”کشمیریت“ کی نہیں ”مسلمانیت“ کی جیت ہوئی!

”کشمیریت“ کی نہیں ”مسلمانیت“ کی جیت ہوئی!

٭....ایس احمد پیرزادہ
10 جولائی پیر کی شام کو جب مقبوضہ کشمیر میںانتظامیہ نے مشترکہ حریت قیادت کی جانب سے سوشل میڈیا پرچلائے جانے والے پروگرام ”کشمیر جانکاری مہم“ کی کال ناکام بنانے کے لیے انٹرنٹ کو بندکرنے کا فیصلہ کیا ،تو عین ا ±سی وقت ضلع اسلام آباد کے کھنہ بل علاقے میں سرینگر جموں شاہراہ پر فائرنگ کے ایک پ ±راسرارومشکوک مگر انتہائی افسوس ناک واقعے میں گجرات سے تعلق رکھنے والے 7 سیاح ہلاک ہوگئے جب کہ دیگر ایک درجن سے زائد زخمی ہوئے۔ شام دیر گئے ڈی آئی جی پولیس نے ایک بیان میں اس قابل مذمت واقع کے بارے میں جان کاری فراہم کرتے ہوئے کہا کہ بقول ان کے بندوق برداروں نے پولیس کی ایک پارٹی کو نشانہ بنانے کی کوشش کی جس کی زد میں مذکورہ یاتری بس آگئی۔ انہوں نے واضح کردیا کہ حملہ بس پر نہیں بلکہ پولیس پارٹی پرہوا تھا، بس کراس فائرنگ کی زد میں آگئی۔ ابھی اس سانحہ کی گونج ہی سنی جارہی تھی کہ فورسز ایجنسیوں نے اس واقعے کے لیے لشکر طیبہ کو قصور وار ٹھہرایا جب کہ لشکر طیبہ نے اپنے ایک بیان میں فائرنگ کے اس افسوس ناک واقعے سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے اِسے انڈین ایجنسیوں کا کیا دھرا بتایا۔اس انسان دشمن کارروائی میں کون لوگ ملوث تھے اور اس پراسرار واقعے کی حقیقت حال کیا ہے ، اس سے قطع نظر عام لوگوں کے لیے یہ سانحہ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی معمہ ہی بنا رہے گا کیونکہ اس طرح کے اکثر سانحات میں فریقین کی جانب سے الزامات اور جوابی الزامات کا ہی سلسلہ چلتا رہتا ہے جن کے پس پردہ حقائق ہمیشہ چھپے ہی رہتے ہیں۔ البتہ اس افسوس ناک واقعے کو لے کر کشمیری قوم سے تعلق رکھنے والے تمام مکاتبِ فکر نے اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ان ہلاکتوں کی شدید الفاظ میں بھرپور مذمت کی۔ عام کشمیریوں نے ان شہری ہلاکتوں پر برملا اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے اس سانحے کی کسی غیر جانبدار ایجنسی سے تحقیقات کرانے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔یہاں کی سیاسی و مذہبی جماعتوں کے علاوہ علمائ، دانشور اور سول سوسائٹی سے جڑا ہر طبقہ ان ہلاکتوں کے حوالے سے یک زبان ہوکر ایسی تمام گھناو ¿نی کارروائیوں کو انسان دشمن قرار دے ر ہا ہے۔ انسانیت کی اعلیٰ و ارفع مثالیں ا ±س وقت دیکھنے کو ملیں جب کھنہ بل علاقے میں فائرنگ کے بعد مقامی نوجوانوں نے نہ صرف زخمیوں کو نکال کر ہسپتال پہنچایا بلکہ ا ±ن کے لیے اپنے خون کے عطیات دینے میں بھی یہ کشمیری نوجوان ایک دوسرے پر سبقت لینے کی کوششیںکرتے ہوئے دیکھے گئے۔یہ پہلا موقع نہیں ہے جب ستم رسیدہ کشمیری عوام بالخصوص نوجوانوں نے جان کی بازیاں لگا کر انسانی بنیادوں پر غیر ریاستی شہر یوں بشمول یاتری کی مدد کی ہو۔ گزشتہ چند برسوں کا ہی اگر جائز ہ لیا جائے تو دنیا نے دیکھ لیا کہ کس طرح2014کے بھیانک سیلاب میں کشمیریوں نے یہاں سیلاب میںپھنسے ہزاروں غیر ریاستی مزدوروں کو سیلابی علاقوں سے نکال کر ہفتوں ا ±ن کے لیے کھانے پینے اور رہائش کا مفت انتظام کیا۔ جب بھارتی فوج کے اسپیشل یونٹ (NDRF)جانب داری کا مظاہرہ کرکے گنے چنے غیر ریاستی اور سرکاری لوگوں کو سیلاب زدہ علاقوں سے نکال رہے تھے، ا ±س وقت سامبورہ پلوامہ میںمقامی نوجوانوں نے جان کی بازی لگا کر سی آر پی ایف کے ایک پورے کیمپ کو ڈوبنے سے بچا لیا۔جولائی2016کی عوامی ایجی ٹیشن میں جب وادی کے چپے چپے پر سخت کرفیو نافذتھا اور نوجوانوں کا خون بڑی ہی بے دردی کے ساتھ بہایا جارہا تھا تو بجبہاڑہ میں ایک یاتری بس کا صبح کے اوقات میں حادثہ پیش آیا، درجنوں یاتری گاڑی کے اندر پھنسے ہوئے تھے۔ ا ±ن کی چیخ و پکار پر سڑک کنارے ڈیوٹی پر مامور وردی پوش کان دھر رہے تھے نہ ا ±ن کے ساتھ دیگر بسوں میں سوار یاتری رک کر ا ±ن کی مددکرنے کی زحمت گوارا کررہے تھے۔ یہ حال دیکھ کر ا ±سی وقت مقامی بستی کے نوجوانوں نے وردی پوشوں کی گولیوں کی پروا نہ کرتے ہوئے اورکرفیو توڑ تے ہوئے ا ±ن بے یارو مدد گار یاتریوں کو گاڑی سے نکال کر نہ صرف ہسپتال پہنچایا بلکہ وہاں پر اپنے زخمی ہوئے نوجوانوں کے لیے عطیہ کیا ہوا خون ان زخمی یاتریوں کو فراہم کیا۔ کشمیریوں کے اس جذبہ ہمدردی و انسانیت کو دیکھ کر ا ±س بس میں پھنسی ”ٹائمز آف انڈیا “کی ایک خاتون صحافی نے پھر برملا لکھ دیا تھاکہ” کشمیریوںجیسا انسان دوست کہیں اور دیکھنے کو نہیں مل سکتا ہے۔“جو آرمی یہاں کے نوجوانوں کا انسانی ڈھال بناکر اپنی ان غیر انسانی کارروائیوں کو فخراً جتلاتے ہیں اور اس پر ا ±نہیں اعلی اعزازات سے نوازا جاتا ہے، ا ±سی آرمی کی ایک گاڑی جب 2016 کے عوامی احتجاج کے دوران لسجن سرینگر میں حادثے کا شکار ہوجاتی ہے تو یہ مقامی کشمیری نوجوان ہوتے ہیں جو زخمی پڑے فوجیوں کو گاڑی سے نکال کر ہسپتال پہنچاتے ہیں۔ ابھی دو ہفتے قبل جب ایک یاتری بس میں کھانا پکانے کے دوران گیس سلینڈر کا بلاسٹ ہوا اوراور سانحہ کو لے کر دلی کی چینلیں کشمیریوں پر الزام تراشیاں کرنے میں جٹ گئیں، ا ±س وقت یہ انسان دوست مقامی کشمیری ہی تھے جنہوں نے ا ±س بس سے یاتریوں کو نکال لیا اور زخمیوں کو ہسپتال پہنچایا۔غرض کشمیری قوم کبھی بھی تعصب، تنگ نظری، فرقہ پرستی اور نسل پرستی کا شکار نہیں رہی ہے۔ کشمیر کے لوگ مظلومیت کے باوصف انسانیت کے علمبردار ہیں، انسانی بنیادوں پر انسانیت کا د ±کھ درد سمجھنے میں دیر نہیں کرتے ہیں۔ 
موت کا یہ تانڈو ناچ کتنا تکلیف دہ ہوتا ہے، یہ ہم کشمیریوں سے زیادہ کس کو معلوم ہوگا، کیونکہ ہم آئے روز اپنے جگر گوشوں کی خون میں لت پت لاشوں کو کندھا دیتے ہیں۔ ہمیں گجرات کی ان سوگوار خاندان کے د ±کھ درد اور غم کابخوبی احساس ہے جن کے عزیز و اقارب بدقسمتی سے کھنہ بل کے اس دلدوزسانحہ میںاپنی جان گنوا بیٹھے۔بحیثیت قوم جب بھی ہم اس نوع کی ہلاکتوں پر د ±کھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہیں تووہ رسمی نہیں ہوتا بلکہ ہم ان کے تکلیف کو دل وجان سے محسوس کرتے ہیں اور جان وتن سے متاثرین کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرکے ا ±ن کے غم میں حقیقی معنوں میں شریک وسہیم ہوجاتے ہیں۔ہم بھارتی میڈیا اور وہاں کے فرقہ پرست سیاست دانوںکی طرح انسانی جانوں کے زیاں پر روٹیاں نہیں سینکتے اورنہ ہی دکھوں اور المیوں کے نام پر اپنی کوئی سیاسی دوکان چلاتے ہیں۔بھارتی میڈیا اور وہاں کے سیاست دانوں کے ساتھ ساتھ یہاں کے ہند نواز بھی ایسے موقعوں کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ ا ±نہیں انسانی جانوں کے زیاں کا افسوس نہیں ہوتا بلکہ یہ مگر مچھ کے آنسوں بہاکر ایک ہاتھ خود کو دودھ کا دھلا پیش کر تے ہیں اور دوسرے ہاتھ مقامی آبادی کے خلاف اشتعال پیدا کرکے دل کے پھپھولے پھوڑ تے ہیںاور ووٹ بنک سیاسی فائدہ سمیٹنے میں لگے رہتے ہیں۔ یہی روش نوہٹہ میں پولیس کے ایک ڈی ایس پی کی نامعلوم بھیڑ کے ہاتھوں صدمہ خیز ہلاکت کے موقعے پر بھی اختیار کی گئی اور وہی انداز آج ان یاتریوں کی ہلاکت پر بھی اپنایا جارہا ہے۔حالانکہ کشمیری من حیث القیوم جس طرح آج انسانی جانوں کے زیاں پر یک زبان ہوکر اس سانحہ کی مذمت کے لیے آگے رہے ، ا ±سی طرح ڈی ایس پی ایوب پنڈت کی ہلاکت پر بھی یہاں عوام الناس نے بحیثیت قوم اپنی ناراضگی ، غم او ر غصے کا برملا اظہار کیا۔ہندنواز جماعتوں نے جن پوسٹر بوائز کو اپنے صفوں میں مراعات دے دے کر شامل کیا ہوا ہے، انہوں نے ان دونوں سانحات پر سوشل میڈیا پر سرگرم ہو کر کشمیری قوم اور یہاں کے لوگوں کی جذبہ ¿ انسان دوستی کو خوب بدنام کرنے کی کوشش کی لیکن آسمان کی جانب تھوکنے کے نتیجے میں آسمان کی عظمت کا کیا بگڑسکتاہے ،البتہ تھوکنے والے کا اپنا ہی چہرہ نشانہ ¿ تضحیک بن جاتا ہے۔ہندوستانی الیکٹرانک میڈیا نے کشمیری عوام کو بدنام کرنے کے لیے کیا کچھ نہیں کیا؟ نامی گرامی فرقہ پرست ذہنیت کے صحافیوں نے کیا کیا گالیاں اس قوم کو نہ دیں؟ کسی نے کہا کہ کشمیریوں نے اخلاقی رتبہ کھو دیا تو کسی نے کہا کہ کشمیریوں کی فطرت میں تشدد بھرا پڑا ہے۔ کسی نے پوری کشمیری قوم کو پاکستان بھیجنے کی وکالت کی تو کسی نے کشمیریوں کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے ا ±نہیں دریا میں بہانے کا مشورہ دے کراپنی کند ذہنی اور حواس باختگی کا مظاہرہ کیا۔کسی نے کشمیریوں کا مسلمان ہونا تمام برائیوں کی جڑ قرار دیامگر ناقابل تردیدحقائق یہی ہیں کہ کشمیر یوں کے بارے میں چاہئے ہندتوا والے لاکھ منفی پروپیگنڈا کریں، چاہیے ہندوستانی میڈیا برکھادتوں اور ارناب گوسوامیوں کے ذریعے سے اپنے ملک کے تمام تر مسائل سے نظریں چرا کر چوبیسوں گھنٹے کشمیر، کشمیریوں اور یہاں کی تحریک کو بدنام کرنے کی مہمیں چلائے، کشمیری قوم کی انسان دوست اعلیٰ و ارفع خصوصیات نہ کبھی دنیا کی نظروں سے اوجھل رہیں گی اور نہ ہی کبھی کشمیریوں میں یہ مثبت صفات مفقود ہوسکتی ہیں۔
کھنہ بل میں یاتریوں کا خون بہہ جانے کے فوراً بعد ہندوستان میں چند فرقہ پرست طاقتوں نے اسے فرقہ وارانہ رنگ دینے کی ناکام کوشش کی لیکن جلد ہی اہالیانِ کشمیر کی جانب سے مثبت ردعمل سامنے آجانے کے نتیجے میں کشمیرمخالف طاقتوں کو رسوائی کا سامنا کرنا پڑا۔ پھر بی جے پی حکومت کے سینئر لیڈروں کو بھی بادل ناخواستہ کشمیریوں کی امن پسندی کا اعتراف کرنا پڑا۔ ہندوستانی ہوم منسٹر راجناتھ سنگھ، وزیر اعظم ہندکے معتمد خاص جتندر سنگھ اور ریاست جموں وکشمیر کی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے کھنہ بل سانحہ کے فوراً بعد وہاں عوام کی جانب سے زخمیوں کی مدد کر نے ، ا ±نہیں خون کے عطیات دینے اور پھر زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی جانب سے اس سانحہ کے بارے میں رنج و غم کا اظہار کرنے پر اس کو”کشمیریت“ کی جیت قرار دیا۔ کسی نے کشمیریوں کے اس مثبت کردار کویہاں کی ”سیکولر روایات“ کے ساتھ نتھی کردیا ، کسی نے اِسے صوفیوں اور سنتوں کی تعلیمات کا اثر بتایا۔ حالانکہ حقیقت حال یہ ہے کہ نہ ہی کشمیری قوم میں یہ صفات مفروضوں پر مبنی کسی ” کشمیریت “ سے پیدا ہوئی ہیں اور نہ ہی یہاں کے لوگ”سیکولر“ نظریات سے درسِ انسانیت لیتے ہیں۔ یہاں کی مجموعی آبادی کا بیشتر حصہ اسلام ماننے والے ہیں۔ اسلام ہمارا نظریہ ¿ حیات ہے۔ ہمارا ایمان اور یقین ہے کہ اسلام کی تعلیمات ہی آفاقی تعلیمات ہیں اور سچائی پر مبنی ہیں۔ ہمارا دین ہم سے کہتا ہے کہ ”جس کسی نے ایک بے گناہ انسان کا قتل کیا ہے، ا ±س نے گویا پوری انسانیت کا قتل کیا ہے“اور یہی ہمارا انسانیت کے احترام کے تئیں ”سلوگن“ ہے۔ یہ ہمارا یقین و ایمان ہی نہیںہے کہ اسلام کی بدولت ہی ہمارے اندر انسان دوستی کا جذبہ پایا جاتاہے بلکہ تاریخ کا بے عیب فتویٰ بھی یہی ہے۔کشمیریوں کی انسانی ہمدردی کو ”کشمیریت، سیکولرازم یا کسی اور ازم“ سے جوڑنا احمقانہ سوچ اور ماوارئے حقیقت ادعا ہے جب کہ اصلیت یہ ہے کہ ہماری ہر اچھی صفت کا کریڈٹ اسلام کو جاتا ہے جس کی تعلیم وتدریس میں علماءکرام ، دوستان ِ خدا ، بزرگان کا ہراول دستہ پیش پیش رہا اور یہ ان کی بے لوث محنتیں ہیں جن کے زیر اثر بار بار کشمیری قوم انسان دوستی کے ثبوت وشواہد پیش کر تی رہی ہے۔آج جو لوگ ”کشمیریت“ کے گن گاتے نہیں تھکتے ہیں، وہیں لوگ گزشتہ کئی ماہ سے کشمیریوں کو دھمکیاں دیتے تھے۔ کوئی ہمارے نوجوانوں کو”سنگ باز “ قرار دے کر ا ±نہیں گولی مار دینے کی دھمکی دیتا ، کسی نے ہماری نسلوں کو”منشیات “ کا عادی قرار دیا۔خود ریاست کی وزیر اعلیٰ صاحبہ نے بھی گزشتہ ماہ کشمیری قوم کو وردی پوشوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے کی صورت میں انجام بھگتنے کی دھمکی تک دے ڈالی۔ کشمیریت کشمیریت کی رٹ لگانے والے یہ لوگ انسانی جانوں پر اقتداری سیاست کرتے ہیں جب کہ کشمیری قوم کا دینی عقیدہ یہ ہے کہ انسانی جان ہر حال میں محترم ہے اور کسی بھی اپنے پرائے کی جاں کے زیاں پر ہمارے دل چھلنی ہونے چاہیے۔ سیکولرازم کی بات کرنے والوں سے پوچھا جاسکتا ہے کہ آپ کے اس سیکولر ازم کا کیا ہوجاتا ہے جب ہندوستان بھر میں آپ مسلمانوں کو نشانہ بناکر ا ±نہیں جان سے مار دیتے ہیں؟ جب بھری ٹرین میں ایک جنید خان کو سینکڑوں سواریوں کی موجودگی میں موت کی گھاٹ ا ±تار دیا جاتا ہے توآپ کے عوام کی سیکولر روایات کو کیوں سانپ سونگھ جاتا ہے؟جب فوج یہاں نہتے اور بے گناہ لوگوں کا قتل عام کرتی ہے تو ا ±س وقت آپ سیکولر روایات کو فراموش کرکے فرقہ پرست کیوں بن جاتے ہیں؟
کھنہ بل واقعے کے حوالے سے کشمیرمیں بیشتر آوازیں ا ±بھری ہیں کہ اس سانحہ کی کسی غیر جانبدار ایجنسی سے تحقیقات کرائی جائے۔جانبداری کا مظاہرہ کرنے کے بجائے غیرجانبدارنہ طریقے سے حقائق کو سامنے لانے کی ضرورت ہے کیونکہ سکے کے ایک ہی ر ±خ کو دیکھنے سے اکثر الاوقات اصل مجرم بچ جاتے ہیں۔اس حوالے سے سوشل میڈیا پر گردش کررہے کئی ہندوستانی ذمہ دارافراد اور سیاست دانوں کی رائے بھی اہمیت کی حامل ہے۔ گجرات سے تعلق رکھنے سابق آئی پی ایس آفیسر سنجو بھٹ سے منسوب ایک ٹویٹ میں ا ±نہوں نے لکھا” 2000 ءمیں پہلگام میں72یاتری ہلاک ہوگئے اور2017 ءمیں سات یاتری مارے گئے۔ دونوں موقعوں پر دلی میں بی جے پی کی سرکار براجمان تھی۔ درمیان میں یاتریوں پر کوئی حملہ نہیں ہوا؟“اسی طرح کی بات کمیونسٹ پارٹی کے سیتا رام یچوری سے بھی منسوب ہے اور دیگر کئی ذمہ دار ہندوستانی بھی کھنہ بل سانحہ کو مشکوک نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ہمارے سامنے مثالیں موجود ہیں کہ کس طرح یہاں ماضی میں بہت سارے ایسے ڈرامے رچائے گئے ہیں۔مثال کے طور پر1995 ءمیں غیر معروف تنظیم الفاران نے پانچ مغربی سیاحوں کا اغوا ءکیا تھا جنہیں بعد میں غائب ہی کردیا گیا۔ا ±ن کے بارے میں تاحال یہی کہا جارہا ہے کہ ا ±نہیں مہمان جنگجوو ¿ں نے ہلاک کردیا ہے لیکن دو برطانوی مصنفین اینڈرین لیوی اور کیتھی اسکارٹ نے کافی تحقیق کے بعد اپنی ایک کتاب Meadows The میں یہ سنسنی خیز انکشاف کیا کہ ان مغربی سیاحوں کو بھارتی فوج کی چھتر چھایہ میں کام کرنے والے منحرف بندوق برداروں نے ہلاک کردیا تھا اور الزام نامعلوم جنگجوو ¿ں کے سر تھوپ دیا گیا۔ چھٹی سنگھ پورہ اور براکپورہ کے دلدوز المیے بھی مشکوک الحقیقت سانحات قرار دئے گئے ہیں۔اس لیے ایسے خون آشام واقعات میں غیر جانبدار بین الاقوامی تحقیقاتی ایجنسیوں سے تحقیقات کرانا لازمی بن جاتا ہے تاکہ حقائق کا پردہ فاش کیا جاسکے اور قصورواروں کو بے نقاب کرکے انہیں کیفر کردار پہنچا یا جاسکے۔باقی کشمیری عوام خونین شب و روز کا عذاب بہت سہہ چکے ہیں اور سہہ بھی رہے ہیں، ہم اپنوں کے بچھڑنے کا درد جانتے ہیں، اس لیے یہ قوم کبھی بھی نہیں چاہے گی کہ کوئی بھی انسان چاہے ا ±س کا تعلق کسی بھی مذہب، رنگ اور نسل سے ہو، جرم بے گناہی میں مارا جائے۔ ہم ا ±ن تمام بھارتیوں سے جنہوں نے ان یاتریوں کے مارے جانے پر اپنی د ±کھ کا اظہار کیا ہے ، سے یہ امید رکھتے ہیں کہ وہ اپنے اس جذبہ ¿ انسانیت کو برقرار رکھیں اور اِسی طرح ان سینکڑوں بے گناہ کشمیریوں کو جرم بے گناہی میں ابدی نیند سلادینے پر بھی کھل کر بولیں جنہیں وردی پوشوں نے گزشتہ کئی برسوں سے اپنی گولیوں کا شکار بنالیا اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو ا ±ن کی بیان بازی اور سینہ کوبی بے معنی اور منافقانہ ہی قرار پاتی ہے۔ 

Comments

Popular posts from this blog

لندن کی کشمیر کانفرنس۔۔۔ ایس احمد پیرزادہ

پبلک سیفٹی ایکٹ اور نیشنل کانفرنس....ایس احمد پیرزادہ