سول آبادی اور جھڑپیں

سول آبادی اور جھڑپیں

جا بہ جا مقتل بنے ہیں میرے دیس میں


ایس احمد پیرزادہ
یکم جولائی کو جنوبی کشمیر میں دیالگام اسلام آباد علاقے میں ایک اور خونین جھڑپ میں دو عسکریت پسندوں اور دو عام شہریوں کو جاں بحق کردیا گیا۔ عام لوگوں نے فورسز پر الزام عائد کیا انکاونٹر والی جگہ پر انہوں نے مبینہ طور پر گاؤں والوں کو انسانی ڈھال بنا دیا۔ گزشتہ کئی ماہ سے یہ خطرناک روایت قائم کی جارہی ہے کہ جھڑپ والی جگہ پر فورسز اہلکار عام لوگوں کو راست گولیوں کا نشانہ بناکر انسانی جانوں کا زیاں کررہے ہیں۔ دیالگام کی اس جھڑپ میں فورسز نے ایک۴۴؍برس کی خاتون طاہرہ بیگم اور ایک ۲۱؍سال کے نوجوان شاداب احمد چوپان کو گولی مار کر ابدی نیند سلا دیا گیا ہے۔ یہ ایک خطرناک سلسلہ چل پڑا ہے جس میں عام شہریوں کو نشانہ بنایا جاتاہے۔ پہلے سویلین آبادی کو نشانہ بنانے پر دکھاوے کے لیے ہی سہی لیکن ہند نواز جماعتیں بھی واویلا کرتی تھیں ، لیکن اب جب کہ نسل کشی کے اس خطرناک سلسلہ کو روز کا معمول بنالیا گیاہے ۔ہر سُو ہندنواز لیڈران کو جیسے سانپ سونگھ جاتا ہے کہ وہ اس صریحی ظلم وتشدد پر جان بوجھ کر چپ سادھے ہوئے ہیں۔ایسا ماحول تیار کیا گیا ہے کہ انسانی ذہن بھی اب انکاونٹر والی جگہوں پر عام نوجوان کے جان بحق ہونے اور زخمی ہونے کو قبول کررہے ہیں۔ کوئی خاص ردعمل سامنے نہیں آتا ہے اور نہ ہی کوئی ہنگامہ برپاہوجاتا ہے۔ فوج اور دیگر ایجنسیاں بھی اب روز بروزعام لوگوں کو گولی مار دینے میں جری ہوتی جارہی ہیں، گویاعوام کے خلاف بغیر اعلان کے جنگ چھیڑ دی گئی ہے۔ دنیانے اپنی آنکھوں پر مفادات کی پٹی تو پہلے ہی چڑھا لی ہے ،ستم ظریفی تو یہ ہے کہ اندرون خانہ بھی قتل عام کے اس سلسلہ کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کیے جانے کی خطرناک روش چلا پڑی ہے۔
۱۵؍فروری کو ہندوستانی آرمی چیف جنرل بپن راؤت فرصل کولگام میں انکاؤنٹر وںکے تناظر میں ایک بیان دیتے ہیں جس میں وہ انکاونٹر والی جگہوں پر احتجاج اور سنگ بازی کرنے اور احتجاجی جلسوں میں پاکستانی جھنڈا لہرنے والوں کو خبردار کرتے ہیں کہ اگر اُنہوں نے اپنا طرز عمل تبدیل نہیں کیا تو اُن میں اور عسکریت پسندوں میں کوئی تمیز نہیں کی جائے گی۔اُن کے اس بیان کی حمایت دلی میں قائم بی جے پی سرکار اور دیگر ایجنسیوں سے وابستہ ذمہ دار لوگوں نے بھی کی ہے۔ ۲۸؍مئی کو انہوں نے ایک اور بیان میں کہا کہ اُن کی فوج کشمیر میں گندی جنگ لڑ رہی ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ:’’ ہماری خواہش ہے کہ سنگ بازپتھروں کے بجائے گولیاں ہی چلاتے۔‘‘ مطلب گولیوں کے جواب اور آڑ میںاُن کی فوج کو کشمیر کی مجموعی آبادی کاقتل عام کرنے کا بہانہ مل جاتا ۔ جنرل بپن راؤت کے بیان کو بھارتی میڈیا نے ’’دھرم یدھ‘‘ قرار دے کر کشمیری عوام کے خلاف خطرناک ماحول تیار کیا اور اس آگ و خون کے کھیل کو بھارتی فرقہ پرست سیاست دانوں نے بھی سلگانے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔کس طرح عام شہریوں کو انکاونٹر کی آڑ میںبلاجھجک گولیوں سے بھون دیا جاتا ہے ، اور کس طرح جنرل بپن روات کی دھمکی کو عملایا جارہا ہے اس کی چند مثالیں حسب ذیل ہیں۔
۲۰۱۶ء؁ عام شہری ہلاکتوں کے سلسلے کاسیاہ ترین سال رہا ہے۔ دوران سال پہلے ماہ اپریل میں ہندواڑہ اور کپواڑہ کے علاقوں میں ایک مقامی لڑکی کے ساتھ مبینہ طور پر فوجی اہلکار کی دست درازی کے بعد جب مقامی لوگوں نے احتجاجی مظاہرے کیے تو وردی پوشوں نے کئی دن کے احتجاج میں پانچ عام نوجوانوں کو گولی مار کر ابدی نیند سلادیا تھا۔ اقبال احمد پیر والد فاروق احمد پیر(عمر۲۱؍سال) ساکن شالہ پورہ درگمولہ، ابھرتا ہوا کرکٹرنعیم قادر بٹ ولد غلام قادر بٹ (۲۲ سال) ساکن ہندواڑہ،راجہ بیگم زوجہ عبدالغفار (عمر ۷۰ سال) ساکن لنگیٹ، جہانگیر احمدوانی(۲۴؍سال) ساکن نگری،عارف حسین ڈار ولد غلام محی الدین ڈار (۱۸؍سال)ساکن نننوسہ کپواڑہ، شوکت احمد گنائی (۲۲؍سال) ساکن کلاروس کپواڑہ کو وردی پوشوں نے جرم بے گناہی میں موت کی گھاٹ اُتارکر ناانصافی اور ظلم و جبر کی مثال قائم کی۔ 
۸؍جولائی۲۰۱۶ء؁ کے تاریخی سانحہ کے بعد وادی کے طول و عرض میں موت کا تانڈو ناچ شروع کردیا گیا۔ ہر روز کئی نہ کئی لاشیں گرتی تھیں، کہیں کسی معصوم کو جان سے مار دیا جاتا ہے تو کہیں کسی اَدھ کھلے پھول کی آنکھوں کی روشنی چھین کراُس کی دنیا کو تاریک بنایا جاتا تھا۔ کسی کے لاڈلے کو اپاہچ بنایا جاتا تھا تو کسی کی لاڈلی بیٹی کو پیلٹ اور گولیوں سے بھون دیا جارہا تھا۔ پانچ ماہ مسلسل یہ خونی کھیل چلتا رہا جس میں ایک سو کے قریب نوجوان موت کی گھات اُتار دئے گئے ، پندرہ ہزار کے قریب لوگ زخمی ہوگئے اور ایک ہزار کے قریب نوجوان لڑکے اور لڑکیاں آنکھوں کی بصارت سے جزوی یا مکمل طور پر محروم کر دئے گئے ہیں۔
ایک اور خونین تانڈو اپریل ۲۰۱۷ء؁ میں اُس وقت کھیلا گیا جب وسط کشمیر میں ضمنی پارلیمانی انتخابات کرائے گئے تھے۔ ایک دن میں ضلع بڈگام اور گاندربل میں آٹھ لوگوں کی جان لی گئی۔ جان بحق کیے جانے والوں میں فیضان احمد ڈار ساکن راتھر پورہ ڈلوان پکھر پورہ، عباس جہانگیر والد فتح محمد ساکن پکھر پورہ، نثار احمد والد غلام محمد ساکن رٹھسونہ بڈگام، شبیر احمد بٹ ولد غلام محمد ساکن دولت پورہ بڈگام، عادل فاروق ولد فاروق احمد ساکن کاوسہ بیروہ، عقیل امین ساکن چرمجرو بیروہ، عامر منظور ولد منظور احمد ساکن ڈاڈوہ چاڈورہ، محمد فاروق گنائی ساکن بارسو گاندربل شامل تھے۔
انکاونٹر والی جگہ پر نوجوانوں کو راست گولیوں کا نشانہ بنانے کا عمل اگر چہ دہائیوں پرانا ہے البتہ فروری۲۰۱۶ء؁ سے اس کو ایک الگ طریقے سے منظم انداز میں از سر نو شروع کیا گیا ہے۔ ۲۱؍جنوری ۲۰۱۶ء؁ کو نائینہ پلوامہ میں جھڑپ کے مقام پر احتجاجی نوجوانوں پر گولیاں چلا کر فوج نے ایک مقامی نوجوان پرویز احمد گورو ولد غلام قادر گورو کو موقع پر ہی جاں بحق کردیا۔۱۵؍فروری ۲۰۱۶ء؁ کو کاکا پورہ پلوامہ میں فورسز اور جنگجوؤں کے درمیان ایک معرکہ آرائی کے دوران وردی پوشوں نے دو سویلین کو نشانہ بناکر اُنہیں جان بحق کردیا۔ جان بحق ہونے والوں میں ۱۹؍سالہ دانش رشید ساکن رتنی پورہ اور ۲۲؍سالہ شائستہ حمید ساکن للہار شامل تھیں۔یہ آغاز تھا انکاونٹر والی جگہوں پرعام شہریوں کی جان لینے کا، اس کے بعد یہ سلسلہ ہی چل پڑا تھا۔ ۸؍ دسمبر۲۰۱۶ء؁ کو آرونی میں ایک جھڑپ کے دوران ۲۴؍سال کی عمر کا عارف احمد شاہ ساکن گنڈ بابا خیل سنگم راست گولی کی زد میں آکر ابدی نیند سو گیا۔
۱۲؍فروری ۲۰۱۷ء؁ کو ضلع کولگام کے فرصل علاقے میں ایک خونین معرکہ آرائی کے دوران فوج نے دو مقامی افراد کو گولی مار کرجاں بحق کردیا ۔ جان بحق ہونے والوںمیں مشتاق ابراہیم یتو ولد محمد ابراہیم یتو( عمر ۲۲سال) ساکن ہٹی گام سرگفوارہ، اور اشفاق مجید ریشی ولد عبدالمجید ریشی (عمر ۳۸؍سال) ساکن فرصل شامل ہیں۔ ۲۳؍فروری ۲۰۱۷ء؁ کو ۵۳؍سالہ تاجہ بیگم کو آرمی نے اُس وقت رات کی تاریکی میں ابدی نیند سلا دیا جبکہ ضلع شوپیان کے مولو چھتراگام علاقے میں فورسز اہلکاروں پر جنگجوؤں نے فائرنگ کی۔ فورسز اہلکاروں نے طیش میں آکر نہ صرف املاک کی توڑ پھوڑ کی بلکہ آس پاس کے مکانات پر اندھا دھند گولیاں برسا کر تاجہ بیگم کو جان بحق کردیا۔
۹؍مارچ ۲۰۱۷ء؁ کو پلوامہ کے علاقے میں ایک اور خونین معرکہ آرائی کے دوران دو نوجوانوں کو نشانہ بنایا گیا۔ ۱۵؍برس کے عامر نذیر ساکن بیگم باغ کاکہ پورہ کو انکاونٹر والی جگہ سے آٹھ کلو میر دور اپنے گاؤں میں نشانہ بنایا گیا جبکہ ۱۹؍سالہ جلال الدین گنائی ساکن ٹہاب پلوامہ کی موت زبردست شلنگ اور دم گھٹنے کی وجہ سے واقع ہوئی۔۱۵؍مارچ کو شمالی کشمیر کے ہایہامہ کپواڑہ میںایک انکاونٹر کے دوران آرمی کی گولیوں کا شکار ایک ۷؍برس کی ایک معصوم بچی کنیزہ ساکن بٹہ پورہ ہایہامہ کپواڑہ بنی اور انہیںاپنی زندگی کی چند بہاریں ہی دیکھ کرجان سے مار ڈالا گیا۔۲۸؍مارچ ۲۰۱۷ء؁ کو ضلع بڈگام کے چاڈورہ علاقہ میں جھڑپ کے مقام پر مزید تین عام شہریوں ۲۴؍سالہ زاہد رشید گنائی ساکن باربگ چاڈورہ، ۱۸؍سالہ عامر فیاض وازہ ساکن وازہ محلہ واتھورہ اور ۲۴؍سالہ اشفاق احمد وانی ساکن رنگریٹ کو راست گولیاں مار دی گئی اور یہ تینوں نوجوان موقع پر ہی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
کشمیر میں فوجی اہل کار مقامی ڈرائیوروں سے زبردستی گاڑیاں حاصل کرتے ہیں حالانکہ فوج کے پاس سفری سہولیات میسر ہوتی ہیں لیکن جان بوجھ کر مقامی ڈرائیور کو خطرناک جگہوں پر لے جاکر اُن کی جان کے لیے خطرہ پیدا کیا جاتا ہے۔ گویا ان غریب ڈرائیور کو انسانی ڈھال بنایا جارہا ہے۔ ایسے ہی ایک واقعے میں ایک سومو گاڑی کو فورسز اہلکار ڈرائیور سمیت اپنی تحویل میں لیتے ہیں، وہ گاڑی میں سوار ہوجاتے ہیں اور شوپیان کے امام صاحب علاقے میں گاڑی پر نامعلوم افراد فائرنگ کرتے ہیں۔ فائرنگ میں گاڑی کا ڈرائیور نذیر احمد شیخ جان بحق ہوجاتا ہے۔۵؍مئی کو کپواڑہ میں فورسز کیمپ پر فدائن حملہ کے بعد جب مقامی آبادی نے جنگجوؤں کی لاشوں کا مطالبہ کرنے کے لیے احتجاجی مظاہرہ کیا تو فوج نے مظاہرین پر اپنی بندوقوں کے دہانے کھول دئے جس کے نتیجے میں ایک۶۰؍سالہ بزرگ شخص محمد یوسف بٹ ساکن پنزگام کپواڑہ جاں بحق ہوگیا۔۲۸؍مئی ۲۰۱۷ء؁ کو ترال میں معروف عسکری کمانڈر سبزار احمد بٹ کے ساتھ فورسز اہلکاروں کی معرکہ آرائی کے دوران فورسز نے عام نوجوانوں پر گولیاں چلاکر ایک نوجوان حافظ قرآن عاقب مولوی جو مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے ریاست سے باہر جانے کی تیاریاں کررہا تھا کے ارمانوں کا جنازہ نکال کر اُنہیںہمیشہ ہمیشہ کے لیے ابدی نیند سلادیا۔۷؍جون کو شوپیان کے گناؤ پورہ دیہات میں جب لوگ افطاری کی تیاری کررہے تھے تو فورسز نے گاؤں کو محاصرے میں لے کر زبردست شلنگ کرکے خوف ودہشت کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی۔ فورسز اہلکاروں نے املاک کی توڑ پھوڑ بھی کی۔ اس پر مقامی لوگوں میں اشتعال پیدا ہوگیا اور وہ گھروں سے باہر آکر احتجاج کرنے لگے۔ فورسز اہلکاروں نے اپنے بندوقوں کے دہانے کھول کر متعدد روزہ دار مسلمانوں کو زخمی کردیا۔ ایک ۱۶؍سال کا نوجوان عادل فاروق ماگرے راست گولی لگنے سے اپنے مالک حقیقی سے جاملے۔
۱۵؍جون کوشام دیر گئے سرینگر کے رنگریٹ علاقے میں ایس ایس بی اہلکاروں نے نوجوانوں کی ایک ٹولی پر راست بندوق کے دہانے کھول دئے، جس کے نتیجے میں اشٹنگو بانڈی پورہ کے ایک نوجوان نصیر احمدشیخ(۲۵؍سال) کے سینے میں گولی لگی ۔ نصیر کو اگر چہ جی وی سی پہنچایا گیا لیکن وہاں وہ رات دیرگئے زخموں کی تاب نہ لاکر اس جہانِ فانی سے رحلت کرگیا۔ نصیر احمد ویلڈر کام کرتے تھے۔نصیر احمد کی چند ماہ قبل ہی شادی ہوئی تھی اور وہ باپ بننے والے تھے۔۱۶؍جون کوضلع اسلام آباد کے آرونی علاقہ میں عسکریت پسندوں اور فورسز کے درمیان ایک گھمسان کی جھڑپ ہوئی۔ اس موقع فورسز اہلکاروں کی فائرنگ سے پانچ عام شہری شدید زخمی ہوگئے، جس میں سے ایک 22 برس کا محمد اشرف ساکن خار پورہ زخموں کی تاب نہ لاکر ابدی نیند سو گیا۔اس جھڑپ میں فوج کی راست فائرنگ سے ایک اور نوجوان ۱۴؍برس کا احسان مشتاق ڈار ولد مشتاق احمد ڈار ساکن شمس پورہ کیموہ کولگام بھی جان بحق ہوگیا۔ارونی میں ہوئی اس جھڑپ کے دوران ۳۰؍نوجوان زخمی بھی ہوگئے جن میں کئی کی آنکھیں متاثر ہوئی ہیں۔
متذکرہ بالا واقعات، سانحات کا تذکرہ کرنے کا بنیادی مقصد اس بات کو واضح کرنا ہے کہ کس طرح ا یک منصوبہ بند پالیسی کے تحت تسلسل مگر بڑی ہی خاموشی کے ساتھ کشمیریوں کی نسل کشی کی جارہی ہے اور آہستہ آہستہ سماج کو اس قتل عام کی تکلیف کو سہنے کا عادی بنادیا جارہا ہے، حالانکہ ایک چھوٹی سی کشمیری قوم کے لیے اس طرح کی نسل کشی کی وارداتیں نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہیں۔ ہمارا انسانی سرمایہ لُٹ رہا ہے، ہماری اُبھرنے والی نوجوانوں کی زندگیاں اجیرن بنادی جاتی ہیں اور ساتھ ساتھ نسل کشی بھی منظم خطوط پر جاری ہے۔ ایک ایسی قوم کے لیے جہاںگزشتہ تین دہائیوں سے قتل و غارت گری کا سلسلہ جاری ہے ،کے لیے سارانقصان قابل تلافی ہے ۔ روز مرہ بنیادوں پر افرادی قوت کا زیاں نہ صرف ہماری کمزوری و بے وقعتی کا سبب بن جانے کا احتمال ہے بلکہ ہم ایسی نسل سے محروم کئے جارہے ہیں جو صلاحیتوں کی مالک ہے ،جو اپنی قوم و ملت کے لیے بہت کچھ کرنے کا حوصلہ رکھتی ہے۔ ہمارے لئے یہ ایک لمحۂ فکریہ ہے اور اس جانب ہمیںاجتماعی سطح پر فوری دھیان دینا چاہیے۔دنیا ہماری تباہی اور بربادی کا تماشہ دیکھ رہی ہے، قومیں اور ممالک اپنے ملکی مفادات اور معاشی ضروریات کے لیے ہمیں مظلوم ومحکوم ہونے کے باوجود ’’دہشت گرد‘‘ تک قرار دینے سے گریز نہیں کر رہی ہیں۔ وہ نہ صرف ہماری نسل کشی کے لیے نہ صرف جوازیت پیدا کررہے ہیں بلکہ ہمارے وجود کوی تکا بوٹی کر نے کے لئے بھارت کو سامانِ حرب و ضرب سے سرتاپالیس کررہے ہیں، اگرچہ ایسا کر تے ہوئے ان کی اسلحہ سازی کی صنعت کو چار چاند لگ جاتے ہیں جب کہ غریب وپسماندہ ملک بھارت کا خزانہ ٔ عامرہ خالی ہورہا ہے۔ویسے کشمیری قوم کے ہمدرد اور غم گسار دلی سے لے کر واشنگٹن  تک موجود ہیں ،البتہ ان میں سے بیشتر ہماری ہی طرح اپنے اپنے گھمبیرمسائل میں الجھے ہوئے ہیں۔ اب یہ ذمہ داری ہماری اپنی ہے، ہمارے دانشوروں اور ذی حس افراد کے ساتھ ساتھ لیڈر شپ کو اس جانب رسمی بیانات کے بجائے ٹھوس بنیادوں پر دھیان دینا چاہیے کہ ہم زیادہ دیر تک نسل کشی برداشت کر نے کے متحمل نہیں ہوسکتے ہیں ، جب کہ ہمارے فریق مخالف یعنی حکومت ہند کے جملہ ادارے کشمیریوں کی نسل کشی کے لیے ایک ہی صفحے پر کھڑے ہیں۔ہمیں اپنے یہاں رائے عامہ کو بیدار کرنے کی اشد ضرورت ہے اور زیر بحث مسئلے پر سنجیدگی کے ساتھ غور وفکرکرنا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔ بصورت دیگر ہم اپنی نوجوان نسل کے قتل عام کا صرف تماشہ ہی دیکھتے رہ جائیں گے اور ہماری یہ انمول پونجی پھسلتی ریت کی ریت کے مانند ہمارے ہاتھ سے پھسل جائے گی۔

Comments

Popular posts from this blog

لندن کی کشمیر کانفرنس۔۔۔ ایس احمد پیرزادہ

پبلک سیفٹی ایکٹ اور نیشنل کانفرنس....ایس احمد پیرزادہ