانوں کو جاں بحق کر دیا۔ اس دوران سینکڑوں نوجوان گولیاں لگنے سے بری طرح سے مضروب ہوگئے ۔ ان نوخیز کلیوں کو جرم بے گناہی کی پاداش میں ابدی نیند سلادئے جانے کے ردعمل میں عوامی سطح پر غم و غصے کی لہر پیدا ہوگئی ۔ا دھر جہاں ایک جانب فوج نے اس صورت کو’’ ایجی ٹیشنل ٹرئرازم اور گن لیسٹرئرازم ‘‘ جیسی اشتعال انگیز اصطلاحوں سے یادکیا وہاں دوسری جانب2010 ء میں پانچ مہینوں کے مسلسل ہڑتال اور128 نوجوانوں کو جاں بحق کرنے کے بعد ہندوستانی پارلیمانی وفد کی کشمیر آمد کے موقع پر دلّی کے مسند اقتدار پر براجمان اُس وقت کی کانگریسی حکومت نے اعتراف کرلیا کہ عوامی احتجاج سے نمٹنے میں فورسز اہلکاروں سے فاش غلطیاں ہوئی ہیں۔ اس بات کو بھی قبول کیا گیا کہ وردی پوشوں نے حد سے زیادہ طاقت کا استعمال کیا، جس کے نتیجے میں کم سن نوجوان ابدی نیند سو گئے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے واویلا کئے جانے ، ا س ضمن میںعالمی سطح پر خفت کا سامنا کرنے اور سب سے بڑھ کر عوامی دباؤ کے بعد حکومت ہند کے ذمہ داروں نے یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ عوامی احتجاج سے نمٹنے کے دوران زیادہ سے زیادہ ضبط و تحمل کا مظاہرہ کیا جائے گا اور احتجاجی مظاہروں سے نبر د آزما ہونے کے لئے غیر مہلک ہتھیار وں کا استعمال کیا جائے گا۔اس سلسلے میں پیپر گیس، ٹیئر گیس ، پانی وغیرہ کا استعمال کئے جانے کا تصور ذہن میں آرہا تھا لیکن 2010 کے بعد عملاً احتجاجی مظاہروں سے پیش آجانے کے لیے جو طریقہ کار اختیار کیا گیا، اُس میں اگر چہ راست گولیاں ماردینے کا طریقہ کار نہیں جھلکتا تھا لیکن نت نئے غیر قانونی حربوں کا استعمال کرکے انسانی حقوق کا چہرہ مزید داغ دار کردیا گیا۔ یہ نہ سمجھا جائے کہ 2010 ء کے بعد نہتوں پر گولیاں نہ برسائی گئیں، بلکہ بندوق کے دہانے مظاہرین پر کھول کر آج تک کئی جانیں تلف ہوئیں اور مر کزکے وعدوں اور یقین دہانیوں کا حشر جابجا دیکھاگیا۔غیر مہلک ہتھیار وں کے نام پر ایسے ایسے خوف ناک ہتھیار یہاں متعارف کرائے گئے ہیںجن سے انسان کی روح کانپ اُٹھتی ہے ،حالانکہ جن مظاہرین پر یہ استعمال ہوتے ہیں نہ ہی وہ کوئی بندوق بردار ہوتا ہیں اور نہ ہی دشمن ملک کا کوئی فوجی بلکہ یہ حالات کے متاثرین عام نہتے کشمیری ہوتے ہیں جو ظلم و زیادتیوں اور ناانصافیوں کے خلاف تنگ آمد بہ جنگ آمد کے مصداق آخری چارۂ کار کے طور پر احتجاج کی راہ اپنا لیتے ہیں اور احتجاج بھی ایسا پُر امن کہ دنیائے انسانیت میں امن کے بڑے بڑے دعویدار کشمیریوں کی امن پسندی کو سلام پیش کرجاتے ہیں۔ 2010 ء میں اور اُس کے بعد ریاست جموں وکشمیر میں بر سر پیکارفورسز ایجنسیوں نے احتجاجی مظاہرین سے نمٹنے کے لئے غیر مہلک ہتھیار استعمال کرنے کی خوب تشہیر کی۔ زیرو ٹالرنس کی پالیسی کے تحت طاقت کا کم سے کم استعمال کرنے کا بھی وعدہ کیا گیا لیکن المیہ تو یہ ہے کہ غیر مہلک ہتھیار کے نام پر وردی پوشوں کو ’’پلیٹ گن‘‘فراہم کیا گیا۔ یہ وہ ہتھیار ہے جو عمومی طور پر جنگلی جانوروں کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے اور وادیٔ کشمیر میں انسانوں کے خلاف اس ہتھیار کے استعمال سے ہی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہاں حکمرانوں کے نزدیک ابن آدم کی کیا وقعت رہ گئی ہے۔ پلیٹ گن اگر چہ غیر مہلک ہتھیار کے نام پر یہاں متعارف کرایا گیا لیکن اس ہتھیار کی تباہ کاریوں نے وادیٔ کشمیر کے ہر علاقے میں مہیب سائے چھوڑ دئے ہیں۔ پلیٹ گن میں ربر کی چھوٹی چھوٹی بال نما گولیاں ہوتی ہیں ۔ ایک وقت اس میں 400 سے 500 گولیاں نشانے پر داغی جاتی ہیں اور ایک ساتھ سینکڑوں گولیاںاس دہانے سے نکل کر سامنے وقت کے انگ انگ زخمی کرڈالتاہیاور اس کو جیتے جی موت کے منہ میں دھکیلتے ہیں۔ وردی پوش پلیٹ گن کے ذریعے اکثر و بیشتر مظاہرین کے چہروں کو نشانہ بناتے جس سے ان کی زد میں آنے والے مظاہرین کی آنکھوں کی بینائی چلی جاتی ہے۔ دلّی کے معروف انگریزی اخبارThe Hindu میں حق اطلاعات قانون کے تحت شائع شدہ اعداد و شمار کے مطابق2010 ء سے 2013 ء کے درمیان سرینگر کے دو معروف ہسپتالوں میںپلیٹ گن کا شکار ایسے 36 نوجوانوں کا علاج کیا گیا جن کی آنکھوں میں شدید زخم آچکے ہیں اور اُن کی بینائی مثاثر ہوئی ہے۔صرف 2010 ء میںپلٹ گن کے ذریعہ نشانہ بنائے جانے والے12 نوجوانوں کے آنکھوں کی بینائی مکمل طور پر ختم ہوگئی۔ ڈاکٹروں کا ماننا ہے کہ اس مہلک ہتھیار کی زد میں آنے والے اکثر نوجوانوں کا بینائی سے محروم ہونا قریب قریب یقینی ہے۔21 ؍مئی2015 ء کو پلہالن پٹن میں وردی پوشوں نے دسویں جماعت کے ایک اور نوجوان حامد نذیر بٹ کو پلیٹ گن کا نشانہ بناکر شدیدطور پر زخمی کردیا تھا اور جب اس نونہال کو ہسپتال منتقل کردیا گیا تو ڈاکٹر کئی دنوں کی انتھک کوششوں کے باوجود اس معصوم کے آنکھوں کی روشنی کو نہ بچا سکے۔ ابھی بھی نہ جانے اس مہلک ہتھیار کا نشانہ کتنے معصوم بن جائے گے کیونکہ انسپکٹر جنرل آف پولیس نے مبینہ طور ایک مقامی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے اس ہتھیار کے استعمال کو یہ کہتے ہوئے جائز ٹھہرایا کہ ’’سنگ بازی‘‘ کو قابوکرنے کے لئے وردی پوشوں کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں ہے۔حالانکہ احتجاجی مظاہروں سے نمٹنے کے لیے مہذب دنیا نے جائز حدود و قیودکا تعین پہلے ہی کررکھا ہے اور احتجاجی مظاہرے صرف کشمیر میں ہی نہیں بلکہ دنیا کے بیشتر ملکوں میں ہوتے رہتے ہیں۔ ہر جگہ حکومتیں ان مظاہروں کی روک تھام کے لئے موثر اقدامات بھی کرتی ہیں۔ بھارت کی کئی ریاستوں میں بھی لوگ نہ صرف احتجاج کرتے ہیں بلکہ توڑ پھوڑ اور مار دھاڑ پر بھی اُتر آتے ہیں۔ تلنگانہ کی ریاست قائم کئے جانے کے موقع پر احتجاجیوں نے جس طرح توڑ پھوڑ کرکے عوامی جائداد کو نقصان پہنچایا ،گزشتہ بیس برسوں کی تاریخ میںاُس طرح کی ایک بھی مثال کشمیر میں دیکھنے کو نہیں ملے گی لیکن سوائے کشمیر کے نہ ہی کسی جگہ گولیاں برستی ہیں اور نہ ہی عوام کے خلاف جنگلی جانوروں جیسا سلوک اختیار کیا جاتا ہے۔ درندوں کے لئے بنایا جانے والا پلیٹ گن کشمیرمیں معصوم انسانوں بالخصوص نسل نو کو ناکارہ بناتا جارہا ہے اور یہ نہ صرف انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی ہے بلکہ منظم طریقے سے اپنائی جانے والی وہ حکمت عملی ہے جس کے ذریعے سے کشمیریوں کی نئی نسل کو ناکارہ بنایا جاتا ہے۔ 28 ؍مئی 2015 ء کو انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی ریاستی حکومت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ وہ وادی میں احتجاجی مظاہروں سے نمٹتے وقت پلیٹ گن کا استعمال بند کریں۔ایمنسٹی انٹرنیشنل کے بھارت میں پروگرام ڈائریکٹر شمیر بابو نے اپنے ایک بیان میں کہاکہ پولیس کی یہ ڈیوٹی ہوتی ہے کہ وہ عوام کے جان و مال کو تحفظ فراہم کریں اور عوامی احتجاج سے نمٹتے وقت پولیس کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ نہتے اور پُر امن مظاہرین پر طاقت کا بے جا استعمال نہیں کیا جاتا ہے۔ بیان کے میں کہا گیا کہ پلیٹ گن کا استعمال احتجاجی مظاہروں سے نمٹنے کے بین الاقوامی معیار میں نہیں آتا ہے بلکہ اس گن کا استعمال انسانی جان کے لیے ضرر رساں بن سکتا ہے، اس لیے یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے زمرے میں آجاتا ہے۔ایمنسٹی انٹرنیشنل کا یہ بیان چشم کشا ہے اور ریاستی پولیس جو اس سماج کا حصہ ہے کو وقتی فائدوں اورترقیوں کے چکر میں اپنے ہی لوگوںکے خلاف ایسے اقدامات کرنے سے گریز کرنا چاہیے جو ہر حیثیت سے انسانی ضمیر کے خلاف ہوں اور اخلاقی قدروں کو پامال کرنے والے ہوں۔ ڈیوٹی اپنی جگہ ، مگر فرائض کی انجام آوری کی آڑ میں غیر قانونی طرز عمل اختیار کرکے معصوموں اور نہتوں کو ظلم وجبر کی چکی میں پیسنا وقتی فائدہ تو دے سکتا ہے ، اس سے باسزکی خوشنودی بھی حاصل کی جاسکتی ہے لیکن یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہیے کہ جو لوگ آج وردی پوش اہلکاروں کو اپنوں کے خلاف استعمال کرکے اُنہیں دادِ تحسین پیش کررہے ہیں ، ایک وقت اُنہی لوگوں یا ان کی ہم نوا برادری نے یہاںپر منحرف بندوق برداروں کو بھی وہ مصنوعی عزت و تکریم عطا کی جس کے فریب نے اُنہیں بے گناہ کشمیریوں کا قتل عام کرنے پر ذہنی اور عملی طور تیار کیا۔ جب کام نکل گیا تو اُن سے لاتعلقی کا اظہار کیا گیا بلکہ اُنہیں سر راہ مرنے کے لئے چھوڑ دیا گیا۔ بدنام زمانہ منحرف بندوق بردار پاپا کشتواڑی نشانۂ عبرت ہے کہ جس نے ضدانقلاب کے خاکوں میں دست ِ غیب کے کہنے پر وادی کشمیر میں موت کا تانڈو ناچ کھیلا لیکن جب حالات نے پلٹا کھایا تو اُنہی ہاتھوں نے جو اُسے بے گناہوں کے قتل عام پر اُکسا رہے تھے ،اُنہیں ہتھکڑیاں پہنائیں۔ 2008 ء میں امرناتھ اراضی تنازعے کے دوران جموں میں بھی سنگھرش سمیتی کے کہنے پر وہاں کے زعفرانی برگیڈنے دو مہینے تک کشمیر احتجاجی مظاہرے کئے۔ وہاں صرف احتجاج ہی نہیں ہوا بلکہ کشمیری ٹرک ڈرائیوروں پرجان لیوا حملے بھی ہوئے۔ پانتھہ چوک کے ایک ڈرائیور کو جان سے بھی مار ڈالا گیا،جموں واسیوں نے کشمیریوں کی زوردار اقتصادی ناکہ بندی بھی کی ، ہر روز پُر تشدد مظاہرے بھی ہوتے تھے لیکن وہاں پورے دو مہینوں میں پولیس کارروائی کے دوران صرف دو افراد ہلاک ہوگئے ،اس کے برعکس وادیٔ کشمیر میں چالیس روزہ احتجاج کے دوران 60 نوجوانوں کو وردی پوشوں نے گولی مار کر ابدی نیند سلادیا۔مطلب جموں میں پولیس نے ’’اپنے لوگوں‘‘ کے خلاف گولیاں نہیں برسائی جب کہ وادی میں ہمارے اپنوں نے یہ کام بحسن خوبی انجام دے دیا۔ گزشتہ برس جب ریاست میں نیشنل کانفرنس اور کانگریس کی مخلوط سرکار تھی ،پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی نے اپنے دیگر پارٹی ممبران کے ساتھ ریاستی اسمبلی سے اُس وقت پلیٹ گن کے استعمال کے خلاف احتجاجی Walkout کیا جب شوپیان میں ایک احتجاجی نوجوانوں کو وردی پوشوں کے ذریعے سے پلیٹ گن کا شکار بنایا گیا اور اُس کے آنکھیں روشنی سے محروم ہوگئی تھیں۔ پی ڈی پی نے اُس وقت پلیٹ گن کے استعمال کے خلاف شدید احتجاج کیا اور حکومت وقت سے مطالبہ کیا کہ وہ پلیٹ گن کے استعمال پر فوری طور پابندی عائد کریں۔ اب جب کہ ریاست جموں وکشمیر میں پی ڈی پی برسر اقتدار ہے ، وردی پوش اس ہتھیار کا استعمال بلا دریغ کررہے ہیں۔ گویا محبوبہ مفتی صاحبہ کا احتجاج اس کے سوا کچھ نہیں تھا کہ وہ نیشنل کانفرنس کی حکومت کے خلاف عوامی جذبات کی نمائندگی کا حق ادا کررہی تھیں مگر مقصد عوام کو راحت پہنچا نا نہ تھا، اگر بات ایسی ہوتی تو آج ان کی حکومت بھی اسی تاریخ کا اعادہ نہ کر تی ۔اگر بفرض محال انسانی جانوں کے اتلاف اور پلیٹ گن کی زد میں آنے والے معصوموں کے لئے پی ڈی پی مخلص ہوتی تو اقتدار میں آتے ہی وہ احتجاجی مظاہرین سے نمٹنے وقت پلیٹ گن کے استعمال پر پابندی عائد کرواتی۔ ایسا نہیں کیا گیا۔ یہ اس بات کی گواہی ہے کہ کشمیریوں کے جان و مال کو یہاں کوئی تحفظ فراہم نہیں ہے اور نہ ہی یہاں بننے والی حکومتیں عوامی مفادات کے لئے فکر مند ہوتی ہیں بلکہ اُنہیں اپنی کرسی زیادہ پیاری ہوتی ہے۔ اس لئے وہ عوامی خدمت کے بجائے اغیارکی غلامی کو ترجیح دیتی ہیں۔ یہاں دو طرح کے مظاہرے ہوتے ہیں۔ ایک انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف اور اپنے جائز حقوق کی مانگ کرنے یعنی حق خودارادیت کے لیے احتجاجی مظاہرے ہوتے ہیں اور دوسرے قسم کے احتجاج وہ ہوتے ہیں جو سرکاری ملازمین، ڈیلی ویجر ، روز مرہ کی ضروریات مثلاً سڑک ، پانی اور بجلی کی مانگ کرنے والے لوگوں کے مظاہرے۔ دونوں طرح کے احتجاج پر طاقت کا استعمال ہوتا ہے۔ دونوں احتجاجوں کی مشترکہ خاصیت یہ ہے کہ حکام تک ان کی آواز نہیں پہنچ پاتی ہے اور وہ سننے کے باوجود گونگے بہرے بن جاتے ہیں،لیکن دونوں احتجاجوں سے نمٹنے کے لیے دو معیار ہیں۔ حق خود ارادیت اور وردی پوشوں کے ظلم و بربریت کے خلاف احتجاج ہوتو گولیاں برستی ہیں ، پلیٹ گن کے دہانے کھل جاتے ہیں ، جان لیوا زد کوب کیا جاتا ہے جب کہ دوسرے قسم کے احتجاجیوں پر لاٹھیاں برستی ہیں اور رنگین پانی سے اُنہیں منتشر کیا جاتا ہے۔ رنگین پانی سے پہلے قسم کے احتجاجیوں کو بھی منتشر کیا جاسکتا ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ جان بوجھ کر ایسا نہیں کیا جاتا ہے۔ شاید اس لئے کہ شخصی حقوق سے کئی گناہ زیادہ گناہ سیاسی حقوق کی مانگ کرنا ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے علاوہ مزاحمتی خیمہ پلیٹ گن کے استعمال کے خلاف رائے عامہ ہموار کریں اور حکومت پردرون خانہ و بیرون خانہ دباؤ بڑھایا جائے تاکہ وہ پلیٹ گن کے استعمال پر پابندی عاید کرے۔ حکومتی ذمہ داروں کو بھی ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے۔ وہ جو طریقہ اختیار کئے ہوئے ہیں اُس کا نتیجہ کسی بھی صورت میں اچھا نہیں ہوگا بلکہ دلوں کی نفرتوں میں روز بہ روز اضافہ ہی ہوتا چلا جارہا ہے اور جہاں نفرتیں ہو ، وہاںتو بڑے بڑے منصوبے ہوا میں تحلیل ہوجاتے ہیں

Comments

Popular posts from this blog

لندن کی کشمیر کانفرنس۔۔۔ ایس احمد پیرزادہ

پبلک سیفٹی ایکٹ اور نیشنل کانفرنس....ایس احمد پیرزادہ