کشمیری قیدیوں کو رہا کرو۔۔۔۔۔۔

قیدیو ں کو رہا کرو

زنداں کی نذر ہیں پیر وجواں

ایس احمد پیرزادہ
ریاست جموں وکشمیر میں زندگی کا ہر شعبہ حالات کی مار سہہ رہا ہے۔ مسائل و مشکلات کے انبار میں پھنسی یہاں کی آبادی مشکل ترین دور سے گزر رہی ہے۔ جنگی حالات اور وہ بھی دہائیوں پر مشتمل ہوں توبخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حالات کی اس سلگتی آگ نے یہاں کی زندگی کو کس حد تک متاثر کیا ہوگا۔ جہاں ایک طرف نوجوان نسل کو گاجر مولی کی طرح کاٹا جارہا ہے، قبرستانوں میں روز نونہالوں کو دفنایا جارہا ہو،یتیموں کی تعداد میں تشویشناک اضافہ ہورہا ہو، بیواؤں کی درد بھری آہیں اور سسکیاں رات کی تاریکیوں اور دن کے اُجالوں میںارتعاش پیدا کرکے انسانی دلوں کو جھنجھوڑرہی ہوں، وہاں کی مجموعی آبادی کی ذہنی حالت و کیفیت کیا ہوگی اس کا اندازہ صرف یہاںرہنے والے لوگوں کو ہی ہوسکتا ہے۔یہاں روز مقتل گاہ سجتا ہے، یہاں کی سرزمین کشمیریوں کے لہو سے آئے دن لالہ زار کی جاتی ہے۔ ابھی کل ہی کی بات ہے،رنگریٹ سے آرونی تک صرف۲۴؍گھنٹوں کے وقفے میں گیارہ کشمیری موت کی ابدی نیند سلا دئے گئے۔چودہ سال کے نوجوان کو راست گولی مار کر بھارتی ’’ویر سینا‘‘ نے جیسے کوئی بڑا کارنامہ انجام دیا ہے۔آرونی میں کیمرے کی آنکھ نے اُن تصویروں کو بھی قید کیا ہے جن میں سی آر پی ایف اہلکار ایک نوجوان کو نالہ ویشو میں پھینکتے ہوئے دیکھا جاسکتا جاسکتا ہے ، جب اُنہیں لگا کہ وہ وہاں نہیں ڈوب مراہے تو سی آر پی ایف اہلکار نالہ میں کود کر اُس کو باہر نکال لیتے ہیں اور پھر سر راہ اُس کی شدید مارپیٹ کرکے اُسے نیم مردہ حالت میں چھوڑ دیتے ہیں، ایک اور تصویر میں ایک نوجوان کو انسانی ڈھال بناکر سنگ بازوں کے سامنے لاکھڑا کردیا جاتا ہے۔ گزشتہ ایک سال سے عسکریت پسندوں اور فوج کے درمیان جھڑپ کے مقام پر ضرورکوئی نہ کوئی عام معصوم نوجوان بھی ابدی نیند سلا دیا جاتا ہے۔ بھارتی فوجی سربراہ بپن راوت کے تہلکہ آمیز بیان جس میں اُنہو ںنے کہا کہ احتجاجی اور سنگ باز نوجوانوں کو بھی ’’دہشت گرد‘‘ تصور کیا جائے گا،کے بعد عام کشمیریوں کو جان سے مار دینے کی عمل میں تیزی لائی گئی۔ زخمی کتنے لوگ ہوجاتے ہیں؟ آنکھوں کی بینائی سے کتنے محروم ہوتے ہیں؟ جیل کی سلاخوں کے پیچھے کتنے لوگوں کو دھکیلا جاتا ہے اس کا کوئی انداز ہی نہیں لگایا جاسکتا ہے۔آئے روز بستیوں میں رات کے دوران چھاپے ڈالے جاتے ہیں، مکینوں کو زد کوب کیا جاتا ہے، گھرکے سامان کو تہس نہس کردیا جاتا ہے، گھر کی کھڑیوں اور قیمتی سامان کی توڑ پھوڑ کی جاتی ہے،نوجوانوں کو گھروں سے گھسیٹ کر باہر نکالا جاتا ہے اور اُنہیں پولیس تھانوں میں نہ صرف تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے بلکہ اُنہیں پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت غیر معینہ مدت تک کے لیے جیل کی سلاخوں کے پیچھے سڑائے جانے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔اب پیسہ کمانے کے لیے  بھی گرفتاریاں ہوتی ہیں، نوجوان کو سنگ بازی کے الزام میں گرفتار کرلیا جاتا ہے پھر پیسہ لے کر چھوڑ دیا جاتا ہے۔
گزشتہ برس کی عوامی احتجاجی مہم کے دوران اور اُس کے بعد سے تاحال پندر ہ ہزار سے زائد کشمیری گرفتار کرلیے گئے ہیں۔ بہت سارے عدالتی احکامات کے بعد چھوٹ گئے البتہ ابھی بھی ہزاروں نوجوانوں جیلوں میں بند ہیں۔جنگل چوروں کے لیے بنایا جانے والا قانون پبلک سیفٹی ایکٹ انسانی آزادی سلب کرنے اورانتقام گیری کا سب سے بہترین اور آسان ہتھیار انتظامیہ کے ہاتھ لگ چکا ہے۔اس قانون کا استعمال کرکے وردی پوشوں نے تاحال درجنوں نوجوانوں کا تعلیمی کیرئیر برباد کیا ہے۔آئے روز کی گرفتاریوں اور پھر ایک کے بعد ایک پبلک سیفٹی ایکٹ سے تنگ آکر درجنوں نوجوانوں نے ابھی تک عسکریت کی راہ کرلی ہے۔چند ماہ قبل شوپیان میں ایک نوجوان پولیس کی حراست سے بھاگ گیا اور پھر ایک ویڈیو کے ذریعے سے اُنہوں نے اعلان کیا کہ پولیس کے مظالم اور پے در پے پبلک سیفٹی ایکٹ سے تنگ آکر اُنہوں نے اب عسکریت کی راہ اختیار کرلی ہے۔گویا جان بوجھ کر کشمیری نوجوانوں کو عسکریت کی جانب دھکیلا جارہا ہے، اُنہیں مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ بندوق کی راہ اختیار کریں۔نتائج کیا برآمد ہوگئے اس کا اندازہ حالیہ کئی دنوں پیش آئے کئی واقعات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ابھی دو دن پہلے ۸؍پولیس والوں کی ہلاکت کے بعد یہ بات موضوع بحث بن گئی ہے کہ کیا پولیس والوں کو نشانہ بنانے کی کارروائی صحیح بھی ہے یا نہیں؟ پولیس والوں کو ہی کیا کسی کو نشانہ بنا کر اُسے موت کی گھاٹ اُتار دینا صحیح نہیں ہے، انسانی جان بہرحال محترم ہے، البتہ سوچنے والی بات یہ ہے کہ جو نوجوان پولیس اور فورسز مظالم سے تنگ آکر ہتھیار اُٹھا لیتے ہیں ، اُن کے دل میں وردی پوشوں کے لیے بھلا کیسی ہمدردی ہوگی؟ وہ جن حالات سے گزر چکے ہوتے ہیں اُن کی یادیں بھی اُنہیں وردی پوشوں کے خلاف انتہائی اقدام کرنے پر مجبور کرتی ہوں گی۔وردی پوشوں کو عوام کے تئیں رویہ تبدیل کرنا چاہیے، اُنہیں نوے کی دہائی کی طرح انسان دوستی کا مظاہرہ کرکے عوام کے دُکھ درد میں اُن کا ساتھ دینا چاہیے۔ اُنہیں اپنے عوام کے ساتھ ہندوستان کی لڑائی نہیں لڑنی چاہیے۔پولیس اس سماج کا حصہ ہے، وہ ہم میں سے ہیں ، اس فورس کو جان بوجھ کر اپنے ہی لوگوں کے خلاف استعمال کیا جارہا ہے۔ دلی کے پالیسی سازوں کی گھناؤنی سازش کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
کشمیر اور صوبہ جموں کے جیلوں میں ہزاروں کشمیری نظر بند ہیں۔ اُن میں نوجوانوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ ۸۰؍برس کے بزرگ بھی اس بربریت کا شکار ہیں اور خواتین بھی جیل کاٹ رہی ہیں۔ سوپور سے تعلق رکھنے والے شیخ محمد یوسف جن کی عمر ۸۰؍برس سے زائد ہے کو گزشتہ برس جولائی کے مہینے میں گرفتار کرلیا گیا ہے، اُن پر پے درپے تاحال تین پبلک سیفٹی ایکٹ لاگو کردئے گئے ہیں، ایک میں کورٹ اُنہیں چھوڑ دیتا ہے تو پولیس دوسرا ایکٹ لگا دیتی ہے۔ اُن پر سنگ بازی کا بھونڈا قسم کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔ اُن کے دو بیٹے پہلے ہی تحریک حق خود ارادیت کی جدوجہد میں جاں بحق کردئے گئے ہیں۔ گھر میں اُن کی بیمار بیوی، جواں سال بیوہ بہو اور اُس کے کمسن دو بچے ہیں۔ اُن کے گھر میں کس طرح کی مشکلات ہیں اس کا اندازہ بھی عام حالات میں نہیں کیا جاسکتا ہے۔ہندواڑہ سے تعلق رکھنے والا جسمانی طور معذور ایک ۷۵؍سالہ برزگ غلام محمد بٹ بھی گزشتہ سال کے ماہ ستمبر سے ادھمپور جیل میں نظر بند ہیں۔ وہ جسمانی طور ناخیز ہیں اور نہایت ہی کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزار رہے تھے، اس ناخیز انسان کو بڑی ہی بے شرمی کے ساتھ سنگ بازی میں ملوث کرکے جیل بھیج دیا گیا ۔ تاحال پولیس نے اُن پر تین بار پی ایس اے لاگو کیا تھا اور ابھی بھی اُنہیں رہائی نصیب نہیں ہوتی ہے۔ اُن کی گھریلو حالت نہایت ہی ناگفتہ ہے ۔یہ چند مثالیں ہیں ،حالانکہ یہاں ایسے ہزاروں گھرانے ہوں گے جو صرف اس لیے ابتر حالت میں زندگی گزار رہے ہیں کیونکہ اُن کے واحد کمانے والے جرم بے گناہی میں زندان خانوں میں نظر بند کردئے گئے ہیں۔ان کے علاوہ وہ سیاسی قیدی جو برسوں سے جیلوں میں بند ہیں، اُن کے کیسوں کی شنوائی ہی یک طرفہ ہوتی ہے۔جس طرح سے حکومت اور ایجنسیاں چاہتی ہیں اُس کے کیس کی پیروی بھی اسی انداز میں ہوتی ہیں۔ ڈاکٹر محمد قاسم فکتو، مسرت عالم بٹ، ڈاکٹر محمد شفیع خان شریعتی، غلام قادر بٹ، تہاڑ جیل میں بند مظفر احمد ڈار، مشتاق احمد کنل ون اسلام آباد، طالب لالی ،غلام محمد بٹ زکورہ، محمد اسلم خان راجوری اور دیگر ایسے درجنوں قیدی ہیں جو غیر ریاستی جیلوں میں برسوں سے پابند سلاسل ہیں اور اُنہیں انتظام گیری کا شکار بنایا جاتا ہے۔ اُن کے کیسوں کوالجھایا جاتا ہے اور اُن کے معاملوں میںقانونی مراحل طے ہونے ہی نہیں دئے جاتے ہیں۔ دختران ملت کی آسیہ اندرابی اور فہمیدہ صوفی کو بھی انتقام گیرانہ پالیسی کے تحت جموں کے امپھالہ جیل کی سختیوں میں رکھا گیا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ کورٹ نے اُنہیں منتقل کرکے سرینگر لانے کے احکامات تک صادر کیے ہیں ،مگر محکمہ ہوم نے کورٹ کے آرڈر تسلیم کرنے سے صاف انکار کردیا ۔ حالانکہ بھارتی سپریم کورٹ کی یہ رولنگ موجود ہے کہ کسی بھی قیدی کونزدیکی قید خانے میں ہی نظر بند رکھا جائے۔علیل دختران ملت کی چیئرپرسن کے معاملے میں بھی انتقام گیری سے ہی کام لیا جارہا ہے۔
ریاست کے مختلف جیلوں میں جتنے بھی لوگ مقید ہیں ، اُن میں اکثر سیاسی انتقامی گیری کا شکار ہورہے ہیں۔ مقامی ممبراسمبلی اور موجودہ سرکار کے منسٹراپنے اپنے علاقوں میں اپنے مخالفین بالخصوص حق خود ارادیت کے حمایتی لوگوں کو مبینہ طور گرفتار کرواکے اُن پر پبلک سیفٹی ایکٹ لگوا رہے ہیں۔لوگوں کے خلاف فرضی کیس تیار کیے جاتے ہیں۔ ۸۰؍برس کے بزرگ کو سنگ بازی اور گاڑیوں کی توڑ پھوڑ کے الزام میں گرفتار کیا جاتا ہے۔ ۱۳؍سال کے بچے پر حالات بگاڑنے کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔ سوشل سائٹس پر اپنے خیالات کا اظہار کرنے پر نوجوانون کو جیل بھیج دیا جاتا ہے۔ یہ ظالمانہ طرز عمل ہے اور اس طرز عمل کے بھیانک نتائج برآمد ہوجاتے ہیں۔ جتنے بھی نوجوان جیلوں میں بند ہیں اُن میں سے اکثر کا تعلیمی کیرئیر تباہ ہوچکا ہے، کچھ نوجوانوں کی گھریلو مالی حالات اُن کی گرفتاری کی وجہ سے ابتر ہوگئے ہیں۔ اپنے قوم و ملت کے مفادات کی تئیں اُن قیدیوں کی قربانیاں سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ البتہ انسانی ضروریات اور تقاضے فطری ہوتے ہیں۔ ان قیدیوں میں جتنے بھی بزرگ قیدی ہیں وہ جیلوں کے اندر مختلف بیماریوں کا شکار ہوچکے ہیں۔ نوجوان قیدی ذہنی تناؤ کا شکار ہوجاتے ہیں۔ بیرون ریاست جتنے بھی قیدی ہیں وہ وہاں کی سخت گرمی اور جیل میں ناقص انتظامات کی وجہ سے جسمانی طور پر نہ صرف لاغر ہوچکے ہیں بلکہ اُن میں بھی مختلف جسمانی بیماریاں پیدا ہوئی ہیں۔ یہاں اُن کے گھر والے ابتر حالات میں زندگی کے شب روز گزار رہے ہیں۔ سینکڑوں خاندان ایسے ہیں جن کے واحد کمانے والے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں، اُن کے گھر کا چولہا بڑی مشکل سے جلتا ہے۔ اُن کے بچوں کا اسکولی فیس وقت پر ادا نہیں ہوتا ہے۔ اُن کے بچے عیدین کے موقعوں پر آس لگائے بیٹھے ہیں کہ کب کوئی اُن کے درد کا مداوا کرے گا ۔ یہ ہمارا اجتماعی فریضہ ہے کہ ہم اپنے ان بھائیوں کی جو پوری قوم کی جانب سے فرض کفایہ ادا کررہے ہیں کی گھریلو ضروریات کا خیال رکھیں۔ اُن کے وکیلوں کی فیس ادا کرنے کا انتظام کریں۔ آج یہ ہیں کل ہم ہوسکتے ہیں کیونکہ یہ کشمیر ہے اور یہاں ہر کشمیری ہندوستان کے نزدیک ’’دیش دروہی‘‘ ہے ، اس لیے عجب نہیں کہ کل کو ہم بھی سلاخوں کے پیچھے ہوں گے۔ ہمیں آنے والی عید کے مقدس موقعے پرا پنے ان مقید بھائیوں کو فراموش نہیں کرنا چاہیے بلکہ ترجیح بنیادوں پر اُن کی گھریلو ذمہ داریوں کو پورا کرنا چاہیے۔
حکومت اور انتظامیہ کو بھی ہوش کے ناخن لینے چاہیے۔ اُنہیں بھی عوام دشمن کارروائیوں سے باز آنا چاہیے ۔ اگر اُن میں ذرا برابر بھی انسانیت موجود ہو، اُن کا ضمیر زندہ ہو تو اُنہیں تمام قیدیوں کو فوری طور رہا کرنا چاہیے۔ عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں کو بھی نسلی رویہ ترک کرکے کشمیریوں کی مدد کے لیے سامنے آنا چاہیے۔ جس طرح کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیاں بڑے پیمانے پر ہورہی ہیں اُس طرح اگر کسی انگریزملک میں ہوتی تو پوری دنیا لاؤ لشکر کے ساتھ اُٹھ کھڑا ہوجاتی، انسانی حقوق کی تنظیمیں رات دن ایک کرتی لیکن جب یہ معاملہ مسلمانوں کا ہو تو پھر جیسے سب ملکوں اور تنظیموں کو سانپ سونگھ جاتا ہے۔ یہ جانبدانہ طرز عمل دنیا کے امن کو غارت کردے گا ۔ دنیا کو اپنا رویہ تبدیل کرکے انسانی بنیادوں پرحالات کو دیکھنا چاہیے، یہی وقت کا تقاضا ہے اور اسی سے دنیا انسانیت میںہورہی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر روک لگائی جاسکتی ہے۔

Comments

Popular posts from this blog

لندن کی کشمیر کانفرنس۔۔۔ ایس احمد پیرزادہ

پبلک سیفٹی ایکٹ اور نیشنل کانفرنس....ایس احمد پیرزادہ