کشمیر کی بیٹیاں کتنا ظلم سہیں؟

 - 

کشمیر کی بیٹیاں کتنا ظلم سہیں؟

گزشتہ تین دہائیوں کے نامساعد حالات نے کشمیر میں جہاں زندگی کے ہر شعبے کو تہ و بالا کیا، مقامی آبادی کو بہ حیثیت مجموعی متاثر کرکے چھوڑا، وہیں پُر اضطراب حالات کی سب سے زیادہ مار مادر وطن کی بیٹیوں کو سہنا پڑی ہے۔ یہ بات بلا خوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ جنگ زدہ خطہ کشمیر میں ہر حیثیت سے بنت حوا نامساعد حالات کی شکار بنتی رہی ہے اور ظلم کی حد یہ کہ وہ اپنی بے بسی و بے کسی کا رونا بھی نہیں رو سکتی۔
گزشتہ ہفتے سوشل میڈیا پر جنوبی کشمیر کے ضلع شوپیان میں ترکہ وانگام نامی گاؤں کی چند خواتین کی روح تڑپانے والی تصویریں گردش کرتی رہیں۔ اِن تصاویر میں ملت کی بیٹیوں میں سے کسی کا پیر زخمی تھا تو کسی کے بازوؤں پر نیل پڑچکے تھے۔ کسی کے ہاتھ پر پٹی بندھی ہوئی تھی تو کسی کا سر زخمی تھا۔ ان تصویروں کے حوالے سے جو خبریں مقامی اخبارات میں شائع ہوئی ہیں، اْن کے مطابق مذکورہ گاؤں میں اْس دن دیر رات گئے بھارتی فوج داخل ہوئی تھی۔ وردی پوش گھروں کے دروازے توڑ کر اور چادر و چار دیواری کا تقدس روندتے ہوئے گھروں میں داخل ہوئے۔ اْن کے سامنے جو آیا اْس پرحملہ آور ہوکر اْن کی ہڈی پسلی ایک کردی۔ مذکورہ دیہات کے لوگوں کا قصور یہ تھا کہ وہاں کے نوجوانوں نے انگلستان کے خلاف پاکستانی کرکٹ ٹیم کی جیت پر تالیوں اور سیٹیوں سے اپنی خوشی کا اظہار کیا تھا۔ فوجی بربریت اور چنگیزیت کا بدترین پہلو یہ ہے کہ بھارت کے ان “ویر بہادروں” نے اس “جرم“ پر طیش میں آکر گاؤں کی خواتین کو بھی بڑی ہی بے دردی کے ساتھ تشدد کا نشانہ بنایا۔ یہ اس طرح کی مذموم کارروائی کے تعلق سے پہلا موقع نہیں ہے بلکہ اس طرح کی زور زبردستیاں جولائی 2014ء سے لگا تار مختلف علاقوں بالعموم اور جنوبی کشمیر میں بالخصوص دوہرائی جاتی رہی ہیں۔
المیہ یہ ہے کہ کشمیری صنف نازک پر روا رکھے گئے اس نوع کے ناروا اور ناقابل معافی بدسلوکی پر کوئی ٹس سے مس نہیں ہوا بلکہ خواتین کے حقو ق کے لیے لڑنے والی انجمنوں کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ ریاستی حکومت جس کی سربراہی ایک خاتون ہی کر رہی ہے، ظلم و جبر پر مبنی ان خواتین دشمن کارروائیوں پر نہ صرف خاموشی اختیار کیے رہی ہیں بلکہ وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی وردی پوشوں کے اس ظلم و جبر اور بربریت کو حق بجانب قرار دینے میں کوئی قباحت نہیں سمجھتیں۔ کہا جاتا ہے کہ اس شرم ناک آپریشن کا نام ”آپریشن توڑ پھوڑ” ہے اور وردی پوشوں کو اس فری اسٹائل ”بہادری” کا کشمیر میں قطعی اور غیر مشروط اختیار حاصل ہے۔ اس لیے حکام میں کسی کی مجال نہیں کہ وہ اس پر اپنی شرمندگی ظاہر کریں بلکہ و ہ اسے دیش بھگتی اور ”دہشت کے خلاف جنگ” کا حصہ قرار دیتے ہیں۔
ایک خاتون کے لیے جان سے بھی زیادہ عزیزتر اْن کی عزت و عصمت ہوتی ہے۔ تحریکات میں جان کی قربانی پیش کرنے کو سعادت سمجھا جاتا ہے لیکن عزت و آبرو پر آنچ آئے، اس سے بہتر ہے کہ قیامت ہی نازل ہو جائے۔ اْمت کی ایک بیٹی کی عزت و عصمت بچانے کی خاطر اگر ہزار جانیں بھی قربان ہوجائیں گے تو یہ گھاٹے کا سودا تصورنہیں ہوتا ہے۔ المیہ تو یہ ہے کہ اس بدنصیب قوم کی بیسیوں بیٹیوں کی عزت و آبرو بھی لٹ گئی اور جو درندے ہماری عزت مآب خواتین کی عزتوں کے لٹیرے ہیں وہ کھلے عام نہ صرف اپنی درندگی پر قانون کی گرفت میں آنے سے بچائے جاتے ہیں بلکہ ہماری اجتماعی کمزوری وبے بسی کا بھی تماشہ بنایا جارہا ہے۔
کنن پوش پورہ کا سانحہ کشمیر کی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے اور یہ سانحہ اس تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے۔ ایک رات ہندوستانی فوج اس دیہات میں داخل ہوجاتی ہے اور وہاں گاؤں کی قریباً ایک سو ماؤں بہنوں کی اجتماعی عصمت دری کر کے شیطانیت کو بھی شرمسار کردیا جاتا ہے۔ یہ سانحہ آج بھی بھارتی فوج کے ماتھے پر ایک سیاہ دھبے کی طرح دنیا کو بتارہا ہے کہ کشمیر میں کس طرح خواتین کے ساتھ زبردستی کو ایک جنگی حربہ بنایا گیا ہے۔ بھلے ہی ایسے جرائم کے عادی فورسز کو اس کا کچھ احساس نہ ہو لیکن مہذب دنیا ایسے جنگی جرائم پر تھو تھو کر نے سے نہیں رکتی ہے۔ آج افسپا اور دیگر کالے قوانین ان کی پشت پر سہی مگر دیر سویر مجرم فورسز اہلکاروں کو اپنے ان گھناؤنے کارناموں کا حساب ضرور دینا ہوگا۔ نوے کی دہائی سے آج تک درجنوں ایسے شرم ناک سانحات ہماری تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں جن میں ہماری عزت مآب ماؤں اور بہنوں کی عزتیں تار تار کی گئی ہیں۔ یہ سانحات قیامت کی صبح تک ہماری آنے والی نسلوں کو یاد دلاتا رہے گا کہ تمہارے آبا و اجداد کو بندوق کی نوک پر غلام بنانے والوں نے کس طرح کے گھناؤنے اور سیاہ کارنامے یہاں انجام دیے ہیں۔
شوپیان کی آسیہ اور نیلوفرکو یہ قوم کیسے بھول سکتی ہے جنہیں پہلے درندگی کاشکار بنایا گیا پھر اپنے کالے کرتوت چھپانے کے لیے ملت کی اْن بیٹیوں کو بڑی ہی بے دردی کے ساتھ جان بحق کردیا گیا۔ اس قوم نے اْس وقت مہینوں ایجی ٹیشن چلائی، چلّا چلّا کر کہا کہ قصورواروں کو سزا دی جائے لیکن المیہ یہ ہے کہ اْس وقت کے ہند نواز وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے اْن کی موت کی وجہ پانی میں ڈوب جانے کو قرار دے کر مجرموں کو کیفر کراد تک پہنچانے سے گریز کیا کیونکہ سوال کرسی کا تھا۔ جب عوامی ردعمل کچھ اور بڑھا تو پھر سی بی آئی تحقیقات کا ڈرامہ رچا کر وردی پوشوں کے کالے کارناموں کی دوبارہ پردہ پوشی کی گئی۔ آسیہ اور نیلوفر کی داستانِ غم جب بھی ہماری نسلو ں کے سامنے رکھی جائے گی تو اْن میں بھارت کے لیے محبت نہیں بلکہ نفرت ہی جنم لے گی۔
کشمیر میں خواتین کی قربانیوں اور اْن پر روا رکھے گئے ظلم و جبر کی داستان طویل ہے۔ گزشتہ ستر سال کی جدوجہد میں کشمیری خواتین کو بہت کچھ جھیلنا پڑا ہے۔ کشمیری خاتون نے ایک ماں کی صورت میں اپنے بیٹوں کے تھرڈ ڈگری ٹارچر کو دیکھا ہے، اْس نے اپنے جواں سال بیٹوں کی جن کے لیے اْنہوں نے لاکھ سپنے سجا رکھے ہوتے تھے کی لاشوں کو دیکھا ہے۔ ایک بیوی کی حیثیت سے اْس نے اپنے شوہر نامدار کی عزت ریزی ہوتی دیکھی ہے، اْسے لاپتہ ہوتے دیکھا ہے، بیوہ اور نیم بیوہ ہونے کا درد سہا ہے۔یہاں بہنوںنے اپنے جواں سال بھائیوں کو درگور ہوتے دیکھا ہے، بیٹیوں نے اپنے والدین کی چھلنی لاشیں دیکھی ہیں، یتیمی کا تکلیف دہ بوجھ برداشت کیا ہے۔ ماں کی ممتا کیا ہوتی ہے، اس کا اندازہ صرف اْس ماں کو ہو سکتا ہے جس کا جواں سال بیٹا فورسز کی گولیاں سے چھلنی کردیا جاتا ہے۔ والدکی شفقت کیا ہوتی ہے یہ اْن بیٹیوں سے جان لینا چاہیے جن کے والدین یا تو جیلوں میں سڑ رہے ہیں یا اْنہیں جان بحق کردیا گیا ہے۔
ہماری ماؤں کا المیہ یہ ہے کہ وہ اب اپنے سینوں میں اولاد کے تئیں سپنے سجانے کی جرأت بھی نہیں کرپاتیں کیونکہ انہیں یقین ہی نہیں ہوتا کہ ان کے لخت جگر بچ بھی پائیں گے۔ ماں کی سب سے بڑی خواہش یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے بیٹے کو دولہا بنتا ہوا دیکھے لیکن یہاں ہماری مائیں اپنے بیٹیوں کی لاشوں کا استقبال کرتی ہیں، اْن کی بے حس و حرکت میتوں پر مٹھائیاں نچھاور کرتی ہیں۔ یہاں ماؤں کے سامنے اْن کے بیٹیوں کی سر کٹی لاشیں رکھی جاتی ہیں۔ اپنے لاڈلوں کے جلے بھنے جسم دیکھ کر جس صبر و ضبط کا مظاہرہ ہماری مائیں کرتی ہیں اْس کی مثال دنیا میں اور کہیں دیکھنے کو نہیں مل سکتی ہے۔ یہاں مائیں برسوں انتظار کرتی رہتی ہیں کہ آج نہیں تو کل اْن کے لاڈلے جیل خانوں سے چھوٹ کر آئیں گے، راہ تکتے تکتے وہ مالک حقیقی کو بھی جاملتی ہیں لیکن اْن کے بیٹے لوٹ کر نہیں آتے ہیں۔ اْس ماں کا کلیجہ کیسا ہوگا جس کے دو دو تین تین جواں سال بیٹے جاں بحق کردیے گئے ہیں، اْس نئی نویلی دلہن کا احسان یہ قوم کس طرح فراموش کرے گی جس نے شادی کی پہلے ہی رات اپنے شوہر کی لاش ٹکڑوں میں دیکھی ہو۔
معروف عسکری کمانڈر سبزار احمد بٹ کی والدۂ محترمہ کی کہانی جب اخبارات کی زنیت بنی تو پتھر دل انسان بھی خون کے آنسوں رونے پر مجبور ہوا ہوگا۔ اْسے اپنے لاڈلے بیٹے سے بچھڑتے ہوئے ایک سال ہوگیا تھا، وہ روز اپنے گھر کی کھڑکی پر بیٹھ کر دروازے کو تکتی رہتی تھی کہ کب اْن کا بیٹا داخل ہوجائے اور وہ اْسے گلے لگا لے۔ پھر ایک دن اْن کا بیٹا آہی جاتا ہے، خود چل کر نہیں آتا بلکہ اْسے عوامی ہجوم کندھوں پر اْٹھا کر لے آتے ہیں۔ اس ماں کو یقین ہی نہیں آتا ہے کہ اْس کا بیٹا لاش بن کر گھر میں داخل ہورہا ہے۔ وہ لوگوں سے استدعا کر تی ہے کہ وہ اْن کے بیٹے کو بیڈ روم میں لے آئیں، جب اْنہیں بیڈ روم میں لایا جاتا ہے تو یہ ماں اندر سے دروازہ بند کر کے بیٹے کا سر اپنی کود میں رکھ لیتی ہیں اور سبزار کے ساتھ رات بھر باتیں کرتی رہتی ہیں۔ کوئی رونا دھونا نہیں تھا، کوئی سینہ کوبی نہیں تھی، بلکہ وہ اپنے بیٹے کی لاش کے ساتھ سنجیدگی کے ساتھ باتیں کرتی رہیں، وہ بھی رات بھر۔ قریباً گیارہ گھنٹے تک یہ والدہ اپنے جگر کی پیاس اسی مامتا بھرے غم سے بجھاتی رہتی ہے، باہر ہزاروں لوگ انتظار کررہے ہیں کہ کب ماں اور بیٹے کی آخری ملاقات اختتام کو پہنچ جائے اور وہ سبزار کی آخری رسومات ادا کر کے اْنہیں سپرد خاک کریں۔ یہ دل پگھلانے والی کہانی ہماری ماؤں کے المیہ کی عکاسی کررہی ہے۔ سبزار کی والدہ جانہ بیگم جیسی ہزاروں مائیں یہاں ہر گلی اور نکڑ پر ملیں گے۔
خواتین کے حقوق کی باتیں کرنے والی دنیا کشمیر کی خواتین کے ساتھ ہو رہے ناروا سلوک پر آنکھیں موندھ رہی ہے۔ جانوروں کے حقوق کی بات ہوتی ہے، جانوروں کی جذبات اور خواہشات کی قدر و قیمت ہے لیکن کشمیر کی صنف نازک کی حالت زار پر کوئی کانفرنس نہیں ہوتی ہے، متازعہ خطہ کی جنگی صورتحال کا ان پر کیا اثرات مرتب ہورہے ہیں، اس بات کو کوئی نہیں دیکھتا۔ یہاں آج بھی خواتین کو گرفتار کرلیا جاتا ہے، اْنہیں پولیس تھانوں میں طلب کرلیا جاتا ہے۔ گھروں میں گھس کر اْنہیں ڈرایا اور دھمکایا جاتا ہے۔ جس گھرکا کوئی فرد عسکریت کے ساتھ وابستہ ہو یا جس گھر کا کوئی نوجوان سنگ بازی میں مطلوب ہو تو اْس گھر کی خواتین سے پوچھ لیں کہ جب چھاپہ پڑجاتا ہے تو آپ کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ کس طرح اْن کے ساتھ گالم گلوچ کر کے اْنہیں جسمانی و ذہنی ٹارچر سے دوچار کیا جاتا ہے۔ گزشتہ سال کی عوامی ایجی ٹیشن میں 40 کے قریب خواتین کو پیلٹ کا شکار بنادیا گیا۔ انشاء لون جیسی معصوم لڑکیاں زندگی بھر کے لیے آنکھوں سے اپاہچ بنالی گئی ہیں۔ دختران ملت کی بیمار سربراہ آسیہ اندرابی صاحبہ اور اْن کی سیکریٹری فہمیدہ صوفی پر بڑی ہی بے نیازی کے ساتھ پبلک سیفٹی ایکٹ عائد کیا جاتا ہے، اْنہیں وادی کے جیلوں میں رکھنے کے بجائے جموں کے بدنام زمانہ امپھالہ جیل منتقل کردیا جاتا ہے۔ یہ کتنا بڑا ظلم ہے وہ مختلف عوارض ا وربیماریوں میں مبتلا آسیہ جی اور ان کا خانوادہ ہی جانتا ہے۔ مہاں دیش اسے کن بھدے عنوانات سے یاد کرے مگر کشمیر کی جدوجہد برائے حق خود ارادیت میں صنف نازک کی یہ قربانیاں سنہری حروف کے ساتھ لکھی جائیں گی۔
عالم اقوام کو بالخصوص انسانی حقوق کی تنظیموں کو کشمیر میں ہورہی ان زیادتیوں کا سنجیدگی سے نوٹس لینا چاہیے۔ اْنہیں یہاں صنف نازک کے ساتھ ہورہی زیادتیوں کے خلاف عالمی اقوام کو اقدامات کرنے پر آمادہ کرنا چاہیے۔ بصورت دیگر انسانیت کو شرمسار کرنے والے وردی پوشوں کے یہ جرائم یہاں ناسور کی صورت اختیار کرلیں گے۔ یہاں کی نوجوان نسل ان حالات کو دیکھ کر مشتعل ہوسکتی ہے۔ یہاں جو آگ لگی ہے یہ پھیل سکتی ہے۔ ِ صنفِ نازک کی عزت و احترام کی دنیا بھر میں خوب باتیں ہوتی ہیں لیکن جب نام نہاد جمہورتیں اپنی خواتین کے حقوق کی پامالیاں کرکے اپنی صورت مسخ کرتے ہیں تو دنیا کو پھر سانپ سونگھ جاتا ہے۔ یہ انسانیت کا سب سے بڑا المیہ ہے اور اس منافقانہ رویہ نے دنیائے انسانیت کو حیوانیت کے اندھے کنویں میں دھکیل دیا ہے۔

Comments

Popular posts from this blog

لندن کی کشمیر کانفرنس۔۔۔ ایس احمد پیرزادہ

پبلک سیفٹی ایکٹ اور نیشنل کانفرنس....ایس احمد پیرزادہ