گلی گلی موت کے پھندے

جمعہ21 جولائی کو بیروہ بڈگام (کشمیر)میں ہندوستانی فوج کی 53 راشٹریہ رائفلز سے وابستہ اہلکاروں نے بلاجواز فائرنگ کرکے 22 برس کے ایک جواں سال ٹیلر تنویر احمد وانی ولدمحمد اکبر وانی کو جرم بے گناہی میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ابدی نیند سلا دیا اور چلتے بنے۔ اس اندوہناک المیہ اور ماورائے عدالت قتل کے حوالے سے حسب معمول سرکاری سطح پر کیا قصہ سرائی کی گئی، وہ قابل غور ہے۔ پولیس نے قتل عمد کے تعلق سے جو بیان میڈیا کے نام جاری کیا اْس میں بتایا گیا کہ "آرمی کی پیٹرولنگ پارٹی اپنے کیمپ کی جانب واپس آرہی تھی تو راستے میں اْن پر کچھ" شرپسندوں" نے پتھراؤ کیا، اس دوران کچھ نوجوانوں نے” پٹاخے "پھوڑ دئے جس کو آرمی اہلکار گرینڈ سمجھ بیٹھے اور اْنہوں نے فائرنگ کی، جس کے نتیجے میں ایک نوجوان تنویر احمد وانی جان بحق ہوگیا۔ " بعد میں آرمی کی جانب سے اس واردات کے حوالے سے جو بیان سامنے آیا اْس میں کہا گیا کہ چند نوجوانوں نے فوج سے" ہتھیار چھینے "کی کوشش کی جس کو ناکام بنانے کی خاطر فوج کو" فائرنگ "کرنی پڑی۔ عام لوگوں نے فوج اور پولیس دونوں کے بیانات کو حقائق سے کوسوں دور بتاتے ہوئے کہا کہ فوجی اہل کاروں نے بلاجواز گولیاں چلا کر ایک نہتے کشمیری کی جان لی۔ ایک واقعہ کے بارے میں تین مختلف فرضی کہانیاں سامنے لائی گئیں۔ چلئے فرض کرتے ہیں کہ پتھراؤکرنے والوں نے آرمی پر "پٹاخہ " پھوڑا تو کیا آرمی والے اتنے من موجی ہیں کہ پٹاخے اور گرینیڈ میں فرق کر نے سے بھی قاصر ہوں اور فٹافٹ پوزیشنیں سنبھال کر اینٹ کا جواب پتھر سے دیں ؟ اس لئے پولیس کی کہانی کسی بھی واجبی عقل رکھنے والے کے گلے بھی نہیں اتر سکتی۔ یہ در اصل آرمی کو اس جرم سے بری الذمہ قرار دینے کا رقص نیم بسمل ہے۔ آرمی کا یہ دعویٰ کہ ہجوم نے ان سے"ہتھیار چھین لینے" کی کوشش کی، اس سفید جھوٹ پر کیا کہئے! کشمیر کا ابھی تک وہی حال احوال ہے کہ بقول محبوبہ مفتی پولیس جپسی دیکھ کر لوگ بھاگ جاتے ہیں۔ بیروہ میں نوجوان کہاں سے Man Heبن کر آرمی کی کانوائے کو روکتے اور ان سے ہتھیار چھین لینے کی بالی وڈ ٹایپ ہیرو شپ دکھاتے؟ یہ داستان سرائی آرمی اپنے گناہ کا جواز پیداکر نے کے لئے کر رہی ہے۔ ویسے بھی انہیں افسپا کی کرپا سے اس فسانہ طرازی کی بھی کیا ضرورت ہے، قتل عمد کی کسی کارروائی پر آج تک کس نے ان کا بال بھی بیکا کیا ؟ رہی بات عوام کے نالہ وشیون کی کہ آرمی والوں نے بلا جواز گولیاں چلائیں، اس پر یقین کرنے کی گنجائش موجود ہے کیونکہ جس آرمی نے گنڈ گاندربل میں پولیس اسٹیشن پر دھاوا بول کر ایس ایچ اوسمیت پولیس اہل کاروں کی ہڈی پسلی ایک کردی، ان سے عوام پر شوقیہ فائر کھولنا ہمالیہ گرانا جیسا مشکل نہیں بلکہ یہ ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے مگر عوام الناس کیساتھ کون ہے ؟
مقتول تنویر کے بارے میں بتایا جارہا ہے کہ وہ نماز جمعہ ادا کرنے کے لیے گھر سے نکلا تھا اور واپس اس کی میت ہی گھر لوٹی۔ 17 ؍جولائی کو ایسے ہی ایک واقعے میں بجبہاڑہ اسلام آباد میں جب فوجی اہل کاروں نے ایک ڈرائیور کی بلاجواز پٹائی شروع کی تو مقامی لوگ نے فوج کی اس جابرانہ کارروائی پر احتجاج کیا۔ فوج کو راہ گیروں اور دکانداروں کا یہ احتجاج ایک آنکھ بھی نہیں بھایا، اْنہوں نے طیش میں آکر عام لوگوں پر اپنے بندوق کے دہانے کھول دئے، جس کی زد میں ایک 60 سالہ بزرگ محمد عبداللہ گنائی ساکن حسن پورہ آرونی آگیا، اْن کی ران میں گولیاں لگی تھیں۔ اْنہیں فوری طور پر ہسپتال پہنچایا گیا، جہاں دو دن تک موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا رہنے کے بعد بالآخر 19 جولائی کو وہ داعیٔ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ زینہ پورہ شوپیان میں 20 جولائی کو فوج کی ایک تیز رفتار گاڑی نے 9 برس کی معصوم بچی آروبا فاروق کو کچل کر موت کی گھاٹ اْتار دیا۔ عام لوگوں نے الزام لگایا کہ فوجی گاڑی نے جان بوجھ کر دوسری جماعت کی اْس معصوم طالبہ کو مار ڈالا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ جب لوگوں نے مذکورہ فوجی ڈرائیور کی گرفتاری کا مطالبہ کیاتو اْن پر ٹیئرگیس کے گولے داغے گئے، پیلٹ گن کے چھروں اور گولیوں سے مزید دو درجن کے قریب عام شہریوں کو لہو لہاں کردیا گیا۔ گزشتہ کئی برسوں سے بالعموم، جولائی2016 سے بالخصوص آئے روز یہاں نہتے اور عام لوگوں کے قتل عام کا سلسلہ جاری ہے۔ "دلیل ڈاٹ پی کے" پر شائع اپنے اِسی کالم میں دوہفتے قبل راقم الحروف نے ایک مضمون میں جان بحق ہونے والے اْن تمام افراد کے نام درج کئے جنہیں فوج اور دیگر وردی پوشوں نے انکاونٹر والی جگہوں پر گولی مار کرابدی نیند سلا دیا ہے۔ یہ آدم خو رسلسلہ رْکنے کا نام ہی نہیں لیتا ہے۔ جان بوجھ کر اور معمولی بہانہ بازی کا سہارا لے کر کشمیری نوجوانوں جان بحق کردئے جاتے ہیں کیونکہ اول ریاستی حکومت ہمیشہ قاتلوں کی پیٹھ ٹھونکتی ہے، دوم یہاں وردی پوشوں کے ہاتھوں انسانی جانوں کے زیاں عوض میں ترقیاں، میڈل اور ایوارڈ حاصل کر جاتے ہیں اور اس" حسن کارکردگی" کو دیش بھگتی کا نام دیا جاتا ہے۔ بنا بریں وردی پوشوں پرانسانی خون بہانے کا جنون مسلسل سوار ہوتا جارہا ہے۔ اْنہیں کسی قسم کا کوئی ڈر اور خوف ہی نہیں ہے۔ اْنہیں قانو ن کی پکڑ کا کوئی خطرہ نہیں ہے، اس لیے یہ عام اور معصوم لوگوں کو آئے روز خون میں نہلانے پر ڈھیٹ ہوتے چلے جاتے ہیں۔
المیہ یہ ہے کہ جب بھی کوئی ایسا دلخراش المیہ پیش آتا ہے تو وردی پوشوں کے بہیمانہ کارروائیوں کو ناگزیر اور جائز قرار دینے کے لیے سرکاری طور پر قصے کہانیاں گھڑی جاتی ہیں۔ ان سانحات کے حوالے سے سرکار کی جانب سے جو بھی بیانات سامنے آجاتے ہیں اْن میں اکثر و بیشترمیں مقتول نوجوانوں پر ہی من گھڑت اور بے ہودہ قسم کے الزامات عائد کیے جاتے ہیں۔ بیشتر موقعوں پر پولیس اور دیگر ایجنسیوں کے بیانات میں کھلا تضاد بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ مثال کے طور پر بڈگام کے اس سانحہ کے حوالے سے جو بیان پولیس نے دیا ہے، آرمی نے اس کے برعکس بالکل الگ قسم کی کہانی بیان کی۔ کچھ عرصہ پہلے جب کھنہ بل اسلام آباد میں یاتریوں سے بھری گاڑی پْراسرار فائرنگ کی زد میں آگئی، اْس وقت جموں وکشمیر پولیس کے ایک اعلیٰ آفیسر نے سانحے کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے خلاصہ کیا کہ حملہ یاتریوں پر نہیں تھا بلکہ پولیس پر تھا، البتہ بدقسمتی سے یاتری بس کراس فائرنگ کی زد میں آگئی لیکن اْس حملے کے بارے میں جو اسٹینڈ فوج، دلی کے برسراقتدار ٹولے او رمیڈیا نے اختیار کیا وہ پولیس مؤقف کے بالکل متضاد تھا۔ پولیس نے جھٹ سے لشکر طیبہ کو بیچ میں لاکر اس افسوس ناک المیے کی ذمہ داری ا س کے سر ڈال دی جس کی لشکر نے سختی سے تردید کی۔ ابھی کل ہی کی بات ہے گاندربل میں پولیس کی ایک ناکہ پارٹی پر جب سول وردی میں ملبوس فوج کے اہلکاروں نے دھاوا بول کر بیشتر اہلکاروں کو لہو لہاں کردیا اور پھر اسی پر بس نہیں کیا بلکہ جس تھانے سے یہ اہلکار وابستہ تھے رات کے دوران اْس پر بھی حملہ کرکے نہ صرف وہاں سامان تہس نہس کردیا بلکہ تھانے میں موجود تمام پولیس اہلکاروں کے ساتھ شدید مارپیٹ کی گئی۔ پولیس نے فوج کی اس ظالمانہ کارروائی کے بارے میں تفصیلات جس شدت کے ساتھ بیان کی اْس کے برعکس فوج نے اس کارروائی کو" معمولی" قرار دے کر پولیس کے اعلیٰ حکام کے ساتھ معاملے کو رفع دفع کرنے کی بات کی ہے۔ فوج نے کہا کہ اس واقعے میں کوئی بھی پولیس والا شدید زخمی نہیں ہوا تھا جب کہ پولیس کے مطابق سات اہلکاروں کو ہسپتال میں داخل کرانا پڑا۔ یہ ایک ہی مقصد کے لیے کام کرنے والے دو ہم کار وہم قدم اداروں کے باہمی تعلق ِخاطر کا حال ہے، جب بات اْن لوگوں کی ہو جنہیں تمام مسلح فورسز ایجنسیاں دشمن قرار دے چکے ہیں، جب "باغی" عوام کو کچلنے کے لیے جھوٹ کو گھڑنا ہوتا ہے اور کارروائی انجام دینی ہوتی ہے، تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ متعلقہ ایجنسیاں کس طرح سے حقائق کو توڑ مروڑ کرپیش کرتی ہوں گی اور کس طرح کی ظالمانہ کارروائیوں کا ارتکاب کرتی ہوں گی۔ عام شہریوں کو جان سے مار دینے کے بعد جب اْن کے والدین و لواحقین ایف آئی آر درج کرانے کی خاطر پولیس تھانوں کا رْخ کرتے ہیں تو وہاں اْن کا یا توایف آئی آر ہی درج نہیں کیا جاتا ہے یا پھر اگر ایف آئی آر درج کربھی لیا جاتا ہے تو مقتول نوجوانوں کے سر ایسے ایسے بھونڈے قسم کے الزامات لگائے جاتے ہیں جن سے اْن کے لواحقین کے مجروح دل مزید پاش پاش ہوجاتے ہیں۔ مصیبت زدہ لواحقین کی دل جوئی کرنے کے بجائے وردی پوش اْن کے جذبات و احساسات کی اَن دیکھنی کرنا اپنی ڈیوٹی سمجھتے ہیں۔ اْن کی تذلیل وتحقیر کرتے ہیں کہ اْنہیں بے نیل ومرام لوٹنے میں ہی اپنی عافیت نظر آتی ہے۔ اْنہیں وردی پوشوں کی جانب سے اپنے مقتول بچوں کے بارے میں دل چھلنی کرنے والے طعنے اور گالیاں سننا پڑتی ہیں۔ گویا مقتول ہی قصور وار ٹھہرایا جاتا ہے اور قاتل اپنے لیے انصاف کی دْہائی دینے لگتاہے۔
قانون اور انصاف کی اگر بات کریں تو بغیر کسی جھجک کے کہا جاسکتا ہے کہ کشمیری قوم کے لیے نہ ہی یہاں قانونی تقاضے پورے کیے جاتے ہیں اور نہ ہی اْنہیں کسی ایک معاملے میں انصاف حاصل ہونے کی کبھی کوئی اْمید قائم رکھنی چاہیے۔ گزشتہ تین دہائیوں میں یہاں سینکڑوں سانحات پیش آئے ہیں، جن میں بے گناہوں کو دن دھاڑے موت کی گھاٹ اْتارا گیا۔ قاتل کا چہرہ واضح اور نمایاں تھا۔ ایف آئی آر بھی درجنوں معاملات میں درج ہوئے لیکن تاحال گزشتہ تیس برسوں میں ایک بھی مثال ایسی نہیں دی جاسکتی ہے جس کی بنیاد پر یہ کہا جاسکے کہ مقتول کشمیریوں کے لواحقین کو انصاف ملا ہو اور مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچایا گیا۔ انصاف یہاں سراب ہے، انصاف کا خواب دیکھنا یہاں احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے۔ یہاں "دیش بھگتی" انصاف کے آڑے آجاتی ہے، یہاں "قومی سلامتی" انصاف کے تقاضوں پر شب خون مارتی ہے۔ یہاں "افسپا" انصاف کے راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے، یہاں وردی پوشوں کا "مورال" گرانے کا خوف انصاف نہیں ہونے دیتا ہے۔ اکیسویں صدی کے ترقی پذیر دور کا بھارت ایسا پہلا ملک ہے جہاں کی ہتھیار بند پروفیشنل فوج عام لوگوں کے ساتھ کھلے عام برسر پیکار ہے۔ عام لوگ نہتے ہیں، اْنہیں کسی قانون کا کوئی تحفظ حاصل نہیں ہے جب کہ فوج کے پاس ہتھیار بھی ہے اور قانونی تحفظ ہی نہیں بلکہ آئینی استثنیٰ بھی اْنہیں حاصل ہے۔ کشمیر بھارتی فورسز کے لیے سونے کی کان ثابت ہورہی ہے۔ یہاں وہ حکومتی ایوانوں کے لاڈلے بن چکے ہیں۔ اْنہیں تمام سہولیات دستیاب ہیں۔ ترقیاں ہیں اور دولت کی ریل پیل ہے، ایسے میں بھلا کیسے اْمید لگائی جاسکتی ہے کہ عام اور نہتے لوگوں کا قتل عام رْک جائے گا؟
ہندنواز سیاست دانوں کا ایک ٹولہ جب برسراقتدار ہوتا ہے تو عوام کے قتل عام میں برابر کا شریک رہتا ہے، بلکہ حکومتی ایوانوں میں رہتے ہوئے وہ وردی پوشوں کے ترجمان بن کر ان کی ہی باتیں دہراتے رہتے ہیں، اْن کی ہر جائز اور ناجائز کارروائی کا دفاع کرتے ہیں۔ کبھی مقتول و معصوم آسیہ اور نیلوفر کے قتل کو چلو بھر پانی میں ڈوب جانے کوقصوروار ٹھہراتے ہیں تو کبھی 2016 کے ایک سو سے زائد معصوم نوجوانوں کے قتل ناحق کو یہ کہہ کرجائز ٹھہراتے ہیں کہ "وہ اپنے گھروں سے دودھ اور مٹھائی لینے نہیں نکلے تھے۔ " گویا گھر سے باہر نکلنا ہی یہاں جرم ٹھہر جاتا ہے۔ یہاں کھلی فضا میں سانس لینے کی سزا ہی موت رکھی گئی ہے۔ اپوزیشن میں رہتے ہوئے بیان بازیوں کی حد تک یہ ہند نواز سیاست دان خوب واویلا کرتے رہتے ہیں، یہ سب لوگوں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لیے دکھاوا ہوتا ہے۔ کچھ لوگ 2008 میں بھارتی ٹی وی چینلوں پر فوج اور دیگر فورسز ایجنسیوں کی جانب سے مار ڈھار اور قتل و غارت گری پر خوب بحثیں کرتے تھے، دنیا کی سب سے بڑی ظالم و جابر طاقت کو کوستے تھے، ظلم و جبر کو اپنی دلیلوں سے رد کرتے تھے لیکن جب ہند نوازوں کے شانہ بشانہ کشمیر یsentiment کے برخلاف کھڑے ہوگئے تو دلی والوں کے" چھوٹے بھائی" بن کر اْن کے ہر جرم پر اندھے، گونگے اور بہرے بن کر رہ گئے۔ ان تمام چھوٹے اور بڑے بھائیوں کا یکساں حال ہے۔ ان میں یہ اخلاقی جرأت ڈھونڈنا نمک کی کان میں مٹھاس تلاشنے کے برابر ہے کہ وہ کبھی ظلم و جبر اور بربریت کے خلاف اْف کریں یا اپنے آقاؤں سے کہیں بس کیجئے، بہت ہوچکا، اب ہمیں نہتے عوام کے ساتھ ظلم و زیادتیاں قبول نہیں۔ وہ قطعی ایسا نہیں کہہ سکتے کیونکہ نفس کی غلامی اور اقتدار کی ہوس انہیں زخم پر مرہم نہیں بلکہ زخم پر زخم دینے کی صلاح دیتی رہے گی۔ یہ کتنی چشم کشا حقیقت ہے کہ یہاں وقت آنے پرکشمیری پولیس اہلکاروں کے ساتھ بھی وہی برا سلوک ہوسکتا ہے جو عام کشمیری کے ساتھ معمول بناہوا ہے۔ فوج سمجھتی ہے بھلے ہی یہ ہمارے ساتھ شیر وشکر پولیس مین ہیں لیکن ہیں تو یہ بھی کشمیری ہی۔ وی ایچ پی اور آر ایس ایس کا اْن کے بارے میں یہی خیال رہے گا کہ پولیس والے کشمیری ہیں اور قابل بھروسہ نہیں ہیں۔ اب تو ہندوستان میں یہ مانگ بھی زور پکڑ رہی ہے کہ کشمیریوں کو آرمڈ فورسز میں نہ لیا جائے۔ ہندوستانیوں کے دل ودماغ میں یہ منفی سوچ کشمیر کے ہند نواز سیاست دانوں کے ساتھ ساتھ اْن تمام اہل وطن کے لئے ایک لمحہ فکریہ ہے جو اپنے ہی قوم کے خلاف اغیار کا ساتھ دے رہے ہیں۔ کشمیر کے حوالے سے انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کا معیار بھی دوہرا ہے۔ کشمیر میں ہورہی ہوشربا زیادتیوں پر کبھی کبھار ان کا ایک آدھ بیان ضرور آتا ہے لیکن عملاًبھارت پر کوئی دباؤ نہیں ڈالا جارہا ہے۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ کب تلک کشمیریوں کا قتل عام یوں ہی جاری و ساری رہے گا؟ کب تک ہم اپنے بچوں کی لٹتی جوانیوں پر اپنی بے بسی کا اظہار کرتے رہیں گے؟ اس اہم سوال پر ہمیں من حیث القوم سوچنا ہوگا۔ ہمارے دانشوروں، سیاست دانوں، علماء اور سماج کے ہر طبقے سے وابستہ باشعورلوگوں کو کھلے ذہن کے ساتھ غور وخوض کرنا ہوگا کہ ظلم و جبر کی آندھیوں کو کیسے روکا جائے، ان کے مضر اثرات سے کیسا بچا جائے اور علی الخصوص کشمیر کاز پر کوئی سمجھوتہ کئے بغیر کس طرح کی جاندار حکمت عملیاں اپنا ئی جائیں کہ ہماری نسل ِنو بھی محفوظ رہے اور کشمیر حل کی راہ بھی استوار ہو۔
مملکت پاکستان جن کی آدھی جنگ کشمیری لوگ لڑ رہے ہیں وہ پانامہ لیکس میں ایسے الجھ چکے ہیں کہ وہ بھول ہی چکے کہ کشمیر نام سے اُن کا کوئی محاذ بھی ہے۔ یہاں کشمیر میں پاکستان کے سیاسی حالات کے بارے میں عام تاثر یہی ہے کہ غیر ملکی طاقتیں ہندوستان کی ایماء پر پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو آپسی سر پھٹول کرواکے اُن کی کشمیر پالیسی کو کمزور کررہی ہیں۔ یہ پاک دشمن طاقتیں ایسا کرنے میں بڑی حد تک کامیاب بھی دکھائی دے رہی ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کے لوگ یہی اُمیدیں کئے بیٹھے ہیں کہ پاکستان اپنے اندورونی حالات پر قابو پاکر اور سیاسی ایوانوں کے خلفشار کو ختم کرکے یکسوئی کے ساتھ کشمیر کاز کو دنیا بھر میں متعارف کرانے کے لیے سیاسی، سفارتی اور اخلاقی جدوجہد میں سرعت لائے گا اور کشمیر میں ہورہے قتل عام کو عالمی سطح پر اُجاگر کرنے میں کسی بھی قسم کی کوئی کوتاہی نہیں کرے گا۔

Comments

Popular posts from this blog

لندن کی کشمیر کانفرنس۔۔۔ ایس احمد پیرزادہ

پبلک سیفٹی ایکٹ اور نیشنل کانفرنس....ایس احمد پیرزادہ