میٹرک نتائج… لڑکوں کا پچھڑنا لمحہ فکریہ!
خوشیاں زہے نصیب ہیں غم بھی تو کم نہیں

حالیہ دنوں اسٹیٹ بورڈ آف اسکول ایجوکیشن کی جانب سے دسویں جماعت کے امتحانات کے نتائج کا اعلان کیا گیا۔ گزشتہ برسوں کی طرح اس بار بھی ان امتحانات میںلڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں نے بازی مار لی۔ پہلی اور دوسری پوزیشن دور دراز علاقہ ترال کے ایک ہی گاؤں ڈاڈہ سرہ کی دولڑکیوں نے حاصل کی ۔اس کے علاوہ بھی مجموعی طورپر اعلیٰ نمبرات سے کامیابی پانے والوں میں لڑکیوں کا تناسب زیادہ ہے۔ امتیازی پوزیشنیں بھی لڑکیوں نے ہی حاصل کی ہیں۔ ان طالبات کی کامیابی پر فرداًفرداً انہیں ان کے والدین اوران کے اساتذہ کو مبارک باد۔ ان خوش نصیب ، ہونہار اور محنتی طالبات کی تہینت اور عزت افزائی کے لئے خود وزیراتعلیم نعیم اختر ان کے گھر گئے ۔ اگر اسے آگے سیاست زدہ نہ کیاجائے تو یہ ایک بہت اچھی روایت قائم کی گئی ہے ۔ یہ پہلا موقعہ نہیں ہے جب لڑکیاں لڑکوںامتحانی رزلٹوںمیں آگے نکل گئی ہیں بلکہ گزشتہ کئی برسوں سے یہ ایک رجحان بناہوا ہے کہ بورڈ امتحانات میں مسلسل لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیاں ہی کامیابیوں کے جھنڈے گارڈ رہی ہیں۔ناکام اُمیدواروں کی فہرست میں بھی لڑکیوں کے مقابلے میں لڑکوں کا تناسب زیادہ رہتا ہے۔ اسٹیٹ بورڈ آف اسکول ایجوکیشن کے تحت اس سال دسویں جماعت میں بیٹھنے والے طلبہ و طالبات کی مجموعی تعداد 50,535 تھی جن میں26,900 لڑکے اور23,600 لڑکیاں شامل ہیں۔ پاس ہونے والے طلبہ کی کل شرح71.85 فیصدرہی۔ امتحان میں کامیابی پانے والے طلبہ کی شرح74.5 فیصد رہی جب کہ کامیابی میں طالبات کی شرح68.8 رہی۔اس امتحان میں پہلی بیس پوزیشنیں 182 طلبہ و طالبات نے حاصل کی ہیں جن میں اکثریت طالبات کی رہی۔ پہلی تین پوزیشنوں پر لڑکیوں کا قبضہ قائم رہا۔ بالفاظ دیگر گزشتہ برسوں کی طرح اس سال بھی امتحانات کے نتائج پر لڑکیوں کا دبدبہ قائم رہا۔ ریاست جموں وکشمیر میں گزشتہ دودہائیوں سے زیادہ عرصے پر محیط نامساعد حالات کی وجہ سے تعلیم وتدریس کا نظام بھی دوسرے شعبہ ہائے زندگی کی طرح بری طرح متاثر ہوا۔ بلاشبہ زندگی کا کوئی بھی پہلو ایسا نہیں ہے جس کوحالات کی ستم ظریفی کی مار نہ سہنا پڑی ہو۔تعمیر و ترقی کی وہ تمام حسرتیں باقی رہیں جن کے خواب اکیسویں صدی کا ہر بندہ ضرور دیکھتا ہے۔ طالع آزماسیاست دانوں نے اگر چہ اپنے پیشے کے عین مطابق لوگوں کو سبز باغ دکھانے کا سلسلہ برابر جاری رکھا لیکن سچائی تو یہ ہے کہ یہاں کے عام آدمی کو بنیادی ضروریات تک میسر نہیں رہیں۔اس قوم کو کوئی درد آشنا شخص نہ ملا جو اس کے دُکھوں اور درد کا مداوا کرنے کا کارِ خیر انجام دیتا۔ ہمارے ادارے ویران ہوگئے، معیشت، تعلیم اور صحت سے جڑے محکمے تو بالکل ہی خستہ حالی کی راہ پر گامزن ہوئے۔ ایک تو ناگفتہ بہ حالات نے اپنا ڈیرا جماکر ہمیں بہ حیثیت قوم کہیں کا نہ رکھا،ا س پر طرہ یہ کہ اغیار نے جان بوجھ کر اور منصوبہ بند طریقے میں وادیٔ کشمیر میں تعلیمی سسٹم کو ابتر بنانے کے لئے سازشیں رچائیں اور اب بھی اس قبیح عمل میں شریک کار ہیں۔ حالات کا بہانہ بناکر دور دراز کے علاقوں میں قائم اسکولوں کو بنیادی ضروریات سے محروم رکھا گیا، بیشتر اسکولوں پر وردی پوش قابض ہوگئے اور یوں جہاں تعلیم و تدریس کا انجام پانا تھا وہاں جنگ و جدل اور ماردھاڑ کی پالیسیاں ترتیب پانے لگیں۔ تعلیمی مراکز تعذیب خانوں میں تبدیل کئے گئے۔ ایسے میں کشمیری قوم کی نسل نودنیا کے ساتھ سائنس اور ٹیکنالوجی کے زمانے میں مقابلہ آرائی بھلا کیسے کرسکتی؟جان بوجھ کر پیدا کی جانے والی یہ وہ گھمبیرصورتحال ہے جس کے ذریعے سے کشمیری قوم کو پتھر کے زمانے میں پہنچانے کی راہ ہموار کی گئی۔ خرابی ٔبسیار کے باوجود یہاں کشمیری قوم خراج تحسین کی مستحق بن جاتی ہے کہ ایک جانب حالات کی ابتری، مار دھاڑ، بھاگم دوڑ، جان کے لالے اور وسائل و مواقع کی عدم دستیابی، حق تلفی ، ناانصافی اورظلم وتشدد کی بھٹیاں، دوسری جانب نئی نسلوں کو تعلیم کے نور سے آراستہ کرنے کی چینوتیاں… افغانستان، عراق اور جنگ زدہ مسلم دنیا کے دوسرے خطوں کی حالت دیکھ کر ایسا نہیں لگتا تھا کہ سیدھی سادھی قومِ کشمیر تقاضائے وقت کا صحیح فہم و ادراک کرپائے گی، لیکن زمانے دیکھ لیاکہ ملک کشمیر یوں نے معیشت کی ابتری کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرلیا، اقتدار پرست اور خود غرض حکمرانوں کی کارستانیوں کو بھی سہہ لیا، طبی شعبے کی خستہ حالی کو نظر انداز کرلیا، ترقی کے مواقع کی عدم دستیابی پر بھی سوائے صبر وبرداشت کے کچھ نہ کیا مگر نظام تعلیم کی ابتری اور سرکاری اسکولوں کی خستہ حالی پر ہمیشہ ہمیش فکری مندی کا کھلے عام اظہار کیا۔ ا س حوالے ے عام لوگوں کے بار بار کے احتجاج اور شکوہ شکایات کے باوجود جب مفاد پرست حکمران ٹس سے مس نہ ہوئے تو متبادل راستے اختیار کئے گئے۔ مثلاً یہاں پرائیوٹ تعلیمی نظام کو فروغ دیا گیا، لوگوں نے اپنی اپنی سطح پر تعلیمی ادارے قائم کئے،پرائیوٹ تعلیمی نظام سے بے شک غریب طبقے کے لئے مسائل پیدا ہورہے ہیں کیوں کہ وہ ان اداروں کے تعلیمی مصارف بر داشت نہیں کر سکتے لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ پرائیوٹ تعلیمی سسٹم نے ریاست جموں وکشمیر بالخصوص وادیٔ کشمیر کے عوام کو مشکل وقت میں سہارا دیا۔ یہاں کے غریب اور متوسط طبقہ لوگوں نے اپنا پیٹ کاٹ کاٹ کر اپنے بچوں کے تعلیمی اخراجات برداشت کرتے ہوئے ان کے لئے کھٹاٹوپ اندھیروں میں بھی روشنی کاسامان کیا۔ غرض جنگی صورتحال میںبھی کشمیریوں نے نسل نو کی تعلیم کے ساتھ کوئی کمپرومائز نہیں کیا۔یہ زندہ قوموں کی علامت ہے اور یہی وہ چیز ہے جس نے گزشتہ 25 ؍برس کے کٹھن حالات کے باوجود اس قوم کو جھکنے یا زندگی سے فرار حاصل کر نے نہ دیا۔ البتہ نامساعد حالات نے دوسرے کنفلکٹ زونوں کی مانند یہاں بھی کئی دوسرے مسائل پیدا کئے ۔ اسی کی ایک کڑی یہ ہے کہ گزشتہ کئی برسوں سے ایک نیا اور خطرناک رحجان ہمارے تعلیمی سسٹم کے گلے پڑ رہا ہے کہ لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیاں مسابقتی و دیگر امتحانات میں نمایاں کارکردگی دکھارہی ہیں۔ اسکول Dropout طلبہ وطالبات میں لڑکوں کی شرح لڑکیوں سے کئی گنا زیادہ ہے۔ جی جان سے پڑھائی کرنے میں بھی لڑکے لڑکیوں سے پچھڑ رہے ہیں۔مسئلہ لڑکیوں کا اعلیٰ پوزیشنیں حاصل کرنے کا نہیں ہے ، وہ تو ایک صحت مند ٹرینڈ ہے، سچ میں ملّت کی بیٹیوں کا امتحانات میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنا خوش آئند بات ہے ۔ یہ اس اعتبار سے بھی اچھی علامت اور نیک شگون ہے کہ جہاں برصغیر کے مسلمانوں کو یہ طعنہ دیا جارہا ہے کہ یہاں خواتین کو تعلیم سے محروم رکھا جارہا ہے اور اس طرح سے دنیا کے اس خطے کی عورتیں دور جدید میں بھی جدیدیت کے تقاضوں کو سمجھنے سے قاصر رہتی ہیں، وہاں کشمیری قوم کی لڑکیوں کا تعلیم کے میدان میں آگے بڑھتے دیکھ کر ان حوالوں سے کشمیریوں کو گئی گزری قوم سمجھنے والوں کی عقلوں پر ماتم کیا جائے گا۔ اصولی طور پر ایک عورت کا خواندہ ہو نا پوری قوم کی خواندگی اور ذہنی ترقی وعروج پر دلالت کرتاہے ۔ دراصل لمحہ ٔ فکر یہ یہی ہے کہ کشمیری لڑکے تعلیمی میدان میں مقابلہ آرائی کرنے سے کیوں جی چرا رہے ہیں؟اُن میں آسمان کی بلندیوں کو چھونے کا جذبہ بتدریج مانند کیوںپڑرہا ہے؟ وہ اقبالؒ کے شاہین بننے میں ہچکچاہٹ کیوں محسوس کررہے ہیں؟وہ ستاروں پر ڈیرہ ڈالنے کی تن آسان بن کر ذہنی صلاحیتوں سے کیوںتہی دامن ہوتے جارہے ہیں؟اُن میں وہ غیرت و حمیت کیونکرختم ہوتی جارہی ہے جو کبھی یہاں کی نوجوان نسل کی شان ہوا کرتی تھی؟ ان سوالات کی آنچ ابھی دھیمی لگے مگر اپنے وقت پر یہ ہمارے نیندیں اُچاٹ دیں گے ۔ ہم سب یہ بھی جانتے ہیں کہ موجودہ زمانے میں تعلیم ہی ایسا ذریعہ ہے جس کے ذریعے سے نہ صرف غربت اور افلاس کو ہرایا جاسکتا ہے بلکہ بڑی بڑی طاقتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کربات کرنے کا سلیقہ تعلیم وتدریس سے ہی حاصل کیا جاسکتا ہے۔تعلیمی میدان میں دنیا کے ساتھ کندھے سے کندھا ملاکر چلنے سے ہی ہم عالمی چودھریوں سے اپنی بات منوا سکتے ہیں۔دہائیوں پرانا اپنی سرزمین کا قضیہ پیش کرنے اور اُس کا وکیل بننے کے لئے اور ایک طیب حیات ارضی گزارنے کے لئے ضروری ہے کہ فکری اور علمی سطح پر ہم اپنی مذہبی شاخت کے ساتھ دنیا کی اولین صف میں کھڑے ہونے کا شرف بوساطت تعلیم حاصل کریں،مگر یہاں تو المیہ یہ ہے کہ ہماری نوجوان نسل جدید دنیا کے ا س چلنج سے نابلد ہوتی جارہی ہے،اسے قلم اور کتاب میں اتنی دلچسپی نہیں جتنا بالی وڈکی نقالی کا شوق ہے، گزشتہ سال فلمی ستارہ شاہ رخ خان یہاں آیا اور اس سال سلمان خان نے کشمیر میں قدم رکھا تو نوخیز نسل ان اداکاروں کے پیچھے ماری ماری پھر تی رہی ، کیونکہ ان کے لئے شاہ فیصل رول ماڈل نہیں بلکہ یہی اداکار ہیں جنہوں نے برصغیر کے کلچر کو تباہ وبرباد کر کے رکھ دیاہے ، ہما ری نوجوان نسل میں منشیات، سستی اور کاہلی کو اپنا شعار بنایاہواہے ،اگرچہ نوجوانوں میں تردماغی موجود ہے ، اچھی صلاحیتوں کی کانیں دفن ہیں ، اسلاف سے پائی ہوئی اخلاقی میراث سے محروم الارث نہ کیا مگر یہ مست ومدہوش ہیں، ان میں خاص کر تعلیمی میدان میں کارہائے نمایاں انجام دینے کا مادہ موجود ہونے کے باوجود اپنی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کر نے کا جذبہ مفقود ہے۔ تاہم یہ ہر نوجوان کی کہانی نہیں ، ایک استثنیٰ ضرور موجود ہے جو شاہ فیصل اور ڈاکٹر سیدہ سحرش بننے کی قابلیت منوا رہے ہیں ۔ آخر کیا وجہ ہے؟ کیوں ہمارے نوجوان تعلیمی میدان میں اب سالہا سال سے لڑکیوں سے پیچھے رہ جاتے ہیں؟… تجزیہ کی سان پر ا س سوال کو ڈالئے تو اس میں بہت سارے محرکات کارفرما نظر آسکتے ہیں لیکن ایک چیز جس نے نوجوانوں کو بگاڑ کی راہ پر لگا دینے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے وہ میڈیا کے جدید Tools ہیں جن کا استعمال ہم نے اپنے لئے ناگزیر بنادیا ہے۔ موبائل اور کیبل ٹی وی کے اس دور میں اب یہ فیشن بن چکا ہے کہ والدین اپنے بچوں کو اچھی کتابیں فراہم کرنے کے بجائے اُنہیں موبائل فون، لیپ ٹاپ اور انٹرنیٹ کی سہولیات دستیاب رکھیں، یہ دیکھے بغیر کہ ان کا غلط استعمال کای رنگ لاسکتاہے۔ ا س بارے میںدلیل یہ دی جارہی ہے کہ جدید زمانہ میں ان چیزوں کے استعمال سے بچوں کی شخصیت میں نکھار پیدا ہوجاتا ہے۔ لڑکیوں کے معاملے میں ان چیزوں کے حوالے سے والدین احتیاط برت لیتے ہیں، اس لئے اُن کا دھیان پڑھائی پر مرکوز رہنا فطری ہے۔ اس کے برعکس لڑکے کم عمری میں اچھے برے کی تمیز کم ہی کرپاتے ہیں ۔ انٹرنیٹ ، موبائل اور لیپ ٹاپ کا صحیح استعمال کرنے کی بجائے یہ چیزیں اُن کی اخلاقیات پر اثر انداز ہوجاتی ہیں، اُن کے ذہن پراگندہ ہوجاتے ہیں ، صلاحیتیں کند ہو جاتی ہیںاور یہ فلمی گانوں، فحش تصاویر اور سوشل میڈیا پر زیادہ تر وقت ضائع کرجاتے ہیں۔ اس عادت سے نہ صرف اُن کا تعلیمی کیرئیر برباد ہوجاتا ہے بلکہ اُن کے صحت پر بھی کافی زیادہ برے اثرات مرتب ہوجاتے ہیں۔آٹھویں اور نویں جماعت کے کمسن اور چھوٹے بجے بھی فیس بک اور دوسری سوشل نیت ورکنگ سائٹس پر گھنٹوںضائع کرلیں تو نتیجہ کیا ہوگا؟ کیبل ٹی وی پر ہندی فلموں اور دیگر پروگرام سے نوجوانوں کے ذہن اس قدر متاثر ہوجاتے ہیں کہ پردے کی اس نقلی دنیا کے اثرات باضابطہ طور پر اصلی زندگیوں میں بھی دکھائی دینے لگتے ہیں۔ ذہنوں میں مجرمانہ خیالات پروان چڑھنے لگ جاتے ہیں اور یہ ٹی وی کی ہی دین ہے کہ ہماری نسل نو میں سیگریٹ نوشی اور منشیات کے استعمال کی لت پڑنی شروع ہوگی۔ظاہر سی بات ہے جب قوم کے ان نونہالوں کا زیادہ تر وقت اور دھیان انٹرنٹ اور موبائل کی جانب مرکوز کرنے میں صرف ہوگا تولازمی طور پر پڑھائی کو ثانوی درجہ حاصل رہے گا اور ایسے میں لڑکیوں کا آگے نکل جانا یقینی بن جاتا ہے۔ صورتحال کا تشویشناک پہلو یہ ہے کہ اگر اِسی طرح لڑکے لڑکیوں سے تعلیمی میدان میں پیچھے رہنے لگے اور اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو اگلے پندرہ بیس برسوں میں ہماری ریاست کو سنگین نوعیت کے سماجی مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ روز مرہ کی زندگی کی تمام اہم شعبوں پر لڑکیاں براجماں ہوجائیں گی اور اس کے برعکس لڑکوں کو چھوٹے موٹے کام کرنے پر ہی اکتفا کرنا پڑے گا۔ حقیقت حال یہ ہے کہ زندگی کے بہت سارے شعبے ایسے بھی ہیں جن میں لڑکیاں چاہتے ہوئے بھی اپنی خدمات انجام نہیں دے سکتی ہیںاور ان شعبوں کے لیے لڑکوں کا Eligible نہ ہونا لازمی طور پر سنگین نوعیت کے مسائل کو جنم دے سکتا ہے۔شادی بیاہ کے معاملے میں بھی دشواریاں پیدا ہوجائیں گی۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکی کم تر لڑکے سے شادی کرنے پر راضی نہیں ہوجائیں گی اور اس طرح ہمارے سماج کے لئے نت نئے مسائل پیدا ہوجائیں گے۔یہ وقت سوچنے اور غور وفکر کرنے کا ہے۔ ریاست کے ماہرین تعلیمات و نفسیات، دانشور حضرات ، سماج کے ذی حس افراد اور علماء و اکابرین سماجی سطح پر درپیش اس چلینج پر ٹھنڈے دماغ کے ساتھ غور کریں، صحیح رہنمائی کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی بچوں کے اندر مذہبی رحجان پیدا کرنے کی کوشش کریں کیونکہ یہ دین فطرت ہی ہے جو صحیح اور غلط میں تمیز کرنا سکھاتا ہے۔جو انسان کو وقت کا صحیح استعمال کرنے کا سلیقہ دیتا ہے، جو محنت کرنے کی ترغیب دیتا ہے اور جو زندگی میں آگے بڑھنے کا حوصلہ فراہم کرتا ہے۔ essahmadpirzada@gmail.com

Comments

Popular posts from this blog

لندن کی کشمیر کانفرنس۔۔۔ ایس احمد پیرزادہ

پبلک سیفٹی ایکٹ اور نیشنل کانفرنس....ایس احمد پیرزادہ